اداس دھوبن
عالیشان عمارتیں اورمقبرے بنانے کے جنون میں عام لوگوں کو فراموش کردیاگیا۔
کیابڑے عہدے اوردرباری نوازشات کسی انسان کوبڑامقام دلاسکتی ہیں؟کیاتاریخ کے حساب میں کوئی آدمی محض اس لیے یادرکھاجاسکتاہے کہ وہ اپنے زمانے کاامیرترین یاطاقتورترین شخص تھا؟ تاریخ بے حدظالم چیزہے۔وقت کے دھارے میں کون عزت پاتاہے اورکون گمنامی ،فیصلہ خودوقت کرتاہے۔اس کی عدالت میں اپنے زماے کے جِن اور پریاں چھوٹے چھوٹے بونوں کاروپ دھارلیتے ہیں یاغائب ہوجاتے ہیں۔طالبعلم کے طورپر"تاریخ فرشتہ"زیرِمطالعہ ہے۔
برصغیرکے بادشاہوں اورشہنشاہوں کی حکومتوں کامستند ترین خلاصہ۔عجیب صورت حال ہے۔کیامسلمان اورکیا غیر مسلم بادشاہ،اکثریت کارویہ یکساں ہے۔کبھی کبھی توایسے گمان ہوتاہے، جومسندشاہی پربیٹھ گیا،وہ کسی بھی دین کا پیروکارنہیں رہا۔اس کی کُل طاقت اپنے دشمنوں کوکچلنے اور تخت کوبچانے پرصَرف ہوجاتی ہے۔درباری، اہلکار،امراء اور سرداروں کوجس بے دردی سے اپنے مخالفین کے لیے استعمال کیاجاتاتھا،اس میں کسی قسم کا استثنیٰ نہیں۔ میں تاریخ کاایک ادنیٰ ساطالبعلم ہوں۔مجھے تومحض پتہ تھاکہ اورنگ زیب عالمگیرنے اپنے والدکوپابندسلاسل کیااوربھائیوں کوقتل کروا ڈالا۔مگرصاحبان جس خطہ میں ہم لوگ سانس لے رہے ہیں،اس میں تمام بادشاہوں کارویہ حیرت انگیزحدتک ایک جیسا ہے۔
ایک فکرجومسلسل غالب رہی،یہی تھی کہ اگرخطرہ سگے بھائیوں سے ہے،توان کو موت سے دوچار کیا جائے۔ اگرکہیں خطرہ اپنے والدسے ہے،تو اسے کولہومیں پلوادیا جائے۔مجھے توکسی جگہ پربادشاہ کے دل میں رحم کاسایہ تک نظر نہیں آیا۔آپ خلجی شاہی خاندان کوملاحظہ کیجیے۔آپ تغلق بادشاہوں کودیکھیے۔جس ظالمانہ طریقے سے انھوں نے ایک دوسرے کوحوالہِ اجل کیا،اس کاتذکرہ کرنامشکل ہے۔بات قتل کرنے تک محدودنہیں رہی،لاشوں کوبھی عمومی طورپربے حرمتی کانشانہ بنایاجاتاتھا۔اس تمام تاریخ سے ایک عجیب سبق ملتاہے۔تیسری دنیاکے ممالک میں آج تک نظام شاہی بالکل وہی ہے،جوآج سے صدیوں پہلے تھا۔آج بھی مسلمان ممالک میں بادشاہ اورشہنشاہ تخت پربراجمان ہیں۔ہم مسلمان آج بھی جہالت کے سمندرمیں ڈوبے ہوئے ہیں۔اس کی کیاوجوہات ہیں؟یہ سوال انتہائی اہم اوربنیادی نوعیت کاہے۔
