ظلم آخر کب تک
آسام میں بسنے والے بودھ اور بنگالی زبان بولنے والے مسلمانوں کے درمیان فسادات پھوٹتے ہیں۔
HARIPUR:
حکومت کرنے کا نشہ ایسا چڑھتا ہے کہ پھر سامنے کچھ نظر نہیں آتا۔ بھارتی حکومت بھی ان دنوں کچھ ایسے ہی نشے میں مست ہے۔ نریندر مودی کی شہرت کا گراف الیکشن کے وقت کچھ اتنی تیزی سے چڑھا تھا کہ ہر ایک ان کی تعریف میں گم تھا شاید یہ قدرت کی جانب سے ہی تھا لیکن جہاں جہاں انھیں کامیابی نہیں ملی اس کے لیے اب تگ و دو کی جارہی ہے۔ 2012 کی خونریزی سے آسام کی زمین رنگین تھی جس کے اثرات ابھی تک تازہ تھے کہ حالیہ فسادات نے پھر سے انھیں تازہ تر کردیا۔
وہ ایک عام سا دن تھا جب اچانک دہشت گردوں کا ایک ٹولہ برآمد ہوتا ہے اور اکیاسی بے گناہ انسانوں کے خون سے زمین رنگین کردیتا ہے جس میں چھبیس خواتین اور اٹھارہ شیر خوار بچے بھی شامل تھے اس بھیانک کارروائی کے بعد سونت پور میں خوف وہراس کی فضا پھیل گئی اور لوگوں نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر کیمپوں کا رخ کیا۔ حکومت کے قائم کردہ ریلیف کیمپوں کی تعداد ایک سو تیس سے بڑھ کر ایک سو چھتیس ہوچکی ہے جس میں تقریباً اٹھارہ ہزار تک کے قریب لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
آسام کی حالیہ صورت حال پر بی جے پی کی جانب سے کانگریس پر صدارتی حکومت کو لاگو کرنے کے لیے زور ڈالا جارہاہے جس پر کانگریس کی حکومت کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے، کانگریس کو غم ہے کہ پہلے ہی اس نے اپنی طاقت کھودی ہے اور اب بی جے پی کی حکومت اس نئے طرز حکومت کو ان پر لاگو کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''اگر مرکز کی جانب سے پریذیڈنٹ رول ان پر تھونپنا چاہتا ہے تو کرے'' جب کہ بی جے پی سابقہ چیف منسٹر اور اے جی پی کے صدر پرا فولا کمار مہانتا کا کہناہے کہ تمام آسام کے قبائلی سانگا اور بودھ اسٹوڈنٹس یونین بھی سونت پوری کے اکیاسی جانوں کے سانحے کے بعد اس صدارتی رول کو لاگو کرنے کے حق میں ہے۔
آسام کے مسائل کیا ہیں؟ 2012 میں نظر آتا ہے، آسام میں بسنے والے بودھ اور بنگالی زبان بولنے والے مسلمانوں کے درمیان فسادات پھوٹتے ہیں، بودھوں کا کہنا ہے کہ یہ زمین ان کی ہے جس پر مسلمانوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے جب کہ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ انگریزوں کے دور حکومت سے ہی یہاں آباد ہیں۔ یہ آبادی اس وقت اور بھی بڑھ گئی تھی جب پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں ہزاروں مسلمانوں نے بنگلہ دیش سے آسام کی جانب ہجرت کی۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش اور پاکستان میں حکومتی ساحروں کی جادوگری سے ایک بڑی مسلمان آبادی متاثر ہوئی۔ گزشتہ چالیس برسوں سے یہ سلسلہ وقفے وقفے سے ابھرتا رہا ہے۔
1983 کے الیکشن نے اس صورت حال کو اس ریاست میں اس وقت گمبھیر کردیا تھا جب تین ہزار جانوں کا ضیاع ہوا تھا آسام رفتہ رفتہ ایک متنازعہ ریاست بنتا گیا ایک ایسی ریاست جہاں مسلمان آبادی دوسری اقوام کے لیے خطرے کی علامت اور خود خطرات میں گھرتی گئی۔ 1998 میں سری نواسن کمار سہنا جو آسام کے گورنر بھی مقرر ہوئے تھے اس وقت کے صدر کے آر نارائنا (K.R Narayana) کو ایک رپورٹ بھیجی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ''بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی آباد کار بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں انھوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کو بیان کیا کہ آسام کو 1947 میں پاکستان کی جانب سے اپنا حصہ بنانے کے لیے دعویٰ کیا گیا تھا اور بعد میں اس قسم کا دعویٰ بنگلہ دیش کی جانب سے کیا گیا کیوں کہ آسام قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے اس رپورٹ میں اس اندیشے کو بھی واضح کیا گیا کہ اس غیر قانونی تارکین کی جانب سے اس خطے کو علیحدگی کی جانب بھی لے جایا جاسکتا ہے۔
