خود مختار صوبائی حکومتیں

سندھ سمیت چاروں صوبائی حکومتیں مہنگائی روکنے اور گراں فروشی روکنے کی ذمے دار ہیں

اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی خودمختاری دینے کے لیے گزشتہ پی پی حکومت میں ملک کی چاروں صوبائی حکومتوں کی خواہشات پوری کر دی گئی تھیں اور انھیں امن و امان برقرار رکھنے اور اپنے صوبوں میں مہنگائی پر کنٹرول کے مکمل اختیارات مل گئے تھے۔ اب چاروں صوبوں کو وفاق سے مداخلت کی وہ شکایات باقی نہیں رہیں جو پہلے ہوا کرتی تھیں۔ تعلیم اور صحت کے معاملے میں اب صوبائی حکومتیں با اختیار ہیں اور بعض اہم اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد وفاق بھی صوبائی معاملات سے لاتعلق ہو گیا ہے اور امن و امان، مہنگائی کے معاملے میں تو بری الذمہ ہو گیا ہے کہ اب اہم مسائل وفاق کا درد سر نہیں رہے ہیں۔

صوبائی خودمختاری کے لیے ہر دور میں صوبائی حکومتیں مطالبات کرتی رہی ہیں اور آخر دو سال قبل انھیں یہ خود اختیاری مل گئی مگر اس کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس وقت عوام کا سب سے اہم مسئلہ مہنگائی اور بدامنی ہے۔ سندھ کے عوام کے مسائل دوسرے صوبوں سے اس لیے زیادہ ہیں کہ باقی تین صوبوں میں اغوا برائے تاوان، قتل و غارت گری، سنگین جرائم اور بھتہ خوری اتنی نہیں ہے جتنی سندھ میں ہے۔ باقی صوبوں کے برعکس سندھ میں رینجرز کی مدد سے ٹارگٹڈ آپریشن بھی جاری ہے جس سے جرائم میں کسی حد تک کمی تو واقع ہوئی ہے مگر صورتحال اب بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔

بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور سنگین جرائم کی وجہ سے نہ صرف کراچی کی صنعتیں بند ہیں بلکہ صنعت کار اور تاجر ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی کراچی سے نقل مکانی کر چکے ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کوئی موثر اقدامات نہیں کر سکی کہ یہ سلسلہ رک سکتا۔ شاید سندھ حکومت چاہتی ہے کہ اس طرح کراچی کی آبادی کم ہو جائے مگر ایسا نہیں ہو رہا کیونکہ اندرون سندھ بدامنی کراچی سے بہت زیادہ ہے۔ سڑکیں غیر محفوظ ہیں۔ اندرون سندھ بیروزگاری کے باعث غریب لوگ کراچی اور حیدر آباد نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ مگر حکومت سندھ کو کوئی فکر نہیں اور حکومتی ترجمان صرف بیانات داغ کر سمجھ لیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے اور اپوزیشن صرف پروپیگنڈا کرتی ہے۔ سندھ میں کرپشن کے بھی ریکارڈ قائم ہوئے ہیں مگر پوچھنے والا کوئی نہیں ہے اور سندھ کے اصل حکمرانوں کے نزدیک کرپشن کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ با اختیار لوگوں کا حق ہے جو کھل کر کر رہے ہیں اور انھیں عدالتوں کا بھی خوف نہیں ہے۔

سندھ سمیت چاروں صوبائی حکومتیں مہنگائی روکنے اور گراں فروشی روکنے کی ذمے دار ہیں مگر چاروں صوبائی حکومتوں کی نااہلی نے عوام کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کوئی صوبائی حکومت گراں فروشی پر کنٹرول نہیں کرنا چاہتی صرف دکھاوے کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز گراں فروشی کو معمولی مسئلہ سمجھتے ہیں جب کہ یہ عوام کا سب سے اہم مسئلہ ہے مگر صوبائی حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ وفاقی حکومت نے عالمی سطح پر تیل کی قیمت سو روپے سے کم کر کے 78 روپے فی لیٹر تک پہنچا دی مگر عوام کو فائدہ نہ ہونے کے برابر رہا۔ صوبائی حکومتوں نے ٹرانسپورٹ کے کرایے کم کرانے کی کوشش تو کی مگر پٹرول کے نرخوں کو ہمیشہ بنیاد بنا کر گراں فروشی کرنے والے گراں فروشوں نے پٹرولیم نرخوں کی کمی کا فائدہ عوام کو نہیں پہنچنے دیا۔