ذراسوچئے اگربرصغیرمیں ویسٹ منسٹرجمہوریت کی داغ بیل نہ ڈالی جاتی،اگرہمارے ساتھ برطانوی استعمارکاالمیہ نہ ہوتا،توآج بھی ہماراکیاحال ہوتا؟میں قطعی طورپرتوعرض نہیں کرسکتامگرشائدآج بھی ہم تمدن کی اسی سطح پرہوتے، جیسے ہم پرتین چار سوسال پہلے تھے۔ہوسکتاہے کہ ہم میں اکثریت کسی دربارمیں نچلی سطح کے غلام یاملازم یااہلکارہوتے۔آپ درباری رویوں کودیکھئے، شائدقتل کرنے سے توایک بارانسان اس جدوجہدزندگی سے آزادہوجاتاہے مگروسطی ایشیاء سے آئے ہوئے فاتح ہمارے خطے سے لاکھوں مرداورعورتوں کومال غنیمت کے طورپرغلام بناکرلے جاتے تھے۔تاریخ فرشتہ میں درج ہے کہ ایک باربرصغیرسے ایک یلغاری لشکری اتنی زیادہ تعدادمیں مردوزن اپنے ملک میں لے گیاکہ ان کی تعداد اُس ملک کی آبادی سے بھی زیادہ تھی۔
ایک اوراَمرجومجھے یکساں نظرآتاہے کہ برصغیرمیں لوگوں کی عمومی حالت جانوروں سے بھی بدتررہی۔عالیشان عمارتیں اورمقبرے بنانے کے جنون میں عام لوگوں کو فراموش کردیاگیا۔مجھے توایسے لگتاہے کہ کسی بھی حاکم کی بصیرت میں رعایاکی فلاح وبہبودکاکوئی تصورنہیں تھا۔اگرتھابھی توبہت سطحی درجے کامگرتلخیِ حالات یہ ہے کہ عام لوگوں کی حالت پہلے بھی ابترتھی اورآج بھی دگرگوں۔ ہمیں تاریخی حقیقت پسندی سے قصداًدوررکھا گیا ہے۔ہمیں ہرزمانے کے بادشاہوں،سلاطین اورمقتدر حاکموں کے متعلق جزوی حقائق بتائے گئے ہیں۔
اکثراوقات توسچ اورمبالغہ آرائی میں فرق کرنا ناممکن لگتا ہے۔اس درجہ کی حاشیہ آرائی کی گئی ہے،کہ لوگ جھوٹ کوسچ سمجھتے ہیں۔ انھیں تصویرکاصرف ایک رخ دکھایاگیاہے۔جن لوگوں کے لفظی بت تراش کرہمارے سامنے روشن مثالیں بناکرپیش کیے گئے ہیں،آپ اُس تناظرکے برعکس کچھ بھی نہیں لکھ سکتے۔ میں یہ عرض کروںگاکہ پوراسچ بولناہمارے خطہ میں آج بھی ناممکن ہے اورصرف پسا ہوا عام آدمی ہی ہے کہ دنیاکوروشن مثالیں دکھاتا رہتا ہے۔یہی عام سے لوگ کبھی کبھی پوری دنیاکے لیے نشانِ منزل بن جاتے ہیں۔
اٹھارہ برس پہلے امریکا کی ریاست میسیسپی (Mississippi)کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں ایک مقامی بینکر پال سخت پریشان بیٹھاتھا۔مسئلہ یہ تھاکہ ایک نوے سالہ بزرگ خاتون نے پال کواپنی تمام جمع پونجی تقسیم کرنے کاکام سپردکردیاتھا۔ معمرخاتون اس بینک کی ایک پرانی کھاتے دار تھی۔پال اس مشکل کوحل کرنے کے لیے دوتین راتوں سے مسلسل جاگ رہاتھا۔ایک دن صبح چاربجے اس نے اس خاتون کے لیے حل تلاش کرلیا۔پال نے اس بوڑھی عورت کودس سکے دیے اوراسے بتایاکہ ہرسکہ کامطلب اس کی جائیدادکادس فیصدحصہ ہے۔وہ اپنے لواحقین کانام بتاتی جائے اوروہ لکھتاجائے گا۔ پال نے پانچ کاغذکے ٹکڑے تیارکیے اوراس پران تمام لواحقین کے نام درج کیے جنکویہ بوڑھی عورت پیسے دیناچاہتی تھی۔