اس رپورٹ میں انھوں نے ''عظیم تر بنگلہ دیش'' پراجیکٹ کا بھی حوالہ دیا تھا۔ یہ تو تھا آسام میں ہونے والے فسادات کا پس منظر جس کا شکار وہاں کے بسنے والے مسلمان بن رہے ہیں۔ 2012 کے بعد 2014 کے آخری مہینے میں اچانک پھر سے دہشت گرد ابھرتے ہیں اور ایک بد ترین دہشت گردی کی واردات کرکے بھوٹان اور نیپال کے گھنے جنگلوں میں روپوش ہوجاتے ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت پڑوس کے ممالک کو تنبیہ کرتی ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرپرستی نہ کرے اور اسی قسم کے کچھ اور بیانات سامنے آتے ہیں۔
پوری دنیا پشاور میں معصوم بچوں کی جانوں کے ضیاع پر غم زدہ ہے، یقینا ہمارا دل بھی خون کے آنسو رو رہا ہے لیکن آسام میں ہونے والی کھلی دہشت گردی بھی کچھ کم نہیں۔ اس پر روشنی ڈالنے کے لیے دنیا بھر میں کتنی شمعیں روشن ہوئی مودی حکومت کی شاخوں کو گھنا کرنے کے لیے مخالف جماعت کے خلاف تراکیب لڑانے سے کیا ان ہزاروں مسلمان گھرانے کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکے گا۔ یہ حکومتیں یہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی حربے اختیار کرتی ہیں۔ شخصیات اپنے آپ کو طاقت ور کرنے کے لیے کتنی نسلوں کو فسادات کے الاؤ میں جھونکتی ہیں یہ ظلم جو کبھی تقسیم کرتا ہے تو کبھی توڑدیتا ہے آخر بلند تر مقام حاصل کرنے کی تگ و دو کا یہ سفر کبھی انسانی فلاح و بہبود کے لیے بھی کچھ سوچے گا کیا کبھی ...؟
حکومت کرنے کا نشہ ایسا چڑھتا ہے کہ پھر سامنے کچھ نظر نہیں آتا۔ بھارتی حکومت بھی ان دنوں کچھ ایسے ہی نشے میں مست ہے۔ نریندر مودی کی شہرت کا گراف الیکشن کے وقت کچھ اتنی تیزی سے چڑھا تھا کہ ہر ایک ان کی تعریف میں گم تھا شاید یہ قدرت کی جانب سے ہی تھا لیکن جہاں جہاں انھیں کامیابی نہیں ملی اس کے لیے اب تگ و دو کی جارہی ہے۔ 2012 کی خونریزی سے آسام کی زمین رنگین تھی جس کے اثرات ابھی تک تازہ تھے کہ حالیہ فسادات نے پھر سے انھیں تازہ تر کردیا۔
وہ ایک عام سا دن تھا جب اچانک دہشت گردوں کا ایک ٹولہ برآمد ہوتا ہے اور اکیاسی بے گناہ انسانوں کے خون سے زمین رنگین کردیتا ہے جس میں چھبیس خواتین اور اٹھارہ شیر خوار بچے بھی شامل تھے اس بھیانک کارروائی کے بعد سونت پور میں خوف وہراس کی فضا پھیل گئی اور لوگوں نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر کیمپوں کا رخ کیا۔ حکومت کے قائم کردہ ریلیف کیمپوں کی تعداد ایک سو تیس سے بڑھ کر ایک سو چھتیس ہوچکی ہے جس میں تقریباً اٹھارہ ہزار تک کے قریب لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے۔
آسام کی حالیہ صورت حال پر بی جے پی کی جانب سے کانگریس پر صدارتی حکومت کو لاگو کرنے کے لیے زور ڈالا جارہاہے جس پر کانگریس کی حکومت کی جانب سے شدید تنقید کی جارہی ہے، کانگریس کو غم ہے کہ پہلے ہی اس نے اپنی طاقت کھودی ہے اور اب بی جے پی کی حکومت اس نئے طرز حکومت کو ان پر لاگو کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''اگر مرکز کی جانب سے پریذیڈنٹ رول ان پر تھونپنا چاہتا ہے تو کرے'' جب کہ بی جے پی سابقہ چیف منسٹر اور اے جی پی کے صدر پرا فولا کمار مہانتا کا کہناہے کہ تمام آسام کے قبائلی سانگا اور بودھ اسٹوڈنٹس یونین بھی سونت پوری کے اکیاسی جانوں کے سانحے کے بعد اس صدارتی رول کو لاگو کرنے کے حق میں ہے۔
