وقتِ دُعا

ان کے لیے تحریک کا باعث بن گیا اور انھوں نے یہ نعت کہی، جو بقول ان کے بصورت استغاثہ ہے

fatimaqazi7@gmail.com

ستیہ پال آنند جی نے چند روز قبل ایک نعت بھیجی ہے۔ یوں کہیے کہ پاکستان میں بپا ہونے والی دہشت گردی، انسانی جانوں کا زیاں اور حکام کی بے حسی پہ ان کا دل بھی خون کے آنسو روتا ہے۔ ایسے میں الطاف حسین حالیؔ کی مسدّس کا ایک شعر:

اے خاصۂ خاصان رُسل وقتِ دُعا ہے
اُمّت پہ تِری آکے عجب وقت پڑا ہے

ان کے لیے تحریک کا باعث بن گیا اور انھوں نے یہ نعت کہی، جو بقول ان کے بصورت استغاثہ ہے۔ ان کی خواہش کے احترام میں نعت کو اپنے کالم کی زینت بنا رہی ہوں۔

نعت رسول مقبولؐ
اے خاصۂ خاصانِ رُسل ہادیٔ برحق
حالیؔ نے روا رکھا تھا جو طرزِ تخاطب
مجھ جیسے سبک سر کو تو اچھا نہیں لگتا

اے سیّد الابرار
اُمّت پہ تِری آکے عجب وقت پڑا ہے
اس ''تم'' پہ ''تمہاری'' پہ تری ''تُو'' پہ تو مالک
ہے سخت تعجب کہ ادنیٰ سا یہ انساں
کیا آپؐ سے اس درجہ تکلف سے بری ہے
اے سرور کونین
میں خاکِ کفِ پا بھی نہیں آپؐ کی آقا
میں کیا ہوں فقط اک کفِ خاشاک و خس و پاک
بے وقت و ناکارہ بے دانش و نافہم
اور آپ حضورؐ اکمل و سرمد مرے مالک
میں آپ کو تُو کہہ کے پکاروں' مری جرأت

میں تُو کہوں اس صلِّ علیٰ شمس الضحیٰ کو
جس کے لیے حسّان کا لہجہ بھی ہے کم تر
اس طرزِ تخاطب پہ زباں میری نہ کٹ جائے
اے صدر العلیٰ شہہ
(ہاں خاک مرے منہ میں) مگر پوچھ ہی لوں میں
کیا آپ شہہ انبیاء ہیں کسی سے؟
جو آپ کو ''تُو'' کہہ کے مخاطب ہیں سخن میں
یہ افسر الشعراء یہ غزل گو یہ بیت بند
اے سید الابرار

نئے سال کے آغاز پہ دعا کی تھی کہ خدارا رحم فرما، کہ اب کوئی سانحہ نہ ہو۔ لیکن ہماری دعاؤں میں سے اثر ختم ہوگیا ہے۔ ابھی تو نئے سال کے پہلے مہینے کا پہلا عشرہ بھی مکمل نہیں ہوا کہ قیامت ٹوٹ پڑی۔ کراچی میں بس میں زندہ جل جانے والے کسی آفت ناگہانی کا شکار نہیں ہوئے۔

یہ نہ زلزلہ تھا نہ سیلاب نہ خودکش بمبار کی کارستانی، بلکہ یہ ایک انسانی غلطی تھی۔ نیشنل ہائی وے پر ہونے والے اس حادثے کی ذمے داری کون قبول کرے گا۔ جب حکمرانوں کی رگوں میں صرف اپنی حفاظت اور اقتدار کا جنون شامل ہوجائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ نہ سپر ہائی وے پہ کسی کی جان محفوظ ہے، نہ نیشنل ہائی وے پر، نہ موٹر وے پر، نہ خطرناک موڑوں پر کوئی رفتار کی حد اور آئینے، نہ پولیس، نہ کسی ناگہانی حادثے کی صورت میں کوئی طبی امدادی مرکز۔ فکر ہے تو یہ کہ اقتدار کو کیسے طول دیا جائے اور اپنی اپنی حفاظتوں کے لیے محلات شاہی، وزیر اعظم ہاؤس، وزیر اعلیٰ ہاؤس اور پارٹی لیڈروں کے آہنی دیواروں والے، غلام گردشوں والی وسیع و عریض راہداریوں کو کیسے محفوظ بنایا جائے۔

