فتنے اور جدید ذرائع ابلاغ
’’صحیح و غلط‘‘ کی پہچان ہر زمانہ میں واضح ہوتی ہے لیکن اس کے معیار میں وقت کے ساتھ تبدیلی انسان کا ’’کارنامہ‘‘ ہے۔
عربی زبان کی کہاوت ہے
یقیناً آج کا دور اس کہاوت کی صحیح تعبیر ہے، ''اچھائی و برائی'' اور ''صحیح و غلط'' کی پہچان ہر زمانہ میں واضح و نمایاں ہوتی ہے لیکن اس کے معیار میں وقت کے لحاظ سے تبدیلی انسان کا ''کارنامہ'' ہے۔ اگر صحیح و غلط کی تمیز کے لیے مذہب (کسی بھی مذہب اور بالخصوص الہامی مذاہب) کے ذریعہ ''خدا'' کو اختیار دیا جائے (جو کہ حقیقت میں حاصل ہے)، تو ان مذاہب کے پجاریوں میں سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے نبیوںؑ کے فوراً بعد ان پر نازل شدہ کتب اور ان کے اصولوں کو تبدیل (تحریف ) کرنے اور اپنا من پسند تعبیر کرکے خود ''شارع'' اور زیادہ ''باصلاحیت'' بن گئے۔ یہ ''خدا'' پر ایمان کیساتھ ''شارع'' پر عدم اعتماد بھی ہے۔ (والعیاذ باللہ)
جب اس معیار کا ''حق'' انسانوں کو منتقل ہوتا ہے تو وہاں اختلاف عقیدہ، سوچ اور معیارات کیساتھ ساتھ مزاجوں کا فرق بھی آتاہے، یوں مختلف نظریات کا سامنے آنا اور تنوع پیدا ہونا لازمی امرہے۔ اگر ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے بچے ایک مزاج و سوچ والے نہیں ہوسکتے تو انسانوں کے ہاتھوں بنے ''اصول و نظریات'' میں اختلاف اور تصادم بھلا کیسے ممکن نہیں۔ جہاں اس اختلاف وتصادم نے دنیا کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا وہیں اس تقسیم نے مذہب کو ایک ''امتیازی حیثیت'' دینے کے بجائے ایک ''ذاتی ونجی'' اور ''محدود'' معاملہ قرار دیا ہے۔
اس وقت انسانوں کی نظریات و آراء میں اتنا اختلاف ضرور ہے کہ ایک معاشرہ میں رہتے ہوئے بھی کسی کی ''آزادی'' کسی کیلئے ''دل آزاری'' بنتی ہے تو کسی کی ''محبت وحمایت'' کسی کیلئے ''نفرت و بغاوت''۔
تعبیریں بیش بہا، اصول بے شمار، نظریات نوزائدہ نے میرے خیال میں اس صدی میں انسانوں کو کسی ایسی نظریہ وسوچ کا تحفہ ضرور دیا، جویا تو ''سیکولرزم (Secularism)''، '' ہیومنزم(Humanism)''، ''میٹریلزم (Materialism)''، ''امپریزم (Empiricism)''، '' لبریزم (Libralism)''، ''فرائیڈزم (Froidism)''، ''ڈارونزم (Darvinism)'' اور ''ریشنلائزیشن (Rationalization)''۔ العرض کسی بھی''ازم'' کا مجموعہ ومربع ہے یا پھراِن سب کی ''رد'' اور ناکامی پر ایک نیا مذہب اور سوچ وفکر، جہاں حالات کا ''تقاضہ'' سارے اہل مذاہب کو ایک ساتھ اکھٹے کھڑے ہونے پر مجبورکرسکتے ہیں۔ (الا ماشاء اللہ)
یہ کارنامہ جدید ذرائع ابلاغ نے سرانجام دیا ہے جس سے اس دورکا انسان سیکھتا ہے، رہنمائی لیتا ہے اور مصدر ومرجع کی حیثیت بھی اختیار کرگیا ہے۔ شاید میڈیا کی اہمیت وحیثیت کے تناظر کی وجہ سے ایک یہودی ''ربی'' Reichorn نے ''سیمون'' کی قبر پر تقریر کرتے ہوئے جدید ذرایع ابلاغ کے بارے میں کہا تھا کہ
فتنوں کے دور میں ''اچھے وبرے'' اور ''صحیح وغلط'' کی ''پہچان '' خاصہ مشکل ہوتا ہے اور اگر ایسے دور میں ''دجال'' کا ظہور ہو اور یہی ''جدید ذرائع ابلاغ'' بھرپور انداز سے سرگرم بھی ہو تو فیصلہ سب نے خود کرنا ہے کہ ''وقت کے مسلمان'' کہاں کھڑے ہونگے۔۔۔؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
''كيف يتقي من لا يدري ما يتقي؟!''
