…ایک تھا رنجیت سنگھ
خوش قسمت اور ذہین شخص رنجیت سنگھ سربراہ بنتے ہی ایک بہت بڑی سلطنت کا خواب دیکھنے لگا۔
مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی تو ہندوستان پر مکمل قبضے کے خواب نے تمام ہندو راجوں کو متحد کیا اور ان کا اقتدار پورے ہندوستان پر اس حد تک قائم ہو گیا کہ مغل بادشاہ شاہ عالم کے بارے میں یہ کہاوت مشہور ہو گئی، ''شاہ عالم۔ از دلّی تا پالم''، پالم وہ جگہ ہے جہاں آجکل دلّی ائرپورٹ ہے۔ ایسے میں شاہ ولی اللہ کی دعوت پر احمد شاہ ابدالی افغانستان کی سر زمین سے جانبازوں کے ہمراہ حملہ آور ہوا اور مرہٹوں کی شکل میں تمام ہندؤں کی متحدہ فوج کو شکست دے کر ہندوستان کو ''ہندو توا'' بنانے کا خواب چکنا چور کرنے کے بعد واپس افغانستان چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد پورے برصغیر میں مرکزیت کا تقریباً خاتمہ ہو گیا۔ ہر کوئی اپنے اپنے علاقے کا بالا دست حکمران بنتا چلا گیا۔ جس خطے میں سب سے زیادہ افراتفری تھی وہ پنجاب تھا۔ سکھ اکبر کے زمانے سے جتھوں کی صورت مسلح جدوجہد کر رہے تھے اور بہت حد تک گوریلا جنگ میں منظم ہوچکے تھے۔ ان کے ہاں ہر علاقے، خاندان یا برادری کے حساب سے گروہ ترتیب پا چکے تھے جنھیں ''مسل'' کہا جاتا تھا۔ پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مسلیں تھیں اور سب کی سب خود مختار بلکہ ایک دوسرے سے برسر پیکار تھیں۔ ان بارہ مسلوں میں سے ایک مسل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی جس کے سربراہ کے گھر1780ء میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ سترہ سال کا ہوا تو باپ نے اسے دوسری مسلوں کے ساتھ جنگوں پر روانہ کرنا شروع کر دیا۔
صرف تین سال کے بعد یعنی بیس سال کی عمر میں وہ مسل کا سربراہ بن گیا۔ خوش قسمت اور ذہین شخص رنجیت سنگھ سربراہ بنتے ہی ایک بہت بڑی سلطنت کا خواب دیکھنے لگا۔ اپنے اس ارادے کی تکمیل کے لیے اس نے پیش قدمی شروع کر دی اور پھر وہ ہریانہ سے ملتان، پشاور اور کشمیر تک کے علاقے کا طاقتور ترین حکمران بن گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ۔ برصغیر کی تاریخ میں سکھوں کا وہ سردار جس نے ان کی سلطنت کی بنیاد رکھی جو پچاس سال تک قائم رہی۔
سکھوں کے اس عظیم حکمران کی ساری تربیت جنگ و جدل اور ماڑ دھاڑ میں ہوئی تھی۔ اس کی پیدائش سے پہلے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے ہمراہ ایک برطانوی منظم فوج بھی لے کر آئی تھی۔ برطانیہ کی اس منظم فوج سے پہلے برصغیر میں مختلف لوگوں کو پانچ ہزاری یا دس ہزاری منصب دیے جاتے تھے، جو جنگ کے وقت اپنے منصب کے مطابق افراد فراہم کرتے تھے۔ باقاعدہ منظم فوج کا کوئی رواج نہ تھا۔ رنجیت سنگھ کو بہت شوق تھا کہ اس کی بھی ایک ایسی ہی ماڈرن اور منظم فوج ہو۔ اس مقصد کے لیے اس نے فرانس اور اٹلی سے فوجی نظم و ضبط کے ماہر چار جرنیل (1) و نیچورا (Vanchoora)، (2) الارڈ (Allard)، (3) ایوی ٹیبل (Avitabile) اور (4) آگسٹ کورٹ (August Court) بلوائے۔
