انسان کو انسان سے ڈر لگتا ہے
سچی بات تو یہ ہےکہ ہماراپورا معاشرہ ہی انتہاپسند بن چکا ہے۔ہرفرد انتہاپسندی کی کسی نہ کسی قسم کےگرداب میں پھنسا ہوا ہے
آج ملک کو درپیش مسائل میں سب سے خطرناک و نقصان دہ چیلنج معاشرے میں اعتدال پسندی کا فقدان اور انتہاپسندی کی بہتات ہے۔ انتہاپسندی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی نظریات میں عدم توازن کا نام ہے۔ انتہاپسندی کا تعلق کسی مذہب، فلسفے یا نقطہ نظر کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ یہ انسانی رویوں کا نام ہے، جو کسی بھی فرد کی شخصیت کا حصہ بن سکتی ہے۔
سیاسی جبر، طبقاتی نظام، جہالت، عقلی رویوں کا فقدان، فرقہ واریت اور مذہب کی غلط تشریح کو انتہاپسندی کی بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ انتہاپسندی تشدد کو جنم دیتی ہے، جس سے بدامنی، قتل و غارت اور خونریزی کو فروغ ملتا ہے۔ حال اور ماضی مختلف انتہاپسندیوں کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے خون سے سرخ ہیں۔ دنیا میں ہونے والی خونریز جنگوں میں کروڑوں لوگ موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ اگر ان خونریزیوں کا سرا ڈھونڈا جائے تو معاملہ مذہبی، سیاسی، معاشرتی و معاشی انتہاپسندی تک ہی جا پہنچے گا۔
یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ انتہاپسندی ہتھیاروں کے استعمال پر ہی مبنی ہو، بلکہ سوچ، رویے اور پرچار بھی اسی انتہاپسندی کے مختلف شعبے ہیں۔ انتہاپسند انسان دوسرے کی مدلل بات کو بھی بلا غور و فکر اور سوچ و بچار مسترد کرکے اپنی بلا دلیل بات کو زبردستی منوانے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ انتہاپسندی سے سب سے پہلے عدم برداشت و عدم تحمل کا خاتمہ ہوتا ہے، اس لیے انتہا پسندی کا شکار انسان اختلاف رائے کو کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ افسوس! پاکستانی معاشرہ ایک عرصے سے مذہبی، سیاسی، سماجی و معاشی اور دیگر کئی مختلف قسم کی انتہاپسندیوں کی جکڑبندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ ہی انتہاپسند بن چکا ہے۔ ہر فرد انتہاپسندی کی کسی نہ کسی قسم کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے، بلکہ آج تو انتہاپسندی دیوانگی اور جنون کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ جس کے مناظر آئے روز سیاسی و مذہبی شخصیات کی جانب سے انتہاپسندانہ بیانات اور ملک میں بدامنی اور خونریزی کی صورت میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ کوئی دوسرے کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے، بلکہ صرف اپنا نظریہ، اپنی سوچ اور اپنا موقف دوسرے پر مسلط کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے۔
اپنی سوچ کی نفی ہونے کی صورت میں دوسرے کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، بلکہ انتہاپسند انسان اپنی سوچ کو نافذ کرنے کی خاطر مخالفین کا قتل تک کرنے کو برا نہیں جانتا۔ سانحہ پشاور انتہاپسندی کی ایک واضح مثال ہے۔ ان خطرناک حالات میں اب تو انسان کو انسان سے ڈر لگنے لگا ہے کہ اختلاف رائے پر نجانے کون کب کیا کردے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کی دو بڑی اقسام سیاسی و مذہبی انتہاپسندیوں کا تجزیہ کیا جائے تو انتہائی پریشان کن اور افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ ملک میں مذہبی انتہاپسندی کا یہ عالم ہے کہ ہر فرقے اور نظریے کے ماننے والوں کی تمام کاوشوں کا محور دوسرے فرقے، دوسرے نظریے اور دوسرے خیالات کے حاملین کو ناحق، باطل اور گمراہ ثابت کرنا ہوتا ہے، بلکہ فریق مخالف کو ذرا سی بات پر کافر، مرتد اور زندیق کہنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ ہر شخص اپنے پاس موجود علم کو علم کل سمجھتے ہوئے صرف اسی پر عمل کرنے کو راہ نجات سمجھتا ہے، جب کہ اس کے علاوہ ہر راستے کو گمراہی کا راستہ بتلاتا ہے۔
