امریکا اور دہشتگردوں پر غم و غصے کا اظہار
سچ تو یہ ہے کہ زندگی میں کچھ بھی مزا باقی نہیں رہا ہے، منی بے چاری تو بدنام ہو کر جنڈو بام کی ہو گئی۔
سچ تو یہ ہے کہ زندگی میں کچھ بھی مزا باقی نہیں رہا ہے، منی بے چاری تو بدنام ہو کر جنڈو بام کی ہو گئی، شیلا جوان ہو کر گھر بیٹھ گئی اور رضیہ کو تو کم بخت غنڈوں نے گھیرا ہوا ہے ایک انارکلی سے گلی میں کچھ رونق تھی وہ بھی ڈسکو چلی گئی، انجلینا جولی پر بھی کم بخت براڈ پٹ نے قبضہ کر لیا، کنڈو لیزا رائس پہلے ہی نہ جانے کس ''بش'' کی بٹیر'' ہو چکی ہے، راکھی ساونت کے پاس جو کچھ تھا وہ لٹا چکی ہے، لے دے کر ایک بے چاری میرا ہے لیکن اس کا بھی کوئی پتہ نہیں ہے کٹی پتنگ کی طرح ڈول رہی ہے۔
اور تو اور ہمارے پاس جو اپنا مال و متاع علامہ بریانی عرف برڈ فلو کی صورت میں اور چشم گل چشم عرف ڈینگی بخار کی شکل میں تھا وہ بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے کیونکہ علامہ کے چورن ''فنڈ ہضم بجٹ ہضم'' کا بیڑا ان سرکاری اداروں نے غرق کیا جو فنڈز، بجٹ، بلڈنگ، سڑک، وغیرہ کے ساتھ ہی ہاضمے کی پڑیا بھی پکڑا دیتے ہیں اور تعویزات و عملیات کا دھندہ تو اس وجہ سے مندا ہو گیا ہے، تعویزات لکھنے کا خام مٹیریل یعنی قبروں کے بچھو اور گرگٹ بھی مفقود ہو گئے ہیں چنانچہ آج کل ہم یوسف بے کارواں ہو کر
سرِ کوئے ناشنایاں ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا
کی حالت میں ہیں' ایسے میں سوائے کہانیاں سنانے کے اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے لیکن کہانیاں بھی تقریباً سب کی سب ہم سنا چکے ہیں چنانچہ ویسے ہی یہاں وہاں بھٹک رہے ہیں، اس مایوسی کے عالم میں شاید خدا نے ہماری سن لی تھی کہ ہم نے ایک بہت بڑا اجتماع دیکھا، اس جگہ کا نام تو ہم بتا نہیں پائیں گے کیوں کہ ہم پر پہلے ہی اتنے ''ٹھپے'' لگ چکے ہیں کہ اب کسی نئے ٹھپے کے لیے جگہ ہی نہیں بچی ہے، کافر زندیق، کمیونسٹ، دہریہ، مرتد، گمراہ، شیطان، شر پسند وغیرہ کے ایوارڈ ہمارے پاس اتنے زیادہ جمع ہو گئے ہیں کہ اگر آئندہ کبھی کسی نئے قدر دان نے کوئی نیا اعزاز دینا چاہا تو ہم اس سے فرمائش کریں گے کہ ایوارڈ کی جگہ کوئی بڑا سا شوکیس ہمیں دے دے تا کہ ہم اپنے اس قیمتی متاع کو اس میں سنبھال کر رکھ لیں ورنہ بہت سارے دوسرے ایوارڈز اور تمغہ جات کی طرح یہ بھی کسی بچے کے ہاتھ لگ کر کباڑی کی دکان میں پہنچ جائیں گے، دامان نگہہ تنگ و گل حسن تو بسیار،
