امریکی انخلا پاکستان اور افغانستان پر اثرات
جیسے جیسے امریکا کی جانب سے افغانستان کی انخلا ء کی اعلان کردہ تاریخ نزدیک آ رہی تھی
جیسے جیسے امریکا کی جانب سے افغانستان کی انخلا ء کی اعلان کردہ تاریخ نزدیک آ رہی تھی ، امریکا کی پریشانی میں متواتر اضافہ ہوتا جا رہا تھا کہ افغان جنگ میں استعمال ہونے والا 50 ارب ڈالر کا ساز و سامان۔ واپسی کے سبب امریکا کے لیے وبال اور بھاری نقصان کا باعث بن رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سامان کی واپسی کے لیے 6 ارب ڈالر لاگت آئے گی، پینٹاگون عندیہ دے چکا ہے کہ افغانستان میں مستقل امن کے قیام تک اُس کی مکمل فوج واپس نہیں جائے گی اس لیے ایک سال کی توسیع بھی کر دی گئی اور امریکا کی ماضی کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ اُس نے جس بھی ملک میں لشکر کشی کی ہے، وہاں سے جنگ بندی کے بعد بھی امریکی فوجی اڈے اور فوجی موجود رہے ہیں، اس لیے یہ ناممکن ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر امریکا کا کوئی فوجی نہیں ہو گا۔
ابتدائی طور پر پینٹاگون کی جانب سے بیان میں پانچ ہزار فوجی افغانستان میں رہنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں تعداد کی ضرورت کی لحاظ سے مزید اضافے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا گیا۔ تاہم امریکا کی نقل و حرکت میں کمی ضرور واقع ہو جائے گی اور ان کے لیے دیگر مشکلات میں سب سے اہم مسئلہ جنگی گاڑیوں، ڈائننگ روم، جم اور کپڑے اور دیگر اشیاء کو واپس لے جانا ہے۔ 35 ہزار فوجی گاڑیاں اور 95 ہزار کنٹینرز اور فوجی وطن واپس لے جانا چاہتے ہیں اور اس کی ترسیل کی لاگت کا تخمینہ6 ارب ڈالر کے قریب لگایا جا رہا ہے۔ امریکی فوج کے لیے مسئلہ اول یہی ہے کہ افغانستان میں کوئی بندرگاہ نہیں، فضائی یا مشرق وسطی کا راستہ استعمال کرنے سے لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہو جائے گا ۔
اس لیے ان کی تمام تر توجہ پاکستان کے راستے اپنے فوجی سامان کو لے جانے پر مرکوز ہے، جنھیں پاکستان میں کسٹم فیس ادا کر کے نکالا جا سکے گا۔ افغان جنگ میں صرف کنٹینرز کو نکالنے کی لاگت 237 ملین ڈالر لگائی جا رہی ہے، جب کہ ایک ملین ڈالر سے زیادہ قیمت والے 2 ہزار ٹرکوں کو افغانستان میں چھوڑنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرایع کے مطابق ایسی چوبیس ہزار گاڑیاں پہلے ہی امریکی فوج کے استعمال میں ہیں۔8 ٹن وزنی یہ ٹرک فوجیوں کو لانے جانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور سڑک کے کنارے نصب بم ان پر اثر نہیں کرتے۔
امریکا کا یہ ارادہ بھی ہے کہ انھیں لے جانے کے بجائے اسکریپ کر دیا جائے اور اس کی نیلامی کر کے ان ساز و سامان کو افغانستان اور پاکستان سمیت کسی ملک کے حوالے نہ کیا جائے۔ جنگی ساز و سامان کی فروخت اور نیلامی کے لیے ایک ویب سائٹ پر اشتہار دینے کا پروگرام پیش کیا جا رہا ہے۔ من پسند افراد اس سائٹ سے اپنی پسند کے جنگی ساز و سامان کو حاصل کر رہے ہیں، لیکن بھاری فوجی ساز و سامان کو فروخت سے قبل تباہ کر دیا جائے گا تا کہ کسی کے استعمال میں اس کی ٹیکنالوجی نہ آ سکے، اس لیے لکڑی کے تختے سے ٹرک اور فائر انجن سے روٹی پکانے والی مشین تک ہر روز اس سائٹ پر نئے آئٹمز پیش کیے جا رہے ہیں، گو کہ امریکا چاہتا ہے کہ فوجی ساز و سامان جو افغان جنگ میں استعمال ہوا اسے واپس لا کر کیلی فورنیا میں قائم 35 ہزار ایکڑ پر محیط ڈپو میں اسٹور کیا جائے۔ یہاں پہلے ہی لاکھوں جنگی گاڑیاں اور ایک ارب ڈالر مالیت کا دیگر سامان موجود ہے۔
