درمیانِ قعردریا
بلوچ عوام بالخصوص نوجوان ان ابھرتے ہوئے رہنمائوں کی قیادت میں منظم اورمجتمع ہو رہے ہیں
بلوچستان ایک بار پھرذرایع ابلاغ کی شہ سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے۔
کیونکہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور معروف بلوچ رہنما سردار اخترمینگل کی تین سالہ جلاوطنی کے بعد پاکستان آمد نے سیاسی فضا میں ہلچل مچا دی ہے۔بظاہر وہ عدالت عظمیٰ میں لاپتہ افراد کے بارے میں اپنا بیان قلمبندکرانے آئے تھے۔ لیکن چند مخصوص سیاسی رہنمائوں سے ملاقات اور بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے چھ نکاتی پروگرام کی وجہ سے میڈیا سمیت بعض حلقوں کی توجہ ان کی جانب مبذول ہوگئی۔
اسلام آباد میں ان کی گفتگو اور بدن بولی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںتھاکہ وہ بعض بااثرحلقوں کی خواہش پر پاکستان تشریف لائے ہیں۔کچھ سیاسی جماعتوں نے ڈھکے چھپے انداز میں جب کہ جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ طلال اکبر بگٹی نے کھل کر الزام لگایا کہ اختر مینگل ایجنسیوں کے پروگرام پرچل رہے ہیں۔اختر مینگل کے اس طرح اچانک اسلام آباد میں نمودار ہونے،چھ نکاتی ایجنڈا پیش کرنے اور چند سیاسی رہنمائوں سے ملاقات کا پاکستان کی عمومی اور بلوچستان کی خصوصی صورتحال کے تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔یہ بھی دیکھا جائے کہ ان کوششوں کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اورکیا نئے امکانات پیدا ہونے جا رہے ہیں؟
جہاں تک سردار اخترمینگل کے پیش کردہ چھ نکات کا تعلق ہے توانھیں مفاہمت کی ایک سنجیدہ کوشش کہا جا سکتا ہے۔ان میں سے کوئی بھی نکتہ ایسا نہیں جس پر پاکستان کی رائے عامہ میں کسی قسم کا اختلاف پایا جاتا ہو۔لیکن ان کی ملاقاتوںاور سرگرمیوں کے حوالے سے کچھ سوالات ضرور پیداہوئے ہیں۔اول یہ کہ انھوں نے صرف چند مخصوص سیاسی رہنمائوں ہی سے ملاقات کیوںکی اوردیگر کئی سیاسی جماعتوں سے ان کی خواہش کے باوجود ملاقات سے کیوں گریز کیا؟ دوسرے کیا وہ کسی خاص مشن یا ایجنڈے کے تحت آئے تھے،جس میں صرف دائیں بازو کی جماعتوں ہی سے رابطہ کرنا شامل تھا؟تیسرے کیا انھیں مختلف بلوچ قیادتوں کی طرف سے بلوچستان کے حوالے سے چھ نکات پیش کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا تھا یا صرف یہ ان کی جماعتBNPکا اپنا ایجنڈا ہے؟
موجودہ حالات میں عدالت عظمیٰ کی بلوچستان کے بارے میں از خود کارروائی اور سول سوسائٹی کی بلوچ حقوق کے لیے کھل کر حمایت کے بعد سردار اختر مینگل کے پیش کردہ نکات کسی حد تک بلوچ عوام کی اشک شوئی کا سبب بن سکتے ہیں۔لیکن یہ بلوچ عوام کے دکھوں کا مداوا اور ان کے حقوق کی ضمانت قرار نہیں دیے جاسکتے۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ جو حلقے آج بلوچستان کی صورتحال کو ماضی قریب کے سیاسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں، وہ معروضی حالات سے واقف نہیں ہیں۔بلوچستان میں نوابوں، سرداروں اور روایتی سیاستدانوں کا اثرونفوذ خاصی حد تک کم ہوچکا ہے اور ان کی سیاسی حیثیت اب وہ نہیں ہے، جو دو دہائی قبل ہواکرتی تھی۔ وہاںاب ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ جیسے نئے رہنما ابھر کر سامنے آچکے ہیں، جو بلوچ حقوق کے لیے سخت گیر رویہ رکھتے ہیں اور مڈل کلاس سے تعلق کی وجہ سے سماجی تبدیلی کے لیے خاصے فعال اور سرگرم بھی ہیں ۔یہی سبب ہے کہ بلوچ عوام بالخصوص نوجوان ان ابھرتے ہوئے رہنمائوں کی قیادت میں منظم اورمجتمع ہو رہے ہیں۔ لہٰذا قبائلی سرداروں اور روایتی سیاستدانوں کے ذریعے بلوچستان کے مسئلے کا حل تلاش کرنا اب اتناآسان نہیں رہا ہے، جتنا بعض حلقے سمجھ رہے ہیں۔ٹھوس اور قابل عمل حل کے لیے حکومت پاکستان کو بہر حال نئی ابھرتی ہوئی قیادت سے بامقصد گفت وشنیدکرنا ہوگی۔
