اب وقت ہے دیدار کا
اب وہ لوگ کہاں؟ اور کون انہیں چراغ رخ زیبا لے کر تلاش کرے؟
موسم سرما کی رات تو ویسے بھی بہت ڈپریسنگ ہوا کرتی ہے اور اس رات میں جب آپ کے دل میں دکھ بھی ہو تو وہ رات کس قدر بھاری ہو جاتی ہے؟
لاہور کی وہ رات مجھے بہت دکھی محسوس ہوئی جس رات چند روشن خیال این جی اوسٹ پولیس اسٹیشن میں بیٹھے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے حوالے سے ''رپٹ'' لکھوا رہے تھے۔
یہ لوگ کون تھے؟ یہ وہ لوگ تھے جن کے حوالے سے اردو کی مشہور ترقی پسند شاعرہ فہمیدہ ریاض نے لکھا تھا کہ:
''کوتوال بیٹھا ہے
کیا بیان دیں اس کو
جان جیسی تڑپی ہے
کچھ عیاں نہ ہو پائے
جو گذر گئی دل پر
کچھ بیاں نہ ہو پائے
ہاں! لکھو کہ سب سچ ہے
اپنا جرم ثابت ہے
جو کیا ہے وہ کم ہے
صرف یہ ندامت ہے
چیتھڑا ہے یہ قانون
باغیوں کے قدموں کی
اس سے دھول جھاڑیں گے
اور تمہارے سب قانون
بیچ چوک پھاڑیں گے
خار و خس کمتر ہو
راستے کے کنکر ہو
جس نے راہ گھیری ہے
وہ تمہارا آقا ہے
ہم نے دل میں ٹھانی ہے
راہ صاف کردیں گے
تم کہ صرف نوکر ہو
تم کو معاف کردیں گے''
یہ نظم ان لوگوں کے لیے لکھی گئی تھی جو ایک نئے سورج کو ابھارنے والے جرم کے حوالے سے وہ باغی مجرم سمجھے جاتے تھے جن پر تاریخ کو ہمیشہ فخر رہا ہے۔
اب وہ لوگ کہاں؟ اور کون انہیں چراغ رخ زیبا لے کر تلاش کرے؟ مگر خود کو ان کے قافلے کے مسافر قرار دینے والے یہ لوگ جب لاہور کے لبرٹی چوک پر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی برسی کے موقعے پر کوئی جلوس نکالنے بھی نہیں اور نہ ہی کوئی جلسہ کرنے جمع ہوئے وہ تو صرف دور حاضر کی بے ضرر سی رسم یعنی موم بتیاں روشن کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے اور انہیں آسمان سے فیض احمد فیض کی روح بھی یہ کہے جا رہی تھی کہ:
''کیوں فیض چھپاؤ چراغ تہہ داماں
بجھ جائے گا یوں بھی کہ ہوا تیز بہت ہے''
مگر وہ ایک سو کے قریب لوگ جو ڈرے بھی ہوئے تھے اور سہمے بھی ہوئے تھے وہ آہستہ آہستہ اپنے ہینڈ بیگس سے اسلحہ نہیں بلکہ موم بتیاں نکال رہے تھے اور دھیمے لہجے میں نعرے بھی لگا رہے تھے اور جب موم بتیاں روشن ہوئیں تو ان پر دس بارہ افراد نے دھاوا بول دیا۔ انھوں نے ان کی موم بتیاں بجھا دیں اور سلمان تاثیر کی تصویر کو پھاڑ دیا اور انہیں نہ صرف دھکے دیے بلکہ چند لوگوں کے پیٹھ پر ڈنڈے بھی برسے اور عجیب بات یہ کہ اپنا جمہوری حق استعمال کرنے والے یہ لوگ وہاں ٹھہر کر پرامن مزاحمت کرنے کے بجائے بھاگ کھڑے ہوئے۔