آسام کے مسائل کیا ہیں؟ 2012 میں نظر آتا ہے، آسام میں بسنے والے بودھ اور بنگالی زبان بولنے والے مسلمانوں کے درمیان فسادات پھوٹتے ہیں، بودھوں کا کہنا ہے کہ یہ زمین ان کی ہے جس پر مسلمانوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے جب کہ بنگالی بولنے والے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ انگریزوں کے دور حکومت سے ہی یہاں آباد ہیں۔ یہ آبادی اس وقت اور بھی بڑھ گئی تھی جب پاکستان اور بھارت کے درمیان 1971 میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں ہزاروں مسلمانوں نے بنگلہ دیش سے آسام کی جانب ہجرت کی۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش اور پاکستان میں حکومتی ساحروں کی جادوگری سے ایک بڑی مسلمان آبادی متاثر ہوئی۔ گزشتہ چالیس برسوں سے یہ سلسلہ وقفے وقفے سے ابھرتا رہا ہے۔
1983 کے الیکشن نے اس صورت حال کو اس ریاست میں اس وقت گمبھیر کردیا تھا جب تین ہزار جانوں کا ضیاع ہوا تھا آسام رفتہ رفتہ ایک متنازعہ ریاست بنتا گیا ایک ایسی ریاست جہاں مسلمان آبادی دوسری اقوام کے لیے خطرے کی علامت اور خود خطرات میں گھرتی گئی۔ 1998 میں سری نواسن کمار سہنا جو آسام کے گورنر بھی مقرر ہوئے تھے اس وقت کے صدر کے آر نارائنا (K.R Narayana) کو ایک رپورٹ بھیجی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ''بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی آباد کار بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں انھوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کو بیان کیا کہ آسام کو 1947 میں پاکستان کی جانب سے اپنا حصہ بنانے کے لیے دعویٰ کیا گیا تھا اور بعد میں اس قسم کا دعویٰ بنگلہ دیش کی جانب سے کیا گیا کیوں کہ آسام قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے اس رپورٹ میں اس اندیشے کو بھی واضح کیا گیا کہ اس غیر قانونی تارکین کی جانب سے اس خطے کو علیحدگی کی جانب بھی لے جایا جاسکتا ہے۔
اس رپورٹ میں انھوں نے ''عظیم تر بنگلہ دیش'' پراجیکٹ کا بھی حوالہ دیا تھا۔ یہ تو تھا آسام میں ہونے والے فسادات کا پس منظر جس کا شکار وہاں کے بسنے والے مسلمان بن رہے ہیں۔ 2012 کے بعد 2014 کے آخری مہینے میں اچانک پھر سے دہشت گرد ابھرتے ہیں اور ایک بد ترین دہشت گردی کی واردات کرکے بھوٹان اور نیپال کے گھنے جنگلوں میں روپوش ہوجاتے ہیں۔ نریندر مودی کی حکومت پڑوس کے ممالک کو تنبیہ کرتی ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرپرستی نہ کرے اور اسی قسم کے کچھ اور بیانات سامنے آتے ہیں۔
پوری دنیا پشاور میں معصوم بچوں کی جانوں کے ضیاع پر غم زدہ ہے، یقینا ہمارا دل بھی خون کے آنسو رو رہا ہے لیکن آسام میں ہونے والی کھلی دہشت گردی بھی کچھ کم نہیں۔ اس پر روشنی ڈالنے کے لیے دنیا بھر میں کتنی شمعیں روشن ہوئی مودی حکومت کی شاخوں کو گھنا کرنے کے لیے مخالف جماعت کے خلاف تراکیب لڑانے سے کیا ان ہزاروں مسلمان گھرانے کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکے گا۔ یہ حکومتیں یہ سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی حربے اختیار کرتی ہیں۔ شخصیات اپنے آپ کو طاقت ور کرنے کے لیے کتنی نسلوں کو فسادات کے الاؤ میں جھونکتی ہیں یہ ظلم جو کبھی تقسیم کرتا ہے تو کبھی توڑدیتا ہے آخر بلند تر مقام حاصل کرنے کی تگ و دو کا یہ سفر کبھی انسانی فلاح و بہبود کے لیے بھی کچھ سوچے گا کیا کبھی ...؟