الیکشن کمیشن نے ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی پڑتال اور ازخود سزا کا اختیار مانگ لیا
غلط بیانی پر نااہلی کے ساتھ قید و جرمانے کی سزا دی جا سکے گی
الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران اور سینیٹرز کے اثاثوں کی چھان بین کے علاوہ غلط تفصیلات فراہم کرنے پر انھیں نااہل قرار دینے اور قید و جرمانے کی سزا دینے کا اختیار مانگ لیا۔
اس مقصد کے لیے الیکٹورل ریفارمز کمیٹی کو مجوزہ اصلاحات کی تفصیلات بھجوا دی گئی ہیں جن میں عوامی نمائندگی کے قانون مجریہ 1976کے سیکشن 82 میں ترمیم کرکے الیکشن کمیشن کو از خود نوٹس کا اختیار دینے کی سفارش کی گئی ہے، انتہائی باخبر ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ الیکشن کمیشن منتخب نمائندوں کے مالیاتی احتساب کے بارے میں سنجیدہ ہے اور اس ضمن میں تمام تیاریاں مکمل کی جاچکی ہیں، پولیٹیکل فنانس ونگ پہلے ہی سے قائم کر دیا گیا ہے اور گریڈ 19 کے ایک افسر وقارکواس ونگ کا سربراہ مقرر کرد یا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کو اختیار ملنے کے بعد اس ونگ کو فعال کردیا جائے گا جو منتخب ارکان کے اثاثوں کی چھان بین کر کے جمع کردہ اثاثہ جات کے گوشواروں کے ساتھ اس کا تقابل کرے گا، اثاثہ جات چھپانے یا مالیت کم ظاہر کرنے پر منتخب ارکان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور قید و جرمانے کی سزا کے علاوہ انھیں نااہل قرار دیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ 2002 میں عوامی نمائندگی کے قانون کی سیکشن 42 اے میں ترمیم کر کے منتخب ارکان کو ہر سال مالی گوشوارے جمع کرنے کا پابند بنایا گیا تھا تاکہ انھیں غیر قانونی اثاثے بنانے سے روکا جا سکے لیکن ابھی تک مطلوبہ نتائج بر آمد نہیں ہو سکے کیونکہ اس قانون میں الیکشن کمیشن کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ اگر کوئی پارلیمنٹرین یا رکن صوبائی اسمبلی غلط گوشوارے جمع کراتا ہے یا اثاثے چھپاتا ہے تو کمیشن ان کے خلاف کارروائی کرکے انھیں سزا دے سکے۔
ذرائع نے بتایا کہ قانون میں کوئی طریقہ کار بھی وضع نہیں کیا گیا ہے کہ غلط بیانی کرنے پر منتخب ارکان کے خلاف مقدمہ کون،کہاں درج کرے گا اور ٹرائل کس فورم پر ہوگا، اس بارے میں بھی قانون خاموش ہے، ذرائع نے بتایا کہ قانون میں موجود ابہام کے باعث ابھی تک اثاثوں کی بنیاد پر کسی رکن کے خلاف کیس درج نہیں ہوسکا حالانکہ قانون میں غلط بیانی کرنے پر 3 سال قید و جرمانے یا دونوں کی سزا رکھی گئی ہے، ذرائع نے بتایا کہ اگر انتخابی اصلاحات کمیٹی نے سفارشات کی منظوری دی تو الیکشن کمیشن کے اندر احتساب کا ایک بااختیار ادارہ قائم ہو جائے گا جس کا دائرہ اختیار بلدیاتی سطح تک پھیلا دیا جائے گا۔
اس مقصد کے لیے الیکٹورل ریفارمز کمیٹی کو مجوزہ اصلاحات کی تفصیلات بھجوا دی گئی ہیں جن میں عوامی نمائندگی کے قانون مجریہ 1976کے سیکشن 82 میں ترمیم کرکے الیکشن کمیشن کو از خود نوٹس کا اختیار دینے کی سفارش کی گئی ہے، انتہائی باخبر ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ الیکشن کمیشن منتخب نمائندوں کے مالیاتی احتساب کے بارے میں سنجیدہ ہے اور اس ضمن میں تمام تیاریاں مکمل کی جاچکی ہیں، پولیٹیکل فنانس ونگ پہلے ہی سے قائم کر دیا گیا ہے اور گریڈ 19 کے ایک افسر وقارکواس ونگ کا سربراہ مقرر کرد یا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کو اختیار ملنے کے بعد اس ونگ کو فعال کردیا جائے گا جو منتخب ارکان کے اثاثوں کی چھان بین کر کے جمع کردہ اثاثہ جات کے گوشواروں کے ساتھ اس کا تقابل کرے گا، اثاثہ جات چھپانے یا مالیت کم ظاہر کرنے پر منتخب ارکان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور قید و جرمانے کی سزا کے علاوہ انھیں نااہل قرار دیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ 2002 میں عوامی نمائندگی کے قانون کی سیکشن 42 اے میں ترمیم کر کے منتخب ارکان کو ہر سال مالی گوشوارے جمع کرنے کا پابند بنایا گیا تھا تاکہ انھیں غیر قانونی اثاثے بنانے سے روکا جا سکے لیکن ابھی تک مطلوبہ نتائج بر آمد نہیں ہو سکے کیونکہ اس قانون میں الیکشن کمیشن کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ اگر کوئی پارلیمنٹرین یا رکن صوبائی اسمبلی غلط گوشوارے جمع کراتا ہے یا اثاثے چھپاتا ہے تو کمیشن ان کے خلاف کارروائی کرکے انھیں سزا دے سکے۔
ذرائع نے بتایا کہ قانون میں کوئی طریقہ کار بھی وضع نہیں کیا گیا ہے کہ غلط بیانی کرنے پر منتخب ارکان کے خلاف مقدمہ کون،کہاں درج کرے گا اور ٹرائل کس فورم پر ہوگا، اس بارے میں بھی قانون خاموش ہے، ذرائع نے بتایا کہ قانون میں موجود ابہام کے باعث ابھی تک اثاثوں کی بنیاد پر کسی رکن کے خلاف کیس درج نہیں ہوسکا حالانکہ قانون میں غلط بیانی کرنے پر 3 سال قید و جرمانے یا دونوں کی سزا رکھی گئی ہے، ذرائع نے بتایا کہ اگر انتخابی اصلاحات کمیٹی نے سفارشات کی منظوری دی تو الیکشن کمیشن کے اندر احتساب کا ایک بااختیار ادارہ قائم ہو جائے گا جس کا دائرہ اختیار بلدیاتی سطح تک پھیلا دیا جائے گا۔