ابن انشاء اردو ادب کا درخشاں ستارہ

ابن انشاء نہ صرف ایک مکمل شاعرتھے بلکہ ان کےاندراردو زبان کوادبی ستاروں سےمزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔

بیسویں صدی میں اردو شاعری میں ایک منفرد تازگی کمال جاذبیت، دلکشی اور حسن و رعنائی پیش کرنیوالے ابن انشاء اردو ادب میں ایک ممتاز مقام رکھنے والے شاعر ہیں۔ابن انشاء نہ صرف ایک مکمل شاعر تھے بلکہ ان کے اندر اردو زبان کو ادبی ستاروں سے مزین کرنیوالی تمام خوبیاں واصناف موجود تھیں۔

انشاء جی نے جہاں اردو نظم و غزل، کہانیوں، ناول، افسانوں، سفر ناموں، کالم نگاری ، تراجم ،بچوں کے عالمی ادب ، مکتوبات اور دیگر ادبی اصناف پر کام کیا ۔ تحریر انداز بیاں اور جدا رنگ سخن کی وجہ سے میر، کبیر اور نظیر اکبر آبادی کے ہم قلم شاعر تھے۔ ان کے کلام کی ایک نمایاں خوبی یہ تھی کہ ان کے اشعار گیت و غزل انسانی جذبات کے قریب تر ہوکر دل کی تار کو چھولیتے تھے۔ کیوں کہ شاعری کا تعلق دل کی واردات سے ہوتا ہے۔

ان کی جس غزل نے شہرت و مقبولیت کے جھنڈے گاڑے اس کی چند اشعار ملاحظہ فرمایئے:

انشاء جی اٹھو، اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگانا کیا

وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

انشاء جی کی شاعری میں حسن و جاذبیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ زبان میں اپنے جذبات اور احساسات کو بھرپور انداز میں جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اپنے دلکش اسلوب اور طرز خاص سے اردو غزل کو مقبول بناتے ہوئے انتہائی سادگی سے دلنشین انداز میں پیش کیا۔ابن انشاء نے اردو ادب میں جدت اور شگفتہ نگاری پر توجہ دی اور ایک ایسے انداز کی داغ بیل ڈالی جو ادبی دنیا میں ایک منفرد خصوصیت رکھتی ہے اور اسی خوبی کی وجہ سے انھیں بیسویں صدی کی ادبی دنیا میں ممتاز مقام ملا انھیں ان کی ادبی خدمات، شاعری، سفرناموں، خطوط، فکاہیہ، کالموں، تراجم، افسانوں، ناول، نگاری اور دیگر اضاف ادبی و علمی کاوشوں کی بدولت ادبیات اردو میں ایک معتبر نام کا رتبہ Man of Letters کا اعزاز حاصل ہوا۔

ابن انشاء کا اصل نام شیر محمد خان تھا وہ 15 جنوری 1927 میں مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر کے گاؤں پھلوار کے ایک کاشتکار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1942 میں ثانوی تعلیم لدھیانہ کے سرکاری اسکول سے حاصل کی، دوران تعلیم لدھیانہ کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہی انھوں نے شعر کہنے شروع کردیے تھے اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ شاعری میں پختگی آتی گئی وہ مطالعے کے بھی عادی تھے اور اس زمانے کا سارا ترقی پسند ادب پڑھ چکے تھے۔

1943-44 میں ابن انشاء اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے علی گڑھ گئے جہاں سے (بی اے) کی سند امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔ 1946 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے اور قیام پاکستان کے بعد لاہور آگئے ایک جیتا جاگتا شہر ان کی منزل ٹھہری۔ لاہور شہر کے پر فضا ادبی ماحول میں ہر طرف انجمن ترقی پسند مصنفین کی فضا گونج رہی تھی اور ان دنوں ساحر لدھیانوی کی زیر ادارت ایک معیاری ادبی جریدہ سویرا کافی شہرت اختیار کرچکا تھا ۔