اکثر و بیشتر مبلغین اسلام سے زیادہ اپنے اپنے مکتبہ فکر کو اہمیت دیتے ہیں۔ اپنی بنیادی وابستگی اور ذاتی فوائد کی وجہ سے محض منتخب شدہ آیات و احادیث کی ہی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس طرح ''امن کے مذہب'' کے متعلق یہ گروہی نقطہ نظر اسلام کی اصل روح سے دور ہوجاتا ہے۔ اس منفی سوچ نے معاشرے میں خونی تنازعات کو جنم دیا ہے۔ مذہبی کلچر میں کم علمی کی وجہ سے عدم برداشت اور تنازعات کی جانب جھکائو بڑھا ہے۔ حالانکہ اسلام ایک معتدل و متوازن دین ہے، جو غلو کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔
دوسری جانب اگر ملک میں سیاسی انتہاپسندی پر غور و خوض کیا جائے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ ملک میں سیاسی انتہاپسندی بھی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی مذہبی مسالک کی طرح سیاسی مسالک بن چکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان صرف اپنے آپ کو درست اور دوسرے کو بالکل غلط تصور کرتے ہیں۔ ایک جماعت کے لوگ دوسری جماعت والوں کو ہر لحاظ سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے سے لے کر مخالفین سے لڑائی جھگڑا اور قتل تک روا رکھا جاتا ہے۔
پاکستان کے سیاسی کلچر میں ایسے عوامل بدرجہ اتم موجود ہیں جو کہ انتہا پسندی کو ہوا دینے کا موجب ہیں۔ پورا ملک شروع دن سے ہی سیاسی افراتفری کا شکار رہا ہے، اس سیاسی صورت حال نے امن اور سکون کی راہ میں مسائل کو جنم دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں انتہا پسندی کی کوئی بھی دعوت خاصی پرکشش لگتی ہے اور یہ پس منظر انتہا پسند عناصر کے لیے زرخیز زمین کا کام دیتا ہے۔
سیاسی حکمران بھی ترقی کے حوالے سے محض بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کے لیے عوام سے بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں، مگر ہر دفعہ نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔ اس طرح احساس محرومی کی شرح بڑھتی رہتی ہے، جو کہ ڈیپریشن اور دبائو کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے انتہاپسندی جنم لیتی ہے۔
انتہاپسندی کی بہتات میں معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ کسی بھی معاشرے میں یہ ممکن نہیں کہ تمام انسان ایک ہی سوچ، فکر اور نظریے کے حامل ہوں، کیونکہ انسانی معاشرہ اس گل دستے کی مانندہے، جس کی سجاوٹ و خوبصورتی کے لیے مختلف رنگ و اقسام کے پھولوں کا ہونا ضروری ہے۔ معاشرے میں انسانی مزاج اور سوچ کا یہ تنوع فطری اور طبعی ہے، جو معاشرے کی خوبصورتی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
یہ آفاقی حقیقت ہے کہ ہر دور اور ہر خطے میں مختلف نظریات کے افراد کا مل جل کر رہنا معاشرے کی تکمیل کا حصہ ہے، لیکن یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان ہمیشہ سے اپنے نظریات کے متعلق انتہائی حساس واقع ہوا ہے۔ اب ایک طرف باہم مل جل کر رہنا فطری و طبعی امر ٹھہرا، جب کہ دوسری جانب انسان کا اپنے نظریات پر کمپرومائز کرنا بھی ناممکن ہے۔
ایسے میں انسان کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ ہے کہ انسان اپنی سوچ غالب کرنے کے لیے انتہا پسندی پر عمل کرتے ہوئے تصادم اور تشدد کی راہ کا چنائو کرے، لیکن اس صورت کو اختیار کرنے سے ایک تو زور زبردستی کسی پر اپنی سوچ کو مسلط کر دینا ناممکن ہے، جب کہ اس صورت میں امن اور انسانیت جس طرح تباہ ہوگی، وہ بھی سب پر ظاہر ہے۔