انھوں نے سکھوں کی ایک فوج منظم کی جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا اور اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے چند کلو میٹر دور شالا مار باغ کے قریب اس جگہ تھا جسے ''بدھو کا آوا'' کہتے تھے۔ فوج کو منظم کرنے اور اسی پر اپنی حکمرانی کی مکمل بنیاد رکھتے ہوئے وہ یہ بھول گیا کہ رعایا کے چلانے کے لیے ایک اچھی انتظامیہ اور عدلیہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک مملکت میں پیدا ہونے والے ہر مسئلے کا حل فوج کا استعمال کر کے نکالا جا سکتا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے انتظامی امور کے لیے بھی فوج کو بھیجتا۔ مالیہ وصول کرنا ہو، کہیں ڈکیتی ہو جائے۔
قبائلی تصادم ہو، ہر جگہ فوجی افسران جاتے اور معاملات سنبھالتے۔ انصاف کے لیے کوئی منظم نظام نہیں تھا بلکہ جگہ جگہ فوجی عدالتیں لگتیں اور فوری طور پر انصاف فراہم کر دیا جاتا۔1811ء میں جب یہ فوج ترتیب دی گئی تو اس کی تعداد صرف چار ہزار تھی جبکہ1839ء تک یہ چالیس ہزار ہو گئی، جس کے ساتھ ایک لاکھ گھڑ سوار دستے اور توپ خانہ بھی شامل تھا۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فوجی عدالتیں اکثر لوگوں کو بھاری جرمانے کرتیں۔ چھوٹے سے چھوٹے جرم پر بھی جائیداد قرق کرنے کا حکم دے دیا جاتا۔ برصغیر کی تاریخ میں سب سے زیادہ مالیہ اسی دور میں وصول کیا گیا۔
یہ پیداوار کا چالیس فیصد تک تھا۔ ان یورپی جرنیلوں نے کٹر سکھ حکمران کو سیکولر حکومتی چہرہ بنانے کا درس دیا۔ اسی لیے1831ء میں جب اس نے برطانوی گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنگ سے ملنے کے لیے اپنا وفد بھیجا تو اس میں ہری سنگھ نلوا (سکھ) فقیر عزیز الدین (مسلمان) اور دیوان موتی رام (ہندو) شامل تھے۔ لیکن خالصہ فوج کے اکثر سپاہی چونکہ سکھ تھے اس لیے ان کے انتظامی معاملات اور عدالتی فیصلے مسلمانوں کے خلاف بلکہ بعض دفعہ ان کے لیے ہتک آمیز ہوتے۔ فوج کو اپنے اس کردار نے یہ احساس دلا دیا کہ اصل میں وہی حکمران ہیں اور انھوں نے ملکی معاملات میں دخل اندازی شروع کر دی۔ رنجیت سنگھ پر چونکہ اتفاق رائے تھا، اس لیے اس کے زمانے میں دخل اندازی زیادہ نہ ہو سکی۔
لیکن جب اس کا بیٹا کھڑک سنگھ تخت پر بیٹھا تو سکھ دو بڑے سیاسی گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔ ڈوگرے اور سندھنا نوالے، سدھنا نوالہ گروپ کا سردار دھیان سنگھ فوج کے ہیڈ کواٹر ''بدھو کے آوے'' میں گیا اور ان کو خفیہ اطلاع دی کہ کھڑک سنگھ پنجاب کو انگریزوں کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتا ہے۔ پورے پنجاب میں ایک پراپیگنڈا مہم شروع کر دی گئی اور صرف تین ماہ بعد فوج نے کھڑک سنگھ کو غدار قرار دے کر تخت سے اتار دیا اور اس کے بیٹے نونہال سنگھ کو جو لڑ کپن میں فوج میں بھرتی ہو گیا تھا اور فوج اُسے اپنا نمائندہ سمجھتی تھی، اُسے تخت پر بٹھا دیا۔ یوں سکھ فوج نے دو اختیار اپنے قبضے میں لے لیے۔ ایک مہاراجہ اور وزیر کی تقرری اور دوسرا یہ فیصلہ کرنا کہ غدار کون ہے اور محب وطن کون۔ لیکن ایک سال بعد ہی نونہال سنگھ ایک حادثے میں مارا گیا تو سندھنا نوالوں نے کھڑک سنگھ کی بیوہ چاند کور تخت پر بٹھا دیا۔
دھیان سنگھ کہاں چین سے بیٹھ سکتا تھا۔ اس نے رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کو ساتھ ملایا اور فوج کے ہیڈ کوارٹر ''بدھو کے آوے'' پہنچ گیا اور جرنیلوں نے شیر سنگھ کی حمایت کر دی۔ چاند کور کو اقتدار پر صرف دو ماہ ہوئے تھے کہ ستر ہزار فوج لاہور کے شہریوں پر ٹوٹ پڑی۔ کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔ آخر شہریوں کی جانیں بچانے کے لیے چاند کور کو شیر سنگھ کے حق میں دستبردار ہونا پڑا۔ شیر سنگھ نے تین سال حکومت کی، لیکن چونکہ اسے اقتدار فوج نے دلوایا تھا اس لیے اس کے سارے فیصلے فوج کے ہیڈ کوارٹر یعنی ''بدھو کے آوے'' میں ہونے لگے۔
جس کو قتل کرنا ہوتا اُسے انگریز کا ایجنٹ یا غدار کا لقب دینا کافی تھا۔ ڈوگرا گروپ فوج کی آشیر باد سے حکمران تھا اور سندھنا والے معتوب۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے مہاراجہ شیر سنگھ اور دھیان سنگھ کو قتل کیا اور بدلے میں ہیرا سنگھ نے سندھنا نوالوں کے کئی افراد کو قتل کر دیا اور سیدھا فوج کے ہیڈ کوارٹر بدھو کے آوے پہنچ گیا اور عرض کی سندھنا نوالے غدار ہیں اور اگر اسے اقتدار دے دیا جاوے تو وہ سپاہی کی تنخواہ نو روپے سے بڑھا کر بارہ روپے اور گھڑ سوار کی تیس روپے ماہوار کر دے گا۔
ایک بار پھر فوج لاہور پر حملہ آور ہو گئی۔ پوری رات توپ خانے سے گولہ باری کے بعد جب فوج صبح شہر میں داخل ہوئی تو لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ رنجیت سنگھ کے چھ سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا گیا اور ہیرا سنگھ کو وزیر۔ ہیرا سنگھ نے فوج کی مراعات میں اضافہ کیا۔ ڈھائی روپے تنخواہ اور بڑھا دی، لیکن ایک دن جرنیل اس کے ایک مشیر سے ناراض ہو گئے اور اسے اقتدار سے علیحدہ کر کے گرفتار کرنا چاہا، مگر وہ بھاگ نکلا اور فوج نے اس کا تعاقب کر کے مار دیا اور اس کے ماموں جواہر سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا۔
اب بدھو کے آوے والوں کے مطالبات بہت بڑھ گئے۔ جواہر سنگھ نے سارا خزانہ بلکہ محل کے سونے کے برتن تک ڈھلوا کر کنٹھے بنوائے اور سکھ فوج میں تقسیم کر دیے، جو ٹیکس اکٹھا ہوتا خرچ کر دیا جاتا مگر مطالبات بڑھتے گئے آخر ایک دن جواہر سنگھ کو ہیڈ کوارٹر یعنی بدھو کے آوے میں طلب کیا گیا۔ اس کی بہن رانی جنداں اپنے بیٹے دلیپ سنگھ کو ساتھ لے کر سفارش کے لیے آئی، مگر سکھ جرنیلوں نے بہن کے سامنے بھائی کو قتل کر دیا۔