اٹلانٹک کونسل کے سنئیر فیلو جم ہاسک کے مطابق اتنا زیادہ ساز و سامان واپس لانے کے بجائے وہیں تباہ کر دیا جائے گا۔ امریکا اپنے فوجی ساز و سامان کو پاکستان کے حوالے بھی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی واقع ہے لیکن امریکا کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر پاکستان دفاعی ساز و سامان کے ساتھ مضبوط ہو گا تو شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے میں دشواری کا کم سامنا کرنا ہو گا۔ اگر امریکا نے افغانستان سے باقاعدہ انخلا ء شروع کر دیا ہے تو قوی امکان یہی ہے کہ طالبان کے تمام گروپ اجتماعی طور پر مال غنیمت کو حاصل کرنے کے لیے امریکی قافلوں پر دھاوا بولیں گے اور کابل سے لے کر کراچی تک امریکی قافلوں کی باحفاظت واپسی کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔
اس کے لیے امریکا کو پاکستان کی فوجی امداد کے طور پر اپنا سازو سامان پاک فوج کے حوالے کرنا زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن برقرار رہ سکتا ہے اور افغان جنگ میں چالیس ہزار سے زائد معصوم پاکستانیوں کی ہلاکتیں، صرف امریکی جارحیت کی بناء پر ردعمل کے طور پر ہوئیں۔ اصل حقائق یہی ہیں کہ پاک عسکری قوت کی قربانیوں کا کوئی مالی تعاون مدوا نہیں کر سکتا لیکن دنیا میں امن کے خاطر اور افغانستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے طویل ترین بارڈر پر در اندازوں کو روک سکنے کی اہلیت حاصل کرے ۔ گو کہ امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مطالبات در مطالبات کی پالیسی اپنائی، جس کے سبب پاکستانی عوام میں امریکا کے خلاف اعتماد کی فضا پیدا نہیں ہو سکی۔
پاکستان کی تضحیک اور بھارت کی ہمنوائی کے ساتھ سی آئی اے کی جانب سے بلا روک ٹوک کارروائیوں اور ڈرون حملوں نے پاکستانی عوام کے جذبات کو شدید مشتعل کیا، خاص کر امریکی فوج کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی اور امریکی پادری کی جانب سے قرآن پاک شہید کرنے کے واقعے سمیت متعدد ایسے مواقعے آئے جس میں امریکا اگر انسانیت اور مذاہب کے احترام کے طور پر اپنا مدبرانہ کردار ادا کرتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ طورخم بارڈر و باب دوستی سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک طالبان نے اپنے نیٹ ورک کو اس قدر مضبوط بنا لیا ہے کہ عسکری قیادت، سیاسی جماعتوں کی نا اتفاقیوں کی بناء پر ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے سے قاصر رہی اور طالبان کو اپنے قدم جمانے کا بھرپور موقع مل گیا۔ امریکا اس زعم میں اگر ہے کہ طالبان کا باب ختم ہو گیا تو اس کی خام خیالی ہے۔
