کراچی میں افسوسناک ٹریفک حادثہ
ہمارے ہاں ٹریفک حادثات شاید دنیا میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں، اتنے افراد قدرتی موت، وبا یا دہشت گردی کی نذر نہیں ہوتے.
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کراچی میں میمن گوٹھ کے علاقے سپر ہائی وے لنک روڈ پر مسافر کوچ اور آئل ٹینکر کے درمیان خوفناک تصادم ہوا' جس کے نتیجے میں آگ بھڑک اٹھی اور 59 افراد جھلس کر جاں بحق ہوگئے۔ جاں بحق ہونے والے مسافر باہر نکلنے کا راستہ نہ ملنے پر خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے سے چمٹ گئے اور اسی حالت میں جل کر کوئلہ بن گئے' ان کی لاشیں اتنی سوختہ ہو چکی تھیں کہ انھیں اٹھانے کے دوران ان کے اعضاء بھی جسم سے علیحدہ ہو گئے۔ اس حادثے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ فائر بریگیڈ اتنی تاخیر سے پہنچا کہ کوچ میں سوار مسافر زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔
ہمارے ہاں ٹریفک حادثات شاید دنیا میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں، اتنے افراد قدرتی موت، وبا یا دہشت گردی کی نذر نہیں ہوتے جتنے ٹریفک حادثات میں ہو جاتے ہیں۔قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث ٹریفک حادثات میں ہلاکتیں روز مرہ کا معمول ہیں مگر حکومت یا اس کے کسی بھی ادارے نے اس مسئلے کو حل کرنے کی جانب کبھی توجہ نہیں دی۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ ہمارے ہاں 90 فیصد سے زائد ڈرائیورز ان پڑھ ہیں جو چند ایک تھوڑا بہت پڑھے لکھے بھی ہیں وہ بھی ٹریفک قوانین سے بے بہرہ ہیں۔
ملک بھر میں ٹریفک کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر جو تشویشناک صورت حال ابھرتی ہے اس سے عیاں ہوتا ہے کہ شہریوں کو ٹریفک قوانین کا شعور ہی نہیں یا وہ ان پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہی نہیں۔ سردیوں کے اس موسم میں جہاں دھند بھی شدت کر جاتی ہے گاڑیوں میں سوائے چند کے فوک لائٹس ہی موجود نہیں۔ پڑھے لکھے افراد بھی ٹریفک قوانین کو روندتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس صورتحال کو بدلنے کے لیے حکومت نے کبھی ایسی کوشش نہیں کی کہ شہریوں کو ٹریفک قوانین کے بارے میں آگاہی دی جائے کراچی میں سپر ہائی وے لنک روڈ جہاں یہ حادثہ پیش آیا کہ بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں رات کے وقت بسوں اور ٹرکوں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔
یہ علاقہ جرائم پیشہ افراد کا گڑھ کہلاتا ہے لہٰذا اس پریشان کن صورت حال سے بچنے کے لیے ڈرائیورز تیز رفتاری سے سڑک کراس کرتے ہیں۔ اس سٹرک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے ڈیوائیڈر بھی موجود نہیں اور جا بجا پڑے گڑھے بھی انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جب ڈرائیور تیز رفتاری سے گزرتے ہیں تو اس ٹوٹی پھوٹی سنگل سڑک پر دو طرفہ چلنے والی ٹریفک کے باعث حادثے کا خدشہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ یہ حادثہ بھی کوچ اور ٹینکر ڈرائیورز کی غلطی کی باعث پیش آیا۔
