آخری وارننگ

پاکستان قدرتی اور انسانی آفات کا شکار ملک ہے۔ یہاں ہر طرح کی آفات آتی ہیں لیکن ہم ان سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔

zahedahina@gmail.com

PERTH:
انسانوں کے لیے ہر سانحے میں ایک سبق پوشیدہ ہوتا ہے۔ اب یہ ان سانحوں سے گزرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ ان سے کوئی سبق حاصل کرتے ہیں یا اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ قدرتی آفات انسانی بس میں نہیں ہوتیں،انھیں روکنا ممکن نہیں ہو تا ۔ لیکن ان سے بچاؤکی پیش بندی کرنا اور نقصان کو کم سے کم رکھنا انسان کے اختیار میں ضرور ہے۔ ملکوں اور قوموں نے قدرتی آفات اور سانحوں سے سبق سیکھا، احتیاطی تدابیر کیں اور جانی و مالی تباہی کو ممکنہ حد تک ختم کر دیا۔

سانحوں کی دوسری قسم انسانوں کی خود پیدا کردہ ہوتی ہے۔ یہی دیکھیے کہ قحط خود نہیں آتا، حکومتوں کی غلط پالیسیوں سے یہ آفت رونما ہوتی ہے۔ بہت پہلے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی خاص علاقے میںغذائی پیداوار کی کیا صورتحال ہوگی، پیش بندی کے تمام مواقعے موجودہوتے ہیں۔ جو ملک پیش بندی کر لیتے ہیں وہ غذائی اجناس کی قلت پر قابو پانے کے اقدامات کرتے ہیں اور یہ عذاب ہزاروں لوگوں کی جانوں کا نذرانہ لیے بغیر ٹل جا تا ہے۔

دوسری طرف ایسے ملک جن کے حکمران نا اہل ہوتے ہیں یا جہاں جمہوریت نہیں ہوتی وہاں قحط کے سبب لاکھوں لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ بھلا قحط کے رونما ہونے یا نہ ہونے کا جمہوریت سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ تو جناب تاریخی صداقت یہ ہے کہ آج تک کسی جمہوری ملک میں کبھی قحط نہیں آیا۔ اس کی وجہ غلے کو وافر مقدار میں اکٹھا کرلینا اور اسے دور دراز علاقوں تک پہنچانا ہو تا ہے۔ دراصل جمہوریت میں تین عوامل بہت اہم ہوتے ہیں۔

پہلا یہ کہ حکومت براہ راست عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے، وہ قحط جیسے کسی بڑے سانحے کاسیاسی نقصان جھیلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ تھر کی مثال سامنے ہے۔یہاں قحط تو نہیں آیا لیکن، ہر سال کی طرح خراب موسم اور بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے غذا کی قلت ضرورپیدا ہوئی۔ اس کے نتیجے میں سندھ کی حکومت پر اتنا دباؤ پڑا کہ پانی کی کمی دور کرنے کے لیے اُسے سولر پاورکا فلٹر پلانٹ لگانا پڑا جو ایشیا کا سب سے بڑا پلانٹ ہے۔ آیندہ چند برسوں میں ایسے بہت سے پلانٹ کام شروع کر دیں گے اور امکان غالب یہی ہے کہ تھر کے ریگستان میں بھی سبزہ نظر آنے لگے گا۔

جمہوریت کا دوسرا جوہر حزب اختلاف کی موجودگی ہے۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں ہر لمحہ اور ہرآن حکومتِ وقت کی خامیاں تلاش کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ انھیں کہیں بھی کوئی کوتاہی یا خرابی نظر آتی ہے وہ اک ہنگامہ بپاکر دیتی ہیں جس سے قحط یا سیلاب جیسے سانحوں کی بروقت روک تھام ممکن ہو جاتی ہے۔ جمہوریت کا تیسرا اہم پہلو آزاد میڈیا ہے۔ رپورٹر اور کیمرہ مین چاروں طرف عقابی نظریں دوڑاتے رہتے ہیں جہاں کو ئی غیر معمولی بات نظر آتی ہے وہ فوراً اخبارات اور ٹیلی وژن کے ذریعے حکومت اور ناظرین تک پہنچ جاتی ہے اور عوامی احتجاج حکومت کو فوری قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ تھر پارکر کے حالات ماضی میں اس سے بھی زیادہ خراب رہے ہیں لیکن فوجی آمروں کے دور میں حقیقی حزب اختلاف اور آزاد میڈیا کی عدم موجودگی کے باعث یہ انسانی مسئلہ مرکز ِ نگاہ کبھی نہ بن سکا۔ جمہوری حکومت میں یہ معا ملہ فوراً منظر عام پر آگیا اور اس کے تدارک کی تدابیرشروع ہوگئیں۔

