انتخابی دھاندلی اور اسٹیٹس کو
جس کا مطلب آخر کار مڈ ٹرم الیکشن ہی ہوسکتا ہے اورحکومت ہر حال میں بلکہ ہرقیمت پر اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنا چاہتی ہے
SYDNEY:
اسلام آباد کے ڈی چوک سے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کا بے نتیجہ اختتام 30/12 کو اسلام آباد میں ہوگیا۔ ان آخری مذاکرات کے بعد حکومتی مذاکراتی ٹیم نے حسب روایت مذاکرات کی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے یہ کہہ کر ایک کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ''حکومت ہر قیمت پر تحریک انصاف کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرے گی'' اس حوالے سے مذاکراتی ٹیم جلد اپنی اعلیٰ قیادت سے مشاورت کرے گی۔ دوسری طرف مذاکرات میں شریک تحریک انصاف کے وفد کے رہنما شاہ محمود قریشی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ آج کے مذاکرات میں اس حوالے سے معاہدے کی امید تھی لیکن حکومت کی بے لچک پالیسی کی وجہ سے کوئی معاہدہ تو نہیں ہوا البتہ مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔
جو مذاکرات ہو رہے تھے ان میں دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے علاوہ انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے علاوہ بھی بعض اہم مسائل شامل تھے لیکن لگ یہ رہا ہے کہ دھرنے کے خاتمے کے بعد جو مذاکرات ہورہے تھے اس میں صرف ایک ہی مسئلہ ''جوڈیشل کمیشن'' زیر بحث رہا، تحریک انصاف 2013 کے انتخابات میں مبینہ طور پر ہونے والی دھاندلی کی تحقیق کے لیے جس طرح کا کمیشن بنانا چاہتی ہے وہ حکومت کو غالباً اس لیے قبول نہیں کہ اس قسم کا کمیشن بنتا ہے تو اس کی تحقیق کے نتائج حکومت کے خلاف آسکتے ہیں۔
جس کا مطلب آخر کار مڈ ٹرم الیکشن ہی ہوسکتا ہے اور حکومت ہر حال میں بلکہ ہر قیمت پر اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف نے دھرنوں کے ساتھ ملک کے بڑے شہروں میں جلسوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ اس قدر کامیاب جا رہا تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو حکومت کو تحریک انصاف کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا پڑتے اسی ممکنہ خطرے کی وجہ سے حکومت سخت دباؤ میں تھی کہ پشاور کا سانحہ حکومت کے لیے ''ڈوبتے کو تنکے کا سہارا اور بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا'' بن گیا۔ تحریک انصاف کو اخلاقی تقاضوں کی وجہ سے دھرنوں اور جلسوں کا سلسلہ روکنا پڑا یوں حکومت کو سانس لینے بلکہ لمبی سانس لینے کا موقع مل گیا۔
مسلم لیگ ن کی حکومت جو ماضی میں دہشت گردوں کے مسئلے کا واحد حل مذاکرات بتا رہی تھی، 16/12 کے بعد واقعی شیر بن گئی اور دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھنے کے حیران کن اور ناقابل یقین عزم کا اظہار اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کر رہی ہے۔ میاں صاحب کو داد دینی چاہیے کہ وہ کہہ رہے ہیں ''ہمارے پاس اب یہ جنگ جیتنے کے سوا کوئی اور آپشن موجود نہیں۔'' اس کے ساتھ ساتھ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں لگاتار کمی کرکے بھی اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہے جو 14 اگست 2014 کے بعد تسلسل کے ساتھ خراب ہو رہی تھی۔ عالمی مارکیٹ میں تیل جو 100 ڈالر بیرل سے اوپر چل رہا تھا وہ گر کر اب 50 ڈالر فی بیرل کی سطح پر آگیا ہے حکومت کی عنایات خسروانہ اب بھی عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمت 50 روپے لیٹر تک آنا چاہیے۔