ملک بھر میں دودھ کی قیمتیں سردیوں کے باعث ہمیشہ کم ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سردیوں میں دودھ کی کھپت کم ہونا ہوتا ہے اور دودھ فروش مجبوری میں نرخ کم کر دیتے ہیں جس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہوتا جب کہ سردی کے باعث ملک کے غریب خشک میوے اس کے بہت زیادہ نرخوں کے باعث خریدنے کی قوت و سکت کھو چکے ہیں اور ہر حکومت نے گراں فروشوں کو لوٹنے کی آزادی دے رکھی ہے۔


سردی میں انڈوں کی طلب کے ساتھ نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں مگر پولٹری نرخوں کو کبھی چیک نہیں کیا جاتا۔ سبزی اور پھلوں کے نرخ پٹرول مہنگا ہونے کی بنیاد پر ہمیشہ بڑھائے جاتے ہیں مگر پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم ہونے کے بعد حکومت پھلوں، سبزیوں کے نرخ کم کرانے پر توجہ نہیں دیتی اور یہ کام صرف رمضان المبارک تک مخصوص رکھ کر عوام پر احسان کیا جاتا ہے۔ صوبائی حکومتیں صرف رمضان المبارک میں قیمتوں پر کنٹرول کو اپنی ذمے داری سمجھتی ہیں اور صرف ایک ماہ میں بھی گراں فروشی کو کنٹرول نہیں کر پاتیں البتہ جرمانوں کی شکل میں ہر ضلع میں جمع ہونے والی لاکھوں روپے کی رقم حکومت کو حاصل ہو جاتی ہے اور عوام کو مجسٹریٹوں کے ان جرمانوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ مجسٹریٹوں کے جانے کے بعد گراں فروش مزید قیمتیں بڑھا کر جرمانے سے بھی زائد رقم گاہکوں سے وصول کر لیتے ہیں۔

ہر صوبے میں بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز اور مارکیٹ کمیٹیاں موجود ہیں جو سرکاری ادارے ہیں مگر یہ قیمتوں پر کنٹرول کرنے کے لیے کبھی مخلص نہیں رہے۔ یہ غیر حقیقی نرخ مقرر کرتے ہیں طلب اور کھپت کا انھیں اندازہ ہوتا ہے نہ ان کے پاس مجسٹریسی اختیار ہیں اور ان کا مقصد صرف اپنے لیے مال بنانا یا سرکاری رقم خورد برد کرنا اور سرکاری زمین پر بنے گوداموں اور دکانوں کے معاملات میں ہیر پھیر کر کے رشوت وصول کرنا ہو کر رہ گیا ہے۔

کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر صرف اپنے دفاتر میں رہنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور انھیں قیمتوں پر کنٹرول صرف رمضان المبارک میں یاد آتا ہے اور باقی 11 ماہ یہ سوتے رہتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنروں کے پاس پہلے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنروں کے پاس سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور مختار کاروں کے پاس فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات ہوتے تھے جو اب نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ قیمتیں کنٹرول کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے بلکہ وہ اس اہم عوامی مسئلے کو اپنی سرکاری ذمے داری نہیں سمجھتے۔

پورا ملک گراں فروشوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ گراں فروش عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور مہنگائی کا ذمے دار ریٹیلر ہول سیلر کو قرار دیتے ہیں جنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور کبھی انتظامیہ انھیں پوچھتی ہے تو وہ ہڑتال کی دھمکی دے کر انتظامیہ ہی کو جھکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

عوام کے مہنگائی کے سنگین مسئلے صوبائی حکومتوں کی فوری توجہ کے طالب ہیں یہ مسئلہ ہر صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہو رہا بدامنی کی طرح مہنگائی ایسا مسئلہ ہے جو صرف صوبائی حکومتوں کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ امن برقرار رکھنے کے لیے متعدد فورسز کام کر رہی ہیں مگر مہنگائی پر کنٹرول کے لیے صوبوں میں کوئی با اختیار اتھارٹی تک موجود نہیں ہے۔ مہنگائی پر کنٹرول اب صوبائی مسئلہ ہے تو صوبائی حکومت کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ کمزور اور بے اختیار بیورو آف سپلائی اور مارکیٹ کمیٹیوں کو موثر بنانے کے لیے اس کی علیحدہ وزارت قائم کی جانی چاہیے۔
Load Next Story