خاتون نے ایک سکہ چرچ کوخیرات کردیااورتین سکے اپنے عزیزوں کودیدیے۔پھراس نے ایک حیرت انگیزفیصلہ سنایا۔اس نے چھ سکے ایک ہی وقت میں مقامی یونیورسٹی کوعطیہ کردیے۔مطلب تھاکہ اس کی تمام جائیدادکاساٹھ فیصدحصہ میسیسپی یونیورسٹی کوچلاگیا۔اس عطیہ کامقصداس یونیورسٹی میں غریب سیاہ فام طلباء طالبات کی مالی امدادتھی جن کے پاس مالی وسائل نہیں تھے۔پال بینکرکے طورپرحیران رہ گیا۔سیاہ فام بزرگ عورت کانام اسیلو میکارٹی (Oseola Mccarty)تھا۔وہ ایک دھوبن تھی۔ وہ اَن پڑھ تھی۔جب یہ خبرامریکی میڈیاپرآئی توایک کہرام مچ گیا۔ لوگوں کے ذہن میں پہلاسوال یہ آیاکہ یہ سیاہ فام دھوبن کون ہے اوراس نے اپنی بچت کابیشترحصہ کس جذبہ کے تحت تعلیم کے لیے وقف کیا؟دراصل پورے امریکا میں وہ عظمت اورنیکی کانشان بن چکی تھی۔
اسیلوایک مشکل قسمت لے کرمیسیسپی کے ایک معمولی سے خاندان میں پیداہوئی تھی۔تکلیف دہ حقیقت یہ تھی کہ اس کی والدہ اپنے قصبہ سے دورایک رشتہ دارکی عیادت کرکے واپس آرہی تھی۔ ایک جرائم پیشہ شخص نے اس سے زبردستی کی۔سیاہ فام عورتوں کی کوئی شنوائی نہیں تھی۔یہ1908ء کاامریکا تھا۔ اس جبر کی بدولت اسیلوپیداہوئی۔اس کی ماں اس تلخ حقیقت کاسامنانہ کرسکی اوربہت جلددنیاسے رخصت ہوگئی۔یہ چھوٹی سی بچی جسکواپنے والدکاکچھ پتہ نہیں تھا، اپنی ایک رشتہ کی خالہ کے گھرچلی گئی۔اس وقت وہ اسکول میں چھٹی کلاس میں زیرتعلیم تھی۔اپنی جس خالہ کے پاس گئی تھی،وہ ایک بیمارہوگئی۔اس معصوم بچی نے ایک بہت مشکل فیصلہ کیا۔اس نے اسکول جانا ترک کردیا۔وہ ہروقت اپنی معذورخالہ کی خدمت کرتی رہتی تھی۔ اس نے دوسرامشکل فیصلہ کیااورسات سال کی عمرمیں لوگوں کے کپڑے دھونے شروع کردیے۔وہ اپنے قصبہ کی سب سے محنتی دھوبن بنناچاہتی تھی۔ہرصبح چاربجے اٹھتی تھی۔ وہ صبح سے رات تک کام کرتی رہتی تھی۔رات کووہ خشک کپڑوں کواستری کرناشروع کر دیتی۔ دراصل اسیلوکواپنے کام سے عشق تھا۔وہ دنیاکی ہردوڑمیں ناکام ہوچکی تھی۔مگرمحنت کے میدان میں وہ کامیاب قرارپائی تھی۔آپ کپڑوں کی دھلائی سے اس عورت کاعشق ملاحظہ فرمائیے کہ کئی مرتبہ وہ دوتین دن تک مسلسل جاگتی رہتی تھی اورکام کرتی رہتی تھی۔اس وقت وہ صرف آٹھ برس کی تھی۔