اس جریدے میں ادب برائے زندگی کی آواز نمایاں سنائی دیتی تھی، ایسے ماحول میں ان کی ملاقات ممتاز شعراء احمد بشیر، حمید اختر، صفدر میر، جمال شہزاد، حسین لطیفی، قیوم نظر اور سبط حسن سے ہوئی ان شخصیات کی صحبت اور شفقت نے ان کی ادبی صلاحیتوں میں بے انتہا نکھار پیدا کیا اور یہاں لاہور میں انھوں نے ریڈیو پاکستان کی ملازمت اختیار کرلی۔ 1949 میں ریڈیو پاکستان لاہور کے خبروں کا شعبہ جب کراچی منتقل ہوا تو ابن انشاء کراچی آگئے اور اپنا کام سنبھالتے ہوئے شعبہ خبر کو بہتر خطوط پر استوار کیا۔

1950ء میں وہ ریڈیو پاکستان کی ملازمت سے سبکدوش ہوگئے اور پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سیکریٹریٹ میں سینئر ٹرانسلیٹر مقرر ہوئے۔ اسی دوران 1951-52 میں جہاں بابائے اردو اور مولوی عبدالحق سے قربت نصیب ہوئی جو آگے چل کر دوستی میں بدل گئی۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق انھیں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 1955 میں ابن انشاء کا اولین شعری مجموعہ ''چاند نگر'' شایع ہوا جس سے ادبی حلقوں میں ایک دھوم مچ گئی۔ ان کی شاعری سے میر اور نظیر اکبر آبادی کا انداز اور اسلوب جھلکتاہے اس مجموعے میں انھوں نے اپنے جذبات اور احساسات کو بہت دلنشین انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ اپنے اشعار کو انتہائی پر اثر انداز میں پیش کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔

ان کی ادبی کاوشوں اور جدت پسندی کو سراہتے ہوئے 1956 میں ابن انشاء کو محکمہ دیہات سدھار کے رسالے ''پاک سرزمین'' کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا یہاں انھوں نے رسالے کو ایک معیاری رسالہ بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ 1961 میں ''پاکستان کونسل آف ایگریکلچر ریسرچ'' میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر پبلی کیشن مقرر ہوئے۔ جہاں انھوں نے پاکستان کے اس زرعی تحقیقی ادارے کے شعبہ مطبوعات کو بہتر انداز میں ترتیب دیتے ہوئے جدید خطوط پر استوار کیا۔ اسی دوران انھیں بیلجیم، یورپ جانے کا اتفاق ہوا جہاں سے واپسی پر انھیں نیشنل بک سینٹر کا مرکزی ڈائریکٹر مقرر کیا گیا اسی منصب پر رہتے ہوئے انھوں نے پاکستان میں کتابوں کی ترقی اور فروغ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کتب خانوں اور کتابی دنیا کے مسائل معلوم کرنے ان کے حل کے لیے موثر اقدامات کیے اور پاکستان میں کتابوں کی درآمدگی اور برآمدگی کے کئی منصوبوں اور ترقیاتی اسکیموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا وہ متعدد Books Exhibiton, Book Fairs اور دیگر تعارفی تقریبات کے روح رواں تھے۔ انھوں نے لا تعداد ممالک کے دورے کیے۔

بیرون ملک وہ پاکستانی مطبوعات کے نہایت کامیاب نمائندے رہے یونیسکو (Unesco) کے مطالعاتی امور کے سلسلے میں بین الاقوامی فورم پر پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے جو ایک بڑا اعزاز ہے۔یونیسکو کی طرف سے فلپائن، سری لنکا، انڈونیشیا اور افغانستان میں سفیر مقرر ہوئے ایک لحاظ سے دنیا بھر کی شہریت حاصل کرلی جس کی بدولت سیاحت کے لیے بے شمار اور پر آسائش مواقعے فراہم ہوئے۔ابن انشاء نے اپنی سیاحت پر''آوارہ گرد کی ڈائری'' میں ان ممالک کا ذکر کیا ہے ۔''ہماری آوارگی ہمارے 1961 کے سفر یورپ سے شروع ہوتی ہے اور 1963 میں ہم ایران سے فارسی بولتے اور 1964 میں ہی لنکالے ملاحت مابوں پر جان چھڑکتے لوٹے تھے لیکن 1966 اور 1967 میں ہماری سیاحت کے بھرپور سال تھے پورب اور پچھم ہماری وحشت کا صحرا تھے''