اب اگر اس مقام کا نام بھی ہم نے بتا دیا جہاں اجتماع تھا تو شاید اس مرتبہ کسی ایوارڈ یا تمغے کی جگہ کوئی بلٹ نہ مل جائے کیونکہ آج کل یہ ہی زیادہ دستیاب ہیں، اجتماع میں شرکاء کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر ہمیں حیرت اس لیے بھی ہو رہی تھی کہ یہ سارے پردیسی تھے کیوں کہ قرب و جوار میں کوئی آبادی ہی نہیں اور یہ لوگ تو آپ جانتے ہیں کہ آبادیوں میں ہی ملتے ہیں۔خیر چھوڑیئے اس جگہ کی بات کر رہے ہیں جہاں قرب و جوار میں کوئی آبادی نہیں تھی لیکن چند دور دور سے بھانت بھانت کے افراد وہاں جمع ہو گئے نہ صرف جمع ہو گئے بلکہ ان کے اندر کچھ ہل چل بھی ہو رہی تھی لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم ٹھیک ٹھیک نہیں بتا سکتے کہ کیا کر رہے تھے اور ان کے درمیان زیر بحث یا زیر غپ غپ کا موضوع کیا تھا سارے کے سارے شاید قرب و جوار بلکہ دور دراز کی آبادیوں سے آئے تھے۔
کچھ لوگ خواہ مخواہ نوالوں کے لیے ''منہ'' پالتے ہی رہتے ہیں کسی ضرورت کے بغیر بھی ...یاد آیا ایک مرتبہ چشم گل چشم کے بڑے بیٹے غضب خان نے جب ایک شرارت کی تو اس کی ماں نے اسے بہت ڈانٹا تھا کہ تمہارا باپ کیا کم ہے جو تم بھی ایسا کر رہے ہو، خیر تو بات اجتماع کی ہو رہی تھی۔ جتنے جتنے ہم اس اجتماع کے قریب ہوتے گئے ہم نے وہاں کا منظر دیکھا تو لگا 'ایسے مناظر ہم نے بھی بہت دیکھے ہیں، بچشم خود تو ہم نے دیکھا نہیں لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں بھی اکثر ایسے مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ لینا پکڑنا دوڑنا نہ چھوڑنا اور اگر کچھ خاص ملے تو دور لے اڑنا، اچانک سوچتے سوچتے ہم پر ساری صورت حال واضح ہوئی ایک روز پہلے بھی ایک بہت بڑی تقریب ہوئی تھی جس کی سن گن ہمیں بھی ملی تھی بلکہ ایک طرح سے بے قاعدہ دعوت بھی ملی تھی کہ اگر دہشتگردی یا امن یا امریکا کو برا بھلا کہنے کے لیے تمہارے پاس کچھ ہو تو بے شک تم بھی آ جاؤ، ایسا نہیں کہ دہشت گردی اور امن کے موضوع پر ہم کچھ بولنے سے قاصر تھے آج کل ایسا مال مصالحہ عام دستیاب ہے۔
کسی بھی اخبار یا چینل سے بہت کچھ مفت میں مل جاتا ہے اور یہ تو ایسے موضوعات ہیں جن پر کوئی پیدائشی گونگا بھی گھنٹوں بول سکتا ہے لیکن برا ہو ہماری یادداشت کا کہ ہم تقریب کا دن اور وقت بھول گئے اور ہماری اس یادداشت کی کم زوری میں سب سے زیادہ ہاتھ اس ''لاعلمی'' کا تھا جو تقریب میں ''کلو و اشربو'' کے بارے میں تھی وہ تو بعد میں وہاں سے لوٹ کر آنے والوں سے پتہ چلا کہ وہاں باتوں سے زیادہ ''شاتیں'' بھی کافی کثرت سے تھیں، جو لمبی لمبی میزوں پر چمک دار برتنوں کے اندر بھری ہوئی تھیں اور اب ساری بات ہم پر روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی تھی۔گزشتہ روز اندر امریکا اور دہشتگردوں کے خلاف جو معرکہ ہوا تھا یہ سب اس کی ''باقیات'' کو حصہ بقدر جثہ بلکہ بقدر قوت وصول کر رہے تھے۔
ایک نہایت ہی قد آور بلکہ ممتاز قسم کے صاحب کو ہم نے دیکھا کہ کوئی چیز اٹھا کر جا رہے ہیں'شاید کسی محفوظ مقام کی تلاش میں، باقی تو سب کچھ ہماری سمجھ میں آ گیا تھا لیکن یہ بات ابھی تک سمجھ سے باہر ہے کہ یہ جو جانور اس معرکے میں کام آئے ان کا امریکا یا دہشت گردوں سے کیا تعلق رہا ہو گا کچھ تو یقیناً ہو گا کیوں کہ وہ لوگ امریکا اور دہشتگردوں پر غصہ نکالنے آئے تھے تو جن جن کا تعلق دہشت گردوں اور امریکا سے تھا یا ان پر شک کیا جا سکتا تھا ان کا یہ حشر نشر تو یقیناً ہونا تھا، آخر غصہ نکالنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو ہاتھ لگ ہی گیا تھا ۔ امریکا اور دہشتگردوں پر غصے کا اظہار کسی نہ کسی طرح تو ہو ہی گیا۔
