چمپینزی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
پنجرے میں بند چمپینزی ٹومی کو قانونی طور پر انسان تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
CHITRAL:
گزشتہ دنوں اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے 2 دلچسپ خبریں نظر سے گزریں جو ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے ساتھ بہت کچھ سوچنے پر بھی مجبور کرگئیں۔ گوکہ یہ دونوں خبریں مختلف ممالک سے تعلق رکھتی ہیں اور اخبارات میں ان کی اشاعت بھی مختلف تاریخوں میں ہوئی مگر نفس مضمون کے لحاظ سے ان میں خاصی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ آپ بھی دونوں خبریں ملاحظہ کیجیے۔
پہلی خبر کے مطابق ''امریکی ریاست نیویارک کی ایک اپیل کورٹ نے کہا ہے کہ پنجرے میں بند چمپینزی ٹومی کو قانونی طور پر انسان تسلیم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ وہ کوئی قانونی فرائض سرانجام نہیں دے سکتا۔ نان ہیومن رائٹس پروجیکٹ نامی تنظیم کی دلیل تھی کہ چمپینزی کی خصوصیات انسانوں سے ملتی جلتی ہیں، اس لیے وہ بنیادی انسانی حقوق کے حقدار ہیں، جن میں آزادی بھی شامل ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ جہاں تک قانونی نظریے کا تعلق ہے، کسی ایسی ہستی ہی کو انسان قرار دیا جاسکتا ہے جو قانون کی نظر میں حقوق اور فرائض سرانجام دینے کا اہل ہو۔''
دوسری خبر کا ماخذ ہے ''ارجنٹائن کی ایک عدالت نے چڑیا گھر میں قید مادہ بن مانس ''سینڈرا'' کو آزاد کرنے کا تاریخی حکم جاری کرتے ہوئے اسے کچھ ایسے قانونی حقوق دینے کا فیصلہ کیا ہے جو عموماً انسانوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے ''سینڈرا'' کی آزادی کے لیے اپیل دائر کی تھی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ گوکہ ''سینڈرا'' انسان نہیں ہے مگر پھر بھی اسے منفرد ذہانت کی بنا پرقانونی حقوق دیے جانے چاہئیں۔ عدالت اس سے قبل کئی بار یہ درخواست مسترد کرچکی تھی مگر اس بار عدالت کا فیصلہ تنظیم کے موقف کے حق میں آیا ہے۔ تاہم اس کیس کا سب سے دلچسپ پہلو یہ رہاکہ سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والے نکتے ''سینڈرا...... چیز ہے یا شخص؟'' پر عدالت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ اگر اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہ کی گئی تو بہت جلد سینڈرا کو برازیل میں بندروں کے لیے بنائی گئی محفوظ پناہ گاہ میں پہنچا دیا جائے گا، جہاں وہ نسبتاً زیادہ ''آزادی'' سے محظوظ ہوسکے گی۔ ماہرین کے مطابق اس عدالتی فیصلے سے چڑیا گھروں، لیباریٹریوں اور دیگر جگہوں پر رکھے گئے جانوروں کو قانونی حقوق دیے جانے کا نیا دروازہ کھل جائے گا۔''
دونوں خبریں پڑھ کر دل تو یہ چاہا کہ ان تنظیموں کے ای میل ایڈریسز معلوم کرکے انھیں احتجاجی خط بھیجا جائے کہ جناب ہمارے ہاں تو انسانوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا، بلکہ انھیں تو وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو آپ کے ہاں جانوروں کو حاصل ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ آپ ایک چمپینزی اور بن مانس کو اپنے ترقی یافتہ معاشرے میں انسان کے برابر لاکھڑا کرنا چاہتے ہیں اور انھیں وہ حقوق دلانا چاہتے ہیں جو شاید ہمارے ہاں خوابوں و خیالوں میں بھی انسانوں کو حاصل نہیں ہوسکتے۔ گوکہ ارجنٹائن کی عدالت نے بن مانس کی 'آزادی' کے حق میں فیصلہ دیا ہے مگر چونکہ ہمارے ہاں امریکی اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے اس لیے ہم تو یہی کہیں گے بھلا ہو نیویارک کی اپیل کورٹ کے جج کا... جس نے نان ہیومن رائٹس پروجیکٹ کی اپیل کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا ورنہ ہم پاکستانی شدید ترین احساس کمتری کا شکار ہوجاتے اور پھر راجہ مہدی علی خان کی بچوں کے لیے لکھی گئی مشہور نظم ''کاش کہ ہم سب بھالو ہوتے'' کی زمین میں ذرا سی تبدیلی کرتے ہوئے ''کاش کہ ہم سب چمپینزی ہوتے'' لکھ مارتے۔ گو کہ چمپینزی اور اس کے خاندان سے کسی کو بھی تشبیہ دینا یقیناً نقص امن کا باعث بن سکتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں وہ لطیفہ یاد آرہا ہے... جب ایک شخص نے چمپینزی کہنے پر دوسرے شخص کی غصے میں ناک توڑ دی۔ مقدمہ عدالت میں پہنچا تو جج نے دریافت کیا کہ اس نے تمہیں کب چمپینزی کہا تھا؟ ''جناب، ایک سال پہلے''۔ ''اور تم نے اب گھونسہ مار کر اس کی ناک توڑی ہے؟'' جج نے حیرت سے سوال کیا۔ ''جناب عالی، میں نے کل ہی پہلی مرتبہ چمپینزی دیکھا ہے۔'' ملزم نے معصومیت سے جواب دیا۔
بہرحال اس لطیفے نے بھی ہمارے موڈ کو مکمل طور پر بحال نہیں کیا اور ابھی ہمارا احتجاج ہمارے دل ہی میں تھا اور اس نے باہر نکل کر الفاظ کا روپ نہیں دھارا تھا کہ ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ ہم نے سوچا کہ اب یہ اور اس جیسی دوسری این جی اوز جب وجود میں آ چکی ہیں تو ظاہر ہے انھیں اپنی کچھ نہ کچھ پرفارمنس تو show کرنی ہی ہے، ویسے بھی ان این جی اوز کا تعلق ترقی یافتہ ممالک سے ہے نہ کہ ہمارے ملک سے۔
اگر یہی این جی اوز ہمارے ملک میں ہمارے عوام کی ''خدمت'' کے لیے آجاتیں تو زچہ و بچہ کے مسائل، پرائمری تعلیم کے فروغ، صاف پانی کی فراہمی اور اس جیسے دوسرے مسائل کا ایک جم غفیر ان کے سامنے ہوتا اور وہ ان مسائل کے حل کی آڑ لے کر ہمارے ملک میں اپنا ''نیٹ ورک'' قائم کر لیتیں، جہاں اور کئی ریمنڈ ڈیوس کن سوئیاں لیتے پھرتے۔ چلیں چھوڑیں، یہ موضوع پھر کبھی سہی...... ابھی ہم واپس اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں۔
دراصل ہماری مقامی این جی اوز اور ان غیرملکی این جی اوز میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ ہماری این جی اوز کے سامنے عوامی مسائل کا ایک بحرِ بیکراں ہے جب کہ اس کے برعکس غیر ملکی این جی اوز کے پاس خود اپنے ملک میں کرنے کو کچھ نہیں۔ لہٰذا وہ 'بے چاری' چمپینزی اور بن مانس کو انسان قرار دلوانے، انھیں انسانی حقوق دلوانے اور آزادی جیسی نعمت سے ہمکنار کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، حالانکہ اگر وہ اپنی نظروں سے مذہبی تعصب، مفاد پرستی اور نیو ورلڈ آرڈر کا چشمہ اتار پھینکیں تو انھیںکشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے کشمیری، برسوں سے اسرائیل کی بربریت کا شکار فلسطینی، مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کے جھوٹے پروپیگنڈے سے زیر عتاب آنے والے عراقی، نائن الیون کے 'سانحے' یا 'ڈرامے' کے اسکرپٹ کے زخم خوردہ افغانی، افریقی ممالک میں بھوک سے جاں بہ لب بچے، آئی ایم ایف کے قرضوں کے سود در سود تلے دبے پاکستانی و دیگر پسماندہ ممالک کے غریب عوام حقیقی حالت میں دکھائی دینے لگیں اور پھر یہ تنظیمیں ان چمپینزیوں کے لیے ''انسانی حقوق و آزادی'' کی جدوجہد کرنے کی بجائے 'ان' کے لیے حقوق و انصاف کی جنگ لڑیں جو واقعی جیتے جاگتے 'انسان' ہیں اور ''انسانی حقوق و آزادی'' کے صحیح حقدار ہیں۔
