تعلیم اور تعلیم اور تعلیم
ہم یہ سب کچھ یورپ اور شمالی امریکا (خصوصاً یونائیٹڈ اسٹیٹ) کے لوگوں کی محنت کا پکا پکایا پھل کھا رہے ہیں۔
کوئی زمانہ تھا کہ اگر گھر کا کوئی فرد پردیس جاتا تھا تو اس سے کیا کرایا بخشوا کر اور رو رو کر رخصت کیا جاتا تھا۔ لوگ پیدل حج کو جاتے تھے اور گھر والوں کو خدشہ ہوتا تھا کہ شاید کہ وہ زندہ واپس آئے کہ نہ آئیں، کیونکہ سفر لمبا بھی ہوتا تھا اور پر خطر بھی۔ اس زمانے میں سعودی عرب سے کوئی ڈاک وغیرہ کا بھی کوئی خاص سلسلہ نہیں ہوتا تھا۔ وہاں سے خط بھجوایا، کوئی ملا، کوئی نہ بھی ملا۔ پھر فون کا دور آیا۔فون پر بات چیت ہو جاتی تھی تو دل کو اطمینان ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد موبائل فون آیا۔اب تو کعبۃ اللہ کے طواف کا ایک پھیرا لگا کر موبائل پر بتایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ دنیا کے کسی بھی کونے سے موبائل فون پر خیر خیریت کے علاوہ اور بھی امور طے ہوجاتے ہیں۔
1960 کی دہائی میں ٹرانزسٹر ریڈیو کا انقلاب آیا۔ اس سے پہلے ریڈیو صرف بجلی پر چلتا تھا۔جس گھر میں بجلی نہیں ہوتی تھی وہاں ریڈیو نہیں چل سکتا تھا۔ ٹرانزسٹر کے آنے کے بعد دنیا بھر کی خبریں سنی جا سکتی تھی۔ 1965 کی جنگ میں ٹرانزسٹر نے خوب کام کیا۔ اس جنگ کے دوران ہم لوگ بی بی سی لندن سے متعارف ہوئے، خصوصاً اس کی اردو سروس سے۔
اور آج انٹرنیٹ کے ذریعے اسکائپ پر دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے تک نہ صرف بات چیت ہوتی ہے، ایک دوسرے کو نہ صرف دیکھا جا سکتا ہے، خیر خیریت کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ آج گھر میں کیا پکا تھا، عزیزوں اور برادری میں کس کی منگنی ہوئی، کس کی شادی ہوئی، اڑوس پڑوس کی خیر خبر بھی معلوم ہو جاتی ہے اور بھی سب حال احوال مل جاتا ہے ، نہ صرف روزانہ، بلکہ دن میں کئی کئی بار۔
یہ سب کچھ تعلیم کے میدان میں ترقی کی وجہ سے ہوا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ترقی میں ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا اور جنوبی امریکا کے ملکوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ ہم یہ سب کچھ یورپ اور شمالی امریکا (خصوصاً یونائیٹڈ اسٹیٹ) کے لوگوں کی محنت کا پکا پکایا پھل کھا رہے ہیں۔بلکہ ان براعظموں کے لوگوں نے تو ان ایجادات کو شروع شروع میں قبول کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کے علمائے کرام نے پرنٹنگ پریس کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ اس پر قرآن پاک کو نہیں چھاپا جا سکتاہے، صرف ہاتھ سے لکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح مسلمان پرنٹنگ سے تقریباً 200 سالوں تک محروم رہ گیا۔ اسی دوران زمانہ چال قیامت کی چل چکا تھا۔
جب انگریزوں نے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کرلی ، تو ہندوؤں نے بلا توقف اور بنا تاخیر انگریزی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی، جب کہ مسلمانوں کو کچھ تحفظات تھے، یہاں تک کہ کچھ علمائے کرام نے انگریزی پڑھنے کو حرام قرار دیا۔ اس طرح یہ تحففظات اور فتوے 50 سالوں تک قائم رہے۔ اس طرح ہندو ہم سے پہلے حکومت کے ہر شعبے میں داخل ہو کر، بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوچکے تھے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھیں ولایت (انگلینڈ) جانے کے بھی مواقعے ملے، جہاں انھیں دوسرے ملکوں کے لوگوں سے ملنے ملانے کے بھی مواقعے ملے۔ اس طرح ان پر باقی دنیا کے راستے بھی کھلے۔ انھیں ہندوستان کی مصنوعات دنیا بھر میں برآمد کرنے اور بیرون ممالک سے ان کی مصنوعات درآمد کرنے کے بھی مواقعے ملے۔ سندھ کے جنوب میں ٹھٹہ اور بدین اضلاع کے نچلے آخری حصے سمندر سے ملتے تھے۔ آج بھی ٹھٹہ سے سمندر کے کنارے کیٹی بندر، شاہ بندر وغیرہ اور بدین کے کنارے پر علی بندر موجود ہیں(کیٹی بندر میں تو محترمہ بینظر بھٹو نے چین سے بجلی کے ایک بہت بڑے منصوبے کا معاہدہ بھی کیا تھا، جو ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد لپیٹ لیا گیا، حالانکہ اس پر ابتدائی کام یعنی ایک نہایت ہی خوبصورت سڑک بھی تعمیر کی گئی تھی۔)
راقم الحروف کا 1990 میں جب ایک بینک کے جنرل منیجر کی حیثیت سے بحرین میں تقرر ہوا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہاں کے بازاروں میں اکثر دکاندار سندھی زبان بول رہے تھے۔ جب ان سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ان کے آبا و اجداد تقریباً 200 سال پہلے ٹھٹہ سے موتیوں کا بیوپار کرنے کے لیے آئے تھے۔ بحرین آج بھی موتیوں کے لیے مشہور ہے۔ اس طرح شکارپور (سندھ) کے لوگوں نے تعلیم کے میدان میں بھی بہت بڑا نام پیدا کیا۔ سندھ میں پہلا کالج وہیں قائم ہوا۔ اس کے علاوہ وہاں کے بہت سارے ہندو دنیا بھر میں بیوپار کے سلسلے میں پھیل گئے۔ وہاں کا شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس کے فرد بیرون ملک نہیں گیا ہوا تھا۔یہ سب چیزیں تعلیم کی وجہ سے ہوئیں۔
ابھی میں آرٹیکل لکھ رہا تھا کہ ایک موقر انگریزی اخبار میں ایک آرٹیکل نظر سے گزرا، جس میں انھوں نے تھر کی خواتین کے بارے میں لکھا کہ وہ بہت محنتی اور ہنر مند ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی رلیاں،کھیس، اون سے بنی چادریں (جن کو کتھا کہا جاتا ہے)، گج اور دوسری بہت ساری ہاتھ سے بنی ہوئی مصنوعات شہر کے بیوپاری کوڑیوں کے دام لے جاتے ہیں اور کراچی کے علاوہ بیرون ممالک میں بھیج کر خوب پیسہ کماتے ہیں۔ لیکن ان میں تعلیم نہیں ہے اس لیے وہ لوگ اپنی محنت کا جائز ثمر نہیں پا سکتے ہیں۔
کچھ دن ہوئے کہ فیس بک پر ایک دوست نے ایک پوسٹ شیئر کی جو سندھ کے ایک گاؤں ٹنڈو سومرو، جو ٹنڈو اللہ یار، جو وہاں کا ضلع صدر مقام ہے، سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، کے متعلق ہے۔ وہاں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت تعلیم، صحت، صفائی اور دیگر امور کا بیڑا اٹھایا ہے۔ انھوں نے سرکاری اسکول اور اسپتال کا انتظام اپنے ذمے لیا ہے۔ پورے گاؤں کے چاروں طرف دیوار کھڑی کی ہے اور آمدورفت کے لیے ایک گیٹ بنایا ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھی آدمی نہ باہر جاسکتاہے اور نہ اندرآسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں گزشتہ 5 سالوں سے چوری کی کوئی بھی واردات نہیں ہوئی ہے۔اس طرح ان لوگوں نے ایک مثالی گاؤں بنادیا ہے۔ کاش ہمارے پورے ملک کے لوگ اس گاؤں کی مثال سے کچھ سیکھیں۔
دوسری عالمی جنگ میں جاپانیوں کو شکست ہوئی تو ان کی آنکھیں کھلیں۔ انھوں نے دیکھا کہ امریکا اور یورپ نے اپنی اعلیٰ تعلیم اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے جرمنی جیسی طاقت کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دے کر اپنے ملکوں کی حفاظت کی، جب کہ جاپان کے شہنشاہ جس کو وہ لوگ پوجتے تھے، اس کے امریکی جنرل میک آرتھر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا منظر پوری دنیا نے دیکھا۔ لیکن اس شہنشاہ نے بڑی ہوشمندی سے کام لیا اور امریکا سے یہ بات منوائی کہ ان کی تعلیم اپنی ہی زبان میں رہے گی۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جاپانیوں نے اپنے بجٹ کا 43 فی صد تعلیم پر خرچ کرنا شروع کیا اور اپنے لوگوں کو پوری دنیا کی درسگاہوں میں اعلیٰ اور فنی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔ اس طرح انھوں نے اپنی زبان کی بھی حفاظت کی اور ساتھ ساتھ دنیا بھر کی زبانوں میں بھی، جہاں جہاں سے تعلیم اور ہنر حاصل ہو سکتا تھا، حاصل کیا۔ مزے کی بات ہے کہ اس وقت امریکیوں نے انھیں طعنہ دیا تھا کہ تم لوگ سوائے کھلونوں کے، کوئی اور چیز نہیں بنا سکو گے۔لیکن آج امریکا جاپانی گاڑیاں اور دیگر مصنوعات اتنی مقدار میں درآمد کرتا ہے، کہ وہ جاپان کا مقروض ہے۔
چین بھی دنیا بھر میں اپنے لوگوں کو اعلیٰ اور فنی تعلیم کے لیے بھیج رہا ہے۔ مثال کے طور پر میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس نے کینیڈا کی یونین کونسل مسی ساگا (جہاں صوبہ اونٹیریو کے صدر مقام ٹورانٹو کی یونیورسٹی واقع ہے) میں، بیرون ممالک کے طلبا کے ساتھ ساتھ چینی طلبا کا جم غفیر دیکھا۔
اس وقت دنیا میں 26 ممالک ایسے ہیں جو ہم سے بھی زیادہ غریب ہیں، لیکن وہ تعلیم پر ہم سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں، جب کہ ہم مشکل سے بجٹ کا 2، 3 فیصد خرچ کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے اڑھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ استاد تنخواہیں تو لیتے ہیں، لیکن اسکول نہیں جاتے۔
بیشک آج کل ہمارے لوگ آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک جا رہے ہیں، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ہمارے ملک میں پڑھے لکھوں کی تعداد بھی کم ہے اور معیار تعلیم بھی نہایت پست ہے۔اس کے علاوہ ہمارے ہاں تعلیم طبقاتی ہے۔ ایک طبقے کے لیے اعلیٰ اور دوسرے کے لیے ادنیٰ سے بھی ادنیٰ ترین۔ ہمیں یہ طبقاتی نظام بھی ختم کرنا ہوگا۔ صرف منہ بگاڑ کر انگریزی بولنے سے کوئی شخص اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہو سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں کے بچے میں وہ صلاحیت ہو، جو بڑے شہر کے بچے میں نا ہو، بشرطیکہ اس گاؤں کے بچے کو یکساں موقع دیا جائے۔
1960 کی دہائی میں ٹرانزسٹر ریڈیو کا انقلاب آیا۔ اس سے پہلے ریڈیو صرف بجلی پر چلتا تھا۔جس گھر میں بجلی نہیں ہوتی تھی وہاں ریڈیو نہیں چل سکتا تھا۔ ٹرانزسٹر کے آنے کے بعد دنیا بھر کی خبریں سنی جا سکتی تھی۔ 1965 کی جنگ میں ٹرانزسٹر نے خوب کام کیا۔ اس جنگ کے دوران ہم لوگ بی بی سی لندن سے متعارف ہوئے، خصوصاً اس کی اردو سروس سے۔
اور آج انٹرنیٹ کے ذریعے اسکائپ پر دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے تک نہ صرف بات چیت ہوتی ہے، ایک دوسرے کو نہ صرف دیکھا جا سکتا ہے، خیر خیریت کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ آج گھر میں کیا پکا تھا، عزیزوں اور برادری میں کس کی منگنی ہوئی، کس کی شادی ہوئی، اڑوس پڑوس کی خیر خبر بھی معلوم ہو جاتی ہے اور بھی سب حال احوال مل جاتا ہے ، نہ صرف روزانہ، بلکہ دن میں کئی کئی بار۔
