مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں نئی تبدیلیوں کے اشارے
ہمارے سامنے عرب خطے میں بہت سے ایسے ممالک تھے جہاں حکمران تیس سے چالیس سال تک برسراقتدار رہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکا اپنا سفارت خانہ ایران میں کھولنے کو تیار نہیں ہے۔ اس کی وجوہات ایران نیو کلیئر پالیسی اختلافات ہیں لیکن اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہم اپنا سفارت خانہ ایران میں کبھی نہیں کھولیں گے تاہم سب چیزیں قدم بہ قدم ہونی چاہئیں۔
یاد رہے کہ ایرانی انقلاب کے آغاز پر ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر ہلہ بول کر اس پر قبضہ کر لیا تھا جہاں سے انھوں نے ایسی دستاویزات پر قبضہ کیا جن سے نوزائیدہ انقلاب کو سبوتاژ کرنا مقصود تھا جس کے نتیجے میں ایران امریکا تعلقات انتہائی خراب ہو گئے اور دونوں ملکوں نے سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو حالات ایسے تھے کہ لگتا تھا کہ امریکا ایران پر حملہ کر دے گا لیکن ایسا نہ ہوا باوجود اس کے امریکا میں وہ لابی بہت طاقتور تھی جو ایران سے میدان جنگ میں دو دو ہاتھ کرنا چاہتی تھی۔
ایران پر حملہ اس لیے ممکن نہیں ہو سکا کہ ایرانی انقلاب کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ ہمارے سامنے عرب خطے میں بہت سے ایسے ممالک تھے جہاں حکمران تیس سے چالیس سال تک برسراقتدار رہے لیکن جیسے ہی امریکا نے ان کی پشت سے ہاتھ ہٹایا ان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ امریکی جنگی لابی اپنی تمام تر خواہش کے باوجود اس لیے حملہ نہ کر سکی کہ ایران پر حملہ پورے خطے سے ان کے مفادات و اثرات کا خاتمہ کر سکتا تھا۔ سامراج بڑا کینہ پرور ہوتا ہے۔ جو اس کی حکم عدولی کرے اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچائے وہ اسے کبھی معاف نہیں کرتا چاہے اس میں کتنی ہی مدت لگ جائے۔
وہ اسے عبرت کی مثال بنا کر رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسری زیردست قومیں بھی ایران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے قدرتی وسائل سامراج کے قبضے سے بازیاب کرا لیں۔ یہ بالکل ہمارے دیہاتوں کی طرح ہے کہ گاؤں کا چوہدری اپنے سامنے کھڑے ہونے والے مزارعے ہاری کو کچل کر رکھ دیتا ہے تا کہ کوئی دوسرا اس کو چیلنج کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔ انسان کی انسان کو غلام بنانے اور اس پر بالادستی کی نفسیات اور طریقہ کار ایک ہی ہے چاہے وہ فرد کے لیے ہو یا قوموں کے معاملے میں۔ گریٹ گیم ہو یا عظیم چال۔ انسانوں کو اس نے کیا دیا۔ سوائے تباہی و بربادی کے۔ سامراج کسی بھی انقلاب کو دو طریقے سے ختم کرتا ہے۔ پہلے اس پر جنگ مسلط کرتا ہے تا کہ اس پر بے پناہ تباہی و بربادی مسلط کر کے اس انقلاب کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کی مثال سوویت یونین ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے ایک سازش کے تحت ہٹلر کو پروان چڑھایا گیا پھر اس کے بعد وہ سوویت یونین پر چڑھ دوڑا اور اس کے بڑے حصے کو ہولناک تباہیوں سے دوچار کر دیا۔ دوسری مثال ایران کے حوالے سے ہے جس کے انقلاب کو دنیا نے مانا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انقلاب کو اندرونی سازشوں سے ختم کرتا ہے معاشی پابندیاں لگاتا ہے۔ اپنی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے ایسے ایسے جھوٹ اور افواہیں تراشتا ہے کہ دنیا میں اچھوت بنا کر رکھ دیتا ہے۔ عالمی امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ برسوں اور دہائیوں کا یہ پروپیگنڈا اتنا خوفناک ہوتا ہے کہ دنیا سامراجی جھوٹ پر ایمان لے آتی ہے۔ سوویت یونین اور ایران کے ساتھ یہی طریقہ واردات استعمال ہوا۔
اب ایران کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ اسے معاشی پابندیوں کے ذریعے مذاکرات کی میز پر لایا گیا ہے۔ پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ جو مقاصد جنگ کے ذریعے حاصل نہ ہو سکے وہ مذاکرات کی میز پر حاصل کر لیے جائیں۔ نومبر 013 2 میں جب امریکا ایران پس پردہ رابطوں کا پتہ چلا تو پوری دنیا حیران رہ گئی۔ اسرائیل نے شدید ردعمل کا اظہار کیا کیونکہ امریکا ایران تعلقات بہتر ہونے سے مشرق وسطیٰ پر اس کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ایران امریکا رابطوں پر سعودی عرب نے بھی سخت پریشانی و غم و غصے کا اظہار کیا۔