پاکستانی حکمران بلا شبہ امریکی خوشنودی چاہتے ہیں لیکن پاکستانی اور افغانی عوام اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود امریکا کے ہر عمل کو شک و شبے کی روشنی سے دیکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود پولیو خاتمے کی مہم بُری طرح ناکام ہو رہی ہے اور شکیل آفریدی کے ایک عمل کی وجہ سے پورے ملک میں اس مہم کے خلاف شک و شبے کا اظہار کیا جاتا ہے اور شدت پسند اب کبھی نہیں چائیں گے کہ این جی اوز کسی بھی بہانے سے ان کے علاقوںمیں داخل ہوں، اس لیے امریکی مفادات کے بجائے صحت عامہ کے لیے بھی کی جانے والی کوششیں امریکی طرز عمل کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہیں اور بے قصور پولیو ورکر، شدت پسندوں کا کھلم کھلا نشانہ بن رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف واضح پالیسی نہ ہونے کے سبب مسلم لیگ (ن) جو طالبان کے نزدیک پسندیدہ جماعت تھی اب انھیں بھی اے این پی کی طرح سبق سکھانے کا الٹی میٹم دیا جا رہا ہے جو ایک خطرناک رجحان کی نشان دہی کر رہا ہے۔ امریکا، اگر پاکستان میں اپنے لیے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے مخلص ہے تو اسے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا۔
افغانستان سے انخلا کے لیے پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مضبوط کرنا خود امریکا کے مفاد میں ہے، جدید ترین ساز وسامان کو اسکریپ کرنے کے بجائے پاک عسکری قوت کو دینے سے مستقبل میں پاکستانی سرحدوں کی حفاظت، دراصل پورے خطے کی حفاظت کے لیے ہو گی۔ چند ارب ڈالرکے لیے کھربوں ڈالر کی دوبارہ مہم جوئی امریکی کی رہی سہی معیشت کو تباہ کر دے گی۔ افغانستان کو پاکستان کے بغیر کوئی دوسرا ملک اس لیے کنٹرول نہیں کر سکتا کیونکہ ان کی جغرافیائی و ثقافتی روایات ایک جیسی ہیں۔
اس لیے پاکستان کو افغانستان کی جانب سے در اندزیوں اور غیر ملکی شدت پسندوں کی روک تھام اور ان کے خلاف بھرپورکارروائی کے لیے عسکری مضبوطی ناگزیر ہے، ملک کی مشرقی سرحدوں پر بھارتی مہم جوئی کا مسلسل اثر پورے پاکستان پر ہو رہا ہے، لیکن امریکا اگر یہ سمجھتا ہے کہ پرویز مشروف کی طرح ایک فون کی دہمکی پر پاکستان ایک بار پھرگھٹنے دوبارہ ٹیک دے گا تو یہ غلط فہمی ہو گی اور اس کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ امریکا عالمی امن کے لیے اپنے طرز عمل میں گنجائش پیدا کرے جو خطے کے لیے بہتری کا مثبت قدم ہو گا۔
رپورٹ کے مطابق سامان کی واپسی کے لیے 6 ارب ڈالر لاگت آئے گی، پینٹاگون عندیہ دے چکا ہے کہ افغانستان میں مستقل امن کے قیام تک اُس کی مکمل فوج واپس نہیں جائے گی اس لیے ایک سال کی توسیع بھی کر دی گئی اور امریکا کی ماضی کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ اُس نے جس بھی ملک میں لشکر کشی کی ہے، وہاں سے جنگ بندی کے بعد بھی امریکی فوجی اڈے اور فوجی موجود رہے ہیں، اس لیے یہ ناممکن ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر امریکا کا کوئی فوجی نہیں ہو گا۔
ابتدائی طور پر پینٹاگون کی جانب سے بیان میں پانچ ہزار فوجی افغانستان میں رہنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں تعداد کی ضرورت کی لحاظ سے مزید اضافے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا گیا۔ تاہم امریکا کی نقل و حرکت میں کمی ضرور واقع ہو جائے گی اور ان کے لیے دیگر مشکلات میں سب سے اہم مسئلہ جنگی گاڑیوں، ڈائننگ روم، جم اور کپڑے اور دیگر اشیاء کو واپس لے جانا ہے۔ 35 ہزار فوجی گاڑیاں اور 95 ہزار کنٹینرز اور فوجی وطن واپس لے جانا چاہتے ہیں اور اس کی ترسیل کی لاگت کا تخمینہ6 ارب ڈالر کے قریب لگایا جا رہا ہے۔ امریکی فوج کے لیے مسئلہ اول یہی ہے کہ افغانستان میں کوئی بندرگاہ نہیں، فضائی یا مشرق وسطی کا راستہ استعمال کرنے سے لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہو جائے گا ۔