اب نو سالہ دلیپ سنگھ حکمران تھا اور رانی جنداں سرپرست، لیکن کوئی بھی فوج کے ڈر سے وزیر نہیں بننا چاہتا تھا، جس کو کہا جاتا وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بھاگ جاتا۔ گلاب سنگھ اور تیج سنگھ جیسے ''بدھو کے آوے'' والوں کے وفادار بھی انجام سے ڈر کر بھاگ گئے۔ کمسن دلیپ سنگھ کو کچھ ناموں کی پرچیاں دی گئیں اور قرعہ نکال کر زبردستی لال سنگھ کو وزیر بنایا گیا۔
خزانہ خالی ہو چکا تھا۔ توشہ خانہ کے برتن بھی بیچے جا چکے تھے، لیکن بدھو کے آوے میں بیٹھی خالصہ فوج کے مطالبات بڑھتے جا رہے تھے۔ رانی جنداں کے پاس بلیک میلنگ سے نجات کا ایک ہی راستہ تھا کہ خالصہ فوج کو انگریز کی فوج کے ساتھ لڑا دیا جائے۔ پراپیگنڈے کا وہ طریقہ جو خالصہ فوج استعمال کر تی تھی، اس نے بھی شروع کیا اور سرگوشیوں کو مہم چلائی کہ انگریز پنجاب پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ عام سپاہی کو انگریز کی طاقت کا اندازہ نہ تھا۔
اس لیے وہ مرنے مارنے پر تیار تھا، لیکن جرنیلوں کو اندازہ تھا اور وہ لڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے مخالفت کی، رانی جنداں نے پراپیگنڈا عام فوجیوں تک پھیلا دیا۔ اب بدھو کے آوے میں بیٹھے جرنیلوں کے لیے کوئی راستہ نہ تھا، ''طاقتور'' خالصہ فوج جب لڑنے نکلی تو عوام نے، جس کا انھوں نے پہلے ہی بھرکس نکال دیا تھا، ان کا ساتھ نہ دیا۔ شکست فاش ان کا مقدر بنی۔ سکھ حکمرانی کا دور تمام ہوا، اور ان کے پاس ماضی کو یاد کرنے کے لیے بس ایک نعرہ باقی رہ گیا'' راج کرے گا خالصہ''۔۔۔
نوٹ: فیس بک پر میرا پیج www.facebook.com/oryamj.۔اس کے علاوہ میرا کسی بھی پیچ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے جانے کے بعد پورے برصغیر میں مرکزیت کا تقریباً خاتمہ ہو گیا۔ ہر کوئی اپنے اپنے علاقے کا بالا دست حکمران بنتا چلا گیا۔ جس خطے میں سب سے زیادہ افراتفری تھی وہ پنجاب تھا۔ سکھ اکبر کے زمانے سے جتھوں کی صورت مسلح جدوجہد کر رہے تھے اور بہت حد تک گوریلا جنگ میں منظم ہوچکے تھے۔ ان کے ہاں ہر علاقے، خاندان یا برادری کے حساب سے گروہ ترتیب پا چکے تھے جنھیں ''مسل'' کہا جاتا تھا۔ پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مسلیں تھیں اور سب کی سب خود مختار بلکہ ایک دوسرے سے برسر پیکار تھیں۔ ان بارہ مسلوں میں سے ایک مسل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی جس کے سربراہ کے گھر1780ء میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ سترہ سال کا ہوا تو باپ نے اسے دوسری مسلوں کے ساتھ جنگوں پر روانہ کرنا شروع کر دیا۔