وقت گزرتاتھا۔اسیلونے مقامی بینک میں اپنی بچت کے پیسے جمع کرانے شروع کردیے۔جب وہ چاربرس کی تھی تو اپنی گڑیامیں پیسے رکھ دیتی تھی۔بچپن سے اسکوبچت کاشوق تھا۔اس نے اپنی ذاتی ضروریات غیرمعمولی حدتک کم کرلیں تھیں۔اس کے ذہن میں اب صرف لوگوں کی خدمت کاایک اَن تھک جذبہ تھا۔اس نے گاڑی کے پیسے ہونے کے باوجود پوری زندگی کارنہیں خریدی۔وہ اخبارنہیں خریدتی تھی، کیونکہ اس کے خیال میں یہ فضول خرچی تھی۔اس نے رنگین ٹی وی خریدنے سے بھی انکارکردیاتھا۔وہ مرتے دم تک پچاس سال پرانے بلیک اینڈوائٹ ٹی وی کے چندمخصوص پروگرام دیکھتی رہی۔اس نے پوری عمرشادی نہیں کی۔
اسیلوکواپنے اَن پڑھ ہونے کاشدیدغم تھا۔وہ ہروقت اداس رہتی تھی۔1993ء میں اسے مجبوراًریٹائرہوناپڑاکیونکہ اسے گھنٹیے کامرض لاحق ہوچکاتھا۔اس کے جسم کے تمام جوڑکام کی زیادتی سے ختم ہوچکے تھے۔بینک میں اس کی تمام عمرکی جمع پونجی ڈھائی لاکھ ڈالرتھے۔اس نے محنتِ شاقہ سے کمائے ہوئے پیسوں میں سے ڈیڑھ لاکھ ڈالرمقامی یونیورسٹی میں سیاہ فام بچوں کے لیے وقف کردیے۔جب یہ خبرامریکی میڈیا نے نشرکی توسارے ملک میں اس کاچرچا ہوگیا۔
ٹیڈٹرنر (Ted Turner)نے ایک بلین ڈالر(ایک سوارب پاکستانی روپیہ) تعلیم کے لیے وقف کرنے کااعلان کردیا۔اور کہا جب اسیلو اپنی زندگی بھر کی محنت سے کمائی ولت غریب بچوں کے لیے وقف کرسکتی ہے تووہ کیوں نہیں کرسکتا۔ امریکی صدرنے اسیلوکو وائٹ ہاؤس میں مدعوکیااوراسکوامریکا کے سب سے بڑے اعزازسے نوازا۔اسیلوکے طرزِعمل کودیکھتے ہوئے ہزاروں امریکی لوگوں نے میسیسپی یونیورسٹی کوتعلیم کے لیے پیسے عطیہ کرنے شروع کردیے۔اسیلوپوری دنیاکے لیے بے غرضی کی مثال بن چکی تھی۔اس اَن پڑھ دھوبن کوہارورڈیونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطاکردی۔اس نے اپنی محرومیوں کولوگوں کے لیے سہولت میں بدل دیا۔
میرے ذہن میں بڑے انسانوں کاکوئی مخصوص خاکہ نہیں ہے۔ مجھے ایسے لگتاہے کہ دراصل ہرانسان اپنے کام اورصرف کام سے عظمت کی دہلیزپرقدم رکھتاہے۔کوئی عہدہ یاکوئی بادشاہت کسی انسان کوکردارکے لحاظ سے عظیم لوگوں کی صف میں شامل نہیں کراسکتا۔ کئی بارتوبڑے رتبہ پرپہنچ کرانسانوں کے چھوٹے ہونے کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ میری سوچ میں بڑے انسانوں کی فہرست میں یہ اداس دھوبن ضرورشامل ہے جس نے اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت اپنی زندگی میں ایک عظیم مقصدکے لیے صَرف کردی۔اُس نے اپنے ساتھ جڑی ہوئی تلخیوں کولوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کاذریعہ بنادیامگرسوچنے کی بات ہے کہ ہمارے اردگردکتنے لوگ اتنی بڑی قربانی دے سکتے ہیں؟کم یاشائدبہت کم مگرحقیقت میں بڑے انسان بھی توآٹے میں نمک کے برابرہی ہوتے ہیں۔