جب کہ دوسرا راستہ ہے کہ تحمل و برداشت کا دامن تھام کر مختلف خیالات و نظریات کے لوگ پر امن بقائے باہم ''جیو اور جینے دو'' کے فارمولے پر آپس میں معاملات طے کرتے ہوئے اپنے معاملات کو سلجھائیں اور تصادم کی صورت پیدا نہ کریں۔ یقینا یہ راستہ انسانی عقل کے زیادہ قریب ہے۔ اس کے ساتھ معاشرے سے انتہا پسندی کا خاتمہ انتہاپسندی کے اسباب کے خاتمے سے ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے میڈیا اور سنجیدہ افراد کو متوازن اور مثبت ادا کرنا ہوگا۔
سیاسی جبر، طبقاتی نظام، جہالت، عقلی رویوں کا فقدان، فرقہ واریت اور مذہب کی غلط تشریح کو انتہاپسندی کی بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے۔ انتہاپسندی تشدد کو جنم دیتی ہے، جس سے بدامنی، قتل و غارت اور خونریزی کو فروغ ملتا ہے۔ حال اور ماضی مختلف انتہاپسندیوں کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے خون سے سرخ ہیں۔ دنیا میں ہونے والی خونریز جنگوں میں کروڑوں لوگ موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ اگر ان خونریزیوں کا سرا ڈھونڈا جائے تو معاملہ مذہبی، سیاسی، معاشرتی و معاشی انتہاپسندی تک ہی جا پہنچے گا۔
یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ انتہاپسندی ہتھیاروں کے استعمال پر ہی مبنی ہو، بلکہ سوچ، رویے اور پرچار بھی اسی انتہاپسندی کے مختلف شعبے ہیں۔ انتہاپسند انسان دوسرے کی مدلل بات کو بھی بلا غور و فکر اور سوچ و بچار مسترد کرکے اپنی بلا دلیل بات کو زبردستی منوانے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ انتہاپسندی سے سب سے پہلے عدم برداشت و عدم تحمل کا خاتمہ ہوتا ہے، اس لیے انتہا پسندی کا شکار انسان اختلاف رائے کو کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ افسوس! پاکستانی معاشرہ ایک عرصے سے مذہبی، سیاسی، سماجی و معاشی اور دیگر کئی مختلف قسم کی انتہاپسندیوں کی جکڑبندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ ہی انتہاپسند بن چکا ہے۔ ہر فرد انتہاپسندی کی کسی نہ کسی قسم کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے، بلکہ آج تو انتہاپسندی دیوانگی اور جنون کی حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ جس کے مناظر آئے روز سیاسی و مذہبی شخصیات کی جانب سے انتہاپسندانہ بیانات اور ملک میں بدامنی اور خونریزی کی صورت میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ کوئی دوسرے کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے، بلکہ صرف اپنا نظریہ، اپنی سوچ اور اپنا موقف دوسرے پر مسلط کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے۔
اپنی سوچ کی نفی ہونے کی صورت میں دوسرے کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، بلکہ انتہاپسند انسان اپنی سوچ کو نافذ کرنے کی خاطر مخالفین کا قتل تک کرنے کو برا نہیں جانتا۔ سانحہ پشاور انتہاپسندی کی ایک واضح مثال ہے۔ ان خطرناک حالات میں اب تو انسان کو انسان سے ڈر لگنے لگا ہے کہ اختلاف رائے پر نجانے کون کب کیا کردے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کی دو بڑی اقسام سیاسی و مذہبی انتہاپسندیوں کا تجزیہ کیا جائے تو انتہائی پریشان کن اور افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ ملک میں مذہبی انتہاپسندی کا یہ عالم ہے کہ ہر فرقے اور نظریے کے ماننے والوں کی تمام کاوشوں کا محور دوسرے فرقے، دوسرے نظریے اور دوسرے خیالات کے حاملین کو ناحق، باطل اور گمراہ ثابت کرنا ہوتا ہے، بلکہ فریق مخالف کو ذرا سی بات پر کافر، مرتد اور زندیق کہنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ ہر شخص اپنے پاس موجود علم کو علم کل سمجھتے ہوئے صرف اسی پر عمل کرنے کو راہ نجات سمجھتا ہے، جب کہ اس کے علاوہ ہر راستے کو گمراہی کا راستہ بتلاتا ہے۔
