خاندانی نظام زوال کا شکار اور معاشرے میں رشتوں کا احترام کم ہونے لگا

ترقی کی دوڑاورمعاشی حالات سے رشتوں کا احترام کم ہو گیا

67فیصد شہری مشترکہ خاندانی نظام اور31فیصد انفرادی خاندانی نظام کے حامی فوٹو : فائل

پاکستانی معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جب کہ معاشی ناہمواریوں، ترقی کی دوڑ اور بہتر روزگارکی تلاش کی وجہ سے رشتوں کااحترام کم ہوتا جارہا ہے، شہری رشتوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔

سماجی حیثیت نمایاں رکھنے کیلیے شہری ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میںبھی مصروف ہیں جس کی وجہ سے رشتوں کے احترام میں کمی دکھائی دیتی ہے، خاندانی نظام کے حوالے سے ایکسپریس کے سروے میں 67 فیصد شہریوں نے مشترکہ خاندانی نظام کو پسند کیا،31 فیصد شہریوں نے انفرادی خاندانی نظام کی حمایت کی ہے جبکہ 2 فیصد افراد نے کوئی رائے نہیں دی، سروے کے دوران جامعات کے طلبہ و طالبات نے اپنی رائے میں کہا کہ مشترکہ خاندانی نظام گھرکے ماحول پر منحصر ہوتا ہے اگر گھر میں رہنے والے افراد کے آپس کے خیالات ملتے ہوں تو مشترکہ نظام بہتر ہوسکتا ہے، مشترکہ خاندانی نظام میں تحمل، رشتوں کا احترام اور قربانی کا جذبہ شامل ہوتا ہے تاہم زیادہ اختلاف رائے رکھنے والے افراد سنگل فیملی سسٹم کو ترجیح دیتے ہیں۔

مشترکہ خاندانی نظام پسند کرنے والے افراد نے کہا کہ ملک میں مشترکہ خاندانی نظام دم توڑرہا ہے، جس سے رواداری اور ہمدردی کا تصور بھی ختم ہورہا ہے، معاشرے میںمتمول گھرانے معاشی ناہمواریوں کے شکار اپنے عزیز و اقارب سے کٹ کر رہنے کی کوشش کرتے ہیں، مشترکہ خاندانی نظام میںگھریلو اخراجات مشترکہ ہوتے تھے سنگل فیملی سسٹم نے مہنگائی بڑھنے پر ہر فرد کے اخراجات میں اضافہ کردیا ہے پہلے زمانے میں غم خوشی اور دکھ درد کا مل کر مقابلہ کیا جاتا تھا اب ایک دوسرے کی مدد تو درکنار کوئی کسی کا حال تک نہیں پوچھتا، خاندانی نظام میں بزرگوںکی مداخلت سے میاں بیوی کی کشیدگی کی نوبت طلاق تک نہیں پہنچتی تھی، اب انفرادی فیملی سسٹم میں معمولی اختلافات طلاق کا باعث بن جاتے ہیں، سنگل فیملی سسٹم کے فروغ پانے سے ضعیف والدین سے محبت و احترام کی قدریں کم ہورہی ہیں، ماضی میں بچوںکی تربیت خاندانوں کے بزرگ کرتے تھے، بچے شام ڈھلے بزرگوں کی بیٹھک میںجاری علمی اور ادبی گفتگو سنتے تھے اب بچے بڑوں اور بزرگوںکے احترام سے بے نیاز بدتہذیبی کا شکار ہورہے ہیں، ضعیف والدین کو معاشی بوجھ سمجھ کر اولڈ ہوم میں داخل کرانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔


والدین کو دولت کے حصول کی دوڑ میں بچوںکی مصروفیات اور مشاغل کا علم ہی نہیںاور نہ ہی ان کی بہتر تربیت کے لیے والدین کے پاس وقت ہے، شادی کے بعد لڑکا لڑکی علیحدہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ گھر والے ان کی زندگی میں مداخلت نہ کریں، عورت فاؤنڈیشن کی رہنما مہناز رحمن کے مطابق مشترکہ خاندانی نظام ملازمت پیشہ خواتین کی مدد کرتا ہے اور پاکستانی معاشرے کی مشرقی روایات کا ایک خوبصورت نمونہ ہے جسے لوگوں میں موجود خود غرضی،مفاد پرستی اور انا نے برا بنادیا ہے، ساس اپنی بہو کو بیٹی کا درجہ دے اور بہو اپنی ساس کو ماں کا درجہ دے کر معاشرے میں لوگوں کے دوہرے معیار کو ختم کیا جاسکتا ہے،بزرگ گھر پر رحمت کا سایہ ہوتے ہیں، سماجی کارکن بشرٰی سید کا کہنا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام ختم ہونے سے خواتین کے شیلٹر ہومز اور بزرگوںِ کے اولڈ ہومز آباد ہو رہے ہیں۔

پاؤلاکی صدر نور ناز آغا کے مطابق آج کل تعلیم یافتۃ خواتین کی اکثریت شادی کے بعد سنگل فیملی سسٹم میں رہنا پسندکرتی ہیں جس سے وہ عدم تحفظ کا شکار ہوتی ہیں، مہنگائی کے باعث شوہرگھرکی تنہاکفالت کرنے سے قاصر ہوتا ہے جس سے ہونے والے اعصابی دباؤ اور ڈپریشن سے میاں بیوی میں ناچاقی بڑھ جاتی ہے اسی وجہ سے معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے، ماہر سماجیات پروفیسرنائلہ کے مطابق شہری علاقوں میں مشترکہ خاندانی نظام دیہاتی علاقوں کی نسبت زیادہ زوال کا شکار ہے مشترکہ خاندانی نظام میں کم بجٹ میں گھر کا خرچ بآسانی چل سکتا ہے،گھر کے سربراہوں کوتمام کمانے والے افراد کے مابین مالی بوجھ کو توازن میں رکھنا چاہیے۔

مشترکہ خاندانی نظام کی تشکیل میںعورت کاکردار اہم ہے کیونکہ یہ فیصلہ عمو ماً عورت کا ہی ہوتا ہے، اس ضمن میں مختلف خواتین کے مختلف تجربات ہیں،کچھ خواتین کی رائے میںمحبت و احترام کا تعلق دل سے ہوتا ہے پاس یا دور رہنے سے نہیں بے شمار افراد ایسے بھی ہیں جو ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے رقیبوں کی طرح رہتے ہیں۔
Load Next Story