اس قسم کے بھانڈہ پھوڑ انکشافات کی وجہ سے حکومت کے لیے عوام کو یہ باور کرانا مشکل ہورہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں کی جانے والی کمی مہربانی نہیں مجبوری ہے۔ بہر حال حکومت کی یہ کوشش جاری رہے گی کہ جہاں ممکن ہو وہاں عوام کو ریلیف دیا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ حکومت کی عوام پر ان مہربانیوں کا اصل سبب عمران کا حکومت پر بڑھتا ہوا دباؤ ہے اگر یہ دباؤ نہ ہوتا تو حکومت عالمی قیمتوں کو پس پشت ڈال کر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر برائے نام کمی کرکے اس ملک کی کاروباری ایلیٹ کو فائدہ پہنچاتی۔
یہ تو ہوئیں وہ ضمنی باتیں جن کا اصل کہانی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں۔ اصل کہانی اقتدار کا حصول اور اقتدار کے تحفظ کے گرد گھومتی ہے۔ 14 اگست 2014 سے جو تحریک شروع ہوئی تھی وہ اپنی بنیادوں میں اقتدار کی لڑائی تھی لیکن اس لڑائی کو عوام کے لیے ترغیب فراہم کرنے اور عوام کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرنے کے لیے '' چہروں کی تبدیلی کے بجائے نظام کی تبدیلی'' کا نام دیا گیا اور اس تحریک کا بنیادی مقصد 67 سالہ ظالمانہ اور فراڈ اسٹیٹس کو توڑنا بتایاگیا جسے مختصر الفاظ میں ''نیا پاکستان'' کہا گیا۔ 67 سالہ پرانے پاکستان کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے عوام آنکھ بند کرکے عمران خان کے پیچھے لاکھوں کی تعداد میں صرف انتخابی دھاندلی کے ازالے کے لیے نہیں چل پڑے بلکہ ان کی اس تاریخی بیداری کا مقصد اس' اسٹیٹس کو' کو توڑنا تھا جو عذاب بن کر ان کے سروں پر مسلط تھا اور یہ عذاب مختصر انتخابی دھاندلی کے ازالے سے ختم نہیں ہوسکتا۔
اس میں کوئی شک ہے نہ دو رائے ہوسکتی ہے کہ اب دہشت گردی ہمارے قومی مسائل میں سرفہرست آگئی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے پوری قوم کا اور سیاست دانوں کا متحد ہونا اور متحد رہنا ضروری ہے لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کے فروغ اور اسے اس قدر طاقت ور بنانے کی ذمے داری بھی ہمارے محترم سیاست دانوں پر ہی عائد ہوتی ہے جنھوں نے محض اپنے سیاسی مفادات اور کوتاہ نظری کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے پودے کو تناور درخت اور گندی نالی کو پرشور دریا بنا دیا۔ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے دہشت گردوں کو اپنی بغل میں بٹھایا ان سے انتخابات جیتنے میں مدد لی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی نظریاتی ہمنوائی کی۔ اس پس منظر میں آج دہشت گردی کے خلاف شیر کی طرح دھاڑنا کیا منطقی اور ایماندارانہ ہوسکتا ہے کیا سیاسی ضرورتیں پوری ہونے کے بعد اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے بعد ہمارے سیاست دان دہشت گردوں کے ایسے ہی دشمن رہیں گے جیسے آج نظر آرہے ہیں؟
پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ کا ایک بڑا سبب یہ بھی رہا ہے کہ ہمارے سیاست دان ہمارے مذہبی رہنما دہشت گردوں کے لیے اپنے دلوں میں بوجوہ نرم گوشہ رکھتے تھے بلکہ ان سے نظریاتی ہم آہنگی بھی تھی یہ سوال اس لیے بہت اہم ہے کہ اس کا تعلق پاکستان کے بہتر یا بدتر مستقبل سے ہے۔ ہم ایک لبرل پاکستان کے لیے جناح صاحب کی تقاریر کے حوالے دیتے ہیں یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن کیا ہماری قوم اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک مذہبی انتہا پسند پاکستان ان کے مستقبل کو تباہ کردے گا۔