پاکستان قدرتی اور انسانی آفات کا شکار ملک ہے۔ یہاں ہر طرح کی آفات آتی ہیں لیکن ہم ان سے کوئی سبق نہیں سیکھتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگلی آفت یا سانحے کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان میںخود ہمارے ہاتھوں سے تخلیق پانے والے سانحوں کی تعداد ان گنت ہے۔ اس سے بڑا سانحہ اور کیاہو گا کہ خود ہمارے اپنے تباہ کن سیاسی اقدامات کی وجہ سے ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک سے دو ملک بن گئے لیکن اس کے بعد بھی ماضی کی تلخیوں کے باعث دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات آج بھی دوستانہ نہیں ہیں۔

یکے بعد دیگر ے ہم اپنے پیدا کردہ سانحوں سے دوچار ہوتے رہے، لیکن ہم نے ان سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی برسوں سے ہمارے یہاں پنپ رہی تھی اور ہم اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے، اس سے نظریں بچاتے رہے یہاں تک کہ حالات16دسمبر کے سانحہ پشاور تک جا پہنچے۔16دسمبر کا سانحہ یا اس جیسے دیگر المناک سانحوں کو یقینا روکا جا سکتا تھا لیکن ایسا اس لیے نہ ہو سکا کہ ہم سب نے موقع پرستی سے کام لیا اور ان عناصر کے بارے میں بھی نرم گوشہ رکھا جو دہشت گردی کے ذریعے ایسے المیوں کو جنم دیتے ہیں۔ پشاور میں16دسمبر کا سانحہ آخری وارننگ تھی ۔


تنبیہہ سب کے لیے یہ تھی کہ مصلحتوں سے باہر نکلو،اپنے سیاسی یا ادارہ جاتی مفادات سے بالا تر ہو کر متحد ہوجاؤ، ورنہ دہشت گردی کا عفریت پورے ملک کا تانا بانا، تار تار کر دے گا۔ کسی کے لیے کچھ باقی نہیں بچے گا۔ اس الم ناک سانحے میں یہ پیغام بھی پوشیدہ تھا کہ سب اچھی طرح سوچ لیں پاکستان نہ ہو گا تو آپ کا کیا ہو گا؟ اندرونی حملوں اور دہشت گردی سے جب قوم کا اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا تو فوج بھی ملک کا دفاع کیسے کرے گی؟ کوئی اگر سرمایہ دار ہے تو وہ بھی کان کھول کر سن لے کہ جب دہشت گرد معصوم بچوں کے قتل پر اترآئے ہیں تو وہ تمہارے بازاروں اور فیکٹریوں کو کب اور کیوں چھوڑیں گے؟ تاریخ کی یہ تنبیہہ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی تھی کہ 46 برس پہلے تمہارے دفاتر مشرقی پاکستان میں بھی ہوا کرتے تھے۔

وہ نارا ض ہو کر ہم سے الگ ہو گیا۔ اب اگر موجودہ پاکستان پر بھی دہشت گردوں کا غلبہ اور تسلط ہو گیا تو وفاق کا کیا ہو گا؟ تم کہاں سیاست کروگے، کہاں تمہارے جلسے ہوں گے اور کس چوک میں دھرنے دیے جائیں گے؟ سیاست کرنی ہے تو پہلے اپنے ملک کو ان سفاک دہشت گردوں سے بچاؤ، یہ کام کر لو، پھر دھرنے دو ، جلوس نکالواورخطابت کے جادو جگاؤ۔ 16دسمبر کے سانحے نے ایک آخری پیغام ذرایع ابلاغ والوں کو بھی دیا ہے۔ پیغام یہ ہے کہ دہشت گردوں ،ان کے چاہنے والوں اور حامیوں سے خبر دار رہو، یہ صرف ہزاروں معصوم پاکستانیوں کو ہی نہیں درجنوں صحافی بھی قتل کر چکے ہیں۔ پاکستان مستحکم ہو گا توذرایع ابلاغ بھی ترقی کریں گے، ورنہ کیسی خبریںکہاں کے کالم اور بریکنگ نیوز۔ سب دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔

یہ آخری پیغام یہ وارننگ متعلقہ لوگوں اور قوتوں تک پہنچ گئی ہے اور یہ امر یقینا خوش آیند ہے۔ 16دسمبر کے بعد سے پارلیمانی جماعتوں کے سر براہوں کے کئی اجلاس منعقد ہوچکے ہیں۔ ماضی کے سانحوں پر اس تواتر سے اتنے اجلاس کبھی منعقد نہیں ہوئے تھے۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ حکومت، سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت نے اس وارننگ کو آخری وارننگ سمجھا اورحتمی فیصلے کے بعد ہی اٹھنے کا عزم کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ پارلیمنٹ میں عوام کی نمایندگی کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے سر براہ، حکمران سیاسی قیادت اور فوج کے سپہ سالار ایک ساتھ بیٹھ کر یہ بحث مباحثہ اور صلاح و مشورہ کریں کہ1970کے بعد پہلی مرتبہ ملک کی سلامتی کوجس سنگین ترین خطرے کا سامنا ہے اس کا مقابلہ مل کر ہی کیا جا سکتا ہے۔

یہ رویہ 1970 میں اپنایا جا تا اوراقتدار پارلیمنٹ کو منتقل کر دیا جاتا تو ملک یقینا تقسیم نہ ہو تا۔ وزیراعظم نواز شریف نے تمام پارلیمانی قیادت اور اعلیٰ ترین فوجی حکام کو ایک چھت کے نیچے جمع کیا اور ان کے سامنے یہ سوال رکھ دیا کہ پاکستان کو بچانا ہے تو یہ طے کر کے اٹھیں کہ ہم کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے۔؟

نواز شریف کی پہل کاری کا ہر سمت سے مثبت جواب آیا۔ پوری قیادت ایک جگہ جمع ہو گئی۔ پہلے اجلاس میں گیارہ گھنٹوں تک غوروخوص ہوا۔ فوج کے سربراہ نے پارلیمانی پارٹیوں کے سر براہوں کو بار بار بریفنگ دی۔ مباحثے کے دوران بعض نازک موڑ بھی آئے ۔تلخ سوال و جواب بھی ہوئے لیکن کسی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا گیا۔ان سر براہی اجلاسوں میں دائیں اور بائیں بازو کے سخت گیر اور معتدل مزاج سب رہنما شامل تھے۔

ان میں وہ تھے جو فوجی آمروں کے حامی تھے اور وہ بھی تھے جنہوں نے آمروں کے جبر اور تشدد کو برداشت کیا تھا۔16دسمبر کے سانحے نے سب کو متحد کر دیا۔ کل تک ایک دوسرے کا نام تک برداشت نہ کرنے والے ایک ساتھ بیٹھے تھے۔وہ منظر سب نے دیکھا جب مولانا فضل الرحمن کی اقتدا میں عمران خان نے نماز مغرب ادا کی ۔ یہ تاریخ ساز لمحہ تھا جب راحیل شریف نے کہا آپ فیصلہ کریں عمل ہم کریں گے۔ یہ لمحہ68سال میں پہلی مرتبہ آیا کہ فوجی قیادت پارلیمنٹ کی پشت پر کھڑی ہو گئی۔ کاش یہ لمحہ پہلے آجا تا تو ہماری تاریخ آج مختلف ہوتی ۔ پاکستان ایک ہوتا اور دنیا میں اس کا بڑا نام اور احترام ہو تا۔

ملکی تاریخ کے اس نازک مرحلے پر سب نے متحد ہو کر جو متفقہ فیصلہ کیا ہے، اب سب کو اپنے اس فیصلے کی پاس داری کرنی ہوگی ۔ پوری قوم ہی نہیں ،دنیا کی نظریں آپ پر ہیں۔ جان لیا جائے کہ یہ موقع اگر کھو دیا گیا تو پھر دوبارہ یک جا ہونے اور باہم مشورہ کرنے کا موقع بھی شاید نہ مل سکے۔
Load Next Story