دہشت گردی اور متفقہ لائحہ عمل
وطن عزیز کو ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے
وطن عزیز کو ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے اب تک ہزاروں قیمتی جانیں ضایع ہو چکی ہیں اور ملکی معیشت کو اربوں ڈالرز کا ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے اور اب امریکا سمیت عالمی برادری بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہے کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں۔ جس کا اظہار ایساف اور افغان فوج کے سربراہوں نے آرمی چیف کے ساتھ حالیہ ملاقات میں کیا۔ جب کہ امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان بھی اس کا اظہار کر چکی ہیں۔
سانحہ پشاور کے المناک واقعے نے پورے ملک کو ایک عجیب سراسیمگی اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے جس سے ریاست کی بقا پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ 16 دسمبر کو پیش آنے والے اس واقعے نے اس دن کو پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دن بنا دیا ہے کیونکہ یہی وہ دن ہے جب پاکستان 1971ء میں دشمن کی سازش سے دولخت ہوا تھا۔ اس دلخراش واقعے نے پوری قوم کے دل و دماغ پر ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اس واقعے کے فوری بعد حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں نے جتنی سرعت اور تیزی کے ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل بنانے کے لیے تگ و دو کی وہ یقینا قابل ستائش ہے۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے اجلاسوں میں جس میں ملک کی پوری قوم اور سیاسی قیادت شریک تھی۔ اس عفریت سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ جس میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کئی ٹھوس تجاویز شامل کی گئیں۔ جن میں سرفہرست فوجی عدالتوں کا قیام ہے۔
جیسا کہ وزیر اعظم نے اپنے حالیہ خطاب میں اس کا ذکر کیا کہ یہ عدالتیں فی الحال 2 سال کے لیے قائم کی جائیں گی۔ تا کہ دہشت گردی کے مقدمات کو جلد اور موثر طریقے سے اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔ ملک کے سیکیورٹی اداروں کو خصوصاً اور حکومتی اہلکاروں کو عموماً دہشت گردوں کے خلاف کمزور عدالتی کارروائی پر طویل عرصے سے اعتراض رہا ہے۔ جن کے بقول یہ دہشت گرد جن کو کافی طویل جدوجہد کے بعد اگر گرفتار بھی کر لیا جائے تو یہ قانون کے شکنجے سے آزاد ہو جاتے ہیں اور یا تو ضمانت حاصل ہونے کے بعد دوبارہ کارروائیوں میں مشغول ہو جاتے ہیں یا پھر سالہا سال مقدمات کی پیروی کرنے میں گزر جاتے ہیں اور ان کو معاشرے کے لیے عبرت کا نشان نہیں بنایا جا سکتا۔ اس تمام صورتحال کی وجہ سے مبینہ طور پر ان دہشت گرد گروپوں کے حوصلے پست نہیں بلکہ اور بلند ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً سیکیورٹی اداروں کا مورال کمزور پڑ جاتا ہے۔
دوسری طرف قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملزموں کے خلاف کارروائی کے لیے مضبوط ثبوت اور شواہد فراہم نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے عدالتوں کے پاس ان ملزموں کو شک کی بنیاد پر ریلیف فراہم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچ پاتا۔ وجوہات چاہے جو بھی ہوں یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ہمارا قانونی نظام دہشت گردوں کو سزائیں دینے میں یقینا کافی کمزور ثابت ہوا ہے جس کی وجہ نظام میں خرابیاں ہوں یا مبینہ خوف جس کا ججوں کو فیصلہ کرتے وقت سامنا ہوتا ہے یا پھر سیکیورٹی اداروں کی مناسب تفتیش کا نہ ہونا ہو۔ حقیقت سب کے سامنے عیاں ہے۔ لہٰذا فوجی عدالتوں کا قیام اس عفریت کو کچلنے کے لیے ایک مناسب اقدام تصور کیا جائے گا۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔
اگرچہ کئی قانونی حلقے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کی مخالفت کرتی نظر آتی ہیں لیکن اس ناسور کو کچلنے کے لیے قلیل المدتی (Short Term) اقدامات میں ان عدالتوں کا قیام یقینا ایک بہتر قدم ہے۔ مذکورہ اقدام کے علاوہ کئی اور سفارشات بھی تیار کی گئی ہیں۔ جن میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی (NACTA) کا فعال کردار، 5000 افراد پر مشتمل ریپڈ رسپانس فورس کا قیام (جس میں 100 اہلکار اسلام آباد میں جب کہ تمام صوبائی دارالحکومتوں میں 1000 اہلکاروں کی تعیناتی کی سفارش کی گئی ہے) مدارس کی رجسٹریشن، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے دہشت گردوں کی دھمکیوں کو نشر نہ کرنے کا حکم، فرقہ وارانہ اور انتہا پسندانہ لٹریچر کی اشاعت پر سخت اور کڑی پابندی اور اس میں ملوث افراد کی گرفت، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے انتہا پسندانہ مواد کی اشاعت کو روکنے کے لیے اقدامات اور فاٹا کے علاقے میں اصلاحات کا نفاذ وغیرہ نمایاں ہیں۔
مندرجہ بالا تمام سفارشات اعلانات کی حد تک تو انتہائی موثر معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ حقیقتاً کس حد تک موثر ثابت ہوتی ہیں اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہی ہو سکے گا۔ اس وقت ملک میں رائج پولیس کا نظام، عدالتوں میں زیر التوا مقدمات، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزور گرفت، انتہا پسند اور کالعدم تنظیموں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں، معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ، فرقہ وارانہ خیالات کا پرچار اور پھر بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کی کارروائیاں ملک میں جاری دہشت گردی کو کچلنے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ اس جنگ سے نمٹنے کے لیے ساری ذمے داری فوج پر ڈال دینا ایک مستحسن قدم بالکل نہیں ہے۔ اس کے لیے تمام صوبائی وفاقی حکومتوں، انٹیلی جنس اداروں اور عوام کو یک جان ہونا پڑے گا۔ آپس میں مربوط رابطے اور موجودہ قوانین کا عملی نفاذ ہی اس ناسور کو کچلنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے، قانون بنانا اور اس میں طرح طرح کی شقیں شامل کرنا تو نہایت آسان امر ہے لیکن اس کا عملی نفاذ ایک مستقل امر ہے۔
اس سلسلے میں مذہبی رہنماؤں اور علما کا کردار بھی انتہائی اہم امر ہے جن کے تعاون کے بغیر انتہا پسندی کے اس مائنڈ سیٹ کو شکست دینا شاید ناممکن ہے۔ یہ امید کی جانی چاہیے کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے انتہائی عرق ریزی اور جدوجہد کے ساتھ جن سفارشات کی منظوری دی ہے ان پر صحیح رو کے مطابق عمل بھی ہوگا۔ اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا آپس میں تعاون انتہائی ناگزیر ہے۔ سانحہ پشاور میں بچوں کی شہادت پوری قوم پر ایک قرض ہے جس کو چکانے کے لیے ہم سب کو ایک ہوکر آگے بڑھنا ہو گا تا کہ اس ملک کے مستقبل کو بچایا جا سکے۔
سانحہ پشاور کے المناک واقعے نے پورے ملک کو ایک عجیب سراسیمگی اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے جس سے ریاست کی بقا پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ 16 دسمبر کو پیش آنے والے اس واقعے نے اس دن کو پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دن بنا دیا ہے کیونکہ یہی وہ دن ہے جب پاکستان 1971ء میں دشمن کی سازش سے دولخت ہوا تھا۔ اس دلخراش واقعے نے پوری قوم کے دل و دماغ پر ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ اس واقعے کے فوری بعد حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں نے جتنی سرعت اور تیزی کے ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل بنانے کے لیے تگ و دو کی وہ یقینا قابل ستائش ہے۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے اجلاسوں میں جس میں ملک کی پوری قوم اور سیاسی قیادت شریک تھی۔ اس عفریت سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ جس میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کئی ٹھوس تجاویز شامل کی گئیں۔ جن میں سرفہرست فوجی عدالتوں کا قیام ہے۔
جیسا کہ وزیر اعظم نے اپنے حالیہ خطاب میں اس کا ذکر کیا کہ یہ عدالتیں فی الحال 2 سال کے لیے قائم کی جائیں گی۔ تا کہ دہشت گردی کے مقدمات کو جلد اور موثر طریقے سے اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔ ملک کے سیکیورٹی اداروں کو خصوصاً اور حکومتی اہلکاروں کو عموماً دہشت گردوں کے خلاف کمزور عدالتی کارروائی پر طویل عرصے سے اعتراض رہا ہے۔ جن کے بقول یہ دہشت گرد جن کو کافی طویل جدوجہد کے بعد اگر گرفتار بھی کر لیا جائے تو یہ قانون کے شکنجے سے آزاد ہو جاتے ہیں اور یا تو ضمانت حاصل ہونے کے بعد دوبارہ کارروائیوں میں مشغول ہو جاتے ہیں یا پھر سالہا سال مقدمات کی پیروی کرنے میں گزر جاتے ہیں اور ان کو معاشرے کے لیے عبرت کا نشان نہیں بنایا جا سکتا۔ اس تمام صورتحال کی وجہ سے مبینہ طور پر ان دہشت گرد گروپوں کے حوصلے پست نہیں بلکہ اور بلند ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً سیکیورٹی اداروں کا مورال کمزور پڑ جاتا ہے۔