جو سیاسی عناصر آج پاکستان میں طاقت ور نظر آتے ہیں اور سیاست اور اقتدار پر قابض ہیں وہ مذہب کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں یہ پرانے پاکستان کی لازمات ہیں اگر کوئی اس پرانے پاکستان کو نئے پاکستان میں یا ماڈرن پاکستان میں بدلنا چاہتا ہے تو پھر اسے اس نظریاتی دھند سے باہر نکلنا پڑے گا جو 67 سال سے خاص طور سے 1949 سے پاکستان کی زندگی اور اس کے مستقبل پر چھائی ہوئی ہے۔ 2013 کے الیکشن میں دھاندلی بلاشبہ قابل مذمت ہے اور اس کا ازالہ ہونا چاہیے لیکن اگر یہ ازالہ نئے پاکستان سے جڑا ہوا نہ رہا تو پھر یہ چہروں کی تبدیلی کا وہی گندہ کھیل بن جائے گا جو 67 سال سے جاری ہے۔ عمران خان کو اس حوالے سے اسے پہلے خود نظریاتی دھند سے باہر لانا ہوگا اور نئے پاکستان کی ایک واضح تصویر عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا ورنہ عمران خان پرانے پاکستان ہی کا ایک حصہ بنے رہیں گے۔
یہ بات غیر متنازعہ ہے کہ دہشت گردی کے فروغ میں ہمارے سیاست دانوں نے دانستہ یا نادانستہ بنیادی کردار ادا کیا اور اب بھی نظریاتی حوالے سے یہ محترم لوگ مذہبی ایلیمنٹ کے ساتھ ہیں اس دوغلے پن سے نکل کر ایک واضح سیاسی نظریے کے ساتھ اگر کھڑے رہے تو پھر نہ دہشت گردی کوئی مسئلہ رہے گی نہ پاکستان کا مستقبل مشکوک رہے گا اس حوالے سے پاکستان میں موروثی سیاسی پارٹیوں کے علاوہ بھی بہت ساری طاقتیں موجود ہیں جو ایک نئے اور روشن پاکستان کی تشکیل کا حصہ بن سکتی ہیں۔ ایک نئے اور روشن پاکستان کی تشکیل کے لیے ان دیواروں کو ڈھانا ہوگا جو نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام،اشرافیائی جمہوریت،موروثی حکمرانی، اختیارات کے ارتکاز، بے لگام کرپشن، ازکار رفتہ تعلیمی نظام وغیرہ کی شکل میں قوم کے سامنے کھڑی ہوئی ہیں۔ کیا انتخابی دھاندلی کی تحقیق سے یہ دیواریں گرجائیںگی؟ یا پھر ان دیواروں کو توڑنے کے لیے ایک زبردست تحریک چلانا پڑے گی؟
اسلام آباد کے ڈی چوک سے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کا بے نتیجہ اختتام 30/12 کو اسلام آباد میں ہوگیا۔ ان آخری مذاکرات کے بعد حکومتی مذاکراتی ٹیم نے حسب روایت مذاکرات کی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے یہ کہہ کر ایک کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ''حکومت ہر قیمت پر تحریک انصاف کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرے گی'' اس حوالے سے مذاکراتی ٹیم جلد اپنی اعلیٰ قیادت سے مشاورت کرے گی۔ دوسری طرف مذاکرات میں شریک تحریک انصاف کے وفد کے رہنما شاہ محمود قریشی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ آج کے مذاکرات میں اس حوالے سے معاہدے کی امید تھی لیکن حکومت کی بے لچک پالیسی کی وجہ سے کوئی معاہدہ تو نہیں ہوا البتہ مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔
جو مذاکرات ہو رہے تھے ان میں دھاندلی کے خلاف جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے علاوہ انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے علاوہ بھی بعض اہم مسائل شامل تھے لیکن لگ یہ رہا ہے کہ دھرنے کے خاتمے کے بعد جو مذاکرات ہورہے تھے اس میں صرف ایک ہی مسئلہ ''جوڈیشل کمیشن'' زیر بحث رہا، تحریک انصاف 2013 کے انتخابات میں مبینہ طور پر ہونے والی دھاندلی کی تحقیق کے لیے جس طرح کا کمیشن بنانا چاہتی ہے وہ حکومت کو غالباً اس لیے قبول نہیں کہ اس قسم کا کمیشن بنتا ہے تو اس کی تحقیق کے نتائج حکومت کے خلاف آسکتے ہیں۔