نہ ان پر گولیاں چلیں اور نہ وہاں کوئی بم دھماکا ہوا! مگر وہ خزاں کے موسم میں سڑک پر پڑے پیلے پتوں کی طرح خوف کی ہلکی ہوا میں اڑ گئے۔ کیوں؟ یہ تو انقلابی تھے! ان کے اس عمل نے پورے ملک کو کیا پیغام دیا؟ صرف یہ کہ آپریشن ضرب عضب کے باوجود اور فوجی عدالتیں قائم ہونے کے ماحول میں اس ملک کے اندر انتہا پسندوں کو کوئی خوف نہیں۔ وہ روشن خیال لوگوں کو ایک پرامن سوگ کا حق بھی نہیں دیتے۔
نہیں۔ صرف یہ پیغام نہیں ملا ان کے عمل سے اس ملک کے لوگوں کو مگر انہیں یہ پیغام بھی ملا کہ اب انقلابیت این جی او کی مارکیٹ کی ایک ایسی ملازمہ بن چکی ہے جو ایئر کنڈیشنڈ ہوٹل میں تو بڑے نخرے سے بالوں کی لٹ اپنے رخسار سے ہٹاتے ہوئے حبیب جالب کا شعر تو پڑھ سکتی ہے مگر آزمائش کی گھڑی میں وہاں ایک پل کو نہیں ٹھہر سکتی۔
جہاں تک آزمائش لفظ کے معنی کا تعلق ہے تو آزمائش اس وقت ثابت ہونے کا تقاضا کرتی ہے جب کوئی خوف ہو۔ کوئی خطرہ ہو۔ اس وقت خوف بھی تھا اور خطرہ بھی۔ کیوں کہ ابھی پشاور سانحے میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کا خون اسکول کے فرش پر موجود تھا۔ اس وقت ملک کے اکثریتی عوام کے دلوں میں دہشتگردوں سے شدید نفرت تھی۔ میں نے سنا ہے کہ نفرت انسان کو بہادر بنا دیتی ہے مگر یہ کیسے انقلابی تھے جو اس آزمائش کی گھڑی میں وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ انقلابی جن کی بغاوت اب صرف سوشل میڈیا پر اچھلتی کودتی ہے۔
وہ خواتین جو فیس بک اور ٹوئیٹر پر بندی والی تصاویر اپ لوڈ کرکے خود کو بہت بہادر تصور کرتی ہیں ان میں تو اتنی بھی ہمت نہ تھی جتنی ہمت کا مظاہرہ آرمی پبلک اسکول کی ان شہید ٹیچرز نے کیا تھا جنھوں نے بچوں کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جانے کے بجائے دہشتگردوں سے الجھنا بہتر سمجھا اور انہیں بچوں کے سامنے زندہ جلا دیا گیا مگر وہ خوف کا شکار نہیں ہوئیں۔ حالانکہ انھوں نے کبھی انقلاب کی بات نہیں کی تھی۔
وہ سیاسی حوالے سے کبھی گفتگو بھی نہیں کیا کرتی تھیں مگر جب آزمائش کی گھڑی آئی تو وہ پہاڑوں کی طرح سربلند نظر آئیں اور انھوں نے سینہ تان کر گولیاں کھائیں مگر دہشتگردوں کے سامنے ڈر کی علامت نہیں بنیں۔ جب کہ پاکستان کی وہ خواتین جو ہر فنکشن میں اس طرح بات کرتی ہیں جیسے انقلاب ان کی پرس میں پڑا ہوا ہے۔ وہ جو خود کو جمہوری روایات کی پاسبان قرار دیتی ہیں ۔ کیا وہ بھول گئیں کہ جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں اور نہ جمہوریت اس کلام کو کہتے ہیں جو یہ خواتین بندی لگا کر ٹاک شوز میں آکر پیش کرتی ہیں۔
اس وقت جب پورا ملک دہشتگردی کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے تیار ہے تب ماحول تو فیض احمد فیض کے اس شعر جیسا ہے کہ:
''پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلہ رخسار حقیقت
پیغام اجل دعوت دیدار حقیقت
اے دیدہ بینا!
