ایک اور المناک حادثہ

اگر یہی چلتا رہا اور کسی نےعملی اقدامات نہ کیے تو اللہ نہ کرے ہمیں ہر مہینے کی 11تاریخ کو ایسے حادثات سے گزرنا پڑے گا۔

ایک طرف وہ جانیں ہیں جن کی شناخت نہیں ہو پارہی اور ایک طرف مجھے الوداع کرتے میرے گھروالے ہیں۔ یہ سوچ کر مجھے میرا وجود ٹھنڈا پڑتا محسوس ہوتا ہے۔ کیا اِن 62 افراد کے گھر والوں نے بھی انہیں ایسے ہی رخصت کیا ہوگا؟ کیا وہ اب ان سے کبھی نہیں مل پائیں گے؟ فوٹو: رائٹرز

پنجاب سے کراچی کا رخت سفر باندھا تو گھر والوں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ حالت اِدھر بھی کچھ ایسی ہی تھی، تاہم خود کی مظبوطی کا برہم رکھنا بھی ضروری تھا۔ جب گھر کی دہلیز پار کی تو کئی بار پیچھے مڑ کر دیکھا تو تمام لوگ دروازے کے کنارے کھڑے مجھے الوداع کرنے آئے ہوئے تھے۔ ماں تو بار بار کہے جارہی تھی اپنا خیال رکھنا، احتیاط سے روڈ پار کرنا، گاڑی کے ڈرائیور کو سمجھا دینا کہ گاڑی آہستہ چلائے وغیرہ وغیرہ۔جب میں نے اُن سے کہا کہ اگر گاڑی آہستہ چلائے گا تو پھر ایک دن کا سفر دو دن میں ہو پائے گا۔ اُن کا جواب سُن کر مجھے ہنسی آگئی کہ کوئی بات نہیں دیر آئے پر درست تو آئیں گے نا۔

دو دن پہلے ہی میں پنجاب سے کراچی کے لئے روانہ ہوا۔ اتنے سارے خلوص دیکھ کر دل تو اپنا بھی اداس تھا خواہش تو یہی ہورہی تھی کہ نہ جایا جائے مگر جانا بھی ضروری تھا۔ کہتے ہیں حادثہ چھوٹا ہو یا بڑا مگر اس کی گونج صرف اُسی وقت محسوس ہوتی ہے جب وہ آپ کے بالکل قریب ہوا ہو۔

11 جنوری 2015ء کو جب میں کراچی میں پہنچا تو سننے میں آیا کہ کراچی کے قریب شکارپور جانے والی ایک مسافر بس اور آئل ٹینکر کے درمیان خوفناک ٹکر ہوئی ہے۔ جس کے نتیجے میں 62 جاں بحق ہوگئے اور اس سے بڑھ کر المیا یہ ہوا کہ تمام لاشیں جل کر ناقابلِ شناخت ہیں۔

یہ حادثہ ایسا تھا جو میرے ساتھ بھی ہوسکتا تھا، حادثے کا شکار ہونے والی بس وہ بھی ہوسکتی تھی جس میں، میں سوار تھا اور یہی وہ احساس تھا جس نے مجھے ہلاکر رکھ دیا۔ اِس حادثے کے بعد گھر سے فون آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اِس حادثے کے بعد میرا انگ انگ کانپ رہا تھا۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے خدا نا خواستہ ہماری گاڑی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا ہو۔

حادثہ ناجانے کب تک میرے دل دماغ پر نقش رہے تاہم یہاں پر حادثے سے متعلق معلومات فراہم کرتا چلوں کہ اس حادثہ میں جاں بحق ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ کراچی کے جناح اسپتال کی ترجمان ڈاکٹر سیمی جمالی نے کے مطابق جناح اسپتال میں لاشوں کی تعداد 62 ہوگئی ہے اور یہ تمام 100 فیصد تک جل چکے ہیں اس لیے ان کی شناخت ناممکن ہے۔ لاشوں کے ڈی این اے نمونے لے لیے گئے ہیں اور اسی کے ذریعے شناخت ممکن ہوپائے گی۔جبکہ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے حادثے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ حادثہ گلشن حدید کو لانڈھی سے ملانے والی لنک روڈ پر کاٹھور پل کے قریب پیش آیا اور مسافر بس کراچی سے شکارپور جا رہی تھی۔


جبکہ اس سے قبل بھی 11 نومبر 2014ء کو سندھ ہی میں خیرپور کے قریب ٹیڑھی بائی پاس پر مسافر بس اور ٹرالر میں تصادم کے نتیجے میں 59 افراد موت کی نیند سوگئے تھے اور 21 زخمی ہوئے تھے۔ جن میں22 خواتین کے علاوہ 18 بچے اور 18 مرد شامل ہیں۔ اسی حادثے کے بعد سندھ ہائی کورٹ سکھر میں حادثے کے خلاف شمس راجپر نامی وکیل نے ایک آئینی درخواست دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ قومی شاہراہ ایک بڑے عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جس وجہ سے اس قسم کے خوفناک اور دردناک حادثات پیش آتے ہیں۔

حالیہ حادثے کے بعد بھی اب وہی باتیں سننے میں آرہی ہیں جو خیرپور حادثے میں سننے میں آئیں تھیں۔ وزیر صحت کہیں گے کہ حادثہ ڈرائیور کی غفلت کے باعث پیش آیا، وزیر سندھ کہیں گے چیف سیکرٹری سے پوچھا جائے گا، قائد حزب اختلاف کہیں گے سندھ میں زیر تعمیر ہائیویز فوری مکمل کیے جائیں، ڈی آئی جی موٹر ویز کہیں گے حادثہ سڑک خراب ہونے کے باعث پیش آیاتاہم بس اوور لوڈڈ تھی اور موٹر وے پولیس نے بس کا چالان بھی کیا تھا۔ سڑک زیر تعمیر ہونے کے باعث اور کئی کئی فٹ گڑھے ہیں، بس کی رفتار اور گڑھوں کے باعث بس اچھل کر سڑک کی دوسرے طرف گئی اور ٹکرا گئی، وغیرہ وغیرہ۔

اگر یہی کچھ چلتا رہا اور کسی نے عملی اقدامات نہ کیے تو اللہ نہ کرے ہمیں ہر مہینے کی 11تاریخ کو ایسے حادثات سے گزرنا پڑ جائے گا۔ حکومت کو فوری طور پر اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا تاکہ معصوم بد حال قیمتی جانوں کو بچایا جاسکے۔ یہاں پر ایک المیہ ہمارے میڈیا کے حوالے سے بھی سامنے آیا کہ حادثے کے بعد سے لیکر اخبارات کے شائع ہونے تک کسی کو معلوم تک نہیں تھا کہ کیا آخر ہوا کیا ہے؟ حادثے کی سنگینی کا اندازہ توکل کے اخبارات پڑھنےکے بعد اندازہ ہوا کہ ہم ایک ہی رات میں کتنا بڑا نقصان کرا بیٹھے ہیں۔

ایک طرف وہ جانیں ہیں جن کی شناخت نہیں ہو پارہی اور ایک طرف میرے گھر کی دہلیز پر کھڑے گھر والے ہیں جو مجھے الوداع کر رہے تھے ، جب میں یہ سوچ رہا تھا تو مجھے میرا وجود ٹھنڈا پڑتا محسوس ہوتا ہے۔ کیا 62 افراد کے گھر والوں نے بھی انہیں ایسے ہی رخصت کیا ہوگا؟ کیا وہ اب ان سے کبھی نہیں مل پائیں گے؟۔ یا اللہ ہم پر رحم فرما، آمین

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story