جس کا مطلب آخر کار مڈ ٹرم الیکشن ہی ہوسکتا ہے اور حکومت ہر حال میں بلکہ ہر قیمت پر اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف نے دھرنوں کے ساتھ ملک کے بڑے شہروں میں جلسوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ اس قدر کامیاب جا رہا تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا تو حکومت کو تحریک انصاف کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا پڑتے اسی ممکنہ خطرے کی وجہ سے حکومت سخت دباؤ میں تھی کہ پشاور کا سانحہ حکومت کے لیے ''ڈوبتے کو تنکے کا سہارا اور بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا'' بن گیا۔ تحریک انصاف کو اخلاقی تقاضوں کی وجہ سے دھرنوں اور جلسوں کا سلسلہ روکنا پڑا یوں حکومت کو سانس لینے بلکہ لمبی سانس لینے کا موقع مل گیا۔
مسلم لیگ ن کی حکومت جو ماضی میں دہشت گردوں کے مسئلے کا واحد حل مذاکرات بتا رہی تھی، 16/12 کے بعد واقعی شیر بن گئی اور دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھنے کے حیران کن اور ناقابل یقین عزم کا اظہار اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کر رہی ہے۔ میاں صاحب کو داد دینی چاہیے کہ وہ کہہ رہے ہیں ''ہمارے پاس اب یہ جنگ جیتنے کے سوا کوئی اور آپشن موجود نہیں۔'' اس کے ساتھ ساتھ حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں لگاتار کمی کرکے بھی اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہے جو 14 اگست 2014 کے بعد تسلسل کے ساتھ خراب ہو رہی تھی۔ عالمی مارکیٹ میں تیل جو 100 ڈالر بیرل سے اوپر چل رہا تھا وہ گر کر اب 50 ڈالر فی بیرل کی سطح پر آگیا ہے حکومت کی عنایات خسروانہ اب بھی عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمت 50 روپے لیٹر تک آنا چاہیے۔
اس قسم کے بھانڈہ پھوڑ انکشافات کی وجہ سے حکومت کے لیے عوام کو یہ باور کرانا مشکل ہورہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں کی جانے والی کمی مہربانی نہیں مجبوری ہے۔ بہر حال حکومت کی یہ کوشش جاری رہے گی کہ جہاں ممکن ہو وہاں عوام کو ریلیف دیا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ حکومت کی عوام پر ان مہربانیوں کا اصل سبب عمران کا حکومت پر بڑھتا ہوا دباؤ ہے اگر یہ دباؤ نہ ہوتا تو حکومت عالمی قیمتوں کو پس پشت ڈال کر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر برائے نام کمی کرکے اس ملک کی کاروباری ایلیٹ کو فائدہ پہنچاتی۔
یہ تو ہوئیں وہ ضمنی باتیں جن کا اصل کہانی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں۔ اصل کہانی اقتدار کا حصول اور اقتدار کے تحفظ کے گرد گھومتی ہے۔ 14 اگست 2014 سے جو تحریک شروع ہوئی تھی وہ اپنی بنیادوں میں اقتدار کی لڑائی تھی لیکن اس لڑائی کو عوام کے لیے ترغیب فراہم کرنے اور عوام کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل کرنے کے لیے '' چہروں کی تبدیلی کے بجائے نظام کی تبدیلی'' کا نام دیا گیا اور اس تحریک کا بنیادی مقصد 67 سالہ ظالمانہ اور فراڈ اسٹیٹس کو توڑنا بتایاگیا جسے مختصر الفاظ میں ''نیا پاکستان'' کہا گیا۔ 67 سالہ پرانے پاکستان کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے عوام آنکھ بند کرکے عمران خان کے پیچھے لاکھوں کی تعداد میں صرف انتخابی دھاندلی کے ازالے کے لیے نہیں چل پڑے بلکہ ان کی اس تاریخی بیداری کا مقصد اس' اسٹیٹس کو' کو توڑنا تھا جو عذاب بن کر ان کے سروں پر مسلط تھا اور یہ عذاب مختصر انتخابی دھاندلی کے ازالے سے ختم نہیں ہوسکتا۔