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی حکومتوں کا یہ کلچر رہا ہے کہ وہ اپنے ملک کے ناراض عوام سے گفت وشنیدکریں اور ان کے جائزمطالبات پر غور کریں؟ تو جواب نفی میں آئے گا،کیونکہ پاکستان کی مختلف حکومت کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ وہ کسی علاقے یا صوبے میں جب عوام اپنے کسی اجتماعی مسئلہ پر حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہیں، تو اس قدر تاخیری ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں کہ مسئلہ بحران کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔
جب امن وامان کی صورتحال دگرگوں ہونے لگتی ہے،تب بھی انتظامی اور سیاسی اقدامات ایک ساتھ کرنے کے بجائے صرف انتظامی اقدامات پر تکیہ کیا جاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صورتحال مزید ابتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ بھارت کی مثال لیں تو وہاں کشمیر سمیت جن ریاستوں میں علیحدگی کی تحاریک چل رہی ہیں، بھارتی حکومت انتظامی اقدامات کے ساتھ سیاسی اقدامات بھی کررہی ہے۔ اس لیے وہاں شورشوں پر جلد یا بدیر قابوضرور پا لیا جاتاہے۔
پاکستان میں ریاست 65برس گذرجانے کے بعد بھی نوآبادیاتی طرز عمل سے جان چھڑانے میں اس لیے کامیاب نہیں ہوسکی ،کیونکہ اول تو یہاں 32برس فوجی آمریت قائم رہی،جس میں فیصلہ سازی یک طرفہ بنیادوں پر ہوتی رہی۔دوئم سیاسی ادوار میں بھی ریاست کے طاقتور ایکٹروں نے اہم قومی امور کی فیصلہ سازی سے منتخب نمایندوں کو دور رکھنے کی کوشش کی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بظاہر تو ایک وفاق کہلایا، لیکن عملاً وحدانی ریاست کا منظر پیش کرتا ہے، جہاں تمام فیصلے مرکزکرتا ہے اور وفاقی یونٹوں کو ان فیصلوں میں شریک نہیں کیا جاتا۔
گزشتہ دنوں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (SZABIST)میں قائد اعظم کے ویژن پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ اس سیمینار میں ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اپنے مقالے میں اس شک کا اظہار کیا کہ ملک کی بعض نادیدہ قوتیں اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کے لیے کوشاںہیں ، جس کی تصدیق سینیٹر رضا ربانی نے بھی کی۔ان کا موقف تھا کہ اگر اس ترمیم کو ختم کیا گیا تو پاکستان کے وجود کو قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔
خاص طور پر جن بلوچ نمایندوں نے اس پر دستخط کیے ہیں وہ اپنے عوام میں جانے کے لیے قطعی ناقابل قبول ہو جائیں گے اور ایک ایسا طوفان بپا ہوگا جس پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جس وقت یہ ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہوئی تھی تو ہم جیسے کئی تجزیہ نگاروں نے اسے ناکافی قراردیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ صوبائی خودمختاری کے ضمن میں مزید اقدامات کیے جائیں۔ اب اگر یہ ترمیم بھی بعض حلقوں کے لیے ناقابل قبول ہے، تو اس کا مطلب واضح طورپر پاکستان کو وحدانی ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔
پاکستان کے مسائل کا دوسرا سبب گورننس ہے۔پاکستان میںگورننس سمیت اہم ریاستی امورکے حل پرکبھی سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی گئی۔65برسوں کے دوران یہ طے ہی نہیں ہوسکا کہ ملک پارلیمانی نظام کے تحت چلانا ہے یا صدارتی نظام کے ذریعے۔ فوج نے جب بھی اقتدار سنبھالا، تو اس نے آئین میںہمیشہ ایسی ترامیم کیں،جن سے نظام حکمرانی پارلیمانی کے بجائے صدارتی بن جاتا ہے، جوسیاسی ادوار میں بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتاہے۔