اب وقت ہے دیدار کا
دم ہے کہ نہیں ہے؟''
یہ دیدار کی گھڑی تھی اس گھڑی میں سلمان تاثیر کا سوگ منانے والے این جی او سے وابستہ خواتین اور حضرات نے ثابت کیا کہ انقلابیت تو کیا صرف جمہوری جذبے سے بھی لاتعلق ہیں جس جمہوری جذبے کو ہم نے اپنی آنکھوں سے جنرل ضیاء کے دور میں پولیس کی لاٹھیاں کھانے والے لوگوں کو دیکھا تھا اور ان لوگوں میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جنھوں نے اسی زندہ دلان لہور کے سامنے آمریت کے تشدد کا مقابلہ کیا تھا۔
مگر اب وہ سب کچھ ماضی کی بات بن چکا ہے۔ اب یہ موم بتیاں جلانے والے ان مجاوروں کی طرح ہیں جو ماضی کے مزاروں پر دیے روشن کرتے ہیں۔ وہ سب جو اب انٹرنیٹ پر بلاگ بنا کر اپنے جذبات کا ڈھول پیٹتے ہیں انہیں کیوں نہیں معلوم کہ تبدیلی قربانی کے بغیر نہیں آتی۔ مگر این جی اوز کے لیے پراجیکٹ لینے والوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی۔ کیوں کہ انھوں نے صرف لینا سیکھا ہے۔ انھیں دینا نہیں آتا۔ اگر آتا تو وہ ڈٹ جاتے۔
اور بات صرف اس رات کی نہیں جس رات وہ سب لاہور کے بڑے پولیس افسران سے انگریزی میں گفتگو کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کروانے کے لیے ضد کر رہے تھے۔ اس رات کی ایک صبح بھی تھی۔ کیا اس صبح کو اس ملک میں کوئی احتجاج ہوا؟ حالانکہ پورے ملک میں این جی اوز کا بہت بڑا نیٹ ورک موجود ہے مگر کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ کوئی پریس کانفرنس نہیں ہوئی۔ کیوں کہ کسی این جی او کے پاس ایسا احتجاج کرنے والا پراجیکٹ نہیں تھا۔ جب انقلاب ایک پراجیکٹ بن جائے تو تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟ جب پیسے کے لیے سب کچھ کیا جائے تو تاریخ کی دھارا کو کس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
افسوس صرف این جی اوز سے وابستہ انقلابیوں کے اس عمل پر نہیں ہوا مگر ایک چینل کا اینکر جس نے جوانی میں بلوچستان کے پہاڑوں پر چڑھ کر انقلابی ہونے کا اعلان کیا تھا اس رات جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ اس واقعے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ تب اس نے بارش میں بھیگی ہوئی چڑیا کی طرح کہا کہ ''احتجاج کرنے والے نے غیر حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے'' جب ردعمل ایسا ہو تو پھر ہمیں اپنے دور پر ماتم کرنا چاہیے اور اس ماتم کے دوراں فیض صاحب کے یہ الفاظ بھی ہونٹوں پر لانے چاہئیں کہ:
''جواں مردی اس رفعت کو پہنچی
جہاں سے بزدلی نے جست لی تھی''
لاہور کی وہ رات مجھے بہت دکھی محسوس ہوئی جس رات چند روشن خیال این جی اوسٹ پولیس اسٹیشن میں بیٹھے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے حوالے سے ''رپٹ'' لکھوا رہے تھے۔
یہ لوگ کون تھے؟ یہ وہ لوگ تھے جن کے حوالے سے اردو کی مشہور ترقی پسند شاعرہ فہمیدہ ریاض نے لکھا تھا کہ:
''کوتوال بیٹھا ہے
کیا بیان دیں اس کو
جان جیسی تڑپی ہے
کچھ عیاں نہ ہو پائے
جو گذر گئی دل پر
کچھ بیاں نہ ہو پائے
ہاں! لکھو کہ سب سچ ہے
اپنا جرم ثابت ہے
جو کیا ہے وہ کم ہے
صرف یہ ندامت ہے
چیتھڑا ہے یہ قانون
باغیوں کے قدموں کی
اس سے دھول جھاڑیں گے
اور تمہارے سب قانون
بیچ چوک پھاڑیں گے
خار و خس کمتر ہو
راستے کے کنکر ہو
جس نے راہ گھیری ہے
وہ تمہارا آقا ہے
ہم نے دل میں ٹھانی ہے
راہ صاف کردیں گے
تم کہ صرف نوکر ہو
تم کو معاف کردیں گے''
یہ نظم ان لوگوں کے لیے لکھی گئی تھی جو ایک نئے سورج کو ابھارنے والے جرم کے حوالے سے وہ باغی مجرم سمجھے جاتے تھے جن پر تاریخ کو ہمیشہ فخر رہا ہے۔
اب وہ لوگ کہاں؟ اور کون انہیں چراغ رخ زیبا لے کر تلاش کرے؟ مگر خود کو ان کے قافلے کے مسافر قرار دینے والے یہ لوگ جب لاہور کے لبرٹی چوک پر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی برسی کے موقعے پر کوئی جلوس نکالنے بھی نہیں اور نہ ہی کوئی جلسہ کرنے جمع ہوئے وہ تو صرف دور حاضر کی بے ضرر سی رسم یعنی موم بتیاں روشن کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے اور انہیں آسمان سے فیض احمد فیض کی روح بھی یہ کہے جا رہی تھی کہ:
''کیوں فیض چھپاؤ چراغ تہہ داماں
بجھ جائے گا یوں بھی کہ ہوا تیز بہت ہے''
مگر وہ ایک سو کے قریب لوگ جو ڈرے بھی ہوئے تھے اور سہمے بھی ہوئے تھے وہ آہستہ آہستہ اپنے ہینڈ بیگس سے اسلحہ نہیں بلکہ موم بتیاں نکال رہے تھے اور دھیمے لہجے میں نعرے بھی لگا رہے تھے اور جب موم بتیاں روشن ہوئیں تو ان پر دس بارہ افراد نے دھاوا بول دیا۔ انھوں نے ان کی موم بتیاں بجھا دیں اور سلمان تاثیر کی تصویر کو پھاڑ دیا اور انہیں نہ صرف دھکے دیے بلکہ چند لوگوں کے پیٹھ پر ڈنڈے بھی برسے اور عجیب بات یہ کہ اپنا جمہوری حق استعمال کرنے والے یہ لوگ وہاں ٹھہر کر پرامن مزاحمت کرنے کے بجائے بھاگ کھڑے ہوئے۔
نہ ان پر گولیاں چلیں اور نہ وہاں کوئی بم دھماکا ہوا! مگر وہ خزاں کے موسم میں سڑک پر پڑے پیلے پتوں کی طرح خوف کی ہلکی ہوا میں اڑ گئے۔ کیوں؟ یہ تو انقلابی تھے! ان کے اس عمل نے پورے ملک کو کیا پیغام دیا؟ صرف یہ کہ آپریشن ضرب عضب کے باوجود اور فوجی عدالتیں قائم ہونے کے ماحول میں اس ملک کے اندر انتہا پسندوں کو کوئی خوف نہیں۔ وہ روشن خیال لوگوں کو ایک پرامن سوگ کا حق بھی نہیں دیتے۔
نہیں۔ صرف یہ پیغام نہیں ملا ان کے عمل سے اس ملک کے لوگوں کو مگر انہیں یہ پیغام بھی ملا کہ اب انقلابیت این جی او کی مارکیٹ کی ایک ایسی ملازمہ بن چکی ہے جو ایئر کنڈیشنڈ ہوٹل میں تو بڑے نخرے سے بالوں کی لٹ اپنے رخسار سے ہٹاتے ہوئے حبیب جالب کا شعر تو پڑھ سکتی ہے مگر آزمائش کی گھڑی میں وہاں ایک پل کو نہیں ٹھہر سکتی۔
جہاں تک آزمائش لفظ کے معنی کا تعلق ہے تو آزمائش اس وقت ثابت ہونے کا تقاضا کرتی ہے جب کوئی خوف ہو۔ کوئی خطرہ ہو۔ اس وقت خوف بھی تھا اور خطرہ بھی۔ کیوں کہ ابھی پشاور سانحے میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کا خون اسکول کے فرش پر موجود تھا۔ اس وقت ملک کے اکثریتی عوام کے دلوں میں دہشتگردوں سے شدید نفرت تھی۔ میں نے سنا ہے کہ نفرت انسان کو بہادر بنا دیتی ہے مگر یہ کیسے انقلابی تھے جو اس آزمائش کی گھڑی میں وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ انقلابی جن کی بغاوت اب صرف سوشل میڈیا پر اچھلتی کودتی ہے۔
وہ خواتین جو فیس بک اور ٹوئیٹر پر بندی والی تصاویر اپ لوڈ کرکے خود کو بہت بہادر تصور کرتی ہیں ان میں تو اتنی بھی ہمت نہ تھی جتنی ہمت کا مظاہرہ آرمی پبلک اسکول کی ان شہید ٹیچرز نے کیا تھا جنھوں نے بچوں کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جانے کے بجائے دہشتگردوں سے الجھنا بہتر سمجھا اور انہیں بچوں کے سامنے زندہ جلا دیا گیا مگر وہ خوف کا شکار نہیں ہوئیں۔ حالانکہ انھوں نے کبھی انقلاب کی بات نہیں کی تھی۔
وہ سیاسی حوالے سے کبھی گفتگو بھی نہیں کیا کرتی تھیں مگر جب آزمائش کی گھڑی آئی تو وہ پہاڑوں کی طرح سربلند نظر آئیں اور انھوں نے سینہ تان کر گولیاں کھائیں مگر دہشتگردوں کے سامنے ڈر کی علامت نہیں بنیں۔ جب کہ پاکستان کی وہ خواتین جو ہر فنکشن میں اس طرح بات کرتی ہیں جیسے انقلاب ان کی پرس میں پڑا ہوا ہے۔ وہ جو خود کو جمہوری روایات کی پاسبان قرار دیتی ہیں ۔ کیا وہ بھول گئیں کہ جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں اور نہ جمہوریت اس کلام کو کہتے ہیں جو یہ خواتین بندی لگا کر ٹاک شوز میں آکر پیش کرتی ہیں۔
اس وقت جب پورا ملک دہشتگردی کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے تیار ہے تب ماحول تو فیض احمد فیض کے اس شعر جیسا ہے کہ:
''پھر برق فروزاں ہے سر وادی سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلہ رخسار حقیقت
پیغام اجل دعوت دیدار حقیقت
اے دیدہ بینا!
