چین میں میڈیکل تعلیم پاکستانی نوجوانوں کی دلچسپی بڑھنے لگی
ہمارے برادر ملک میں تعلیم پانے کے امکانات اور خدشات کا جائزہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک مشہور حدیث ہے کہ ''اگر مسلمان کو علم حاصل کرنے چین بھی جانا پڑے، تو وہ ضرور جائے۔'' بعض علماء نے اسے ضعیف حدیث قرار دیا ہے۔ تاہم یہ قرآن و سنت کی عظیم تعلیمات کے عین مطابق ہے، لہٰذا اکثر علما اسے ''حسن'' سمجھتے ہیں۔ عالم اسلام کے مشہور رہنما ملائشیا کے سابق وزیراعظم، ڈاکٹر مہاتیر محمد درج بالا حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''یہ مقدس حدیث مسلمانوں پر آشکارا کرتی ہے کہ صرف مذہبی ہی نہیں دنیاوی علوم مثلاً طب، انجینئرنگ، طبیعیات، کیمیا وغیرہ پڑھنے کے لیے انہیں کسی دور دراز مقام جیسے چین بھی جانا پڑے، تو وہ ضرور جائیں۔ گویا اس حدیث کے ذریعے اسلامی معاشرے میں علم کی انتہائی زیادہ اہمیت واضح کی گئی۔ یہ علم ہی ہے جو ایک قوم کو فرش سے اٹھا کر عرش تک پہنچاتا ہے۔'' دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے چند برس میں خصوصاً ان پاکستانی نوجوانوں کے لیے چین پسندیدہ ملک بن چکا ہے، جو میڈیکل تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چین میں میڈیکل تعلیم پاکستان کی نسبت خاصی سستی ہے۔ تاہم کسی چینی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے سے قبل بعض باتیں مدنظر رکھنا ضروری ہیں۔ وجہ یہی کہ چین جانے کے فوائد ہیں، تو یہ عمل کچھ نقصان بھی رکھتا ہے۔
اول یہ کہ چھوٹے شہروں میں قائم چینی میڈیکل کالجوں یا یونیورسٹیوں کا معیار تعلیم کمتر ہے۔ اسی لیے یہ چینی تعلیمی ادارے کم فیس بھی لیتے ہیں۔ نیز چھوٹا شہر ہونے کے باعث طالب علم کے لیے قیام و طعام کا خرچ بھی تھوڑا اٹھتا ہے۔ بڑے چینی شہروں مثلاً شنگھائی، بیجنگ وغیرہ کی میڈیکل یونیورسٹیاں معیاری ہیں، مگر وہاں فیس اور قیام و طعام کے اخراجات پاکستان سے بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ مزید براں چینی معاشرے کے رسوم ورواج سے ہم آہنگ ہونے میں بھی خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ جہاں تک معیار تعلیم کا تعلق ہے، اس بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان میں تقریباً ایک جیسی میڈیکل تعلیم ملتی ہے۔ خاص طور پہ وطن عزیز کی آغا خان یونیورسٹی، کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی، ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی، شفا میڈیکل میڈیکل کالج تعلیمی معیار میں چینی تعلیمی اداروں کے ہم پلہ ہیں۔
بہرحال پاکستان میں طبی تعلیم دینے والے اداروں کی کمی سے بھی خصوصاً وہ طلبہ و طالبات بیرون ممالک کا رخ کرتے ہیں جو مالی طور پر بھاری فیس ادا کرنے کے قابل ہیں۔ ماضی میں چین پاکستانی طلباء و طالبات کی نظر میں بہت کم قدرو قیمت رکھتا تھا مگر معاشی طور پر یہ انتہائی مضبوط ہونے کے بعد اب چین میں تعلیم سمیت زندگی کا ہر شعبہ زبردست ترقی کررہا ہے۔ چناں چہ اب یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی (Ranking) میں چینی یونیورسٹیاں تیزی سے اوپر بڑھ رہی ہیں۔ جو پاکستانی طالبان علم چینی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا چاہتے ہیں، وہ یہ بات ضرور مدنظر رکھیں کہ جس یونیورسٹی میں داخلہ لینا مقصود ہو، وہاں کا نظام تعلیم انگریزی ہونا چاہیے۔