اور تو اور ہمارے پاس جو اپنا مال و متاع علامہ بریانی عرف برڈ فلو کی صورت میں اور چشم گل چشم عرف ڈینگی بخار کی شکل میں تھا وہ بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے کیونکہ علامہ کے چورن ''فنڈ ہضم بجٹ ہضم'' کا بیڑا ان سرکاری اداروں نے غرق کیا جو فنڈز، بجٹ، بلڈنگ، سڑک، وغیرہ کے ساتھ ہی ہاضمے کی پڑیا بھی پکڑا دیتے ہیں اور تعویزات و عملیات کا دھندہ تو اس وجہ سے مندا ہو گیا ہے، تعویزات لکھنے کا خام مٹیریل یعنی قبروں کے بچھو اور گرگٹ بھی مفقود ہو گئے ہیں چنانچہ آج کل ہم یوسف بے کارواں ہو کر
سرِ کوئے ناشنایاں ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا
کی حالت میں ہیں' ایسے میں سوائے کہانیاں سنانے کے اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے لیکن کہانیاں بھی تقریباً سب کی سب ہم سنا چکے ہیں چنانچہ ویسے ہی یہاں وہاں بھٹک رہے ہیں، اس مایوسی کے عالم میں شاید خدا نے ہماری سن لی تھی کہ ہم نے ایک بہت بڑا اجتماع دیکھا، اس جگہ کا نام تو ہم بتا نہیں پائیں گے کیوں کہ ہم پر پہلے ہی اتنے ''ٹھپے'' لگ چکے ہیں کہ اب کسی نئے ٹھپے کے لیے جگہ ہی نہیں بچی ہے، کافر زندیق، کمیونسٹ، دہریہ، مرتد، گمراہ، شیطان، شر پسند وغیرہ کے ایوارڈ ہمارے پاس اتنے زیادہ جمع ہو گئے ہیں کہ اگر آئندہ کبھی کسی نئے قدر دان نے کوئی نیا اعزاز دینا چاہا تو ہم اس سے فرمائش کریں گے کہ ایوارڈ کی جگہ کوئی بڑا سا شوکیس ہمیں دے دے تا کہ ہم اپنے اس قیمتی متاع کو اس میں سنبھال کر رکھ لیں ورنہ بہت سارے دوسرے ایوارڈز اور تمغہ جات کی طرح یہ بھی کسی بچے کے ہاتھ لگ کر کباڑی کی دکان میں پہنچ جائیں گے، دامان نگہہ تنگ و گل حسن تو بسیار،
اب اگر اس مقام کا نام بھی ہم نے بتا دیا جہاں اجتماع تھا تو شاید اس مرتبہ کسی ایوارڈ یا تمغے کی جگہ کوئی بلٹ نہ مل جائے کیونکہ آج کل یہ ہی زیادہ دستیاب ہیں، اجتماع میں شرکاء کی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ کر ہمیں حیرت اس لیے بھی ہو رہی تھی کہ یہ سارے پردیسی تھے کیوں کہ قرب و جوار میں کوئی آبادی ہی نہیں اور یہ لوگ تو آپ جانتے ہیں کہ آبادیوں میں ہی ملتے ہیں۔خیر چھوڑیئے اس جگہ کی بات کر رہے ہیں جہاں قرب و جوار میں کوئی آبادی نہیں تھی لیکن چند دور دور سے بھانت بھانت کے افراد وہاں جمع ہو گئے نہ صرف جمع ہو گئے بلکہ ان کے اندر کچھ ہل چل بھی ہو رہی تھی لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم ٹھیک ٹھیک نہیں بتا سکتے کہ کیا کر رہے تھے اور ان کے درمیان زیر بحث یا زیر غپ غپ کا موضوع کیا تھا سارے کے سارے شاید قرب و جوار بلکہ دور دراز کی آبادیوں سے آئے تھے۔
