سانحہ لنک روڈ جاں بحق افراد اور ورثا کا ڈی این اے دوبارہ لینے کا فیصلہ
جاں بحق افراد کے دیگر ورثا سے بھی رابطے کی کی کوششیں کی جارہی ہے تاکہ تمام لاشوں کے ڈی این اے نمونے حاصل کرلیے جائیں
لنک روڈ ٹریفک حادثے میں سوختہ لاشوں کی شناخت کے لیے ورثا کا ڈی این اے دوبارہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ٹینکر میں موجود کیمیکل کیمیائی تجزیے کے لیے پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) لیبارٹری بھیجایا جائے گا، معلوم کیا جائے گا کہ ٹینکر میں کونسا کیمیکل موجود تھا جو انتہائی تیزی سے آگ بھڑکانے کا سبب بنا اور کچھ ہی دیر میں67 افراد جل کر لقمہ اجل بن گئے۔
نیشنل فارنسک سائنس ایجنسی کے ماہرین آئندہ چند روز میں کراچی پہنچ کر اپنی نگرانی میں سوختہ لاشوں اور لواحقین کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے دوبارہ نمونے حاصل کریں گے اس سے قبل پولیس سرجن کی سربراہی میں لاشوں اور ورثا کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے جو تکنیکی اعتبار سے موزوں نہیں تھے اس لیے (این ایف ایس اے) کے ماہرین خود کراچی پہنچ رہے ہیں۔
یہ بات ایس ایس پی ملیر ملک الطاف نے بتائی انھوں نے بتایا کہ پولیس نے نیشنل فارنسک سائنس ایجنسی سے درخواست کی تھی کہ ان کے ماہرین کراچی آکر اپنی نگرانی میں ڈی این اے نمونے لیں جو انھوں نے تسلیم کرلی ہے، نیشنل فارنسک سائنس ایجنسی کے ماہرین چند روز میں کراچی آکر اپنی نگرانی میں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے دوبارہ لیں گے جن کی رپورٹس اسلام آباد میں تیار کی جائیں گی رپورٹس آنے میں12 سے 15دن لگیں گے اب تک سانحہ لنک روڈ میں جاں بحق افراد میں سے19افراد کے خاندانوں سے رابطہ کرلیا گیا ہے۔
جاں بحق افراد کے دیگر ورثا سے بھی رابطے کی کی کوششیں کی جارہی ہے تاکہ تمام لاشوں کے ڈی این اے نمونے حاصل کرلیے جائیں یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے ماضی میں سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں جاں بحق افراد اور ان کے لواحقین کے لیے جانے والے خون کے نمونے نیشنل فارنسک سائنس ایجنسی تکنیکی لحاظ سے مسترد کردیے تھے اور ایجنسی نے دوبارہ ڈی این اے کے نمونے لیے تھے، پولیس نے زحمت سے بچنے کے لیے پہلے ہی نیشنل فارنسک سائنس ایجنسی کے ماہرین سے کراچی پہنچنے کی درخواست کی ہے۔
پولیس کو جائے حادثہ پر ٹینکر سے کیمیکل مواد کے شواہد مل گئے ہیں جنھیں محفوظ کرلیا گیا ہے اور اب اس کیمیکل کو کیمیائی تجزیے کے لیے پاکستان کونسل آف سائنٹیفکٹ اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی لیبارٹری بھجوایا جائے گا تاکہ معلوم ہوسکے کہ ٹینکر میں کونسا کیمیکل موجود تھا جس سے مسافر بس میں اتنی تیزی سے آگ بھڑکی کہ 67 افراد جل کر ہلاک ہوگئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ حادثے میں بدنصیب مسافر بس کا ڈرائیور عطا محمد کھکرانی بھی جاں بحق ہوگیا ہے۔
مذکورہ بس میں اس کے اہلخانہ بھی موجود تھے اور وہ بھی اس سانحہ میں زندگی کی بازی ہار گئے ہیں ، ٹریفک حادثے کے ذمے دار ٹینکر ڈرائیور اور اس کے مالک کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے، 3 ڈی آئی جیز اور2 ایس ایس پیز پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں ڈی آئی جی ٹریفک ڈاکٹر امیر شیخ ، ڈی آئی جی ایسٹ منیر شیخ، ڈی آئی جی سی آئی اے سلطان خواجہ، ایس ایس پی ٹریفک ملیر بھی شامل ہیں،کمیٹی جلد اپنی ابتدائی رپورٹ اعلیٰ حکام کو ارسال کرے گی بظاہر لگتا ہے کہ حادثہ ٹینکر ڈرائیور کی غفلت سے پیش آیا ہے تاہم ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