صرف تین سال کے بعد یعنی بیس سال کی عمر میں وہ مسل کا سربراہ بن گیا۔ خوش قسمت اور ذہین شخص رنجیت سنگھ سربراہ بنتے ہی ایک بہت بڑی سلطنت کا خواب دیکھنے لگا۔ اپنے اس ارادے کی تکمیل کے لیے اس نے پیش قدمی شروع کر دی اور پھر وہ ہریانہ سے ملتان، پشاور اور کشمیر تک کے علاقے کا طاقتور ترین حکمران بن گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ۔ برصغیر کی تاریخ میں سکھوں کا وہ سردار جس نے ان کی سلطنت کی بنیاد رکھی جو پچاس سال تک قائم رہی۔
سکھوں کے اس عظیم حکمران کی ساری تربیت جنگ و جدل اور ماڑ دھاڑ میں ہوئی تھی۔ اس کی پیدائش سے پہلے ہی ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے ہمراہ ایک برطانوی منظم فوج بھی لے کر آئی تھی۔ برطانیہ کی اس منظم فوج سے پہلے برصغیر میں مختلف لوگوں کو پانچ ہزاری یا دس ہزاری منصب دیے جاتے تھے، جو جنگ کے وقت اپنے منصب کے مطابق افراد فراہم کرتے تھے۔ باقاعدہ منظم فوج کا کوئی رواج نہ تھا۔ رنجیت سنگھ کو بہت شوق تھا کہ اس کی بھی ایک ایسی ہی ماڈرن اور منظم فوج ہو۔ اس مقصد کے لیے اس نے فرانس اور اٹلی سے فوجی نظم و ضبط کے ماہر چار جرنیل (1) و نیچورا (Vanchoora)، (2) الارڈ (Allard)، (3) ایوی ٹیبل (Avitabile) اور (4) آگسٹ کورٹ (August Court) بلوائے۔
انھوں نے سکھوں کی ایک فوج منظم کی جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا اور اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے چند کلو میٹر دور شالا مار باغ کے قریب اس جگہ تھا جسے ''بدھو کا آوا'' کہتے تھے۔ فوج کو منظم کرنے اور اسی پر اپنی حکمرانی کی مکمل بنیاد رکھتے ہوئے وہ یہ بھول گیا کہ رعایا کے چلانے کے لیے ایک اچھی انتظامیہ اور عدلیہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے نزدیک مملکت میں پیدا ہونے والے ہر مسئلے کا حل فوج کا استعمال کر کے نکالا جا سکتا تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے انتظامی امور کے لیے بھی فوج کو بھیجتا۔ مالیہ وصول کرنا ہو، کہیں ڈکیتی ہو جائے۔
قبائلی تصادم ہو، ہر جگہ فوجی افسران جاتے اور معاملات سنبھالتے۔ انصاف کے لیے کوئی منظم نظام نہیں تھا بلکہ جگہ جگہ فوجی عدالتیں لگتیں اور فوری طور پر انصاف فراہم کر دیا جاتا۔1811ء میں جب یہ فوج ترتیب دی گئی تو اس کی تعداد صرف چار ہزار تھی جبکہ1839ء تک یہ چالیس ہزار ہو گئی، جس کے ساتھ ایک لاکھ گھڑ سوار دستے اور توپ خانہ بھی شامل تھا۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فوجی عدالتیں اکثر لوگوں کو بھاری جرمانے کرتیں۔ چھوٹے سے چھوٹے جرم پر بھی جائیداد قرق کرنے کا حکم دے دیا جاتا۔ برصغیر کی تاریخ میں سب سے زیادہ مالیہ اسی دور میں وصول کیا گیا۔