کچھ لوگ خواہ مخواہ نوالوں کے لیے ''منہ'' پالتے ہی رہتے ہیں کسی ضرورت کے بغیر بھی ...یاد آیا ایک مرتبہ چشم گل چشم کے بڑے بیٹے غضب خان نے جب ایک شرارت کی تو اس کی ماں نے اسے بہت ڈانٹا تھا کہ تمہارا باپ کیا کم ہے جو تم بھی ایسا کر رہے ہو، خیر تو بات اجتماع کی ہو رہی تھی۔ جتنے جتنے ہم اس اجتماع کے قریب ہوتے گئے ہم نے وہاں کا منظر دیکھا تو لگا 'ایسے مناظر ہم نے بھی بہت دیکھے ہیں، بچشم خود تو ہم نے دیکھا نہیں لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں بھی اکثر ایسے مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ لینا پکڑنا دوڑنا نہ چھوڑنا اور اگر کچھ خاص ملے تو دور لے اڑنا، اچانک سوچتے سوچتے ہم پر ساری صورت حال واضح ہوئی ایک روز پہلے بھی ایک بہت بڑی تقریب ہوئی تھی جس کی سن گن ہمیں بھی ملی تھی بلکہ ایک طرح سے بے قاعدہ دعوت بھی ملی تھی کہ اگر دہشتگردی یا امن یا امریکا کو برا بھلا کہنے کے لیے تمہارے پاس کچھ ہو تو بے شک تم بھی آ جاؤ، ایسا نہیں کہ دہشت گردی اور امن کے موضوع پر ہم کچھ بولنے سے قاصر تھے آج کل ایسا مال مصالحہ عام دستیاب ہے۔
کسی بھی اخبار یا چینل سے بہت کچھ مفت میں مل جاتا ہے اور یہ تو ایسے موضوعات ہیں جن پر کوئی پیدائشی گونگا بھی گھنٹوں بول سکتا ہے لیکن برا ہو ہماری یادداشت کا کہ ہم تقریب کا دن اور وقت بھول گئے اور ہماری اس یادداشت کی کم زوری میں سب سے زیادہ ہاتھ اس ''لاعلمی'' کا تھا جو تقریب میں ''کلو و اشربو'' کے بارے میں تھی وہ تو بعد میں وہاں سے لوٹ کر آنے والوں سے پتہ چلا کہ وہاں باتوں سے زیادہ ''شاتیں'' بھی کافی کثرت سے تھیں، جو لمبی لمبی میزوں پر چمک دار برتنوں کے اندر بھری ہوئی تھیں اور اب ساری بات ہم پر روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی تھی۔گزشتہ روز اندر امریکا اور دہشتگردوں کے خلاف جو معرکہ ہوا تھا یہ سب اس کی ''باقیات'' کو حصہ بقدر جثہ بلکہ بقدر قوت وصول کر رہے تھے۔
ایک نہایت ہی قد آور بلکہ ممتاز قسم کے صاحب کو ہم نے دیکھا کہ کوئی چیز اٹھا کر جا رہے ہیں'شاید کسی محفوظ مقام کی تلاش میں، باقی تو سب کچھ ہماری سمجھ میں آ گیا تھا لیکن یہ بات ابھی تک سمجھ سے باہر ہے کہ یہ جو جانور اس معرکے میں کام آئے ان کا امریکا یا دہشت گردوں سے کیا تعلق رہا ہو گا کچھ تو یقیناً ہو گا کیوں کہ وہ لوگ امریکا اور دہشتگردوں پر غصہ نکالنے آئے تھے تو جن جن کا تعلق دہشت گردوں اور امریکا سے تھا یا ان پر شک کیا جا سکتا تھا ان کا یہ حشر نشر تو یقیناً ہونا تھا، آخر غصہ نکالنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو ہاتھ لگ ہی گیا تھا ۔ امریکا اور دہشتگردوں پر غصے کا اظہار کسی نہ کسی طرح تو ہو ہی گیا۔