حضرتِ انسان
ہم انسان اپنی آدھی زندگی دوسروں کو جاننے میں اور باقی آدھی اُن کی نقل کرنے میں گزار دیتے ہیں۔
سامانِ چار دن کا لئے وہ منزلِ کئی سال کی طرف گامزن ہے۔ شیخ چلی کی طرح ذہن کو فرسودہ خیالات سے مبنی کرکے، اونچے خواب اور پھیکے پکوان بنا کراپنے آپ کو ریاستِ ہائے خوابدیدہ کا عالمِ فانی سمجھ بیٹھنے والا جی ہاں یہ آج کا انسان ہے۔ سوچوں پر مبنی سفر، خیالات کے اونچے اونچے پہاڑ، وعدوں کے دریا اور تسلیوں کے باغات لئے ایک شہر اپنے ذہن میں بسایا ہوا۔ جی ہاں آج کے اِن اشرف المخلوقات سے ملیے جنہیں اشرف ہونے کا شرف اب حاصل نہیں کیونکہ اب تو درندہ بھی انسانیت سے ڈرتا ہے کہ انسان تو درندے سے زیادہ درندگی کرتا ہے۔
پراِس انسان کے بھی کئی زاویے ہیں، کبھی کسی کے شعور کے کسی کونے میں کہیں کوئی خیال پنہاں یادوں کی موجوں میں ڈوب رہا ہوگا کہ وہ خیال منظرِ عام پر آنے سے کہیں اُس کے نام پر آنچ نہ آجائے۔ تو کہیں انفرادی مثبت سوچ اجتماعی منفی سوچوں سے زیر ہوجاتی ہیں۔ کہیں کوئی شخص دہر میں اجالا کرکے اپنے اسم کو بالا کرتا ہے۔ کبھی کوئی اشقیا پایا جاتا ہے ''اور'' کئی لوگ عشقیہ مزاج رکھتے ہیں۔ کبھی کوئی عرش سے فرش پر آجاتا ہے تو کوئی عقاب سی بلندی طے کر لیتا ہے۔ کوئی تندرست ہوکر روتا ہے تو کسی نے تنگدستی میں شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
اِسی انسان کی کچھ خصوصیات اور خصلتیں ایسی ہیں کہ جنہیں عقل وشعور کی آنکھیں مسترد کر دیتی ہیں اور انہی میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں کہ جن کی وجہ سے عقل کے دروازے کھلتے ہیں اور شعور کی پرورش ہوتی ہے۔ نگاہ کی حدیں تجاوز نہ ہوپائیں پر حضرتِ انسان کی عقلِ انسانی کچھ اپنے مدار سے زیا دہ پرواز کررہی ہے۔ اگر فی الوقت عقلِ انسانی کو فرشتگی سے نواز دیا جائے تو شیطان بھی ان سے پناہ مانگتے نظر آئیں گے۔ کسی کا قمر طلعت اُسے دنیا میں نام کرکے دیتا ہے اور کوئی قمریار بن کر اپنے نام سے دنیا چلاتا ہے۔ غرض ہر چہرے کے پیچھے کہانیوں کا ملک آباد ہے، دیکھنے والی بصارت کی نہیں بصیرت کی ضرورت ہے ۔
خدا نے کسی انسان کو کسی پر برتری نہیں دی، نہ ہی کسی کو زیادہ عقل اور عقلِ سلیم سے نوازا ہے۔ ہر کوئی اپنے حصے کا کمال لے کر آتا ہے۔ کوئی اُس پر دنیا کی خاک ڈال کرکمال کرکے اُس کو زیست کے کونے میں پھینک دیتا ہے، تو کوئی اپنے اندر چھپے ہوئے انعام کو سامنے لانے کی تگ و دو کرتا ہے۔ کامیاب و کامران وہی ہوتا ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے۔ کیونکہ ہم انسان اپنی آدھی زندگی دوسروں کو جاننے میں اور باقی آدھی اُن کی نقل کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فتح و نصرت اُسی کے حصے میں قلم کرتا ہے جو اُس کی چاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ محنت بھی کرے ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پراِس انسان کے بھی کئی زاویے ہیں، کبھی کسی کے شعور کے کسی کونے میں کہیں کوئی خیال پنہاں یادوں کی موجوں میں ڈوب رہا ہوگا کہ وہ خیال منظرِ عام پر آنے سے کہیں اُس کے نام پر آنچ نہ آجائے۔ تو کہیں انفرادی مثبت سوچ اجتماعی منفی سوچوں سے زیر ہوجاتی ہیں۔ کہیں کوئی شخص دہر میں اجالا کرکے اپنے اسم کو بالا کرتا ہے۔ کبھی کوئی اشقیا پایا جاتا ہے ''اور'' کئی لوگ عشقیہ مزاج رکھتے ہیں۔ کبھی کوئی عرش سے فرش پر آجاتا ہے تو کوئی عقاب سی بلندی طے کر لیتا ہے۔ کوئی تندرست ہوکر روتا ہے تو کسی نے تنگدستی میں شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
اِسی انسان کی کچھ خصوصیات اور خصلتیں ایسی ہیں کہ جنہیں عقل وشعور کی آنکھیں مسترد کر دیتی ہیں اور انہی میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں کہ جن کی وجہ سے عقل کے دروازے کھلتے ہیں اور شعور کی پرورش ہوتی ہے۔ نگاہ کی حدیں تجاوز نہ ہوپائیں پر حضرتِ انسان کی عقلِ انسانی کچھ اپنے مدار سے زیا دہ پرواز کررہی ہے۔ اگر فی الوقت عقلِ انسانی کو فرشتگی سے نواز دیا جائے تو شیطان بھی ان سے پناہ مانگتے نظر آئیں گے۔ کسی کا قمر طلعت اُسے دنیا میں نام کرکے دیتا ہے اور کوئی قمریار بن کر اپنے نام سے دنیا چلاتا ہے۔ غرض ہر چہرے کے پیچھے کہانیوں کا ملک آباد ہے، دیکھنے والی بصارت کی نہیں بصیرت کی ضرورت ہے ۔
خدا نے کسی انسان کو کسی پر برتری نہیں دی، نہ ہی کسی کو زیادہ عقل اور عقلِ سلیم سے نوازا ہے۔ ہر کوئی اپنے حصے کا کمال لے کر آتا ہے۔ کوئی اُس پر دنیا کی خاک ڈال کرکمال کرکے اُس کو زیست کے کونے میں پھینک دیتا ہے، تو کوئی اپنے اندر چھپے ہوئے انعام کو سامنے لانے کی تگ و دو کرتا ہے۔ کامیاب و کامران وہی ہوتا ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے۔ کیونکہ ہم انسان اپنی آدھی زندگی دوسروں کو جاننے میں اور باقی آدھی اُن کی نقل کرنے میں گزار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فتح و نصرت اُسی کے حصے میں قلم کرتا ہے جو اُس کی چاہ رکھنے کے ساتھ ساتھ محنت بھی کرے ۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