یہ پیداوار کا چالیس فیصد تک تھا۔ ان یورپی جرنیلوں نے کٹر سکھ حکمران کو سیکولر حکومتی چہرہ بنانے کا درس دیا۔ اسی لیے1831ء میں جب اس نے برطانوی گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنگ سے ملنے کے لیے اپنا وفد بھیجا تو اس میں ہری سنگھ نلوا (سکھ) فقیر عزیز الدین (مسلمان) اور دیوان موتی رام (ہندو) شامل تھے۔ لیکن خالصہ فوج کے اکثر سپاہی چونکہ سکھ تھے اس لیے ان کے انتظامی معاملات اور عدالتی فیصلے مسلمانوں کے خلاف بلکہ بعض دفعہ ان کے لیے ہتک آمیز ہوتے۔ فوج کو اپنے اس کردار نے یہ احساس دلا دیا کہ اصل میں وہی حکمران ہیں اور انھوں نے ملکی معاملات میں دخل اندازی شروع کر دی۔ رنجیت سنگھ پر چونکہ اتفاق رائے تھا، اس لیے اس کے زمانے میں دخل اندازی زیادہ نہ ہو سکی۔
لیکن جب اس کا بیٹا کھڑک سنگھ تخت پر بیٹھا تو سکھ دو بڑے سیاسی گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔ ڈوگرے اور سندھنا نوالے، سدھنا نوالہ گروپ کا سردار دھیان سنگھ فوج کے ہیڈ کواٹر ''بدھو کے آوے'' میں گیا اور ان کو خفیہ اطلاع دی کہ کھڑک سنگھ پنجاب کو انگریزوں کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتا ہے۔ پورے پنجاب میں ایک پراپیگنڈا مہم شروع کر دی گئی اور صرف تین ماہ بعد فوج نے کھڑک سنگھ کو غدار قرار دے کر تخت سے اتار دیا اور اس کے بیٹے نونہال سنگھ کو جو لڑ کپن میں فوج میں بھرتی ہو گیا تھا اور فوج اُسے اپنا نمائندہ سمجھتی تھی، اُسے تخت پر بٹھا دیا۔ یوں سکھ فوج نے دو اختیار اپنے قبضے میں لے لیے۔ ایک مہاراجہ اور وزیر کی تقرری اور دوسرا یہ فیصلہ کرنا کہ غدار کون ہے اور محب وطن کون۔ لیکن ایک سال بعد ہی نونہال سنگھ ایک حادثے میں مارا گیا تو سندھنا نوالوں نے کھڑک سنگھ کی بیوہ چاند کور تخت پر بٹھا دیا۔
دھیان سنگھ کہاں چین سے بیٹھ سکتا تھا۔ اس نے رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ کو ساتھ ملایا اور فوج کے ہیڈ کوارٹر ''بدھو کے آوے'' پہنچ گیا اور جرنیلوں نے شیر سنگھ کی حمایت کر دی۔ چاند کور کو اقتدار پر صرف دو ماہ ہوئے تھے کہ ستر ہزار فوج لاہور کے شہریوں پر ٹوٹ پڑی۔ کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔ آخر شہریوں کی جانیں بچانے کے لیے چاند کور کو شیر سنگھ کے حق میں دستبردار ہونا پڑا۔ شیر سنگھ نے تین سال حکومت کی، لیکن چونکہ اسے اقتدار فوج نے دلوایا تھا اس لیے اس کے سارے فیصلے فوج کے ہیڈ کوارٹر یعنی ''بدھو کے آوے'' میں ہونے لگے۔
جس کو قتل کرنا ہوتا اُسے انگریز کا ایجنٹ یا غدار کا لقب دینا کافی تھا۔ ڈوگرا گروپ فوج کی آشیر باد سے حکمران تھا اور سندھنا والے معتوب۔ انھوں نے یکے بعد دیگرے مہاراجہ شیر سنگھ اور دھیان سنگھ کو قتل کیا اور بدلے میں ہیرا سنگھ نے سندھنا نوالوں کے کئی افراد کو قتل کر دیا اور سیدھا فوج کے ہیڈ کوارٹر بدھو کے آوے پہنچ گیا اور عرض کی سندھنا نوالے غدار ہیں اور اگر اسے اقتدار دے دیا جاوے تو وہ سپاہی کی تنخواہ نو روپے سے بڑھا کر بارہ روپے اور گھڑ سوار کی تیس روپے ماہوار کر دے گا۔
