ایس نیرکی یاد میں

دنیا میں لوگوں کا آنا جانا ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔

وہ بچپنے کے اختتامی اور ایکسپریس کے ابتدائی ایام تھے، یہ وہ عمر تھی کہ ہوش سنبھلنے کے بعد اب شعور آنکھیں ملتا بیدار ہو رہا تھا۔ جب شہر قائد کی پچاس سالہ تاریخ میں پہلی بار اخبارات کی دنیا میں ایک معاصر کی اجارہ داری ختم ہو رہی تھی اور یہ کام کسی اور کے نہیں بلکہ روزنامہ ''ایکسپریس'' کے توسط سے انجام پا رہا تھا۔ ایسے میں آگہی کی پیاس بجھنے کے لیے بطور قاری ایکسپریس سے رشتہ استوار ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ باقاعدہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

حالات حاضرہ پر پس منظر اور پیش منظر جاننے کی چاہ ادارتی صفحے کا مستقل قاری بنا دیتی ہے اور یہی وہ لمحات ہیں جب مختلف سیاسی اور سماجی مسائل پر ذہن سازی ہوتی ہے۔ ذہن میں مختلف اظہاریہ نویسوں کی درجہ بندی ہوتی ہے جن کا لکھا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہمارے اَن کہے احساس کو زبان مل گئی ہو یا یک دم لکھنے والے کے الفاظ نے ایک جادو سا کر دیا ہو۔ ایسے ہی اظہاریہ نویسوں میں ایس نیر کا نام نمایاں تھا، جو گزشتہ دنوں خالق حقیقی سے جا ملے۔

پختہ ہوتی عمر میں اپنی رائے پیش کرنا اور جاننے کی خواہش کو پورا کرنے میں ایس نیر کے کالموں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ اُن کا شروع سے جما جمایا ہوا انداز کسی بھی طرح ایک عمدہ لکھنے والے کے اسلوب سے کبھی بھی کم محسوس نہ ہوا حالانکہ وہ کوئی باقاعدہ اور پیشہ ور کالم نگار نہ تھے۔ اس نگری میں ان کی آمد اتفاقی تھی، جب ان کی ملازمتی زندگی میں نشیب آیا تو انھوں نے مسائل کے حل کے لیے ایک معاصر کی کالم نگار کو لکھا، انھوں نے ان کے موقف کے حق میں لکھا اور ان کا مراسلہ مع نام شایع کیا۔ یہ امر ان کی کالم نگاری کے لیے نقطہ آغاز ثابت ہوا۔

پھر کیا تھا کہ مطالعے کے تو وہ رسیا تھے ہی اور کبھی کتاب پڑھے بِنا انھیں نیند ہی نہ آتی تھی اس وسیع مطالعے اور قابل قدر ذخیرہ الفاظ نے انھیں اس جانب آنے میں کوئی دقت ہی نہیں ہونے دی۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب روزنامہ ایکسپریس نے اپنے منفرد طریقہ پیشکاری کے ذریعے صحافت میں نئے رجحانات کی بنیاد ڈال دی تھی اور یہی وقت ان کے بھی ایکسپریس سے تعلق کا نقطہ آغاز ثابت ہوا جو پورے ایک عشرے تک جاری رہا۔ ایک تیزی سے ابھرتے ہوئے اخبار میں ان کی شمولیت دراصل ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ہی تو تھی۔

ایک قاری کی حیثیت سے ہی بس ان کا تعارف تھا جو بتدریج براہ راست رابطے کی شکل اختیار کر گیا۔ غائبانہ تعارف ان کے انتقال سے ایک ماہ پہلے ہی بالمشافہ ملاقات میں ڈھل سکا۔ اُس وقت بھی وہ سخت علیل تھے، پرانی شوگر کی بنا پر اب ان کا ڈیالیسس ہو رہا تھا لیکن بقول اُن کے کہ وہ خوشدلی سے سب تکالیف جھیل رہے ہیں اور اب بس وہ اپنی صاحبزادی کو اپنے ہاتھ سے رخصت کرنے کے لیے ہی ہم میں موجود ہیں۔ ہم انھیں ایسا کہنے سے روکتے رہ گئے مگر کیا معلوم تھا کہ ان کا کہا حقیقت ہی ثابت ہو جائے گا اور وہ یکم جنوری کو بیٹی کی شادی کے ٹھیک دو ہفتے بعد اس دنیا سے کوچ کر جائینگے۔ دو جنوری کو بعد نمازجمعہ ان کا جنازہ ہوا۔ زندگی کے بھی کیسے عجیب وغریب رنگ ہیں کہ عین دو ہفتے قبل اسی جمعے کی سہ پہر ان کی صاحبزادی کا نکاح انجام پا رہا تھا اور آج ان کی تدفین۔