اگر فائر بریگیڈ تاخیر سے پہنچنے کے بجائے بروقت پہنچ جاتا اور کوچ میں لگنے والی آگ پر بروقت قابو پا لیا جاتا تو ممکن ہے کہ مسافروں کی ایک تعداد کی جان بچا لی جاتی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اتنے حادثے ہونے کے باوجود سندھ حکومت یا کسی دوسری صوبائی حکومت نے محکمہ فائر بریگیڈکو فعال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث پلازوں میں لگنے والی معمولی آگ بھڑکتے بھڑکتے خوفناک صورت اختیار کر جاتی اور درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ہر حادثے کے بعد حکومت وقتی طور پر جذباتی بیانات جاری کرتی اور ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے دیتی ہے مگر چند دنوں بعد حالات معمول پر آنے کے بعد تمام بیانات ہوا ہو جاتے ہیں۔ آج تک ملک میں ٹریفک حادثات' پلازوں اور عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اگر حکومت ٹریفک قوانین کی آگاہی کی بھرپور مہم چلائے اور ڈرائیورز کو قوانین پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کرے تو امید ہے کہ ٹریفک حادثات میں بہت حد تک کمی واقعہ ہو جائے گی۔
ترقی یافتہ ممالک میں اسکول کی سطح ہی پر طلبہ کو ٹریفک قوانین سے آگاہی دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں قوانین پر نہ صرف سرکاری سطح پر سختی سے عمل درآمد کرایا جاتا ہے بلکہ شہری بھی ٹریفک قوانین پر پابندی کو اپنا فرض خیال کرتے ہیں لہٰذا ان ممالک میں ٹریفک حادثات کی شرح ترقی پذیر ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔
ہمارے ہاں روزمرہ ٹریفک حادثات میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد بھی نہ تو حکومتی سطح پر ہی کوئی احساس ذمے داری پیدا ہوتا ہے اور نہ عوامی سطح ہی پر کوئی شعور اجاگر ہوتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ٹریفک حادثات کی کسی کو پرواہ نہیں اور اسے روزمرہ کا معمول سمجھ کر اس سے نظریں چرا لی جاتی ہیں۔ سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک جہاں شہریوں کے شعور کا پتہ دیتی ہے وہاں یہ حکومت کی اپنے فرائض سے غفلت کا بھی واضح اظہار ہے۔
ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لیے ضروری ہو چکا ہے کہ حکومت ملکی سطح پر ٹریفک قوانین سے آگاہی کی بھرپور مہم چلائے اور خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جائے۔ اس کے علاوہ کسی بھی ٹریفک حادثے کی صورت کے بارے میں فائر بریگیڈ اور دیگر امدادی ٹیموں کی کارکردگی بھی بہتر بنائی جائے۔ سڑکوں پر ہونے والی لوٹ مار پر قابو پانا بھی حکومت کا فرض اولین ہے۔
ہمارے ہاں ٹریفک حادثات شاید دنیا میں سب سے زیادہ ہوتے ہیں، اتنے افراد قدرتی موت، وبا یا دہشت گردی کی نذر نہیں ہوتے جتنے ٹریفک حادثات میں ہو جاتے ہیں۔قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث ٹریفک حادثات میں ہلاکتیں روز مرہ کا معمول ہیں مگر حکومت یا اس کے کسی بھی ادارے نے اس مسئلے کو حل کرنے کی جانب کبھی توجہ نہیں دی۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ ہمارے ہاں 90 فیصد سے زائد ڈرائیورز ان پڑھ ہیں جو چند ایک تھوڑا بہت پڑھے لکھے بھی ہیں وہ بھی ٹریفک قوانین سے بے بہرہ ہیں۔
ملک بھر میں ٹریفک کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر جو تشویشناک صورت حال ابھرتی ہے اس سے عیاں ہوتا ہے کہ شہریوں کو ٹریفک قوانین کا شعور ہی نہیں یا وہ ان پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہی نہیں۔ سردیوں کے اس موسم میں جہاں دھند بھی شدت کر جاتی ہے گاڑیوں میں سوائے چند کے فوک لائٹس ہی موجود نہیں۔ پڑھے لکھے افراد بھی ٹریفک قوانین کو روندتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس صورتحال کو بدلنے کے لیے حکومت نے کبھی ایسی کوشش نہیں کی کہ شہریوں کو ٹریفک قوانین کے بارے میں آگاہی دی جائے کراچی میں سپر ہائی وے لنک روڈ جہاں یہ حادثہ پیش آیا کہ بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں رات کے وقت بسوں اور ٹرکوں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔
یہ علاقہ جرائم پیشہ افراد کا گڑھ کہلاتا ہے لہٰذا اس پریشان کن صورت حال سے بچنے کے لیے ڈرائیورز تیز رفتاری سے سڑک کراس کرتے ہیں۔ اس سٹرک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے ڈیوائیڈر بھی موجود نہیں اور جا بجا پڑے گڑھے بھی انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جب ڈرائیور تیز رفتاری سے گزرتے ہیں تو اس ٹوٹی پھوٹی سنگل سڑک پر دو طرفہ چلنے والی ٹریفک کے باعث حادثے کا خدشہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ یہ حادثہ بھی کوچ اور ٹینکر ڈرائیورز کی غلطی کی باعث پیش آیا۔
اگر فائر بریگیڈ تاخیر سے پہنچنے کے بجائے بروقت پہنچ جاتا اور کوچ میں لگنے والی آگ پر بروقت قابو پا لیا جاتا تو ممکن ہے کہ مسافروں کی ایک تعداد کی جان بچا لی جاتی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اتنے حادثے ہونے کے باوجود سندھ حکومت یا کسی دوسری صوبائی حکومت نے محکمہ فائر بریگیڈکو فعال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث پلازوں میں لگنے والی معمولی آگ بھڑکتے بھڑکتے خوفناک صورت اختیار کر جاتی اور درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
ہر حادثے کے بعد حکومت وقتی طور پر جذباتی بیانات جاری کرتی اور ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے دیتی ہے مگر چند دنوں بعد حالات معمول پر آنے کے بعد تمام بیانات ہوا ہو جاتے ہیں۔ آج تک ملک میں ٹریفک حادثات' پلازوں اور عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اگر حکومت ٹریفک قوانین کی آگاہی کی بھرپور مہم چلائے اور ڈرائیورز کو قوانین پر عمل درآمد کرنے پر مجبور کرے تو امید ہے کہ ٹریفک حادثات میں بہت حد تک کمی واقعہ ہو جائے گی۔
ترقی یافتہ ممالک میں اسکول کی سطح ہی پر طلبہ کو ٹریفک قوانین سے آگاہی دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں قوانین پر نہ صرف سرکاری سطح پر سختی سے عمل درآمد کرایا جاتا ہے بلکہ شہری بھی ٹریفک قوانین پر پابندی کو اپنا فرض خیال کرتے ہیں لہٰذا ان ممالک میں ٹریفک حادثات کی شرح ترقی پذیر ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔
ہمارے ہاں روزمرہ ٹریفک حادثات میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد بھی نہ تو حکومتی سطح پر ہی کوئی احساس ذمے داری پیدا ہوتا ہے اور نہ عوامی سطح ہی پر کوئی شعور اجاگر ہوتا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ٹریفک حادثات کی کسی کو پرواہ نہیں اور اسے روزمرہ کا معمول سمجھ کر اس سے نظریں چرا لی جاتی ہیں۔ سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک جہاں شہریوں کے شعور کا پتہ دیتی ہے وہاں یہ حکومت کی اپنے فرائض سے غفلت کا بھی واضح اظہار ہے۔
ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لیے ضروری ہو چکا ہے کہ حکومت ملکی سطح پر ٹریفک قوانین سے آگاہی کی بھرپور مہم چلائے اور خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جائے۔ اس کے علاوہ کسی بھی ٹریفک حادثے کی صورت کے بارے میں فائر بریگیڈ اور دیگر امدادی ٹیموں کی کارکردگی بھی بہتر بنائی جائے۔ سڑکوں پر ہونے والی لوٹ مار پر قابو پانا بھی حکومت کا فرض اولین ہے۔