سعودی خدشات کو دور کرنے کے لیے امریکی اعلیٰ قیادت نے ریاض کے مسلسل دورے کیے اور سعودی بادشاہ کو اعتماد میں لیا۔ اسی دوران ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بیان دیا کہ وہ سعودی عرب کا دورہ اور اس کی مدد کرنے کے لیے ہر ممکن حد تک تیار ہیں۔ سابق ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی کہتے ہیں کہ ایران کے تعلقات سعودی عرب سے آج جتنے بہتر ہیں پہلے کبھی نہیں تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی بادشاہت کو ابوبکر بغدادی سے جو خطرہ لاحق ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔
سعودی عرب اور ایران اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی قیادت میں متحد ہیں۔ ہے نا حیرت انگیز اور انتہائی ناقابل یقین بات۔ ملکوں و قوموں کے درمیان نہ دوستی مستقل ہوتی ہے اور نہ ہی دشمنی۔ صرف مفادات مستقل ہوتے ہیں۔ اس میں ہمارے لیے بھی بہت بڑا سبق پنہاں ہے۔ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک خطہ ایک نئی کروٹ بدل رہا ہے۔ اگر ایران سعودی عرب دوستی ہو جاتی ہے تو اس کے ہمارے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور یہ دوستی کا سفر آخر کار پاک بھارت دوستی میں بھی بدل سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا ایران مذاکرات کے پیچھے ایک نئے مشرق وسطیٰ کی ''ری برتھ'' ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے اور پاکستان افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ اسی کا حصہ ہے۔ دہشت گردوں کی رسی دراز تھی لیکن آخر کار یہ پکڑ میں آ گئے۔ ''بے چارے'' اب گھیرے میں آ چکے ہیں کوئی راہ فرار نہیں۔ وائٹ ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق ان دہشت گردوں کا ان کی اگلی تین نسلوں تک تعاقب کیا جائے گا۔ ان کا خاتمہ تاریخ میں عبرت کی ایک نئی داستان رقم کرے گا۔
فروری مارچ 015 2 میں کراؤن پرنس سلمان کی ذمے داریوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997۔
یاد رہے کہ ایرانی انقلاب کے آغاز پر ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر ہلہ بول کر اس پر قبضہ کر لیا تھا جہاں سے انھوں نے ایسی دستاویزات پر قبضہ کیا جن سے نوزائیدہ انقلاب کو سبوتاژ کرنا مقصود تھا جس کے نتیجے میں ایران امریکا تعلقات انتہائی خراب ہو گئے اور دونوں ملکوں نے سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو حالات ایسے تھے کہ لگتا تھا کہ امریکا ایران پر حملہ کر دے گا لیکن ایسا نہ ہوا باوجود اس کے امریکا میں وہ لابی بہت طاقتور تھی جو ایران سے میدان جنگ میں دو دو ہاتھ کرنا چاہتی تھی۔
ایران پر حملہ اس لیے ممکن نہیں ہو سکا کہ ایرانی انقلاب کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ ہمارے سامنے عرب خطے میں بہت سے ایسے ممالک تھے جہاں حکمران تیس سے چالیس سال تک برسراقتدار رہے لیکن جیسے ہی امریکا نے ان کی پشت سے ہاتھ ہٹایا ان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ امریکی جنگی لابی اپنی تمام تر خواہش کے باوجود اس لیے حملہ نہ کر سکی کہ ایران پر حملہ پورے خطے سے ان کے مفادات و اثرات کا خاتمہ کر سکتا تھا۔ سامراج بڑا کینہ پرور ہوتا ہے۔ جو اس کی حکم عدولی کرے اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچائے وہ اسے کبھی معاف نہیں کرتا چاہے اس میں کتنی ہی مدت لگ جائے۔