ایک بار پھر فوج لاہور پر حملہ آور ہو گئی۔ پوری رات توپ خانے سے گولہ باری کے بعد جب فوج صبح شہر میں داخل ہوئی تو لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ رنجیت سنگھ کے چھ سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا گیا اور ہیرا سنگھ کو وزیر۔ ہیرا سنگھ نے فوج کی مراعات میں اضافہ کیا۔ ڈھائی روپے تنخواہ اور بڑھا دی، لیکن ایک دن جرنیل اس کے ایک مشیر سے ناراض ہو گئے اور اسے اقتدار سے علیحدہ کر کے گرفتار کرنا چاہا، مگر وہ بھاگ نکلا اور فوج نے اس کا تعاقب کر کے مار دیا اور اس کے ماموں جواہر سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا۔
اب بدھو کے آوے والوں کے مطالبات بہت بڑھ گئے۔ جواہر سنگھ نے سارا خزانہ بلکہ محل کے سونے کے برتن تک ڈھلوا کر کنٹھے بنوائے اور سکھ فوج میں تقسیم کر دیے، جو ٹیکس اکٹھا ہوتا خرچ کر دیا جاتا مگر مطالبات بڑھتے گئے آخر ایک دن جواہر سنگھ کو ہیڈ کوارٹر یعنی بدھو کے آوے میں طلب کیا گیا۔ اس کی بہن رانی جنداں اپنے بیٹے دلیپ سنگھ کو ساتھ لے کر سفارش کے لیے آئی، مگر سکھ جرنیلوں نے بہن کے سامنے بھائی کو قتل کر دیا۔
اب نو سالہ دلیپ سنگھ حکمران تھا اور رانی جنداں سرپرست، لیکن کوئی بھی فوج کے ڈر سے وزیر نہیں بننا چاہتا تھا، جس کو کہا جاتا وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بھاگ جاتا۔ گلاب سنگھ اور تیج سنگھ جیسے ''بدھو کے آوے'' والوں کے وفادار بھی انجام سے ڈر کر بھاگ گئے۔ کمسن دلیپ سنگھ کو کچھ ناموں کی پرچیاں دی گئیں اور قرعہ نکال کر زبردستی لال سنگھ کو وزیر بنایا گیا۔
خزانہ خالی ہو چکا تھا۔ توشہ خانہ کے برتن بھی بیچے جا چکے تھے، لیکن بدھو کے آوے میں بیٹھی خالصہ فوج کے مطالبات بڑھتے جا رہے تھے۔ رانی جنداں کے پاس بلیک میلنگ سے نجات کا ایک ہی راستہ تھا کہ خالصہ فوج کو انگریز کی فوج کے ساتھ لڑا دیا جائے۔ پراپیگنڈے کا وہ طریقہ جو خالصہ فوج استعمال کر تی تھی، اس نے بھی شروع کیا اور سرگوشیوں کو مہم چلائی کہ انگریز پنجاب پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ عام سپاہی کو انگریز کی طاقت کا اندازہ نہ تھا۔
اس لیے وہ مرنے مارنے پر تیار تھا، لیکن جرنیلوں کو اندازہ تھا اور وہ لڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے مخالفت کی، رانی جنداں نے پراپیگنڈا عام فوجیوں تک پھیلا دیا۔ اب بدھو کے آوے میں بیٹھے جرنیلوں کے لیے کوئی راستہ نہ تھا، ''طاقتور'' خالصہ فوج جب لڑنے نکلی تو عوام نے، جس کا انھوں نے پہلے ہی بھرکس نکال دیا تھا، ان کا ساتھ نہ دیا۔ شکست فاش ان کا مقدر بنی۔ سکھ حکمرانی کا دور تمام ہوا، اور ان کے پاس ماضی کو یاد کرنے کے لیے بس ایک نعرہ باقی رہ گیا'' راج کرے گا خالصہ''۔۔۔
نوٹ: فیس بک پر میرا پیج www.facebook.com/oryamj.۔اس کے علاوہ میرا کسی بھی پیچ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