اس لیے ان کی تمام تر توجہ پاکستان کے راستے اپنے فوجی سامان کو لے جانے پر مرکوز ہے، جنھیں پاکستان میں کسٹم فیس ادا کر کے نکالا جا سکے گا۔ افغان جنگ میں صرف کنٹینرز کو نکالنے کی لاگت 237 ملین ڈالر لگائی جا رہی ہے، جب کہ ایک ملین ڈالر سے زیادہ قیمت والے 2 ہزار ٹرکوں کو افغانستان میں چھوڑنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرایع کے مطابق ایسی چوبیس ہزار گاڑیاں پہلے ہی امریکی فوج کے استعمال میں ہیں۔8 ٹن وزنی یہ ٹرک فوجیوں کو لانے جانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور سڑک کے کنارے نصب بم ان پر اثر نہیں کرتے۔
امریکا کا یہ ارادہ بھی ہے کہ انھیں لے جانے کے بجائے اسکریپ کر دیا جائے اور اس کی نیلامی کر کے ان ساز و سامان کو افغانستان اور پاکستان سمیت کسی ملک کے حوالے نہ کیا جائے۔ جنگی ساز و سامان کی فروخت اور نیلامی کے لیے ایک ویب سائٹ پر اشتہار دینے کا پروگرام پیش کیا جا رہا ہے۔ من پسند افراد اس سائٹ سے اپنی پسند کے جنگی ساز و سامان کو حاصل کر رہے ہیں، لیکن بھاری فوجی ساز و سامان کو فروخت سے قبل تباہ کر دیا جائے گا تا کہ کسی کے استعمال میں اس کی ٹیکنالوجی نہ آ سکے، اس لیے لکڑی کے تختے سے ٹرک اور فائر انجن سے روٹی پکانے والی مشین تک ہر روز اس سائٹ پر نئے آئٹمز پیش کیے جا رہے ہیں، گو کہ امریکا چاہتا ہے کہ فوجی ساز و سامان جو افغان جنگ میں استعمال ہوا اسے واپس لا کر کیلی فورنیا میں قائم 35 ہزار ایکڑ پر محیط ڈپو میں اسٹور کیا جائے۔ یہاں پہلے ہی لاکھوں جنگی گاڑیاں اور ایک ارب ڈالر مالیت کا دیگر سامان موجود ہے۔
اٹلانٹک کونسل کے سنئیر فیلو جم ہاسک کے مطابق اتنا زیادہ ساز و سامان واپس لانے کے بجائے وہیں تباہ کر دیا جائے گا۔ امریکا اپنے فوجی ساز و سامان کو پاکستان کے حوالے بھی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی واقع ہے لیکن امریکا کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر پاکستان دفاعی ساز و سامان کے ساتھ مضبوط ہو گا تو شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے میں دشواری کا کم سامنا کرنا ہو گا۔ اگر امریکا نے افغانستان سے باقاعدہ انخلا ء شروع کر دیا ہے تو قوی امکان یہی ہے کہ طالبان کے تمام گروپ اجتماعی طور پر مال غنیمت کو حاصل کرنے کے لیے امریکی قافلوں پر دھاوا بولیں گے اور کابل سے لے کر کراچی تک امریکی قافلوں کی باحفاظت واپسی کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔
اس کے لیے امریکا کو پاکستان کی فوجی امداد کے طور پر اپنا سازو سامان پاک فوج کے حوالے کرنا زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن برقرار رہ سکتا ہے اور افغان جنگ میں چالیس ہزار سے زائد معصوم پاکستانیوں کی ہلاکتیں، صرف امریکی جارحیت کی بناء پر ردعمل کے طور پر ہوئیں۔ اصل حقائق یہی ہیں کہ پاک عسکری قوت کی قربانیوں کا کوئی مالی تعاون مدوا نہیں کر سکتا لیکن دنیا میں امن کے خاطر اور افغانستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے طویل ترین بارڈر پر در اندازوں کو روک سکنے کی اہلیت حاصل کرے ۔ گو کہ امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مطالبات در مطالبات کی پالیسی اپنائی، جس کے سبب پاکستانی عوام میں امریکا کے خلاف اعتماد کی فضا پیدا نہیں ہو سکی۔