اس طرح وفاق کی روح پر صحیح اندازمیں عمل نہ ہونے کی وجہ سے مختلف صوبوں اور قومیتوں اور لسانی اکائیوں کے درمیان غلط فہمیاںپیدا ہو رہی ہیں۔ان امور پر بھی جو خالصتاً صوبائی سبجیکٹ ہیں، ان پر بھی وفاقی حکومت کی فیصلہ سازی مسائل کو پیچیدہ کرنے کا سبب بن رہی ہے۔یہی سبب ہے کہ ایسے بہت سے مسائل جنھیں ابتدائی چند برسوں کے دوران باحسن و خوبی حل کیا جاسکتا تھا، پیچیدہ ہو کر بحرانی شکل اختیار کرچکے ہیں۔حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک نے حکمرانی سمیت بہت سے پیچیدہ مسائل کو اپنی آزادی کے دس برس کے اندر ہی حل کر لیا تھا۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب بھی وقت ہے حکومت بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے اگر سنجیدگی کے ساتھ کوشش کرے تو اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔ لیکن اس مسئلے پر سیاست کرنے کے بجائے ٹھوس حل کی طرف بڑھنے کی کوشش کی جائے تو معاملات بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔ لیکن اگر اس وقت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا،تو پھر شاید یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہوسکے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بلوچستان میںسردار اختر مینگل جیسے قبائلی سرداروں کی فیصلہ کن حیثیت گوکہ گہنا گئی ہے اور نئی قیادتیں سامنے آگئی ہیں، لیکن اس کے باوجود انھوں نے ریاست کے ساتھ مفاہمت کے لیے جو نکات پیش کیے ہیں،ان پر عمل درآمدکو یقینی بنا کر بلوچستان کے مسئلے کو حل کیاجا سکتاہے۔ لیکن بات پھر وہیں آکر اٹکتی ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت ،اسٹبلشمنٹ اورسیاسی جماعتیںکتنی سنجیدہ اور ان میں کتنا سیاسی عزم ہے۔
کیونکہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور معروف بلوچ رہنما سردار اخترمینگل کی تین سالہ جلاوطنی کے بعد پاکستان آمد نے سیاسی فضا میں ہلچل مچا دی ہے۔بظاہر وہ عدالت عظمیٰ میں لاپتہ افراد کے بارے میں اپنا بیان قلمبندکرانے آئے تھے۔ لیکن چند مخصوص سیاسی رہنمائوں سے ملاقات اور بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے چھ نکاتی پروگرام کی وجہ سے میڈیا سمیت بعض حلقوں کی توجہ ان کی جانب مبذول ہوگئی۔
اسلام آباد میں ان کی گفتگو اور بدن بولی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیںتھاکہ وہ بعض بااثرحلقوں کی خواہش پر پاکستان تشریف لائے ہیں۔کچھ سیاسی جماعتوں نے ڈھکے چھپے انداز میں جب کہ جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ طلال اکبر بگٹی نے کھل کر الزام لگایا کہ اختر مینگل ایجنسیوں کے پروگرام پرچل رہے ہیں۔اختر مینگل کے اس طرح اچانک اسلام آباد میں نمودار ہونے،چھ نکاتی ایجنڈا پیش کرنے اور چند سیاسی رہنمائوں سے ملاقات کا پاکستان کی عمومی اور بلوچستان کی خصوصی صورتحال کے تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔یہ بھی دیکھا جائے کہ ان کوششوں کے کیا نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اورکیا نئے امکانات پیدا ہونے جا رہے ہیں؟
