اور اب نتائج چاہئیں

آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے تانے بانے بھی افغان سرزمین سے ملنے کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔

امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد افغانستان میں القاعدہ کو نشانہ بنانے کی جس مہم جوئی کا آغاز کیا تھا وہ 13 سال بعد بالآخر 2014 کے اواخر میں اپنے انجام کو پہنچ گئی، ایساف کا پرچم لپیٹ دیا گیا۔ افغانستان میں امریکا کی کامیابی و ناکامی سے کہیں زیادہ اہم سوال نیٹو کے بعد افغانستان کے پرامن مستقبل سے وابستہ ہے دوسرا وہاں قیام امن، جنگجوانہ گروپوں کی رسہ کشی اور پاک افغان سرحد پر ان کی سرگرمیوں بالخصوص کراس بارڈر کارروائیوں سے پیدا ہونے والی تشویشناک صورتحال کا ہے جس کے باعث پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے تانے بانے بھی افغان سرزمین سے ملنے کی خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔

اس ضمن ہی میں سانحہ پشاور کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ افغانستان کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ پاک فوج اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ''ضرب عضب'' میں مصروف ہے جب کہ پاک افغان سرحد اور پاک بھارت سرحد پر تشویشناک صورتحال ملک کے لیے مزید مسائل پیدا کر رہی ہے۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر وقفے وقفے سے کارروائیاں کرکے صورتحال کو کشیدہ بنا رہا ہے۔ ابھی چند روز پیشتر بھارتی فوج نے شکر گڑھ میں فلیگ میٹنگ کے بہانے بلاکر دو پاکستانی رینجرز اہلکاروں کو فائرنگ کرکے شہید کردیا جس پر پاکستان نے بھارت سے شدید احتجاج کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ سرحد پر بدامنی سے مستقبل میں خطرناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

ایک جانب ہماری مشرقی و مغربی سرحدوں پر افغان و بھارت کی منفی سرگرمیوں کے باعث کشیدہ صورتحال پاک فوج کے لیے چیلنج بن رہی ہے تو دوسری جانب اندرون وطن دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب میں فوجی جوان قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور اب سانحہ پشاور کے بعد آپریشن کے دائرہ کار کو پورے ملک میں پھیلانے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک اس کا پیچھا کرنے کے جس عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے اس نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کردیا ہے اور عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے نتیجتاً ملک کی سیاسی قیادت اور حکومت پر بھی دباؤ آتا جا رہا ہے کہ وہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اختلافات بھلا کر 18 کروڑ عوام کی طرح پاک فوج کی پشت پر عزم و یقین کے ساتھ کھڑی ہوجائے جیساکہ کور کمانڈر کانفرنس میں جنرل راحیل شریف نے واضح طور پر کہا ہے کہ پوری قوم دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف جرأت مندانہ فیصلوں کے لیے ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کی طرف دیکھ رہی ہے۔

لہٰذا دہشت گردی کے خلاف وسیع تر سیاسی اتفاق رائے کو چھوٹے چھوٹے اختلافات کی نذر نہ کیا جائے، فیصلوں کی گھڑی آن پہنچی ہے اور کامیابی کی کنجی قومی ایکشن پلان پر متحد ہوکر عمل کرنے میں ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ کور کمانڈرز نے ایکشن پلان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اب گیند سیاسی قیادت کے کورٹ میں آچکی ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد سیاسی قیادت وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سربراہی میں قومی ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد و سنجیدہ نظر آتی ہے۔ پہلی اے پی سی میں جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں یہ اتفاق رائے سامنے آیا تھا کہ دہشت گردوں کو جلد ازجلد انجام تک پہنچانے کے لیے ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیر ہے۔

تاہم بعدازاں اس حوالے سے ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے تحفظات و خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے کمیٹیوں پرکمیٹیاں بن رہی ہیں اجلاس در اجلاس ہو رہے ہیں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں تبصروں و تجزیوں کے انبار لگ رہے ہیں، سب کا مقصد اور ٹارگٹ ایک ہی ہے کہ ملک سے دہشت گردوں کا ہر صورت خاتمہ کیا جانا چاہیے امن کا قیام سب کی آرزو ہے۔ سیاسی قیادت پر بھاری ذمے داری ہے کہ وہ حالات وقت کی نزاکتوں اور تقاضوں کو سمجھتے ہوئے فیصلے کرے۔ علاقائی و عالمی صورتحال کو سامنے رکھے ملک اور عوام کا مستقبل ہماری قیادت کے آج کے فیصلوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سرپرستوں کی سرکوبی کے لیے پاک فوج جنرل راحیل کی قیادت میں پوری طرح متحد ہے۔


وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ ہمارا ایکشن پلان دہشت گردوں کو تباہ و برباد کردے گا۔ اس جنگ میں کوئی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ دہشت گردی کا خاتمہ میرا مشن ہے، میں نے کمان سنبھال لی ہے اور جنگ کو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں تک لے جائیں گے۔ خوفزدہ ہونے کی بجائے دہشت گردوں کو شکست دے کر عوام کو ہر صورت امن و تحفظ فراہم کریں گے۔ ہم مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وزیر اعظم میاں نواز شریف کے عزائم یقینا قابل تحسین ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم ایک آواز ہوکر ملک کی سیاسی قیادت اور پاک فوج کی پشت پر یقین محکم کے ساتھ کھڑی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ قومی ایکشن پلان پر ''ایکشن'' کی کیا صورتحال ہوگی اور عملدرآمد کے حوالے سے یہ پلان جس سنجیدگی، یکسوئی، ہمہ جہتی اور اخلاص نیت کا تقاضا کرتا ہے وہ ہماری منتشر الخیال سیاسی قیادت کے پاس ہے کہ نہیں۔ مبصرین و تجزیہ نگار اور محب وطن و سنجیدہ حلقوں میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آج کا جوش جذبہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرد پڑتا چلا جائے اور ہر خونی واقعے پر وقتی ابال کے بعد اسے بھلادیا جائے۔ جیساکہ ہماری روایت رہی ہے، 16 دسمبر کو سقوط بنگال سے ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا محض ہر سال اس زخم کو چند گھنٹوں کے لیے تازہ کرلیتے ہیں اور بس پھر وہی یاد ماضی۔ ایکشن پلان کے نکات پر سیاسی مبصرین آئین و قانونی ماہرین بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔

سیاسی و عسکری دور حکمرانی کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ جمہوریت و آمریت کے تضادات پر بحث ہو رہی ہے۔ سب سے نازک سوال ایک جمہوری دور میں فوجی عدالتوں کے قیام کا ہے۔ سیاسی حلقے، آئینی و قانونی ماہرین اسے جمہوریت کی نفی اور آئین سے انحراف قرار دے رہے ہیں جب کہ عسکری حلقے فوجی عدالتوں کو وقت کا ناگزیر تقاضا قرار دے رہے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقعے پر فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی عدالتوں کا غلط استعمال نہیں ہونے دیں گے ہم انھیں اسی وقت مانیں گے جب یہ یقین ہوجائے گا کہ ان عدالتوں کا سیاسی استعمال نہیں ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ اس قانون کے تحت میں اور میاں صاحب دونوں جیل میں ہوں۔ قانون، صحافیوں اور سویلین کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

وکلا برادری بھی سراپا احتجاج ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام غیر آئینی و غیر قانونی ہے اعلیٰ عدالتیں اس اقدام کو آئین سے انحراف قرار دے کر مسترد کرسکتی ہیں۔ تمام تر تحفظات و خدشات کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت حالیہ اے پی سی میں دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے سیاسی قیادت نے اس امر پر اتفاق کرلیا ہے کہ خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی جن کی مدت 2 سال ہوگی اور انھیں اسپیڈی ٹرائل کورٹس کا نام دیا جائے گا ان عدالتوں کے قیام کے لیے آئین میں ترمیم کی جائے گی ۔فوجی عدالتوں کے قیام اور فوجی ایکٹ کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے بھی ترمیم قومی اسمبلی اور سینیٹ نے کثرت رائے سے منظور کرلی ہے ۔

گوکہ اس رائے شماری میں پاکستان تحریک انصاف، جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی کے اراکین نے حصہ نہیں لیا ۔ بقول وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق صدر آصف علی زرداری نے اے پی سی میں فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں انتہائی مثبت و قائدانہ کردار ادا کیا جو یقینا خوش آئند عمل ہے۔ اب سوال نتائج کا ہے۔ پوری قوم کی نظریں سیاسی و عسکری قیادت کے فیصلوں کے نتائج پر مرکوز ہیں جو اسی صورت ممکن ہے کہ جب ہماری قیادت متحد و منظم ہوکر قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کو جلدازجلد ممکن بنائے۔
Load Next Story