6 ماہ 860 افراد قتل کردیے گئے آئی جی سندھ جرائم روکنے میں ناکام

آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کراچی ماتحت افسران کی رپورٹس پر مطمئن ہوگئے، شہری امن وامان کی ابتر صورتحال پر غیر محفوظ

آئی جی سندھ تحفظ کے دعوؤں پرعمل نہ کراسکے، پولیس افسران اپنی حفاظت میں مصروف، عوام کیلیے زبانی جمع خرچ ہورہا ہے، شہری۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کی تعیناتی کے 6 ماہ کے دوران شہر کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا کے بعد قتل کرکے لاشیں پھینکنے، دہشت گردی کی وارداتوں میں 860 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔

آئی جی سندھ اور کراچی پولیس کے سربراہ غلام قادر تھیبو امن و امان کے حوالے سے منعقدہ اجلاسوں میں ماتحت افسران کی جانب سے سب ٹھیک ہے کی رپورٹس دیکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں، دوسری جانب شہری ٹارگٹ کلرز، دہشت گردوں، بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر ہیں، شہر میں امن و امان کی ابتر صورتحال کے باعث شہری خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔

آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے سابق آئی جی اقبال محمود کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد گزشتہ سال 7 جولائی کو قائم مقام آئی جی سندھ کا چارج سنبھالا اور بعدازاں وفاقی حکومت کی جانب سے انھیں 7 ستمبر 2014 کو سندھ کا مستقل آئی جی سندھ تعینات کر دیا گیا اس دوران آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے دعوے تو ضرور کیے تاہم وہ اس پر عمل کرانے میں ناکام رہے ان کی تعیناتی کے دوران شہر بھر میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، پولیس گردی، دہشت گردی اور جرائم کی وارداتیں عروج پر رہیں۔


آئی جی سندھ کی تعیناتی کے دوران 6 ماہ کی کارکردگی کا موازانہ کیا جائے تو اس دوران 860 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جس میں گزشتہ سال جولائی میں 149 افراد، اگست میں 157، ستمبر میں 152، اکتوبر میں 124، نومبر میں 123 جبکہ دسمبر میں 104 افراد قتل کردیے گئے جن میں خواتین ، کمسن و نوعمر بچے، حساس ادارے کا افسر، رینجرز افسران اور جوان، پولیس افسران اور اہلکار، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عہدیدار، کارکنان، ڈاکٹر اور وکلا شامل ہیں۔

عیدالاضحی پر شہر میں پولیس کی مبینہ سرپرستی میں زہریلی شراب کی فروخت سے 30 سے زائد ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں اس واقعے کی تحقیق میں 5 تھانیداروں اوراہلکاروں کو مبینہ طور پر زہریلی شراب کی تیاری اور فروخت میں ملوث بتایا گیا تھا، سال 2015 کے پہلے مہینے جنوری کے ابتدائی 13 روز میں 55 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عہدیداران، کارکنان، پولیس اہلکار، ڈاکٹروں اور وکیل بھی شامل ہیں۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران اپنی حفاظت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے جبکہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے میں صرف زبانی جمع خرچ سے کام لے رہے ہیں پولیس کی ناقص کارکردگی کے باعث شہری جہاں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی وارداتوں سے خوفزدہ رہے وہیں پر انھیں سر راہ اسٹریٹ کریمنلز کا بھی سامنا رہا اور شہر بھر میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں عروج پر ہیں اور درجنوں شہری ڈاکوؤں کی گولیوں کا نشان بن گئے جبکہ کئی شہری زندگی سے ہی محروم ہوگئے۔
Load Next Story