برصغیرکے بادشاہوں اورشہنشاہوں کی حکومتوں کامستند ترین خلاصہ۔عجیب صورت حال ہے۔کیامسلمان اورکیا غیر مسلم بادشاہ،اکثریت کارویہ یکساں ہے۔کبھی کبھی توایسے گمان ہوتاہے، جومسندشاہی پربیٹھ گیا،وہ کسی بھی دین کا پیروکارنہیں رہا۔اس کی کُل طاقت اپنے دشمنوں کوکچلنے اور تخت کوبچانے پرصَرف ہوجاتی ہے۔درباری، اہلکار،امراء اور سرداروں کوجس بے دردی سے اپنے مخالفین کے لیے استعمال کیاجاتاتھا،اس میں کسی قسم کا استثنیٰ نہیں۔ میں تاریخ کاایک ادنیٰ ساطالبعلم ہوں۔مجھے تومحض پتہ تھاکہ اورنگ زیب عالمگیرنے اپنے والدکوپابندسلاسل کیااوربھائیوں کوقتل کروا ڈالا۔مگرصاحبان جس خطہ میں ہم لوگ سانس لے رہے ہیں،اس میں تمام بادشاہوں کارویہ حیرت انگیزحدتک ایک جیسا ہے۔
ایک فکرجومسلسل غالب رہی،یہی تھی کہ اگرخطرہ سگے بھائیوں سے ہے،توان کو موت سے دوچار کیا جائے۔ اگرکہیں خطرہ اپنے والدسے ہے،تو اسے کولہومیں پلوادیا جائے۔مجھے توکسی جگہ پربادشاہ کے دل میں رحم کاسایہ تک نظر نہیں آیا۔آپ خلجی شاہی خاندان کوملاحظہ کیجیے۔آپ تغلق بادشاہوں کودیکھیے۔جس ظالمانہ طریقے سے انھوں نے ایک دوسرے کوحوالہِ اجل کیا،اس کاتذکرہ کرنامشکل ہے۔بات قتل کرنے تک محدودنہیں رہی،لاشوں کوبھی عمومی طورپربے حرمتی کانشانہ بنایاجاتاتھا۔اس تمام تاریخ سے ایک عجیب سبق ملتاہے۔تیسری دنیاکے ممالک میں آج تک نظام شاہی بالکل وہی ہے،جوآج سے صدیوں پہلے تھا۔آج بھی مسلمان ممالک میں بادشاہ اورشہنشاہ تخت پربراجمان ہیں۔ہم مسلمان آج بھی جہالت کے سمندرمیں ڈوبے ہوئے ہیں۔اس کی کیاوجوہات ہیں؟یہ سوال انتہائی اہم اوربنیادی نوعیت کاہے۔
ذراسوچئے اگربرصغیرمیں ویسٹ منسٹرجمہوریت کی داغ بیل نہ ڈالی جاتی،اگرہمارے ساتھ برطانوی استعمارکاالمیہ نہ ہوتا،توآج بھی ہماراکیاحال ہوتا؟میں قطعی طورپرتوعرض نہیں کرسکتامگرشائدآج بھی ہم تمدن کی اسی سطح پرہوتے، جیسے ہم پرتین چار سوسال پہلے تھے۔ہوسکتاہے کہ ہم میں اکثریت کسی دربارمیں نچلی سطح کے غلام یاملازم یااہلکارہوتے۔آپ درباری رویوں کودیکھئے، شائدقتل کرنے سے توایک بارانسان اس جدوجہدزندگی سے آزادہوجاتاہے مگروسطی ایشیاء سے آئے ہوئے فاتح ہمارے خطے سے لاکھوں مرداورعورتوں کومال غنیمت کے طورپرغلام بناکرلے جاتے تھے۔تاریخ فرشتہ میں درج ہے کہ ایک باربرصغیرسے ایک یلغاری لشکری اتنی زیادہ تعدادمیں مردوزن اپنے ملک میں لے گیاکہ ان کی تعداد اُس ملک کی آبادی سے بھی زیادہ تھی۔