ماضی میں کئی پاکستانی طلبہ اسی بات پر دھوکہ کھا چکے۔ انہوں نے پہلے بے سوچے سمجھے داخلہ لے لیا، مگر یونیورسٹی پہنچ کر منکشف ہوا کہ وہاں کا نظام تعلیم تو چینی زبان میں ہے۔ پاکستانی طلبہ و طالبات کو صائب مشورہ یہ ہے کہ جس چینی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہو، پاکستان میں واقع چینی سفارتخانے سے اس کے متعلق ساری معلومات حاصل کرلیں۔ یوں یہ بھی پتا چل جائے گا کہ داخلہ دلوانے والا ادارہ فراڈ تو نہیں کر رہا! افسوس کہ چین میں قائم ہمارا پاکستانی سفارتخانہ اس ضمن میں اپنے نوجوانوں کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ اس کی بے حسی دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ اسے پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل سنوارنے سے کوئی لگاؤ نہیں۔ دوسری طرف چین میں بھارت کا سفارتخانہ بھارتی طلبہ و طالبات کو ہر ممکن مدد فراہم کرتا ہے۔ اس نے بھارتی نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی ویب سائٹ پر ایک صفحہ بھی بنا رکھا ہے جس کا ایڈریس یہ ہے:
https://www.indianembassy.org.cn/DynamicContent.aspx?MenuId=82&SubMenuId=0
اس صفحے کی وساطت سے پاکستانی طلبہ و طالبات بھی خاصی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ یاد رہے دونوں ممالک میں پائے جانے والے گہرے سیاسی اختلافات کے باصف چین میں بھارتی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی بڑی تعداد زیر تعلیم ہے۔
چین کی کئی سرکاری ونجی میڈیکل یونیورسٹیاں ذہین طالبان علم کو سکالر شپ بھی دیتی ہیں۔ سکالر شپ دیتے ہوئے قدرتاً سب سے پہلے طالب علم کے تعلیمی کارکردگی کو پرکھا جاتا ہے۔ پاکستانی طلبہ و طالبات کے لیے مزید شرائط یہ ہیں:
٭... انڈر گریجویٹ سکالر شپ حاصل کرنے والے کی عمر 25 سال سے کم ہو
٭... وہ پاکستان یا آزاد کشمیر کا شہری ہو
٭... ایپیٹیوڈ ٹیسٹ میں 50 فیصد نمبر حاصل کرے
پاکستان اور چین کی دوستی بہت گہری ہے، اسی لیے پاکستان میں موجود چینی سفارت خانہ پاکستانیوں سے ویزے کے سلسلے میں کوئی رقم نہیں لیتا۔ مزید براں چین کی سرکاری یونیورسٹیوں نے خاص طور پہ پاکستانی طلباء و طالبات کے لیے سکالر شپس ''مخصوص'' کر رکھے ہیں۔ ان سکالر شپس کے لیے ہر سال جنوری تا اپریل کے مہینوں میں درخواستیں موصول کی جاتی ہیں۔ جو پاکستانی کسی چینی یونیورسٹی کے مطلوبہ معیار پر پورا اترے، اسے سکالر شپ مل جاتی ہے۔ سکالر شپ سے طالب علم کو یہ فوائد ملتے ہیں:۔
٭... ٹیوشن فیس، لیبارٹری تجربات کی فیس اور درسی کتب
٭... مفت طبی سہولیات
٭... گزارے کا الاؤنس
فی الوقت چین کی درج ذیل سرکاری میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں پاکستانی طلبہ و طالبات کو سکالر شپ فراہم کررہی ہیں۔ ہماری نئی نسل کو ان کی پیشکش سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
٭... ہوبائی یونیورسٹی آف انجینئرنگ( Hubai University of Engineering)
٭... چائنا میڈیکل یونیورسٹی(China Medical University)
٭... شونگ قنگ میڈیکل یونیورسٹی( Chongqing Medical University)
٭... شین یانگ میڈیکل کالج(Shenyang Medical College)
یاد رہے کہ چین میں ایم بی بی ایس کے کورس کی مدت بھی پانچ سال ہے۔ پھر ایک سالہ انٹرن شپ ہوتی ہے جبکہ ہاؤس جاب پاکستان واپس آکر بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم چین اور دیگر ممالک سے ایم بی بی ایس کرنے والوں کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا ایک امتحان پاس کرنا پڑتا ہے۔ تب وہ پاکستان میں پریکٹس یا ملازمت کرسکتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ حکومت چین نے صرف 50 چینی تعلیمی اداروں کو اجازت دی ہے کہ بیرون ممالک سے ایم بی بی ایس کے سٹوڈنٹ لے سکتے ہیں۔
ان کی فہرست سفارتخانہ چین مہیا کرسکتا ہے۔ چین کے علاوہ وسطی ایشیا کے ممالک مثلاً کرغزستان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان وغیرہ کے تعلیمی اداروں میں بھی ایم بی بی ایس اور دیگر کورس کرنا ممکن ہے۔ چین کی طرح وسطی ایشیا کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی ایم بی بی ایس پروگرام کی ٹیوشن فیس 8 تا 18 لاکھ روپے کے مابین بتائی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں ایک معالج بننے کا خرچہ 35 لاکھ روپے تک پہنچ چکا۔ گویا اب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا باپ بھی اپنے بچوں کو ڈاکٹر نہیں بنا سکتا۔