اپنی پیشہ وارانہ ذمے داریوں، غیر ملکی دوروں اور سیاحت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی مصروفیات میں وقت نکال کر اردو روزنامہ ''انجام'' کراچی میں ''باتیں انشاء جی کی'' کے نام سے کالم لکھتے رہے ۔ 1966 چین کے سفر پر روانہ ہوئے جہاں پیکنگ (بیجنگ) یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے طلبا وطالبات کے ساتھ یونیورسٹی کا دورہ کیا چینی طلبا و طالبات میں اردو کی مقبولیت سے بے انتہا متاثر ہوئے۔ چین سے لوٹتے ہی جاپان کی سفر پر روانہ ہوئے، جاپان کے شہر ٹوکیو میں یونیسکو کی یہ کانفرنس کتابوں کی ترقی و فروغ کے لیے منعقد کی گئی تھی جو کوریا سے ایران تک کے ماہرین سازی پر مشتمل تھی اس کانفرنس کے تمام شرکا میں انھیں بڑی پذیرائی ملی اور نائب صدر منتخب کرکے یونیسکو کا مشیر مقرر کرکے افغانستان، انڈونیشیا اور فلپائن کے دورے پر بھیجا گیا۔

1967 میں ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے شرکت کی اور اسی سال تین ماہ بعد ایک تربیتی ورکشاپ کے لیے یورپ اور مشرق وسطیٰ گئے۔ اس کے علاوہ سنگاپور، کوالمپور اور دیگر ممالک میں وقتاً فوقتاً یونیسکو کے جلسوں میں شرکت کرتے رہے۔ان کی گرانقدر ادبی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے 1977 میں انھیں لندن کے سفارت خانے میں تعینات کیا گیا جہاں اردو مخطوطات کو محفوظ کرکے ان کی مائیکرو فلم حاصل کرنے کا کام ان کے سپرد کیا گیا، لندن سفارت خانے میں ان کا تقرر بحیثیت ایک وزیر کی تھی لیکن اپنے عہدے اور اختیارات کو بے جا استعمال نہ کیا اور نہ ہی اس منصب کی نمود و نمائش کی۔

زندگی کے آخری حصے میں وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے، بہ حیثیت وزیر وہ مہنگے سے مہنگے علاج کرانے کا حق رکھتے تھے لیکن حب الوطنی کا انداز تو دیکھیے کہ انھوں نے وطن عزیز پر علاج کے اخراجات کا بوجھ ڈالنا گوارا نہیں کیا بلکہ نیشنل ہیلتھ اسکیم کے تحت اپنا علاج کراتے رہے وہ بیماری کی حالت میں بھی اپنا لکھنے کا کام جاری رکھتے رہے۔یہ ابن انشاء ہی کا کمال اور ذوق تھا کہ انھوں نے انتہائی مصروف زندگی میں بھی اردو ادب کی احسن انداز میں آبیاری کی۔ اردو ادب کے عظیم و انقلابی شاعر شگفتہ مزاج ادیب، کالم نگار، سیاح افسانہ و ناول نگار اور کتوں سے محبت کرنے یہ عہد آفرین شخصیت اپنے ہزاروں چاہنے والے دوست اور مداحوںکو غمگین کرگیارہ جنوری 1978 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔

(برسی کے موقعے پر خصوصی مضمون)
Load Next Story