حادثے ہوتے رہیں گے، خلق خدا مرتی رہے گی، آگ میں جھلستی لاشوں کا انبار لگتا رہے گا۔ حادثے ہوتے رہیں گے اور حکمران نہایت ڈھٹائی سے لاشوں کے لیے معاوضوں کا اعلان کرکے سمجھیں گے کہ انھوں نے ذمے داری پوری کردی۔ حیرت ہوتی ہے ان کی بے حسی دیکھ کر جب پارٹی لیڈر کسی بھی سانحے کے بعد بے تاثر چہرے کے ساتھ بیان دیتے ہوئے فرماتے ہیں ''شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔'' واہ ! کیا زبردست بیان بازی ہے۔

اس ملک کی سب سے بڑی بدنصیبی وہ سونے کی چڑیا ہے جس کا نام انھوں نے ''جمہوریت'' رکھ لیا ہے۔ یہ چڑیا باری باری شراکت داروں اور ان کے رکھوالوں کی گود میں بیٹھی چہچہاتی رہتی ہے۔ نہ کسی کو مہنگائی کی فکر ہے، نہ تھر کی ہلاکتوں کی، نہ ہی مسافر بسوں، ٹرینوں اور عبادت گاہوں میں بے موت مارے جانے والے ان بے گناہوں کی، جن کا کوئی عزیز، سمدھی، سالا ، یا بہنوئی حکومت میں نہیں۔ صرف موت کے بعد صدیوں پرانے گھسے پٹے بے مصرف اور بے توقیر بیانات کے ذریعے شہادت کے درجے پہ فائز کردیا جاتا ہے اور بس۔ کیونکہ وزرا کو پارٹی ٹکٹ اسی بنیاد پہ تو ملتا ہے کہ وہ کس قدر زیادہ گھن گرج کے ساتھ مصنوعی ہمدردی مرنے والوں کے لیے ظاہر کرکے حکومت کو ''بے قصور'' ثابت کرسکیں۔ پورا ملک ''تجارتی'' بنیادوں پہ چلایا جا رہا ہے۔ تاجر کا پہلا اصول منافع کمانا ہوتا ہے۔ اسی لیے حکومتوں کی آشیرواد سے منافع خوروں کو ہر طرح کی سہولتیں دی جاتی رہی ہیں۔

خواہ پُل بنیں یا موٹروے۔ پہلا اصول منافع جو دس فی صد سے بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اسی لیے پُل گر جاتے ہیں لیکن شرح منافع میں کوئی کمی نہیں آتی۔ موٹروے کو تجارتی بنیادوں پر کئی جگہ سے موڑ دیا گیا تاکہ لینڈ مافیا مختلف سوسائٹیوں کی زمینوں اور مکانوں کی قیمت بڑھا سکے۔ جہاں جہاں تجارت ہوگی وہاں وہاں صرف منافع کے لیے کاروبار کیا جائے گا۔ خواہ پرائیویٹ اسکولز ہوں، کالج ہوں، یونیورسٹی ہو، کوچنگ سینٹرز ہوں، ڈاکٹرز کے کلینک ہوں۔ سرکاری اداروں کی سرپرستی سے سب منافع بخش کاروبار کر رہے ہیں۔

اپنے اپنے آہنی دروازوں کے پیچھے بیٹھ کر خود کو محفوظ سمجھنے اور محفوظ بنانے والوں نے شاید عزرائیل سے بھی ساز باز کر رکھی ہے کہ وہ انھیں اور ان کے خاندان والوں کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ سال کی ابتدا ہی ماتموں سے ہوئی ہے۔ دیکھیے اس ملک کی تقدیر میں ابھی اور کتنے سانحے لکھے ہیں:

اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
اُمّت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
Load Next Story