ایک اوراَمرجومجھے یکساں نظرآتاہے کہ برصغیرمیں لوگوں کی عمومی حالت جانوروں سے بھی بدتررہی۔عالیشان عمارتیں اورمقبرے بنانے کے جنون میں عام لوگوں کو فراموش کردیاگیا۔مجھے توایسے لگتاہے کہ کسی بھی حاکم کی بصیرت میں رعایاکی فلاح وبہبودکاکوئی تصورنہیں تھا۔اگرتھابھی توبہت سطحی درجے کامگرتلخیِ حالات یہ ہے کہ عام لوگوں کی حالت پہلے بھی ابترتھی اورآج بھی دگرگوں۔ ہمیں تاریخی حقیقت پسندی سے قصداًدوررکھا گیا ہے۔ہمیں ہرزمانے کے بادشاہوں،سلاطین اورمقتدر حاکموں کے متعلق جزوی حقائق بتائے گئے ہیں۔
اکثراوقات توسچ اورمبالغہ آرائی میں فرق کرنا ناممکن لگتا ہے۔اس درجہ کی حاشیہ آرائی کی گئی ہے،کہ لوگ جھوٹ کوسچ سمجھتے ہیں۔ انھیں تصویرکاصرف ایک رخ دکھایاگیاہے۔جن لوگوں کے لفظی بت تراش کرہمارے سامنے روشن مثالیں بناکرپیش کیے گئے ہیں،آپ اُس تناظرکے برعکس کچھ بھی نہیں لکھ سکتے۔ میں یہ عرض کروںگاکہ پوراسچ بولناہمارے خطہ میں آج بھی ناممکن ہے اورصرف پسا ہوا عام آدمی ہی ہے کہ دنیاکوروشن مثالیں دکھاتا رہتا ہے۔یہی عام سے لوگ کبھی کبھی پوری دنیاکے لیے نشانِ منزل بن جاتے ہیں۔
اٹھارہ برس پہلے امریکا کی ریاست میسیسپی (Mississippi)کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں ایک مقامی بینکر پال سخت پریشان بیٹھاتھا۔مسئلہ یہ تھاکہ ایک نوے سالہ بزرگ خاتون نے پال کواپنی تمام جمع پونجی تقسیم کرنے کاکام سپردکردیاتھا۔ معمرخاتون اس بینک کی ایک پرانی کھاتے دار تھی۔پال اس مشکل کوحل کرنے کے لیے دوتین راتوں سے مسلسل جاگ رہاتھا۔ایک دن صبح چاربجے اس نے اس خاتون کے لیے حل تلاش کرلیا۔پال نے اس بوڑھی عورت کودس سکے دیے اوراسے بتایاکہ ہرسکہ کامطلب اس کی جائیدادکادس فیصدحصہ ہے۔وہ اپنے لواحقین کانام بتاتی جائے اوروہ لکھتاجائے گا۔ پال نے پانچ کاغذکے ٹکڑے تیارکیے اوراس پران تمام لواحقین کے نام درج کیے جنکویہ بوڑھی عورت پیسے دیناچاہتی تھی۔
