بچوں سے زیادتی اور معاشرہ آخری حصہ

عریانیت و فحاشی سے ہماری روایات و ثقافت کو بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔

qakhs1@gmail.com

ISLAMABAD:
اقوام متحدہ کے بچوں کے کنوینشن کے 42نکات ہیں جو تمام بچوں کے حقوق کے بارے میں بتاتے ہیں یہ مسودہ 1989 میں تیار ہوا اور ناروے نے1991 میں اس پر دستخط کیے اس قانون کا تعلق بچوں اور 18سال سے کم عمرکے نو عمروں سے ہے اور یہ والدین کے بچوں کے بارے میں فرائض اور بچوں کے والدین کے حقوق کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔قانون کے مطابق بچوں کی اصل ذمے داری والدین کی قرار دی گئی ہے، والدین پر اپنے بچوں کی سرپرستی ذمے داری ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بچوں کو اچھی زندگی کے لیے انھیں خوراک کپڑے اور زندگی کی دوسری اشیا مہیا کریں ۔اسی طرح والدین پر ذمے داری عائد ہے کہ بچے کے کسی ذاتی معاملے میں خود کوئی فیصلہ نہ کرسکنے کی صورت میں والدین کا یہ حق اور فرض بنتا ہے کہ وہ خود فیصلہ کریں۔

برطانیہ میں ایشیائی باشندوں کے ہاتھوں مقامی بچوں کے ساتھ جنسی جرائم سے پردہ اٹھانے والی روتھر ہیم رپورٹ میں بتایا گیا۔ اقلیتی کیمونٹی میں جنسی جرائم کی کثرت اور اس کی پردہ پوشی کا معاملہ بھی سامنے لایا گیا۔ایک پاکستانی نوجوان خاتون (ر) نے اپنی ذاتی زندگی سے پردہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد خاندانوں میں جنسی جرائم کے متعلق منفی سماجی رویے کی نشاندہی کی ۔

ان کا کہنا تھا کہ اسے دس سال کی عمر سے ایک ہمسائے نے جنسی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا جب اس نے دیکھا کہ اس کی برادری میں اس ظلم کا تذکرہ کرنے پر اسے ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا تو اس کے پاس خاموش رہنے کا کوئی چارہ نہ تھا ۔ یہ ظلم آٹھ سال تک جاری رہا اور جب اٹھارہ سال کی عمر میں اسے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اسکالر شپ ملا تو وہ زندگی میں پہلی دفعہ اپنی کربناک دنیا سے نکل پائی ۔آکسفورڈ میں اس نے زندگی کے ہر پہلو پر توجہ دی اور اس کے مثبت رویے اور سماجی سرگرمیوں کے باعث وہ آکسفورڈ یونین کی صدر بھی بن گئی اس کے بعد اس نے مشہور ہاروڈ یونیورسٹی سے ایم بی اے بھی کیا ۔ خاتون نے بتایا کہ جب اس کی زندگی کی کامیابیوں نے اسے اعتماد اور حوصلہ دیا تو اس نے جنسی حملے کرنے والے مجرم کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا لیکن اس کی سب سے زیادہ مزاحمت اس کے اپنے خاندان کی طرف سے ہی کی گئی۔

والدہ کا کہنا تھا کہ خاندان کی شرمندگی کا باعث بنے گا اس لیے خاموش رہو،خاتون کا کہنا تھا کہ یہی خاموشی اور شرمندگی کا کلچر ہے جو جنسی مجرموں کو تحفظ دیتا ہے بلکہ الٹا متاثر ہونے والی لڑکیوں کو ہی ذمے دار قرار دے دیتا ہے ۔ اس خاتون نے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مجرم کے خلاف گواہی دی ، اس سے متاثر ہو کر ایک اور خاتون نے بھی اپنے ساتھ ہونے والی ظلم کی گواہی دی جس کے باعث مجرم کو آٹھ سال کی قید کی سزا سنا دی گئی۔

دراصل یہ وہ کلچر ہے جو پاکستانی معاشرے میں پایا جاتا ہے کہ وہ شرمندگی اور معاشرتی خوف کے پیش نظر زیادتی کے واقعات کو رپورٹ نہیں کرتے اور ظلم کا نشانہ بننے والوں کو خاموش رہنے کا درس دیا جاتا ہے ۔ خاموشی اس وقت ٹوٹ جاتی جب کوئی بچہ یا بچی جنسی زیادتی کی وجہ سے قتل کردی جاتی ہے اور اس تلخ خبر کی میڈیا میں تشہیر کے بعد کچھ وقت کے لیے خبر چلتی ہے ۔ ارباب اختیار اگر نوٹس لیتے ہیں تو مجرم گرفتار ہوجاتے ہیں ورنہ انصاف کے لیے متاثرہ خاتون خودکشی کی جانب راغب ہوجاتی ہے۔