یہ سب کچھ تعلیم کے میدان میں ترقی کی وجہ سے ہوا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ترقی میں ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا اور جنوبی امریکا کے ملکوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ ہم یہ سب کچھ یورپ اور شمالی امریکا (خصوصاً یونائیٹڈ اسٹیٹ) کے لوگوں کی محنت کا پکا پکایا پھل کھا رہے ہیں۔بلکہ ان براعظموں کے لوگوں نے تو ان ایجادات کو شروع شروع میں قبول کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کے علمائے کرام نے پرنٹنگ پریس کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ اس پر قرآن پاک کو نہیں چھاپا جا سکتاہے، صرف ہاتھ سے لکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح مسلمان پرنٹنگ سے تقریباً 200 سالوں تک محروم رہ گیا۔ اسی دوران زمانہ چال قیامت کی چل چکا تھا۔
جب انگریزوں نے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کرلی ، تو ہندوؤں نے بلا توقف اور بنا تاخیر انگریزی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی، جب کہ مسلمانوں کو کچھ تحفظات تھے، یہاں تک کہ کچھ علمائے کرام نے انگریزی پڑھنے کو حرام قرار دیا۔ اس طرح یہ تحففظات اور فتوے 50 سالوں تک قائم رہے۔ اس طرح ہندو ہم سے پہلے حکومت کے ہر شعبے میں داخل ہو کر، بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوچکے تھے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انھیں ولایت (انگلینڈ) جانے کے بھی مواقعے ملے، جہاں انھیں دوسرے ملکوں کے لوگوں سے ملنے ملانے کے بھی مواقعے ملے۔ اس طرح ان پر باقی دنیا کے راستے بھی کھلے۔ انھیں ہندوستان کی مصنوعات دنیا بھر میں برآمد کرنے اور بیرون ممالک سے ان کی مصنوعات درآمد کرنے کے بھی مواقعے ملے۔ سندھ کے جنوب میں ٹھٹہ اور بدین اضلاع کے نچلے آخری حصے سمندر سے ملتے تھے۔ آج بھی ٹھٹہ سے سمندر کے کنارے کیٹی بندر، شاہ بندر وغیرہ اور بدین کے کنارے پر علی بندر موجود ہیں(کیٹی بندر میں تو محترمہ بینظر بھٹو نے چین سے بجلی کے ایک بہت بڑے منصوبے کا معاہدہ بھی کیا تھا، جو ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد لپیٹ لیا گیا، حالانکہ اس پر ابتدائی کام یعنی ایک نہایت ہی خوبصورت سڑک بھی تعمیر کی گئی تھی۔)
راقم الحروف کا 1990 میں جب ایک بینک کے جنرل منیجر کی حیثیت سے بحرین میں تقرر ہوا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہاں کے بازاروں میں اکثر دکاندار سندھی زبان بول رہے تھے۔ جب ان سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ان کے آبا و اجداد تقریباً 200 سال پہلے ٹھٹہ سے موتیوں کا بیوپار کرنے کے لیے آئے تھے۔ بحرین آج بھی موتیوں کے لیے مشہور ہے۔ اس طرح شکارپور (سندھ) کے لوگوں نے تعلیم کے میدان میں بھی بہت بڑا نام پیدا کیا۔ سندھ میں پہلا کالج وہیں قائم ہوا۔ اس کے علاوہ وہاں کے بہت سارے ہندو دنیا بھر میں بیوپار کے سلسلے میں پھیل گئے۔ وہاں کا شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس کے فرد بیرون ملک نہیں گیا ہوا تھا۔یہ سب چیزیں تعلیم کی وجہ سے ہوئیں۔
ابھی میں آرٹیکل لکھ رہا تھا کہ ایک موقر انگریزی اخبار میں ایک آرٹیکل نظر سے گزرا، جس میں انھوں نے تھر کی خواتین کے بارے میں لکھا کہ وہ بہت محنتی اور ہنر مند ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی رلیاں،کھیس، اون سے بنی چادریں (جن کو کتھا کہا جاتا ہے)، گج اور دوسری بہت ساری ہاتھ سے بنی ہوئی مصنوعات شہر کے بیوپاری کوڑیوں کے دام لے جاتے ہیں اور کراچی کے علاوہ بیرون ممالک میں بھیج کر خوب پیسہ کماتے ہیں۔ لیکن ان میں تعلیم نہیں ہے اس لیے وہ لوگ اپنی محنت کا جائز ثمر نہیں پا سکتے ہیں۔