خاتون نے ایک سکہ چرچ کوخیرات کردیااورتین سکے اپنے عزیزوں کودیدیے۔پھراس نے ایک حیرت انگیزفیصلہ سنایا۔اس نے چھ سکے ایک ہی وقت میں مقامی یونیورسٹی کوعطیہ کردیے۔مطلب تھاکہ اس کی تمام جائیدادکاساٹھ فیصدحصہ میسیسپی یونیورسٹی کوچلاگیا۔اس عطیہ کامقصداس یونیورسٹی میں غریب سیاہ فام طلباء طالبات کی مالی امدادتھی جن کے پاس مالی وسائل نہیں تھے۔پال بینکرکے طورپرحیران رہ گیا۔سیاہ فام بزرگ عورت کانام اسیلو میکارٹی (Oseola Mccarty)تھا۔وہ ایک دھوبن تھی۔ وہ اَن پڑھ تھی۔جب یہ خبرامریکی میڈیاپرآئی توایک کہرام مچ گیا۔ لوگوں کے ذہن میں پہلاسوال یہ آیاکہ یہ سیاہ فام دھوبن کون ہے اوراس نے اپنی بچت کابیشترحصہ کس جذبہ کے تحت تعلیم کے لیے وقف کیا؟دراصل پورے امریکا میں وہ عظمت اورنیکی کانشان بن چکی تھی۔
اسیلوایک مشکل قسمت لے کرمیسیسپی کے ایک معمولی سے خاندان میں پیداہوئی تھی۔تکلیف دہ حقیقت یہ تھی کہ اس کی والدہ اپنے قصبہ سے دورایک رشتہ دارکی عیادت کرکے واپس آرہی تھی۔ ایک جرائم پیشہ شخص نے اس سے زبردستی کی۔سیاہ فام عورتوں کی کوئی شنوائی نہیں تھی۔یہ1908ء کاامریکا تھا۔ اس جبر کی بدولت اسیلوپیداہوئی۔اس کی ماں اس تلخ حقیقت کاسامنانہ کرسکی اوربہت جلددنیاسے رخصت ہوگئی۔یہ چھوٹی سی بچی جسکواپنے والدکاکچھ پتہ نہیں تھا، اپنی ایک رشتہ کی خالہ کے گھرچلی گئی۔اس وقت وہ اسکول میں چھٹی کلاس میں زیرتعلیم تھی۔اپنی جس خالہ کے پاس گئی تھی،وہ ایک بیمارہوگئی۔اس معصوم بچی نے ایک بہت مشکل فیصلہ کیا۔اس نے اسکول جانا ترک کردیا۔وہ ہروقت اپنی معذورخالہ کی خدمت کرتی رہتی تھی۔ اس نے دوسرامشکل فیصلہ کیااورسات سال کی عمرمیں لوگوں کے کپڑے دھونے شروع کردیے۔وہ اپنے قصبہ کی سب سے محنتی دھوبن بنناچاہتی تھی۔ہرصبح چاربجے اٹھتی تھی۔ وہ صبح سے رات تک کام کرتی رہتی تھی۔رات کووہ خشک کپڑوں کواستری کرناشروع کر دیتی۔ دراصل اسیلوکواپنے کام سے عشق تھا۔وہ دنیاکی ہردوڑمیں ناکام ہوچکی تھی۔مگرمحنت کے میدان میں وہ کامیاب قرارپائی تھی۔آپ کپڑوں کی دھلائی سے اس عورت کاعشق ملاحظہ فرمائیے کہ کئی مرتبہ وہ دوتین دن تک مسلسل جاگتی رہتی تھی اورکام کرتی رہتی تھی۔اس وقت وہ صرف آٹھ برس کی تھی۔
وقت گزرتاتھا۔اسیلونے مقامی بینک میں اپنی بچت کے پیسے جمع کرانے شروع کردیے۔جب وہ چاربرس کی تھی تو اپنی گڑیامیں پیسے رکھ دیتی تھی۔بچپن سے اسکوبچت کاشوق تھا۔اس نے اپنی ذاتی ضروریات غیرمعمولی حدتک کم کرلیں تھیں۔اس کے ذہن میں اب صرف لوگوں کی خدمت کاایک اَن تھک جذبہ تھا۔اس نے گاڑی کے پیسے ہونے کے باوجود پوری زندگی کارنہیں خریدی۔وہ اخبارنہیں خریدتی تھی، کیونکہ اس کے خیال میں یہ فضول خرچی تھی۔اس نے رنگین ٹی وی خریدنے سے بھی انکارکردیاتھا۔وہ مرتے دم تک پچاس سال پرانے بلیک اینڈوائٹ ٹی وی کے چندمخصوص پروگرام دیکھتی رہی۔اس نے پوری عمرشادی نہیں کی۔