گزشتہ دنوں اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے 2 دلچسپ خبریں نظر سے گزریں جو ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے ساتھ بہت کچھ سوچنے پر بھی مجبور کرگئیں۔ گوکہ یہ دونوں خبریں مختلف ممالک سے تعلق رکھتی ہیں اور اخبارات میں ان کی اشاعت بھی مختلف تاریخوں میں ہوئی مگر نفس مضمون کے لحاظ سے ان میں خاصی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ آپ بھی دونوں خبریں ملاحظہ کیجیے۔
پہلی خبر کے مطابق ''امریکی ریاست نیویارک کی ایک اپیل کورٹ نے کہا ہے کہ پنجرے میں بند چمپینزی ٹومی کو قانونی طور پر انسان تسلیم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ وہ کوئی قانونی فرائض سرانجام نہیں دے سکتا۔ نان ہیومن رائٹس پروجیکٹ نامی تنظیم کی دلیل تھی کہ چمپینزی کی خصوصیات انسانوں سے ملتی جلتی ہیں، اس لیے وہ بنیادی انسانی حقوق کے حقدار ہیں، جن میں آزادی بھی شامل ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ جہاں تک قانونی نظریے کا تعلق ہے، کسی ایسی ہستی ہی کو انسان قرار دیا جاسکتا ہے جو قانون کی نظر میں حقوق اور فرائض سرانجام دینے کا اہل ہو۔''
دوسری خبر کا ماخذ ہے ''ارجنٹائن کی ایک عدالت نے چڑیا گھر میں قید مادہ بن مانس ''سینڈرا'' کو آزاد کرنے کا تاریخی حکم جاری کرتے ہوئے اسے کچھ ایسے قانونی حقوق دینے کا فیصلہ کیا ہے جو عموماً انسانوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے ''سینڈرا'' کی آزادی کے لیے اپیل دائر کی تھی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ گوکہ ''سینڈرا'' انسان نہیں ہے مگر پھر بھی اسے منفرد ذہانت کی بنا پرقانونی حقوق دیے جانے چاہئیں۔ عدالت اس سے قبل کئی بار یہ درخواست مسترد کرچکی تھی مگر اس بار عدالت کا فیصلہ تنظیم کے موقف کے حق میں آیا ہے۔ تاہم اس کیس کا سب سے دلچسپ پہلو یہ رہاکہ سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والے نکتے ''سینڈرا...... چیز ہے یا شخص؟'' پر عدالت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ اگر اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہ کی گئی تو بہت جلد سینڈرا کو برازیل میں بندروں کے لیے بنائی گئی محفوظ پناہ گاہ میں پہنچا دیا جائے گا، جہاں وہ نسبتاً زیادہ ''آزادی'' سے محظوظ ہوسکے گی۔ ماہرین کے مطابق اس عدالتی فیصلے سے چڑیا گھروں، لیباریٹریوں اور دیگر جگہوں پر رکھے گئے جانوروں کو قانونی حقوق دیے جانے کا نیا دروازہ کھل جائے گا۔''
دونوں خبریں پڑھ کر دل تو یہ چاہا کہ ان تنظیموں کے ای میل ایڈریسز معلوم کرکے انھیں احتجاجی خط بھیجا جائے کہ جناب ہمارے ہاں تو انسانوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا، بلکہ انھیں تو وہ حقوق بھی حاصل نہیں جو آپ کے ہاں جانوروں کو حاصل ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ آپ ایک چمپینزی اور بن مانس کو اپنے ترقی یافتہ معاشرے میں انسان کے برابر لاکھڑا کرنا چاہتے ہیں اور انھیں وہ حقوق دلانا چاہتے ہیں جو شاید ہمارے ہاں خوابوں و خیالوں میں بھی انسانوں کو حاصل نہیں ہوسکتے۔ گوکہ ارجنٹائن کی عدالت نے بن مانس کی 'آزادی' کے حق میں فیصلہ دیا ہے مگر چونکہ ہمارے ہاں امریکی اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے اس لیے ہم تو یہی کہیں گے بھلا ہو نیویارک کی اپیل کورٹ کے جج کا... جس نے نان ہیومن رائٹس پروجیکٹ کی اپیل کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا ورنہ ہم پاکستانی شدید ترین احساس کمتری کا شکار ہوجاتے اور پھر راجہ مہدی علی خان کی بچوں کے لیے لکھی گئی مشہور نظم ''کاش کہ ہم سب بھالو ہوتے'' کی زمین میں ذرا سی تبدیلی کرتے ہوئے ''کاش کہ ہم سب چمپینزی ہوتے'' لکھ مارتے۔ گو کہ چمپینزی اور اس کے خاندان سے کسی کو بھی تشبیہ دینا یقیناً نقص امن کا باعث بن سکتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں وہ لطیفہ یاد آرہا ہے... جب ایک شخص نے چمپینزی کہنے پر دوسرے شخص کی غصے میں ناک توڑ دی۔ مقدمہ عدالت میں پہنچا تو جج نے دریافت کیا کہ اس نے تمہیں کب چمپینزی کہا تھا؟ ''جناب، ایک سال پہلے''۔ ''اور تم نے اب گھونسہ مار کر اس کی ناک توڑی ہے؟'' جج نے حیرت سے سوال کیا۔ ''جناب عالی، میں نے کل ہی پہلی مرتبہ چمپینزی دیکھا ہے۔'' ملزم نے معصومیت سے جواب دیا۔
بہرحال اس لطیفے نے بھی ہمارے موڈ کو مکمل طور پر بحال نہیں کیا اور ابھی ہمارا احتجاج ہمارے دل ہی میں تھا اور اس نے باہر نکل کر الفاظ کا روپ نہیں دھارا تھا کہ ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ ہم نے سوچا کہ اب یہ اور اس جیسی دوسری این جی اوز جب وجود میں آ چکی ہیں تو ظاہر ہے انھیں اپنی کچھ نہ کچھ پرفارمنس تو show کرنی ہی ہے، ویسے بھی ان این جی اوز کا تعلق ترقی یافتہ ممالک سے ہے نہ کہ ہمارے ملک سے۔
اگر یہی این جی اوز ہمارے ملک میں ہمارے عوام کی ''خدمت'' کے لیے آجاتیں تو زچہ و بچہ کے مسائل، پرائمری تعلیم کے فروغ، صاف پانی کی فراہمی اور اس جیسے دوسرے مسائل کا ایک جم غفیر ان کے سامنے ہوتا اور وہ ان مسائل کے حل کی آڑ لے کر ہمارے ملک میں اپنا ''نیٹ ورک'' قائم کر لیتیں، جہاں اور کئی ریمنڈ ڈیوس کن سوئیاں لیتے پھرتے۔ چلیں چھوڑیں، یہ موضوع پھر کبھی سہی...... ابھی ہم واپس اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں۔
دراصل ہماری مقامی این جی اوز اور ان غیرملکی این جی اوز میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ ہماری این جی اوز کے سامنے عوامی مسائل کا ایک بحرِ بیکراں ہے جب کہ اس کے برعکس غیر ملکی این جی اوز کے پاس خود اپنے ملک میں کرنے کو کچھ نہیں۔ لہٰذا وہ 'بے چاری' چمپینزی اور بن مانس کو انسان قرار دلوانے، انھیں انسانی حقوق دلوانے اور آزادی جیسی نعمت سے ہمکنار کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، حالانکہ اگر وہ اپنی نظروں سے مذہبی تعصب، مفاد پرستی اور نیو ورلڈ آرڈر کا چشمہ اتار پھینکیں تو انھیںکشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے کشمیری، برسوں سے اسرائیل کی بربریت کا شکار فلسطینی، مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کے جھوٹے پروپیگنڈے سے زیر عتاب آنے والے عراقی، نائن الیون کے 'سانحے' یا 'ڈرامے' کے اسکرپٹ کے زخم خوردہ افغانی، افریقی ممالک میں بھوک سے جاں بہ لب بچے، آئی ایم ایف کے قرضوں کے سود در سود تلے دبے پاکستانی و دیگر پسماندہ ممالک کے غریب عوام حقیقی حالت میں دکھائی دینے لگیں اور پھر یہ تنظیمیں ان چمپینزیوں کے لیے ''انسانی حقوق و آزادی'' کی جدوجہد کرنے کی بجائے 'ان' کے لیے حقوق و انصاف کی جنگ لڑیں جو واقعی جیتے جاگتے 'انسان' ہیں اور ''انسانی حقوق و آزادی'' کے صحیح حقدار ہیں۔