''یہ مقدس حدیث مسلمانوں پر آشکارا کرتی ہے کہ صرف مذہبی ہی نہیں دنیاوی علوم مثلاً طب، انجینئرنگ، طبیعیات، کیمیا وغیرہ پڑھنے کے لیے انہیں کسی دور دراز مقام جیسے چین بھی جانا پڑے، تو وہ ضرور جائیں۔ گویا اس حدیث کے ذریعے اسلامی معاشرے میں علم کی انتہائی زیادہ اہمیت واضح کی گئی۔ یہ علم ہی ہے جو ایک قوم کو فرش سے اٹھا کر عرش تک پہنچاتا ہے۔'' دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے چند برس میں خصوصاً ان پاکستانی نوجوانوں کے لیے چین پسندیدہ ملک بن چکا ہے، جو میڈیکل تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چین میں میڈیکل تعلیم پاکستان کی نسبت خاصی سستی ہے۔ تاہم کسی چینی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے سے قبل بعض باتیں مدنظر رکھنا ضروری ہیں۔ وجہ یہی کہ چین جانے کے فوائد ہیں، تو یہ عمل کچھ نقصان بھی رکھتا ہے۔
اول یہ کہ چھوٹے شہروں میں قائم چینی میڈیکل کالجوں یا یونیورسٹیوں کا معیار تعلیم کمتر ہے۔ اسی لیے یہ چینی تعلیمی ادارے کم فیس بھی لیتے ہیں۔ نیز چھوٹا شہر ہونے کے باعث طالب علم کے لیے قیام و طعام کا خرچ بھی تھوڑا اٹھتا ہے۔ بڑے چینی شہروں مثلاً شنگھائی، بیجنگ وغیرہ کی میڈیکل یونیورسٹیاں معیاری ہیں، مگر وہاں فیس اور قیام و طعام کے اخراجات پاکستان سے بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ مزید براں چینی معاشرے کے رسوم ورواج سے ہم آہنگ ہونے میں بھی خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ جہاں تک معیار تعلیم کا تعلق ہے، اس بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان میں تقریباً ایک جیسی میڈیکل تعلیم ملتی ہے۔ خاص طور پہ وطن عزیز کی آغا خان یونیورسٹی، کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی، ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی، شفا میڈیکل میڈیکل کالج تعلیمی معیار میں چینی تعلیمی اداروں کے ہم پلہ ہیں۔
بہرحال پاکستان میں طبی تعلیم دینے والے اداروں کی کمی سے بھی خصوصاً وہ طلبہ و طالبات بیرون ممالک کا رخ کرتے ہیں جو مالی طور پر بھاری فیس ادا کرنے کے قابل ہیں۔ ماضی میں چین پاکستانی طلباء و طالبات کی نظر میں بہت کم قدرو قیمت رکھتا تھا مگر معاشی طور پر یہ انتہائی مضبوط ہونے کے بعد اب چین میں تعلیم سمیت زندگی کا ہر شعبہ زبردست ترقی کررہا ہے۔ چناں چہ اب یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی (Ranking) میں چینی یونیورسٹیاں تیزی سے اوپر بڑھ رہی ہیں۔ جو پاکستانی طالبان علم چینی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا چاہتے ہیں، وہ یہ بات ضرور مدنظر رکھیں کہ جس یونیورسٹی میں داخلہ لینا مقصود ہو، وہاں کا نظام تعلیم انگریزی ہونا چاہیے۔
ماضی میں کئی پاکستانی طلبہ اسی بات پر دھوکہ کھا چکے۔ انہوں نے پہلے بے سوچے سمجھے داخلہ لے لیا، مگر یونیورسٹی پہنچ کر منکشف ہوا کہ وہاں کا نظام تعلیم تو چینی زبان میں ہے۔ پاکستانی طلبہ و طالبات کو صائب مشورہ یہ ہے کہ جس چینی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہو، پاکستان میں واقع چینی سفارتخانے سے اس کے متعلق ساری معلومات حاصل کرلیں۔ یوں یہ بھی پتا چل جائے گا کہ داخلہ دلوانے والا ادارہ فراڈ تو نہیں کر رہا! افسوس کہ چین میں قائم ہمارا پاکستانی سفارتخانہ اس ضمن میں اپنے نوجوانوں کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ اس کی بے حسی دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ اسے پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل سنوارنے سے کوئی لگاؤ نہیں۔ دوسری طرف چین میں بھارت کا سفارتخانہ بھارتی طلبہ و طالبات کو ہر ممکن مدد فراہم کرتا ہے۔ اس نے بھارتی نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی ویب سائٹ پر ایک صفحہ بھی بنا رکھا ہے جس کا ایڈریس یہ ہے:
https://www.indianembassy.org.cn/DynamicContent.aspx?MenuId=82&SubMenuId=0
اس صفحے کی وساطت سے پاکستانی طلبہ و طالبات بھی خاصی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ یاد رہے دونوں ممالک میں پائے جانے والے گہرے سیاسی اختلافات کے باصف چین میں بھارتی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی بڑی تعداد زیر تعلیم ہے۔
چین کی کئی سرکاری ونجی میڈیکل یونیورسٹیاں ذہین طالبان علم کو سکالر شپ بھی دیتی ہیں۔ سکالر شپ دیتے ہوئے قدرتاً سب سے پہلے طالب علم کے تعلیمی کارکردگی کو پرکھا جاتا ہے۔ پاکستانی طلبہ و طالبات کے لیے مزید شرائط یہ ہیں:
٭... انڈر گریجویٹ سکالر شپ حاصل کرنے والے کی عمر 25 سال سے کم ہو
٭... وہ پاکستان یا آزاد کشمیر کا شہری ہو
٭... ایپیٹیوڈ ٹیسٹ میں 50 فیصد نمبر حاصل کرے
پاکستان اور چین کی دوستی بہت گہری ہے، اسی لیے پاکستان میں موجود چینی سفارت خانہ پاکستانیوں سے ویزے کے سلسلے میں کوئی رقم نہیں لیتا۔ مزید براں چین کی سرکاری یونیورسٹیوں نے خاص طور پہ پاکستانی طلباء و طالبات کے لیے سکالر شپس ''مخصوص'' کر رکھے ہیں۔ ان سکالر شپس کے لیے ہر سال جنوری تا اپریل کے مہینوں میں درخواستیں موصول کی جاتی ہیں۔ جو پاکستانی کسی چینی یونیورسٹی کے مطلوبہ معیار پر پورا اترے، اسے سکالر شپ مل جاتی ہے۔ سکالر شپ سے طالب علم کو یہ فوائد ملتے ہیں:۔
٭... ٹیوشن فیس، لیبارٹری تجربات کی فیس اور درسی کتب
٭... مفت طبی سہولیات
٭... گزارے کا الاؤنس
فی الوقت چین کی درج ذیل سرکاری میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں پاکستانی طلبہ و طالبات کو سکالر شپ فراہم کررہی ہیں۔ ہماری نئی نسل کو ان کی پیشکش سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
٭... ہوبائی یونیورسٹی آف انجینئرنگ( Hubai University of Engineering)
٭... چائنا میڈیکل یونیورسٹی(China Medical University)
٭... شونگ قنگ میڈیکل یونیورسٹی( Chongqing Medical University)
٭... شین یانگ میڈیکل کالج(Shenyang Medical College)
یاد رہے کہ چین میں ایم بی بی ایس کے کورس کی مدت بھی پانچ سال ہے۔ پھر ایک سالہ انٹرن شپ ہوتی ہے جبکہ ہاؤس جاب پاکستان واپس آکر بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم چین اور دیگر ممالک سے ایم بی بی ایس کرنے والوں کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا ایک امتحان پاس کرنا پڑتا ہے۔ تب وہ پاکستان میں پریکٹس یا ملازمت کرسکتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ حکومت چین نے صرف 50 چینی تعلیمی اداروں کو اجازت دی ہے کہ بیرون ممالک سے ایم بی بی ایس کے سٹوڈنٹ لے سکتے ہیں۔
ان کی فہرست سفارتخانہ چین مہیا کرسکتا ہے۔ چین کے علاوہ وسطی ایشیا کے ممالک مثلاً کرغزستان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان وغیرہ کے تعلیمی اداروں میں بھی ایم بی بی ایس اور دیگر کورس کرنا ممکن ہے۔ چین کی طرح وسطی ایشیا کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی ایم بی بی ایس پروگرام کی ٹیوشن فیس 8 تا 18 لاکھ روپے کے مابین بتائی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں ایک معالج بننے کا خرچہ 35 لاکھ روپے تک پہنچ چکا۔ گویا اب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا باپ بھی اپنے بچوں کو ڈاکٹر نہیں بنا سکتا۔