''جو شخص فتنوں سے نا واقف ہو (اور نہ اس کے بدترین انجام سے) تو وہ کیسے فتنوں سے بچ سکتاہے ؟''
یقیناً آج کا دور اس کہاوت کی صحیح تعبیر ہے، ''اچھائی و برائی'' اور ''صحیح و غلط'' کی پہچان ہر زمانہ میں واضح و نمایاں ہوتی ہے لیکن اس کے معیار میں وقت کے لحاظ سے تبدیلی انسان کا ''کارنامہ'' ہے۔ اگر صحیح و غلط کی تمیز کے لیے مذہب (کسی بھی مذہب اور بالخصوص الہامی مذاہب) کے ذریعہ ''خدا'' کو اختیار دیا جائے (جو کہ حقیقت میں حاصل ہے)، تو ان مذاہب کے پجاریوں میں سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے نبیوںؑ کے فوراً بعد ان پر نازل شدہ کتب اور ان کے اصولوں کو تبدیل (تحریف ) کرنے اور اپنا من پسند تعبیر کرکے خود ''شارع'' اور زیادہ ''باصلاحیت'' بن گئے۔ یہ ''خدا'' پر ایمان کیساتھ ''شارع'' پر عدم اعتماد بھی ہے۔ (والعیاذ باللہ)
جب اس معیار کا ''حق'' انسانوں کو منتقل ہوتا ہے تو وہاں اختلاف عقیدہ، سوچ اور معیارات کیساتھ ساتھ مزاجوں کا فرق بھی آتاہے، یوں مختلف نظریات کا سامنے آنا اور تنوع پیدا ہونا لازمی امرہے۔ اگر ایک ماں باپ سے پیدا ہونے والے بچے ایک مزاج و سوچ والے نہیں ہوسکتے تو انسانوں کے ہاتھوں بنے ''اصول و نظریات'' میں اختلاف اور تصادم بھلا کیسے ممکن نہیں۔ جہاں اس اختلاف وتصادم نے دنیا کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا وہیں اس تقسیم نے مذہب کو ایک ''امتیازی حیثیت'' دینے کے بجائے ایک ''ذاتی ونجی'' اور ''محدود'' معاملہ قرار دیا ہے۔
اس وقت انسانوں کی نظریات و آراء میں اتنا اختلاف ضرور ہے کہ ایک معاشرہ میں رہتے ہوئے بھی کسی کی ''آزادی'' کسی کیلئے ''دل آزاری'' بنتی ہے تو کسی کی ''محبت وحمایت'' کسی کیلئے ''نفرت و بغاوت''۔
تعبیریں بیش بہا، اصول بے شمار، نظریات نوزائدہ نے میرے خیال میں اس صدی میں انسانوں کو کسی ایسی نظریہ وسوچ کا تحفہ ضرور دیا، جویا تو ''سیکولرزم (Secularism)''، '' ہیومنزم(Humanism)''، ''میٹریلزم (Materialism)''، ''امپریزم (Empiricism)''، '' لبریزم (Libralism)''، ''فرائیڈزم (Froidism)''، ''ڈارونزم (Darvinism)'' اور ''ریشنلائزیشن (Rationalization)''۔ العرض کسی بھی''ازم'' کا مجموعہ ومربع ہے یا پھراِن سب کی ''رد'' اور ناکامی پر ایک نیا مذہب اور سوچ وفکر، جہاں حالات کا ''تقاضہ'' سارے اہل مذاہب کو ایک ساتھ اکھٹے کھڑے ہونے پر مجبورکرسکتے ہیں۔ (الا ماشاء اللہ)
یہ کارنامہ جدید ذرائع ابلاغ نے سرانجام دیا ہے جس سے اس دورکا انسان سیکھتا ہے، رہنمائی لیتا ہے اور مصدر ومرجع کی حیثیت بھی اختیار کرگیا ہے۔ شاید میڈیا کی اہمیت وحیثیت کے تناظر کی وجہ سے ایک یہودی ''ربی'' Reichorn نے ''سیمون'' کی قبر پر تقریر کرتے ہوئے جدید ذرایع ابلاغ کے بارے میں کہا تھا کہ
''اگردنیا پر تسلط کے لیے سونا اور چاندی انتہائی اہم ہتھیا رہے، تو صحافت اور ذرائع ابلاغ کو دوسری پوزیشن حاصل ہے۔ گویا دولت اور ذرائع ابلاغ دونوں ہی عالمی تسلط کے لیے ناگزیر ہیں۔ لہٰذا ہمارے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ مال و دولت کے ذریعہ صحافت اورذرائع ابلاغ پر پورا کنٹرول حاصل کرلیں، چاہے ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کرنے کے لیے ہمیں کتنی ہی رشوت کیوں نہ دینی پڑے۔ ہم اس کے لیے تیاررہیں، کیونکہ خاندانی نظام، عقائد اور اخلاق فاضلہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے بغیر چارہ کارنہیں''۔
فتنوں کے دور میں ''اچھے وبرے'' اور ''صحیح وغلط'' کی ''پہچان '' خاصہ مشکل ہوتا ہے اور اگر ایسے دور میں ''دجال'' کا ظہور ہو اور یہی ''جدید ذرائع ابلاغ'' بھرپور انداز سے سرگرم بھی ہو تو فیصلہ سب نے خود کرنا ہے کہ ''وقت کے مسلمان'' کہاں کھڑے ہونگے۔۔۔؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