پاکستان کی تضحیک اور بھارت کی ہمنوائی کے ساتھ سی آئی اے کی جانب سے بلا روک ٹوک کارروائیوں اور ڈرون حملوں نے پاکستانی عوام کے جذبات کو شدید مشتعل کیا، خاص کر امریکی فوج کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی اور امریکی پادری کی جانب سے قرآن پاک شہید کرنے کے واقعے سمیت متعدد ایسے مواقعے آئے جس میں امریکا اگر انسانیت اور مذاہب کے احترام کے طور پر اپنا مدبرانہ کردار ادا کرتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ طورخم بارڈر و باب دوستی سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک طالبان نے اپنے نیٹ ورک کو اس قدر مضبوط بنا لیا ہے کہ عسکری قیادت، سیاسی جماعتوں کی نا اتفاقیوں کی بناء پر ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے سے قاصر رہی اور طالبان کو اپنے قدم جمانے کا بھرپور موقع مل گیا۔ امریکا اس زعم میں اگر ہے کہ طالبان کا باب ختم ہو گیا تو اس کی خام خیالی ہے۔
پاکستانی حکمران بلا شبہ امریکی خوشنودی چاہتے ہیں لیکن پاکستانی اور افغانی عوام اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود امریکا کے ہر عمل کو شک و شبے کی روشنی سے دیکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود پولیو خاتمے کی مہم بُری طرح ناکام ہو رہی ہے اور شکیل آفریدی کے ایک عمل کی وجہ سے پورے ملک میں اس مہم کے خلاف شک و شبے کا اظہار کیا جاتا ہے اور شدت پسند اب کبھی نہیں چائیں گے کہ این جی اوز کسی بھی بہانے سے ان کے علاقوںمیں داخل ہوں، اس لیے امریکی مفادات کے بجائے صحت عامہ کے لیے بھی کی جانے والی کوششیں امریکی طرز عمل کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہیں اور بے قصور پولیو ورکر، شدت پسندوں کا کھلم کھلا نشانہ بن رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف واضح پالیسی نہ ہونے کے سبب مسلم لیگ (ن) جو طالبان کے نزدیک پسندیدہ جماعت تھی اب انھیں بھی اے این پی کی طرح سبق سکھانے کا الٹی میٹم دیا جا رہا ہے جو ایک خطرناک رجحان کی نشان دہی کر رہا ہے۔ امریکا، اگر پاکستان میں اپنے لیے ہمدردی حاصل کرنے کے لیے مخلص ہے تو اسے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا۔
افغانستان سے انخلا کے لیے پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مضبوط کرنا خود امریکا کے مفاد میں ہے، جدید ترین ساز وسامان کو اسکریپ کرنے کے بجائے پاک عسکری قوت کو دینے سے مستقبل میں پاکستانی سرحدوں کی حفاظت، دراصل پورے خطے کی حفاظت کے لیے ہو گی۔ چند ارب ڈالرکے لیے کھربوں ڈالر کی دوبارہ مہم جوئی امریکی کی رہی سہی معیشت کو تباہ کر دے گی۔ افغانستان کو پاکستان کے بغیر کوئی دوسرا ملک اس لیے کنٹرول نہیں کر سکتا کیونکہ ان کی جغرافیائی و ثقافتی روایات ایک جیسی ہیں۔
اس لیے پاکستان کو افغانستان کی جانب سے در اندزیوں اور غیر ملکی شدت پسندوں کی روک تھام اور ان کے خلاف بھرپورکارروائی کے لیے عسکری مضبوطی ناگزیر ہے، ملک کی مشرقی سرحدوں پر بھارتی مہم جوئی کا مسلسل اثر پورے پاکستان پر ہو رہا ہے، لیکن امریکا اگر یہ سمجھتا ہے کہ پرویز مشروف کی طرح ایک فون کی دہمکی پر پاکستان ایک بار پھرگھٹنے دوبارہ ٹیک دے گا تو یہ غلط فہمی ہو گی اور اس کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ امریکا عالمی امن کے لیے اپنے طرز عمل میں گنجائش پیدا کرے جو خطے کے لیے بہتری کا مثبت قدم ہو گا۔