وہ اسے عبرت کی مثال بنا کر رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسری زیردست قومیں بھی ایران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے قدرتی وسائل سامراج کے قبضے سے بازیاب کرا لیں۔ یہ بالکل ہمارے دیہاتوں کی طرح ہے کہ گاؤں کا چوہدری اپنے سامنے کھڑے ہونے والے مزارعے ہاری کو کچل کر رکھ دیتا ہے تا کہ کوئی دوسرا اس کو چیلنج کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔ انسان کی انسان کو غلام بنانے اور اس پر بالادستی کی نفسیات اور طریقہ کار ایک ہی ہے چاہے وہ فرد کے لیے ہو یا قوموں کے معاملے میں۔ گریٹ گیم ہو یا عظیم چال۔ انسانوں کو اس نے کیا دیا۔ سوائے تباہی و بربادی کے۔ سامراج کسی بھی انقلاب کو دو طریقے سے ختم کرتا ہے۔ پہلے اس پر جنگ مسلط کرتا ہے تا کہ اس پر بے پناہ تباہی و بربادی مسلط کر کے اس انقلاب کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کی مثال سوویت یونین ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے ایک سازش کے تحت ہٹلر کو پروان چڑھایا گیا پھر اس کے بعد وہ سوویت یونین پر چڑھ دوڑا اور اس کے بڑے حصے کو ہولناک تباہیوں سے دوچار کر دیا۔ دوسری مثال ایران کے حوالے سے ہے جس کے انقلاب کو دنیا نے مانا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انقلاب کو اندرونی سازشوں سے ختم کرتا ہے معاشی پابندیاں لگاتا ہے۔ اپنی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے ایسے ایسے جھوٹ اور افواہیں تراشتا ہے کہ دنیا میں اچھوت بنا کر رکھ دیتا ہے۔ عالمی امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ برسوں اور دہائیوں کا یہ پروپیگنڈا اتنا خوفناک ہوتا ہے کہ دنیا سامراجی جھوٹ پر ایمان لے آتی ہے۔ سوویت یونین اور ایران کے ساتھ یہی طریقہ واردات استعمال ہوا۔
اب ایران کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ اسے معاشی پابندیوں کے ذریعے مذاکرات کی میز پر لایا گیا ہے۔ پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ جو مقاصد جنگ کے ذریعے حاصل نہ ہو سکے وہ مذاکرات کی میز پر حاصل کر لیے جائیں۔ نومبر 013 2 میں جب امریکا ایران پس پردہ رابطوں کا پتہ چلا تو پوری دنیا حیران رہ گئی۔ اسرائیل نے شدید ردعمل کا اظہار کیا کیونکہ امریکا ایران تعلقات بہتر ہونے سے مشرق وسطیٰ پر اس کی اجارہ داری کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ایران امریکا رابطوں پر سعودی عرب نے بھی سخت پریشانی و غم و غصے کا اظہار کیا۔
سعودی خدشات کو دور کرنے کے لیے امریکی اعلیٰ قیادت نے ریاض کے مسلسل دورے کیے اور سعودی بادشاہ کو اعتماد میں لیا۔ اسی دوران ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بیان دیا کہ وہ سعودی عرب کا دورہ اور اس کی مدد کرنے کے لیے ہر ممکن حد تک تیار ہیں۔ سابق ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی کہتے ہیں کہ ایران کے تعلقات سعودی عرب سے آج جتنے بہتر ہیں پہلے کبھی نہیں تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی بادشاہت کو ابوبکر بغدادی سے جو خطرہ لاحق ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔
سعودی عرب اور ایران اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی قیادت میں متحد ہیں۔ ہے نا حیرت انگیز اور انتہائی ناقابل یقین بات۔ ملکوں و قوموں کے درمیان نہ دوستی مستقل ہوتی ہے اور نہ ہی دشمنی۔ صرف مفادات مستقل ہوتے ہیں۔ اس میں ہمارے لیے بھی بہت بڑا سبق پنہاں ہے۔ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک خطہ ایک نئی کروٹ بدل رہا ہے۔ اگر ایران سعودی عرب دوستی ہو جاتی ہے تو اس کے ہمارے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور یہ دوستی کا سفر آخر کار پاک بھارت دوستی میں بھی بدل سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکا ایران مذاکرات کے پیچھے ایک نئے مشرق وسطیٰ کی ''ری برتھ'' ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے اور پاکستان افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ اسی کا حصہ ہے۔ دہشت گردوں کی رسی دراز تھی لیکن آخر کار یہ پکڑ میں آ گئے۔ ''بے چارے'' اب گھیرے میں آ چکے ہیں کوئی راہ فرار نہیں۔ وائٹ ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق ان دہشت گردوں کا ان کی اگلی تین نسلوں تک تعاقب کیا جائے گا۔ ان کا خاتمہ تاریخ میں عبرت کی ایک نئی داستان رقم کرے گا۔
فروری مارچ 015 2 میں کراؤن پرنس سلمان کی ذمے داریوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
سیل فون:۔0346-4527997۔