اس میں کوئی شک ہے نہ دو رائے ہوسکتی ہے کہ اب دہشت گردی ہمارے قومی مسائل میں سرفہرست آگئی ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے پوری قوم کا اور سیاست دانوں کا متحد ہونا اور متحد رہنا ضروری ہے لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کے فروغ اور اسے اس قدر طاقت ور بنانے کی ذمے داری بھی ہمارے محترم سیاست دانوں پر ہی عائد ہوتی ہے جنھوں نے محض اپنے سیاسی مفادات اور کوتاہ نظری کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے پودے کو تناور درخت اور گندی نالی کو پرشور دریا بنا دیا۔ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے دہشت گردوں کو اپنی بغل میں بٹھایا ان سے انتخابات جیتنے میں مدد لی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی نظریاتی ہمنوائی کی۔ اس پس منظر میں آج دہشت گردی کے خلاف شیر کی طرح دھاڑنا کیا منطقی اور ایماندارانہ ہوسکتا ہے کیا سیاسی ضرورتیں پوری ہونے کے بعد اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے بعد ہمارے سیاست دان دہشت گردوں کے ایسے ہی دشمن رہیں گے جیسے آج نظر آرہے ہیں؟
پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ کا ایک بڑا سبب یہ بھی رہا ہے کہ ہمارے سیاست دان ہمارے مذہبی رہنما دہشت گردوں کے لیے اپنے دلوں میں بوجوہ نرم گوشہ رکھتے تھے بلکہ ان سے نظریاتی ہم آہنگی بھی تھی یہ سوال اس لیے بہت اہم ہے کہ اس کا تعلق پاکستان کے بہتر یا بدتر مستقبل سے ہے۔ ہم ایک لبرل پاکستان کے لیے جناح صاحب کی تقاریر کے حوالے دیتے ہیں یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن کیا ہماری قوم اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک مذہبی انتہا پسند پاکستان ان کے مستقبل کو تباہ کردے گا۔
جو سیاسی عناصر آج پاکستان میں طاقت ور نظر آتے ہیں اور سیاست اور اقتدار پر قابض ہیں وہ مذہب کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں یہ پرانے پاکستان کی لازمات ہیں اگر کوئی اس پرانے پاکستان کو نئے پاکستان میں یا ماڈرن پاکستان میں بدلنا چاہتا ہے تو پھر اسے اس نظریاتی دھند سے باہر نکلنا پڑے گا جو 67 سال سے خاص طور سے 1949 سے پاکستان کی زندگی اور اس کے مستقبل پر چھائی ہوئی ہے۔ 2013 کے الیکشن میں دھاندلی بلاشبہ قابل مذمت ہے اور اس کا ازالہ ہونا چاہیے لیکن اگر یہ ازالہ نئے پاکستان سے جڑا ہوا نہ رہا تو پھر یہ چہروں کی تبدیلی کا وہی گندہ کھیل بن جائے گا جو 67 سال سے جاری ہے۔ عمران خان کو اس حوالے سے اسے پہلے خود نظریاتی دھند سے باہر لانا ہوگا اور نئے پاکستان کی ایک واضح تصویر عوام کے سامنے پیش کرنا ہوگا ورنہ عمران خان پرانے پاکستان ہی کا ایک حصہ بنے رہیں گے۔
یہ بات غیر متنازعہ ہے کہ دہشت گردی کے فروغ میں ہمارے سیاست دانوں نے دانستہ یا نادانستہ بنیادی کردار ادا کیا اور اب بھی نظریاتی حوالے سے یہ محترم لوگ مذہبی ایلیمنٹ کے ساتھ ہیں اس دوغلے پن سے نکل کر ایک واضح سیاسی نظریے کے ساتھ اگر کھڑے رہے تو پھر نہ دہشت گردی کوئی مسئلہ رہے گی نہ پاکستان کا مستقبل مشکوک رہے گا اس حوالے سے پاکستان میں موروثی سیاسی پارٹیوں کے علاوہ بھی بہت ساری طاقتیں موجود ہیں جو ایک نئے اور روشن پاکستان کی تشکیل کا حصہ بن سکتی ہیں۔ ایک نئے اور روشن پاکستان کی تشکیل کے لیے ان دیواروں کو ڈھانا ہوگا جو نیم قبائلی جاگیردارانہ نظام،اشرافیائی جمہوریت،موروثی حکمرانی، اختیارات کے ارتکاز، بے لگام کرپشن، ازکار رفتہ تعلیمی نظام وغیرہ کی شکل میں قوم کے سامنے کھڑی ہوئی ہیں۔ کیا انتخابی دھاندلی کی تحقیق سے یہ دیواریں گرجائیںگی؟ یا پھر ان دیواروں کو توڑنے کے لیے ایک زبردست تحریک چلانا پڑے گی؟