اکثر و بیشتر مبلغین اسلام سے زیادہ اپنے اپنے مکتبہ فکر کو اہمیت دیتے ہیں۔ اپنی بنیادی وابستگی اور ذاتی فوائد کی وجہ سے محض منتخب شدہ آیات و احادیث کی ہی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس طرح ''امن کے مذہب'' کے متعلق یہ گروہی نقطہ نظر اسلام کی اصل روح سے دور ہوجاتا ہے۔ اس منفی سوچ نے معاشرے میں خونی تنازعات کو جنم دیا ہے۔ مذہبی کلچر میں کم علمی کی وجہ سے عدم برداشت اور تنازعات کی جانب جھکائو بڑھا ہے۔ حالانکہ اسلام ایک معتدل و متوازن دین ہے، جو غلو کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔
دوسری جانب اگر ملک میں سیاسی انتہاپسندی پر غور و خوض کیا جائے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ ملک میں سیاسی انتہاپسندی بھی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی مذہبی مسالک کی طرح سیاسی مسالک بن چکی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنان صرف اپنے آپ کو درست اور دوسرے کو بالکل غلط تصور کرتے ہیں۔ ایک جماعت کے لوگ دوسری جماعت والوں کو ہر لحاظ سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے سے لے کر مخالفین سے لڑائی جھگڑا اور قتل تک روا رکھا جاتا ہے۔
پاکستان کے سیاسی کلچر میں ایسے عوامل بدرجہ اتم موجود ہیں جو کہ انتہا پسندی کو ہوا دینے کا موجب ہیں۔ پورا ملک شروع دن سے ہی سیاسی افراتفری کا شکار رہا ہے، اس سیاسی صورت حال نے امن اور سکون کی راہ میں مسائل کو جنم دیا ہے۔ ایسی صورت حال میں انتہا پسندی کی کوئی بھی دعوت خاصی پرکشش لگتی ہے اور یہ پس منظر انتہا پسند عناصر کے لیے زرخیز زمین کا کام دیتا ہے۔
سیاسی حکمران بھی ترقی کے حوالے سے محض بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کے لیے عوام سے بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں، مگر ہر دفعہ نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔ اس طرح احساس محرومی کی شرح بڑھتی رہتی ہے، جو کہ ڈیپریشن اور دبائو کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے انتہاپسندی جنم لیتی ہے۔
انتہاپسندی کی بہتات میں معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ کسی بھی معاشرے میں یہ ممکن نہیں کہ تمام انسان ایک ہی سوچ، فکر اور نظریے کے حامل ہوں، کیونکہ انسانی معاشرہ اس گل دستے کی مانندہے، جس کی سجاوٹ و خوبصورتی کے لیے مختلف رنگ و اقسام کے پھولوں کا ہونا ضروری ہے۔ معاشرے میں انسانی مزاج اور سوچ کا یہ تنوع فطری اور طبعی ہے، جو معاشرے کی خوبصورتی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
یہ آفاقی حقیقت ہے کہ ہر دور اور ہر خطے میں مختلف نظریات کے افراد کا مل جل کر رہنا معاشرے کی تکمیل کا حصہ ہے، لیکن یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان ہمیشہ سے اپنے نظریات کے متعلق انتہائی حساس واقع ہوا ہے۔ اب ایک طرف باہم مل جل کر رہنا فطری و طبعی امر ٹھہرا، جب کہ دوسری جانب انسان کا اپنے نظریات پر کمپرومائز کرنا بھی ناممکن ہے۔
ایسے میں انسان کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ ہے کہ انسان اپنی سوچ غالب کرنے کے لیے انتہا پسندی پر عمل کرتے ہوئے تصادم اور تشدد کی راہ کا چنائو کرے، لیکن اس صورت کو اختیار کرنے سے ایک تو زور زبردستی کسی پر اپنی سوچ کو مسلط کر دینا ناممکن ہے، جب کہ اس صورت میں امن اور انسانیت جس طرح تباہ ہوگی، وہ بھی سب پر ظاہر ہے۔
جب کہ دوسرا راستہ ہے کہ تحمل و برداشت کا دامن تھام کر مختلف خیالات و نظریات کے لوگ پر امن بقائے باہم ''جیو اور جینے دو'' کے فارمولے پر آپس میں معاملات طے کرتے ہوئے اپنے معاملات کو سلجھائیں اور تصادم کی صورت پیدا نہ کریں۔ یقینا یہ راستہ انسانی عقل کے زیادہ قریب ہے۔ اس کے ساتھ معاشرے سے انتہا پسندی کا خاتمہ انتہاپسندی کے اسباب کے خاتمے سے ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے میڈیا اور سنجیدہ افراد کو متوازن اور مثبت ادا کرنا ہوگا۔