اب وقت ہے دیدار کا
دم ہے کہ نہیں ہے؟''
یہ دیدار کی گھڑی تھی اس گھڑی میں سلمان تاثیر کا سوگ منانے والے این جی او سے وابستہ خواتین اور حضرات نے ثابت کیا کہ انقلابیت تو کیا صرف جمہوری جذبے سے بھی لاتعلق ہیں جس جمہوری جذبے کو ہم نے اپنی آنکھوں سے جنرل ضیاء کے دور میں پولیس کی لاٹھیاں کھانے والے لوگوں کو دیکھا تھا اور ان لوگوں میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جنھوں نے اسی زندہ دلان لہور کے سامنے آمریت کے تشدد کا مقابلہ کیا تھا۔
مگر اب وہ سب کچھ ماضی کی بات بن چکا ہے۔ اب یہ موم بتیاں جلانے والے ان مجاوروں کی طرح ہیں جو ماضی کے مزاروں پر دیے روشن کرتے ہیں۔ وہ سب جو اب انٹرنیٹ پر بلاگ بنا کر اپنے جذبات کا ڈھول پیٹتے ہیں انہیں کیوں نہیں معلوم کہ تبدیلی قربانی کے بغیر نہیں آتی۔ مگر این جی اوز کے لیے پراجیکٹ لینے والوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی۔ کیوں کہ انھوں نے صرف لینا سیکھا ہے۔ انھیں دینا نہیں آتا۔ اگر آتا تو وہ ڈٹ جاتے۔
اور بات صرف اس رات کی نہیں جس رات وہ سب لاہور کے بڑے پولیس افسران سے انگریزی میں گفتگو کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کروانے کے لیے ضد کر رہے تھے۔ اس رات کی ایک صبح بھی تھی۔ کیا اس صبح کو اس ملک میں کوئی احتجاج ہوا؟ حالانکہ پورے ملک میں این جی اوز کا بہت بڑا نیٹ ورک موجود ہے مگر کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ کوئی پریس کانفرنس نہیں ہوئی۔ کیوں کہ کسی این جی او کے پاس ایسا احتجاج کرنے والا پراجیکٹ نہیں تھا۔ جب انقلاب ایک پراجیکٹ بن جائے تو تبدیلی کیسے آسکتی ہے؟ جب پیسے کے لیے سب کچھ کیا جائے تو تاریخ کی دھارا کو کس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
افسوس صرف این جی اوز سے وابستہ انقلابیوں کے اس عمل پر نہیں ہوا مگر ایک چینل کا اینکر جس نے جوانی میں بلوچستان کے پہاڑوں پر چڑھ کر انقلابی ہونے کا اعلان کیا تھا اس رات جب اس سے پوچھا گیا کہ آپ اس واقعے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ تب اس نے بارش میں بھیگی ہوئی چڑیا کی طرح کہا کہ ''احتجاج کرنے والے نے غیر حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے'' جب ردعمل ایسا ہو تو پھر ہمیں اپنے دور پر ماتم کرنا چاہیے اور اس ماتم کے دوراں فیض صاحب کے یہ الفاظ بھی ہونٹوں پر لانے چاہئیں کہ:
''جواں مردی اس رفعت کو پہنچی
جہاں سے بزدلی نے جست لی تھی''