دوسری طرف قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملزموں کے خلاف کارروائی کے لیے مضبوط ثبوت اور شواہد فراہم نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے عدالتوں کے پاس ان ملزموں کو شک کی بنیاد پر ریلیف فراہم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچ پاتا۔ وجوہات چاہے جو بھی ہوں یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ہمارا قانونی نظام دہشت گردوں کو سزائیں دینے میں یقینا کافی کمزور ثابت ہوا ہے جس کی وجہ نظام میں خرابیاں ہوں یا مبینہ خوف جس کا ججوں کو فیصلہ کرتے وقت سامنا ہوتا ہے یا پھر سیکیورٹی اداروں کی مناسب تفتیش کا نہ ہونا ہو۔ حقیقت سب کے سامنے عیاں ہے۔ لہٰذا فوجی عدالتوں کا قیام اس عفریت کو کچلنے کے لیے ایک مناسب اقدام تصور کیا جائے گا۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔
اگرچہ کئی قانونی حلقے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کی مخالفت کرتی نظر آتی ہیں لیکن اس ناسور کو کچلنے کے لیے قلیل المدتی (Short Term) اقدامات میں ان عدالتوں کا قیام یقینا ایک بہتر قدم ہے۔ مذکورہ اقدام کے علاوہ کئی اور سفارشات بھی تیار کی گئی ہیں۔ جن میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی (NACTA) کا فعال کردار، 5000 افراد پر مشتمل ریپڈ رسپانس فورس کا قیام (جس میں 100 اہلکار اسلام آباد میں جب کہ تمام صوبائی دارالحکومتوں میں 1000 اہلکاروں کی تعیناتی کی سفارش کی گئی ہے) مدارس کی رجسٹریشن، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے دہشت گردوں کی دھمکیوں کو نشر نہ کرنے کا حکم، فرقہ وارانہ اور انتہا پسندانہ لٹریچر کی اشاعت پر سخت اور کڑی پابندی اور اس میں ملوث افراد کی گرفت، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے انتہا پسندانہ مواد کی اشاعت کو روکنے کے لیے اقدامات اور فاٹا کے علاقے میں اصلاحات کا نفاذ وغیرہ نمایاں ہیں۔
مندرجہ بالا تمام سفارشات اعلانات کی حد تک تو انتہائی موثر معلوم ہوتی ہیں لیکن یہ حقیقتاً کس حد تک موثر ثابت ہوتی ہیں اس کا اندازہ تو آنے والے دنوں میں ہی ہو سکے گا۔ اس وقت ملک میں رائج پولیس کا نظام، عدالتوں میں زیر التوا مقدمات، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزور گرفت، انتہا پسند اور کالعدم تنظیموں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں، معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ، فرقہ وارانہ خیالات کا پرچار اور پھر بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کی کارروائیاں ملک میں جاری دہشت گردی کو کچلنے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ اس جنگ سے نمٹنے کے لیے ساری ذمے داری فوج پر ڈال دینا ایک مستحسن قدم بالکل نہیں ہے۔ اس کے لیے تمام صوبائی وفاقی حکومتوں، انٹیلی جنس اداروں اور عوام کو یک جان ہونا پڑے گا۔ آپس میں مربوط رابطے اور موجودہ قوانین کا عملی نفاذ ہی اس ناسور کو کچلنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے، قانون بنانا اور اس میں طرح طرح کی شقیں شامل کرنا تو نہایت آسان امر ہے لیکن اس کا عملی نفاذ ایک مستقل امر ہے۔
اس سلسلے میں مذہبی رہنماؤں اور علما کا کردار بھی انتہائی اہم امر ہے جن کے تعاون کے بغیر انتہا پسندی کے اس مائنڈ سیٹ کو شکست دینا شاید ناممکن ہے۔ یہ امید کی جانی چاہیے کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے انتہائی عرق ریزی اور جدوجہد کے ساتھ جن سفارشات کی منظوری دی ہے ان پر صحیح رو کے مطابق عمل بھی ہوگا۔ اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا آپس میں تعاون انتہائی ناگزیر ہے۔ سانحہ پشاور میں بچوں کی شہادت پوری قوم پر ایک قرض ہے جس کو چکانے کے لیے ہم سب کو ایک ہوکر آگے بڑھنا ہو گا تا کہ اس ملک کے مستقبل کو بچایا جا سکے۔