سروں میں ڈوبا سجاد علی

یار! تمہارا یہ بیٹا تو پیدائشی آرٹسٹ ہے اور یہ بڑا ہوکر منجھے ہوئے پختہ عمر گلوکاروں کے بھی چھکے چھڑا دے گا۔

hamdam.younus@gmail.com

اچھی آواز بھی قدرت کا ایک تحفہ ہوتا ہے، جو کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے گلوکار سجاد علی بھی ایک ایسا ہی خوش نصیب شخص ہے جسے ایک جادو بھری آواز میسر آئی ہے۔ آج موسیقی کی دنیا میں اس کا بڑا نام ہے، اس کی مدھر آواز کے چرچے نہ صرف سارے پاکستان بلکہ انڈیا میں بھی ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سجاد علی بہت چھوٹا تھا اور اس کے والد شفقت علی سے میری دوستی تھی، شفقت خود تو اداکاری سے دلچسپی رکھتا تھا مگر اس کے بچوں میں موسیقی فروغ پا رہی تھی اور خاص طور پر ایک بیٹا اس کے گھر میں بجائے کھلونوں کے موسیقی کے آلات سے کھیل رہا تھا اور بطور گلوکار اپنے روشن مستقبل کے تانے بانے بن رہا تھا ایک دن شفقت نے مجھے باتوں ہی باتوں میں سجاد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ''یار ہمدم! تم کسی دن میرے گھر آؤ تو میں تمہیں اپنے بیٹے سجاد علی کو سنواؤں گا۔ بڑی کم عمری میں وہ بہت اچھا گانے لگا ہے۔'' ایک دن میں ٹہلتا ہوا شام کے وقت شفقت کے گھر جا پہنچا۔

شفقت بڑا خوش ہوا تھوڑی دیر کے بعد ایک دبلا پتلا، کمزور سا لڑکا جینز پہنے ہاتھ میں گٹار لیے کمرے میں آیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ شفقت نے اپنے بیٹے سے کہا ''سجاد بیٹا! یہ انکل یونس ہمدم ہیں۔ مشہور شاعر ہیں بڑے گلوکاروں نے ان کے گیت گائے ہیں۔ آج یہ بطور خاص تمہارا گانا سننے کے لیے آئے ہیں۔'' سجاد علی نے بڑے اعتماد کے ساتھ میڈم نور جہاں کا ایک مشہور گانا سنایا۔ پھر ایک نیم کلاسیکل انداز کا گیت سنایا۔ سجاد علی کی آواز میں یہ نیم کلاسیکل انداز کا گیت سن کر میں حیران رہ گیا۔ کیا آواز کیا تیاری تھی اور کیا سروں کا لگاؤ تھا اونچے سروں کی ادائیگی کے ساتھ مرکیوں کا استعمال میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اتنی کم عمری میں سجاد علی کے یہ تیور ہیں، ایسا انداز گائیکی تو عمر کا ایک بڑا عرصہ گزارنے کے بعد ہی میسر آتا ہے۔مگر سجاد علی جس کی عمر اس وقت مشکل سے بارہ سال کی ہوگی کس خوبی سے میڈم نور جہاں کے گیت گا رہا تھا اور گیت کی تمام خاص جگہوں کو بڑی خوبصورتی سے نبھا رہا تھا۔ میں نے شفقت سے پوچھا''یار! تمہارا یہ ہونہار بیٹا کب سے گا رہا ہے؟'' شفقت نے بتایا کہ ''سجاد تو چھ سال کی عمر سے گا رہا ہے اور موسیقی ہی کو اس نے اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنایا ہوا ہے۔''

میں نے جواب میں کہا ''یار! تمہارا یہ بیٹا تو پیدائشی آرٹسٹ ہے اور یہ بڑا ہوکر منجھے ہوئے پختہ عمر گلوکاروں کے بھی چھکے چھڑا دے گا۔'' سجاد کی آواز میں جو سروں کا رچاؤ اور مٹھاس تھی وہ قدرتی تھی اب میں سجاد علی کے والد شفقت کے شوق کی طرف آتا ہوں۔ شفقت کو موسیقی کی سمجھ بوجھ تو تھی مگر موسیقی سے کوئی خاص شوق نہیں تھا بلکہ اسے اداکاری سے شغف تھا، اسے نوعمری ہی کے زمانے سے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔ اور اداکاری اس کے رگ و پے میں سمائی جا رہی تھی۔ شاید اسے دلیپ کمار کے زمانے میں ایک ولن سجن سے بھی کچھ دلچسپی ہوگی کیونکہ جب بحیثیت اداکار لاہور کی فلم انڈسٹری میں داخل ہوا تو اس نے اپنا فلمی نام ساجن رکھ لیا۔