یہ تمام واقعات بے راہ روی کی روش پر گامزن ہونے کے نتائج ہیں ، ایک درندہ بھی کسی جانور کے بچے کو کھاتے ہوئے ہزار بار سوچتا ہوگا لیکن انسانی کھال منڈھے جو درندے ہمارے درمیان ہیں وہ معصوم بچوں پر رحم نہیں کھاتے۔غلاظت سے بھرے انسان نما درندے ننھے فرشتوں سے اپنی ہوس کی آگ جلا دیتے ہیں اور ان کی پوری زندگی کھا جاتے ہیں ۔ اخبارات میں چھپنے والی زبان ہو یا ٹی وی پر نشر ہونے والے الفاظ، لوگ انھیں معیار سمجھ لیتے ہیں اس لیے عمومی طور پر دیکھا گیا کہ ہماری بول چال رہن سہن تہذیب سے عاری ہوتے جا رہے ہیں ۔ ٹی وی چینلز یا انٹر نیٹ کے ذریعے گھر گھر بغیر دستک داخل ہوچکا ہے ۔

عریانیت و فحاشی سے ہماری روایات و ثقافت کو بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ فحش مواد پر مبنی ویب سائٹس کراچی میں کام کرنے والی کمپنیاں ڈیزائن کر رہی ہیں اور پاکستانی سنجیدہ سائٹس پر بھی ( ڈیٹنگ سائٹس) کے اشتہار نوجوانوں کو ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔ فحاشی اور بے راہ روی پھیلانے والی ان ویب سائٹس پر اس قسم کی پابندی لگائی کہ اسے نام نہاد ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ موبائل فون میں ایسی ویڈیوز کی ڈاؤن لوڈنگ ہرگلی ، بازار اور دکانوں میں کی جاتی ہے لیکن انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔آزادی اظہار کے حیلے میں مادر پدرآزادی نے مغرب کو پاتال میں اتار دیا ہے لیکن مسلم معاشرے سے تعلق رکھنے والے ممالک بھی اس وبا سے اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہونے کے باوجود بچنے میں ناکام رہے ہیں۔

آزادی اظہار کے حوالے سے مغرب نے جنسی اختلاط کے لیے فریقین کی مرضی کو کافی قرار دیا بلکہ ہم جنس پرستی کے قوانین بھی رائج کیے جس سے ان کی اخلاقی تباہی و بربادی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اب پاکستان جیسے ملک میں بھارتی ثقافت سرکاری سر پرستی میں گھر گھر پہنچ چکی ہے ۔ پاکستانی اپنے ملک سے محبت توکرتا ہے لیکن بھارتی و مغربی ثقافت کو جیب میں ڈالے پھرتا ہے۔یہ جنسی ترغیبات ہی ہیں جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں ۔

مغربی اقدار پر بحث کا مقصد یہی تھا کہ ہم نقالی کے طور پر اپنے ہر عمل کو جدید بنانے کی روش میں مغرب کو ترجیح دیتے ہیں ، روشن خیالی ، آزاد رائے اور خود مختاری کے حوالے سے مغرب کی باتیں کرتے ہیں اس لیے ضروری یہی تھا کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ مغرب جس روش پر رواں ہے ، اس کا منطقی نتیجہ باآلاخر تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اسلام ہمیں تہذیب اور اخلاقیات کے جو درس دیتا ہے اس سے ہم واقف ہونے کی زحمت بھی نہیں کرتے ۔اسلام ہمیں معاشرتی طور پر احترام آدمیت کا درس دیتا ہے تو اس کے ساتھ اپنے گھر میں داخلے کے لیے اسلام علیکم کہنے کی ہدایت بھی اس لیے دیتا ہے تاکہ اس کے محرم خواتین بھی اپنے اٹھنے بیٹھنے میں سمجھداری کا مظاہرہ کریں ۔ رشتوں کے احترام میں ہر رشتے کے حد مقرر کرتا ہے ۔

محرم اور نا محرم کے واضح فرق بتانے کے ساتھ اس کے فوائد سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ مردوں کو پہلے حکم دیتا ہے تو خواتین کو بھی یہی حکم دیتا ہے کہ اپنی زیبائش کا اظہار نہ کرو ۔ وہ بناؤ سنگار پر پابندی عائد نہیں کرتا لیکن اس کے لیے ایک حدود متعین کرتا ہے ۔ وہ زوجین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے تو اس کا مقصد یہی ہے کہ وہ حیا و شرم کے تمام اخلاقی اقداروں کی پاسداری اس طرح کریں کہ جس طرح اپنے جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔اسلام گھر میں رہنے کے جو باحیا اصول سے آگاہ کرتا ہے تو باہر جانے کے لیے بھی احکام بتاتا ہے کہ تمھارا رکھ رکھاؤ اور لباس ، پردہ ایسا ہو کہ تم شریف زادیاں نظر آؤ۔فحاشات اور بے راہ روی سے روکنے کے لیے طریق کار سے آگاہ کرتا ہے تو اس کی تربیت کے لیے رمضان جیسے مہینے میں زوجین اور عام مسلمان کے عام حقوق پر بھی تربیت کا اہتمام بھی کرتا ہے۔

اگر ہم قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ پر عملدرآمد کرنے کے لیے اپنی اولاد کے ساتھ اپنی تربیت کا بھی اہتمام کریں تو ہمارا معاشرہ مثالی بن سکتا ہے۔ مغرب نے اسلام کو انتہا پسندی اور ہم نے بھی اپنے دین کو چند معاملات تک محدود کردیا ہے ۔ اسلامی معاشرتی اخلاقی اصول و قوانین سے آگاہی سب کے لیے بہتر ہے، خاص کر مغرب کے لیے۔
Load Next Story