اسیلوکواپنے اَن پڑھ ہونے کاشدیدغم تھا۔وہ ہروقت اداس رہتی تھی۔1993ء میں اسے مجبوراًریٹائرہوناپڑاکیونکہ اسے گھنٹیے کامرض لاحق ہوچکاتھا۔اس کے جسم کے تمام جوڑکام کی زیادتی سے ختم ہوچکے تھے۔بینک میں اس کی تمام عمرکی جمع پونجی ڈھائی لاکھ ڈالرتھے۔اس نے محنتِ شاقہ سے کمائے ہوئے پیسوں میں سے ڈیڑھ لاکھ ڈالرمقامی یونیورسٹی میں سیاہ فام بچوں کے لیے وقف کردیے۔جب یہ خبرامریکی میڈیا نے نشرکی توسارے ملک میں اس کاچرچا ہوگیا۔
ٹیڈٹرنر (Ted Turner)نے ایک بلین ڈالر(ایک سوارب پاکستانی روپیہ) تعلیم کے لیے وقف کرنے کااعلان کردیا۔اور کہا جب اسیلو اپنی زندگی بھر کی محنت سے کمائی ولت غریب بچوں کے لیے وقف کرسکتی ہے تووہ کیوں نہیں کرسکتا۔ امریکی صدرنے اسیلوکو وائٹ ہاؤس میں مدعوکیااوراسکوامریکا کے سب سے بڑے اعزازسے نوازا۔اسیلوکے طرزِعمل کودیکھتے ہوئے ہزاروں امریکی لوگوں نے میسیسپی یونیورسٹی کوتعلیم کے لیے پیسے عطیہ کرنے شروع کردیے۔اسیلوپوری دنیاکے لیے بے غرضی کی مثال بن چکی تھی۔اس اَن پڑھ دھوبن کوہارورڈیونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطاکردی۔اس نے اپنی محرومیوں کولوگوں کے لیے سہولت میں بدل دیا۔
میرے ذہن میں بڑے انسانوں کاکوئی مخصوص خاکہ نہیں ہے۔ مجھے ایسے لگتاہے کہ دراصل ہرانسان اپنے کام اورصرف کام سے عظمت کی دہلیزپرقدم رکھتاہے۔کوئی عہدہ یاکوئی بادشاہت کسی انسان کوکردارکے لحاظ سے عظیم لوگوں کی صف میں شامل نہیں کراسکتا۔ کئی بارتوبڑے رتبہ پرپہنچ کرانسانوں کے چھوٹے ہونے کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ میری سوچ میں بڑے انسانوں کی فہرست میں یہ اداس دھوبن ضرورشامل ہے جس نے اپنی محنت سے کمائی ہوئی دولت اپنی زندگی میں ایک عظیم مقصدکے لیے صَرف کردی۔اُس نے اپنے ساتھ جڑی ہوئی تلخیوں کولوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کاذریعہ بنادیامگرسوچنے کی بات ہے کہ ہمارے اردگردکتنے لوگ اتنی بڑی قربانی دے سکتے ہیں؟کم یاشائدبہت کم مگرحقیقت میں بڑے انسان بھی توآٹے میں نمک کے برابرہی ہوتے ہیں۔