جہاں تک سردار اخترمینگل کے پیش کردہ چھ نکات کا تعلق ہے توانھیں مفاہمت کی ایک سنجیدہ کوشش کہا جا سکتا ہے۔ان میں سے کوئی بھی نکتہ ایسا نہیں جس پر پاکستان کی رائے عامہ میں کسی قسم کا اختلاف پایا جاتا ہو۔لیکن ان کی ملاقاتوںاور سرگرمیوں کے حوالے سے کچھ سوالات ضرور پیداہوئے ہیں۔اول یہ کہ انھوں نے صرف چند مخصوص سیاسی رہنمائوں ہی سے ملاقات کیوںکی اوردیگر کئی سیاسی جماعتوں سے ان کی خواہش کے باوجود ملاقات سے کیوں گریز کیا؟ دوسرے کیا وہ کسی خاص مشن یا ایجنڈے کے تحت آئے تھے،جس میں صرف دائیں بازو کی جماعتوں ہی سے رابطہ کرنا شامل تھا؟تیسرے کیا انھیں مختلف بلوچ قیادتوں کی طرف سے بلوچستان کے حوالے سے چھ نکات پیش کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا تھا یا صرف یہ ان کی جماعتBNPکا اپنا ایجنڈا ہے؟
موجودہ حالات میں عدالت عظمیٰ کی بلوچستان کے بارے میں از خود کارروائی اور سول سوسائٹی کی بلوچ حقوق کے لیے کھل کر حمایت کے بعد سردار اختر مینگل کے پیش کردہ نکات کسی حد تک بلوچ عوام کی اشک شوئی کا سبب بن سکتے ہیں۔لیکن یہ بلوچ عوام کے دکھوں کا مداوا اور ان کے حقوق کی ضمانت قرار نہیں دیے جاسکتے۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ جو حلقے آج بلوچستان کی صورتحال کو ماضی قریب کے سیاسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں، وہ معروضی حالات سے واقف نہیں ہیں۔بلوچستان میں نوابوں، سرداروں اور روایتی سیاستدانوں کا اثرونفوذ خاصی حد تک کم ہوچکا ہے اور ان کی سیاسی حیثیت اب وہ نہیں ہے، جو دو دہائی قبل ہواکرتی تھی۔ وہاںاب ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ جیسے نئے رہنما ابھر کر سامنے آچکے ہیں، جو بلوچ حقوق کے لیے سخت گیر رویہ رکھتے ہیں اور مڈل کلاس سے تعلق کی وجہ سے سماجی تبدیلی کے لیے خاصے فعال اور سرگرم بھی ہیں ۔یہی سبب ہے کہ بلوچ عوام بالخصوص نوجوان ان ابھرتے ہوئے رہنمائوں کی قیادت میں منظم اورمجتمع ہو رہے ہیں۔ لہٰذا قبائلی سرداروں اور روایتی سیاستدانوں کے ذریعے بلوچستان کے مسئلے کا حل تلاش کرنا اب اتناآسان نہیں رہا ہے، جتنا بعض حلقے سمجھ رہے ہیں۔ٹھوس اور قابل عمل حل کے لیے حکومت پاکستان کو بہر حال نئی ابھرتی ہوئی قیادت سے بامقصد گفت وشنیدکرنا ہوگی۔
یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی حکومتوں کا یہ کلچر رہا ہے کہ وہ اپنے ملک کے ناراض عوام سے گفت وشنیدکریں اور ان کے جائزمطالبات پر غور کریں؟ تو جواب نفی میں آئے گا،کیونکہ پاکستان کی مختلف حکومت کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ وہ کسی علاقے یا صوبے میں جب عوام اپنے کسی اجتماعی مسئلہ پر حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہیں، تو اس قدر تاخیری ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں کہ مسئلہ بحران کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔
جب امن وامان کی صورتحال دگرگوں ہونے لگتی ہے،تب بھی انتظامی اور سیاسی اقدامات ایک ساتھ کرنے کے بجائے صرف انتظامی اقدامات پر تکیہ کیا جاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صورتحال مزید ابتری کا شکار ہوجاتی ہے۔ بھارت کی مثال لیں تو وہاں کشمیر سمیت جن ریاستوں میں علیحدگی کی تحاریک چل رہی ہیں، بھارتی حکومت انتظامی اقدامات کے ساتھ سیاسی اقدامات بھی کررہی ہے۔ اس لیے وہاں شورشوں پر جلد یا بدیر قابوضرور پا لیا جاتاہے۔
پاکستان میں ریاست 65برس گذرجانے کے بعد بھی نوآبادیاتی طرز عمل سے جان چھڑانے میں اس لیے کامیاب نہیں ہوسکی ،کیونکہ اول تو یہاں 32برس فوجی آمریت قائم رہی،جس میں فیصلہ سازی یک طرفہ بنیادوں پر ہوتی رہی۔دوئم سیاسی ادوار میں بھی ریاست کے طاقتور ایکٹروں نے اہم قومی امور کی فیصلہ سازی سے منتخب نمایندوں کو دور رکھنے کی کوشش کی۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بظاہر تو ایک وفاق کہلایا، لیکن عملاً وحدانی ریاست کا منظر پیش کرتا ہے، جہاں تمام فیصلے مرکزکرتا ہے اور وفاقی یونٹوں کو ان فیصلوں میں شریک نہیں کیا جاتا۔