ٹینکر میں موجود کیمیکل کیمیائی تجزیے کے لیے پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) لیبارٹری بھیجایا جائے گا، معلوم کیا جائے گا کہ ٹینکر میں کونسا کیمیکل موجود تھا جو انتہائی تیزی سے آگ بھڑکانے کا سبب بنا اور کچھ ہی دیر میں67 افراد جل کر لقمہ اجل بن گئے۔
نیشنل فارنسک سائنس ایجنسی کے ماہرین آئندہ چند روز میں کراچی پہنچ کر اپنی نگرانی میں سوختہ لاشوں اور لواحقین کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے دوبارہ نمونے حاصل کریں گے اس سے قبل پولیس سرجن کی سربراہی میں لاشوں اور ورثا کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے جو تکنیکی اعتبار سے موزوں نہیں تھے اس لیے (این ایف ایس اے) کے ماہرین خود کراچی پہنچ رہے ہیں۔
یہ بات ایس ایس پی ملیر ملک الطاف نے بتائی انھوں نے بتایا کہ پولیس نے نیشنل فارنسک سائنس ایجنسی سے درخواست کی تھی کہ ان کے ماہرین کراچی آکر اپنی نگرانی میں ڈی این اے نمونے لیں جو انھوں نے تسلیم کرلی ہے، نیشنل فارنسک سائنس ایجنسی کے ماہرین چند روز میں کراچی آکر اپنی نگرانی میں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے دوبارہ لیں گے جن کی رپورٹس اسلام آباد میں تیار کی جائیں گی رپورٹس آنے میں12 سے 15دن لگیں گے اب تک سانحہ لنک روڈ میں جاں بحق افراد میں سے19افراد کے خاندانوں سے رابطہ کرلیا گیا ہے۔
جاں بحق افراد کے دیگر ورثا سے بھی رابطے کی کی کوششیں کی جارہی ہے تاکہ تمام لاشوں کے ڈی این اے نمونے حاصل کرلیے جائیں یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے ماضی میں سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں جاں بحق افراد اور ان کے لواحقین کے لیے جانے والے خون کے نمونے نیشنل فارنسک سائنس ایجنسی تکنیکی لحاظ سے مسترد کردیے تھے اور ایجنسی نے دوبارہ ڈی این اے کے نمونے لیے تھے، پولیس نے زحمت سے بچنے کے لیے پہلے ہی نیشنل فارنسک سائنس ایجنسی کے ماہرین سے کراچی پہنچنے کی درخواست کی ہے۔
پولیس کو جائے حادثہ پر ٹینکر سے کیمیکل مواد کے شواہد مل گئے ہیں جنھیں محفوظ کرلیا گیا ہے اور اب اس کیمیکل کو کیمیائی تجزیے کے لیے پاکستان کونسل آف سائنٹیفکٹ اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی لیبارٹری بھجوایا جائے گا تاکہ معلوم ہوسکے کہ ٹینکر میں کونسا کیمیکل موجود تھا جس سے مسافر بس میں اتنی تیزی سے آگ بھڑکی کہ 67 افراد جل کر ہلاک ہوگئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ حادثے میں بدنصیب مسافر بس کا ڈرائیور عطا محمد کھکرانی بھی جاں بحق ہوگیا ہے۔
مذکورہ بس میں اس کے اہلخانہ بھی موجود تھے اور وہ بھی اس سانحہ میں زندگی کی بازی ہار گئے ہیں ، ٹریفک حادثے کے ذمے دار ٹینکر ڈرائیور اور اس کے مالک کی گرفتاری کے لیے پولیس چھاپے مار رہی ہے، 3 ڈی آئی جیز اور2 ایس ایس پیز پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں ڈی آئی جی ٹریفک ڈاکٹر امیر شیخ ، ڈی آئی جی ایسٹ منیر شیخ، ڈی آئی جی سی آئی اے سلطان خواجہ، ایس ایس پی ٹریفک ملیر بھی شامل ہیں،کمیٹی جلد اپنی ابتدائی رپورٹ اعلیٰ حکام کو ارسال کرے گی بظاہر لگتا ہے کہ حادثہ ٹینکر ڈرائیور کی غفلت سے پیش آیا ہے تاہم ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