کچھ دن ہوئے کہ فیس بک پر ایک دوست نے ایک پوسٹ شیئر کی جو سندھ کے ایک گاؤں ٹنڈو سومرو، جو ٹنڈو اللہ یار، جو وہاں کا ضلع صدر مقام ہے، سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، کے متعلق ہے۔ وہاں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت تعلیم، صحت، صفائی اور دیگر امور کا بیڑا اٹھایا ہے۔ انھوں نے سرکاری اسکول اور اسپتال کا انتظام اپنے ذمے لیا ہے۔ پورے گاؤں کے چاروں طرف دیوار کھڑی کی ہے اور آمدورفت کے لیے ایک گیٹ بنایا ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھی آدمی نہ باہر جاسکتاہے اور نہ اندرآسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ہاں گزشتہ 5 سالوں سے چوری کی کوئی بھی واردات نہیں ہوئی ہے۔اس طرح ان لوگوں نے ایک مثالی گاؤں بنادیا ہے۔ کاش ہمارے پورے ملک کے لوگ اس گاؤں کی مثال سے کچھ سیکھیں۔
دوسری عالمی جنگ میں جاپانیوں کو شکست ہوئی تو ان کی آنکھیں کھلیں۔ انھوں نے دیکھا کہ امریکا اور یورپ نے اپنی اعلیٰ تعلیم اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے جرمنی جیسی طاقت کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دے کر اپنے ملکوں کی حفاظت کی، جب کہ جاپان کے شہنشاہ جس کو وہ لوگ پوجتے تھے، اس کے امریکی جنرل میک آرتھر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا منظر پوری دنیا نے دیکھا۔ لیکن اس شہنشاہ نے بڑی ہوشمندی سے کام لیا اور امریکا سے یہ بات منوائی کہ ان کی تعلیم اپنی ہی زبان میں رہے گی۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ جاپانیوں نے اپنے بجٹ کا 43 فی صد تعلیم پر خرچ کرنا شروع کیا اور اپنے لوگوں کو پوری دنیا کی درسگاہوں میں اعلیٰ اور فنی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔ اس طرح انھوں نے اپنی زبان کی بھی حفاظت کی اور ساتھ ساتھ دنیا بھر کی زبانوں میں بھی، جہاں جہاں سے تعلیم اور ہنر حاصل ہو سکتا تھا، حاصل کیا۔ مزے کی بات ہے کہ اس وقت امریکیوں نے انھیں طعنہ دیا تھا کہ تم لوگ سوائے کھلونوں کے، کوئی اور چیز نہیں بنا سکو گے۔لیکن آج امریکا جاپانی گاڑیاں اور دیگر مصنوعات اتنی مقدار میں درآمد کرتا ہے، کہ وہ جاپان کا مقروض ہے۔
چین بھی دنیا بھر میں اپنے لوگوں کو اعلیٰ اور فنی تعلیم کے لیے بھیج رہا ہے۔ مثال کے طور پر میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس نے کینیڈا کی یونین کونسل مسی ساگا (جہاں صوبہ اونٹیریو کے صدر مقام ٹورانٹو کی یونیورسٹی واقع ہے) میں، بیرون ممالک کے طلبا کے ساتھ ساتھ چینی طلبا کا جم غفیر دیکھا۔
اس وقت دنیا میں 26 ممالک ایسے ہیں جو ہم سے بھی زیادہ غریب ہیں، لیکن وہ تعلیم پر ہم سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں، جب کہ ہم مشکل سے بجٹ کا 2، 3 فیصد خرچ کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے اڑھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ استاد تنخواہیں تو لیتے ہیں، لیکن اسکول نہیں جاتے۔
بیشک آج کل ہمارے لوگ آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک جا رہے ہیں، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ہمارے ملک میں پڑھے لکھوں کی تعداد بھی کم ہے اور معیار تعلیم بھی نہایت پست ہے۔اس کے علاوہ ہمارے ہاں تعلیم طبقاتی ہے۔ ایک طبقے کے لیے اعلیٰ اور دوسرے کے لیے ادنیٰ سے بھی ادنیٰ ترین۔ ہمیں یہ طبقاتی نظام بھی ختم کرنا ہوگا۔ صرف منہ بگاڑ کر انگریزی بولنے سے کوئی شخص اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہو سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں کے بچے میں وہ صلاحیت ہو، جو بڑے شہر کے بچے میں نا ہو، بشرطیکہ اس گاؤں کے بچے کو یکساں موقع دیا جائے۔