گزشتہ دنوں شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (SZABIST)میں قائد اعظم کے ویژن پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ اس سیمینار میں ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اپنے مقالے میں اس شک کا اظہار کیا کہ ملک کی بعض نادیدہ قوتیں اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کے لیے کوشاںہیں ، جس کی تصدیق سینیٹر رضا ربانی نے بھی کی۔ان کا موقف تھا کہ اگر اس ترمیم کو ختم کیا گیا تو پاکستان کے وجود کو قائم رکھنا مشکل ہوجائے گا۔
خاص طور پر جن بلوچ نمایندوں نے اس پر دستخط کیے ہیں وہ اپنے عوام میں جانے کے لیے قطعی ناقابل قبول ہو جائیں گے اور ایک ایسا طوفان بپا ہوگا جس پر قابو پانا مشکل ہوگا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جس وقت یہ ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہوئی تھی تو ہم جیسے کئی تجزیہ نگاروں نے اسے ناکافی قراردیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ صوبائی خودمختاری کے ضمن میں مزید اقدامات کیے جائیں۔ اب اگر یہ ترمیم بھی بعض حلقوں کے لیے ناقابل قبول ہے، تو اس کا مطلب واضح طورپر پاکستان کو وحدانی ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔
پاکستان کے مسائل کا دوسرا سبب گورننس ہے۔پاکستان میںگورننس سمیت اہم ریاستی امورکے حل پرکبھی سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی گئی۔65برسوں کے دوران یہ طے ہی نہیں ہوسکا کہ ملک پارلیمانی نظام کے تحت چلانا ہے یا صدارتی نظام کے ذریعے۔ فوج نے جب بھی اقتدار سنبھالا، تو اس نے آئین میںہمیشہ ایسی ترامیم کیں،جن سے نظام حکمرانی پارلیمانی کے بجائے صدارتی بن جاتا ہے، جوسیاسی ادوار میں بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتاہے۔
اس طرح وفاق کی روح پر صحیح اندازمیں عمل نہ ہونے کی وجہ سے مختلف صوبوں اور قومیتوں اور لسانی اکائیوں کے درمیان غلط فہمیاںپیدا ہو رہی ہیں۔ان امور پر بھی جو خالصتاً صوبائی سبجیکٹ ہیں، ان پر بھی وفاقی حکومت کی فیصلہ سازی مسائل کو پیچیدہ کرنے کا سبب بن رہی ہے۔یہی سبب ہے کہ ایسے بہت سے مسائل جنھیں ابتدائی چند برسوں کے دوران باحسن و خوبی حل کیا جاسکتا تھا، پیچیدہ ہو کر بحرانی شکل اختیار کرچکے ہیں۔حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک نے حکمرانی سمیت بہت سے پیچیدہ مسائل کو اپنی آزادی کے دس برس کے اندر ہی حل کر لیا تھا۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب بھی وقت ہے حکومت بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے اگر سنجیدگی کے ساتھ کوشش کرے تو اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔ لیکن اس مسئلے پر سیاست کرنے کے بجائے ٹھوس حل کی طرف بڑھنے کی کوشش کی جائے تو معاملات بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔ لیکن اگر اس وقت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا،تو پھر شاید یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہوسکے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بلوچستان میںسردار اختر مینگل جیسے قبائلی سرداروں کی فیصلہ کن حیثیت گوکہ گہنا گئی ہے اور نئی قیادتیں سامنے آگئی ہیں، لیکن اس کے باوجود انھوں نے ریاست کے ساتھ مفاہمت کے لیے جو نکات پیش کیے ہیں،ان پر عمل درآمدکو یقینی بنا کر بلوچستان کے مسئلے کو حل کیاجا سکتاہے۔ لیکن بات پھر وہیں آکر اٹکتی ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت ،اسٹبلشمنٹ اورسیاسی جماعتیںکتنی سنجیدہ اور ان میں کتنا سیاسی عزم ہے۔