فلمی دنیا میں اسے لوگ اب اداکار ساجن کی حیثیت سے جاننے پہچاننے لگے تھے۔ شفقت کی اداکار ندیم سے بھی دوستی رہی تھی۔ کراچی میں طالب علمی کے زمانے میں دونوں کرکٹ بھی خوب کھیلا کرتے تھے۔ لاہور میں جب شفقت گیا تو ندیم اپنی فلم ''مٹی کے پتلے'' بنا رہا تھا۔ ندیم نے اسے اپنی فلم میں بھی ایک سائیڈ کردار دیا تھا پھر اداکار قوی نے جب اپنی فلمیں بنانی شروع کیں تو ساجن کو بھی کاسٹ کیا۔ قوی کی فلم ''منجھی کتھے ڈھاواں'' میں بھی ساجن نے کام کیا اور اس دوران میں فلمساز زیڈ چوہدری فلم ''شرمیلی'' لکھ رہا تھا۔ اس فلم کا معاون پروڈیوسر اداکار ناظم تھا اور ہدایت کار اقبال اختر تھے۔ ساجن نے میری فلم ''شرمیلی'' میں ندیم ممتاز غلام محی الدین اور قوی کے ساتھ فلم میں ولن کا کردار کیا تھا اب تک ساجن کئی فلموں میں کام کرچکا تھا مگر وہ فلمی دنیا میں اپنی کوئی خاص جگہ نہ بنا سکا تھا۔

بس چھوٹے چھوٹے کرداروں ہی میں الجھ کر رہ گیا تھا، پھر ایک دن ایسا وقت بھی آیا کہ اسے کردار ملنے بند ہوگئے اور آہستہ آہستہ اس کے اداکار بننے کے جنون میں کمی آتی چلی گئی کیونکہ اس کے کرداروں میں وہ جان نہیں تھی جو اسے صف اول کے کردار ادا کرنے والے آرٹسٹوں میں شامل کرتی اسے جب ہر طرف سے مایوسی ہی مایوسی ملنے لگی تو ساجن دل برداشتہ ہوگیا اور اپنے فلمی نام کو لاہور ہی میں چھوڑ کر پھر شفقت بن کر کراچی واپس آگیا اور فلم انڈسٹری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا اور پھر کراچی آکر اس نے اپنی تمام تر توجہ اپنے بیٹے سجاد علی کی طرف مرکوز کردی اب سجاد علی ٹیلی ویژن پروگرام میں چھاتا جا رہا تھا۔ اور اب یہ ایک قدر آور گلوکار بن چکا تھا۔ انور مقصود نے پاکستان ٹیلی ویژن سے ایک ہفتہ وار موسیقی کا پروگرام ''سلور جوبلی'' کا آغاز کیا۔ یہ پروگرام پاکستان کے مقبول ترین گیتوں کا ایک گلدستہ تھا۔ اسی پروگرام سے ''بنجمن سسٹرز'' کو بھی بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ سجاد علی کے گیتوں نے سلور جوبلی کے پروگرام کا حسن مزید دوبالا کردیا تھا۔ سجاد کا گایا ہوا ایک نیم کلاسیکل نور جہاں کا گیت:


تم جگ جگ جیو مہاراج رے
ہم توری نگریا میں آئے

نے بڑی مقبولیت حاصل کی اور سجاد کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا ۔ سجاد نے اسی دوران ایک عربی گلوکارہ کے مشہور گیت کو اپنی آواز میں پیش کیا اور اس گیت ''بے بیا'' کی شاعری بھی اس نے خود کی اور اس نے اپنا مکھڑا کچھ اس طرح بنایا تھا:

''بے بیا! کسی کے کہنے میں نہ آنا'' اور اس گیت کی سب سے بڑی دلچسپی یہ تھی اس گیت کے منظر عام پر آنے کے بعد موسیقی کے شائقین عربی گلوکار کے اصلی گیت کو بھول کر سجاد علی کے گیت کے دیوانے ہوگئے۔ اس دوران اس کے اور بھی کئی گیت ہٹ ہوئے مگر سب سے زیادہ ہٹ ہوکر جو گیت سامنے آیا وہ تھا ''چیف صاحب''۔ اس میں ایک دبنگ شخصیت کو مرکزی کردار بنایا گیا تھا۔ یہ گیت بڑا سمبالک گیت تھا۔ عوامی حلقوں میں تو پسندیدگی کا باعث بنا ہی تھا مگر اسے سیاسی حلقوں میں بھی بڑی پسندیدگی حاصل ہوئی تھی اس گیت کا انگ اور انداز سجاد علی کے دیگر تمام گیتوں سے الگ تھا۔ جوں جوں یہ گیت ہٹ ہوتا گیا سجاد علی کے دوستوں کے ساتھ ساتھ کچھ دشمنوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پھر کچھ عرصہ سجاد علی کراچی چھوڑ کر دبئی چلا گیا اورکچھ دنوں تک دبئی ہی میں رہائش اختیار کی اور پھر اپنے ایک نئے کیسٹ کی تیاری کے بعد سجاد علی واپس کراچی آیا۔

سجاد علی نے فلم میں بھی کام کیا مگر وہ فلم اسے کوئی خاص کامیابی نہ دلا سکی اور سجاد علی نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ صرف اپنی توجہ گلوکاری ہی کی طرف مرکوز رکھے، سجاد علی ایک پختہ کار گلوکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر اور ایک ماہر موسیقار بھی ہے اپنے زیادہ تر گیتوں کی دھنیں اس کی صلاحیتوں کی مرہون منت ہوتی ہیں ۔جب میں لاہور میں بارہ سال گزارنے کے بعد دوبارہ کراچی آیا تو بحیثیت کمرشل پروڈیوسر اپنے کیرئیر کا پھر سے آغاز کیا اور کراچی میں کیسٹ میلوڈی ایوارڈز کی بنیاد ڈالی۔ ایک ایوارڈ کمیٹی بنائی جس کا صدر اورینٹ ایڈورٹائزنگ کے ہاشمی صاحب کو بنایا اور پھر کراچی میں پہلی بارکیسٹ میلوڈی ایوارڈ کی شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا ، مہمان خصوصی اس وقت کے وزیر دفاع میر علی احمد خان تالپور تھے۔

مذکورہ تقریب کراچی کے ہاشو آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی اور اس تقریب میں ملک کے نامور فنکاروں نے شرکت کی جن میں مہدی حسن، غلام علی، عابدہ پروین، منی بیگم، عالمگیر، محمد علی شہکی، سجاد علی، تحسین جاوید، ایم افراہیم، سلیم جاوید اور نامور موسیقاروں میں نثار بزمی، کریم شہاب الدین، نیا احمد کے علاوہ نامور قوال غلام فرید صابری نے بھی اپنی پوری ٹیم کے ساتھ شرکت کی تھی۔ میں نے ہر گلوکار سے کہا تھا کہ وہ اپنا ایک ایک مشہور گیت سنائے تو اچھا ہے مگر سجاد علی نے کہا ''ہمدم صاحب! ایک گیت کے بعد تو میں فارم میں آتا ہوں۔'' میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا ''تو پھر سجاد! تم دو گیت گاؤ گے تو تقریب اور جاندار ہوجائے گی۔'' اس کے والد شفقت (ساجن) سے بھی میری اس دوران اچھی ملاقات رہی تھی، پھر میں نے سجاد کو بڑے عرصے کے بعد سنا تھا۔ اور مجھے وہ کمسن سجاد علی یاد آگیا تھا۔ سر کل بھی سجاد علی کا اوڑھنا بچھونا اور ہر پل کے ساتھی تھے اور سجاد علی آج بھی سر تا پا سروں میں ڈوبا ہوا ہے۔
Load Next Story