دنیا میں لوگوں کا آنا جانا ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ روزانہ کی بنیاد پر رواں یہ سلسلہ کبھی نہیں تھمے گا۔ بس کوئی شخص کسی کے درمیان سے اٹھ کر چلا جائے تو اس کے لواحقین اور متعلقین دہل سے جاتے ہیں۔ جو جتنا قریب اور جڑا ہوا ہوتا ہے، وہ اتنی ہی دیر تک اس کے اثر میں رہتا ہے اور بعض ساری عمر اس اثر میں گزار دیتے ہیں۔ ایس نیر نے محض ایک لگی بندھی زندگی نہیں گزاری بلکہ اپنے ارد گرد بہتری اور اچھائی کی کوشش کا حق وہ دوران علالت بھی برابر ادا کرتے رہے۔ آخری دنوں میں نظر کی کمزوری کی بنا پر وہ اپنے بیٹے کی مدد سے کالم لکھواتے اور ارسال کراتے تھے۔

بیماری کی شدت کی بنا پر اس میں وقفے آتے رہے۔ بد قسمتی سے اکثر لوگوں کے قول وفعل میں تضاد اتنا شدید ہوتا ہے کہ ہم جس شخص کی تحریریں پڑھ کر اس کی جو تصویر بناتے ہیں، وہ اس سے پہلے بالمشافہ ملاقات میں ہی خراب ہو جاتی ہے مگر ایس نیر اس قلم قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جن کی شخصیت ان کی تحریروں سے بہ خوبی محسوس ہوتی تھی۔ شدید علالت میں بھی ان کی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی نہیں جاتی تھی۔ وہ اپنی جسمانی تکلیف کو اپنے شگفتہ جملوں سے دور کرنے کی سعی کرتے اور ان کی عیادت کرنے والے کو بھی نہیں لگتا کہ وہ کسی بیمار کی خیریت دریافت کرنے آیا ہے۔

ایس نیر سے راقم السطور کا تعلق اسکول کے زمانے سے بطور قاری ایکسپریس استوار رہا۔ ان کے کالموں نے راقم کی فکری اور نظری تربیت میں خاصا اہم کردار ادا کیا۔ یہ ان کی شفقت ہی تھی کہ یہ تعلق ایک ادنیٰ سے قاری سے بھی بڑھ کر بن گیا پھر جب خود قلم سنبھالنے کی کوشش کی اور باقاعدہ پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ہوا، تب بھی ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی ساتھ رہی۔ 20 دسمبر کو ان کی صاحبزادی کی شادی کے موقعے پر بھی وہ خاصے علیل تھے۔ اس دن ہونے والی ملاقات، آخری ثابت ہوئی۔ وہ دنیا سے چلے گئے لیکن خلق خدا میں شعور اور آگہی دینے کی خواہش چھوڑ گئے۔

ان کا خواب تھا کہ لوگوں کے لیے کوئی کتب خانہ قائم کیا جائے تاکہ ذوق مطالعہ بڑھے، ادب کی آبیاری ہو، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو اور ان کی زندگیاں سنوریں۔ ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور یہ کام ادھورا رہ گیا مگر سلام ہو ان کی تربیت پر کہ ان کی اولاد ان کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متحرک ہوچکی ہے اور بہت جلد اس منصوبے پر کام کا آغاز بھی کر دیا جائے گا۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی بساط سے بھی بڑھ کر خلوص دل سے معاشرے کے لیے کچھ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ کالم نگاری ہو یا ان کا یہ مجوزہ کتب خانہ، معاشرے کے لیے ان کی بے لوث خدمت اور خلوص کا عکاس ہے۔

ان کی وفات صرف ایکسپریس کے ادارتی صفحے کا نہیں بلکہ معاشرے کے ایک باشعور اور زیرک شخص کی کمی کا نقصان ہے۔ کالم نگاری کی دنیا میں متوسط طبقے سے ایسے بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ملازمتی زندگی اور معاشی ذمے داریوں کے باوجود اس نگری میں اپنا مقام بنایا۔ بس اب اللہ کی رضا کہ وہ ہم میں نہیں رہے، ہم بارگاہ الٰہی میں اب ان کے درجات کی بلندی اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں۔
Load Next Story