بجلی کی دم میں لوڈشیڈنگ کا نمدا
زمانےکی ہواکےاثرسےجب شمع خاموش ہو گئی تولالٹین آئی۔ لالٹین کی ترقی یافتہ شکل لیمپ۔محفلوں مجلسوں کی رونق لیمپوں سےتھی۔
ذکر جب چھڑ گیا لالٹین کا تو کیا کیا کچھ یاد آیا۔ بجلی نے ہمیں سبز باغ دکھا کر کس طرح منہ موڑا ہے۔ اب بجلی نے لوڈشیڈنگ کا لبادہ اوڑھ کر اپنا اعتبار کھو دیا۔ بجلی کیا تھی۔ یوں سمجھو کہ ع
وہ بھی تھی ایک سیمیا کی سی نمود
تو اب ہمیں اپنی پرانی روشنیاں' اپنے نئے پرانے چراغ یاد آنے ہی تھے۔ ارے ان میں سے ہماری کسی روشنی نے ہمارے ساتھ اس طرح دغا نہیں کی تھی' جیسے بجلی نے اپنی چکاچوند دکھا کر ہمیں اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔ وہ جو ہم نے شمع کا ذکر چھیڑا تھا جو دیکھئے کتنے زمانے تک اس نے اپنی دھیمی روشنی کے ساتھ ہماری محفلوں کو منور رکھا اور ہمارے رتجگوں پر تاریکی کا سایہ پڑنے نہیں دیا۔ اور وہ چراغ جس کے متعلق انیسؔ نے ہمیں خبردار کیا تھا کہ ؎
انیسؔ دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
اس کے باوصف چراغ نے مومی شمعوں سے بڑھ کر حق رفاقت ادا کیا۔ بقول اقبال ع
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
زمانے کی ہوا کے اثر سے جب شمع خاموش ہو گئی تو لالٹین آئی۔ لالٹین کی ترقی یافتہ شکل لیمپ۔ محفلوں مجلسوں کی رونق لیمپوں سے تھی۔ اور ہاں ایک روشنی آئی۔ گیس کے ہنڈوں کی روشنی۔ محرم اور بارہ وفات کی مجلسوں میلادوں کو گیس کے ہنڈوں نے رونق بخشی۔ ان شبوں میں گیس کے ہنڈوں کو تصور میں لائیے اور ان کے گرد منڈلاتے پروانوں کو۔ سبحان اللہ وہ کیا روشنی تھی۔ اک نور کا ہالہ۔ پروانے اس پر کس طرح کھینچ کر آتے تھے۔ اس کے گرد طواف کر رہے ہیں اور قربان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
قندیلوں کی روشنی کی اپنی کشش تھی۔ درگاہوں میں' امام بار گاہوں میں' مساجد میں وہ کس طرح اپنا جلوہ دکھاتی تھیں۔ پروانے ان پر بھی ٹوٹ کر گرتے تھے۔ ارے پروانوں کی مت پوچھو۔ شمع کے ساتھ پروانوں کا ذکر آئے ہی آئے۔
مگر جب بجلی نے اپنا جلوہ دکھایا تو اگلی پچھلی نئی پرانی سب روشنیاں ماند پڑ گئیں ماسوا دیے کے۔ وہ آتے جاتے زمانوں سے اور جلتی بجھتی نئی پرانی روشنیوں سے بے تعلق جھونپڑوں میں کچے پکے گھروں میں اپنی تیل میں ڈوبی بتی کے ساتھ اپنی دھیمی روشنی کے ساتھ ٹمٹماتا رہا۔ باقی اب ہم بجلی کے دور میں داخل ہو گئے تھے۔ نئی روشنی کا زمانہ۔ نئی روشنی کے لوگ۔ وہ اس نئی روشنی کی چکاچوند نے انھیں ایسا اندھا کیا کہ اپنی اگلی پچھلی ساری روشنیاں گل کر دیں۔ استدلال یہ تھا کہ اب نیا زمانہ ہے۔ پرانے چراغ گل کر دو۔ بجلی کی روشنی کے آگے اب کیا مشعل' کیا قندیل' کیا شمع' کیا لالٹین کسی کا چراغ نہیں جلے گا۔ برقی روشنی نے سب اگلی پچھلی روشنیوں کے چراغ گل کر دیے۔ اب دیار و امصار میں' چھوٹے بڑے گھروں میں' حویلیوں میں' بازاروں میں' گلی کوچوں میں' میلوں میں' محفلوں میں بجلی کا اجالا ہو گا۔ ایسا تیز اجالا کہ سوئی گرے تو اسے ترت کے ترت ڈھونڈ لو۔ تیوہاروں پر' شادی بیاہ کے موقعوں پر جگمگ کرتے برقی قمقموں کو جھلمل کرتے دیکھو۔
اس نئی روشنی کی چکاچوند میں ہماری آنکھوں پر پردے پڑ گئے۔ سمجھنے لگے کہ بس یہ روشنی اٹل ہے۔ ازل سے ابد تک برقیات کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ اندھیرا کافور ہوا۔ نئی روشنی کا زمانہ ابدیت کا پروانہ لکھوا کر لایا ہے۔ اس وقت کسے گمان تھا کہ اس روشنی کے پیچھے ایک سایہ منڈلا رہا ہے۔ نئی روشنی برحق۔ مگر اسی کے ساتھ ایک نئی ظلمت نے بھی جنم لیا ہے۔ اس کا نام ہے لوڈشیڈنگ۔
لوڈشیڈنگ کی آمد کے ساتھ ہی بڑے گھروں اور چھوٹے گھروں کے درمیان خط امتیاز کھنچ گیا۔ بڑے لوگوں نے تو لوڈشیڈنگ کا توڑ دریافت کر لیا۔ بجلی بیشک چلی جائے' رات کو جائے دن کو جائے' ایک پہر کے لیے جائے' صبح سے شام تک کے لیے جائے ان کے یہاں متبادل انتظام موجود ہے۔ بجلی سے گھر اسی طرح منور رہیں گے۔ باقی لوگ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں۔ گرمی کا موسم ہو تو پسینے میں شرابور بولائے بولائے پھریں۔ لوڈشیڈنگ کے اوقات بیشک مقرر ہوں مگر بجلی کے آنے جانے کا کوئی وقت طے نہیں ہے۔ لوڈشیڈنگ کے سوا بھی اس کے جانے کے سو بہانے ہیں۔ غریب غربا بیشک سڑکوں پر آ کر شور مچائیں۔ موٹر ٹائر جلائیں۔ بجلی والوں کے دفتر پر پتھراؤ کریں۔ بجلی اب آتی ہے نہ تب آتی ہے۔
یعنی بجلی نے پہلے مساوات کا سندیسہ دیا۔ تصور یہ تھا کہ اب کیا امیر کیا غریب' کیا فلک بوس عمارات۔ کیا غریب کی کٹیا' بجلی کی روشنی سب جگہ پہنچے گی۔ مگر یہ مساوات چند روزہ تھی۔ اس نے اپنی ایک جھلک دکھائی اور رفوچکر ہوئی ع
اب اسے ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
تو غریب غربا کا سہارا پھر وہی ننھا دیا۔ ڈیوٹ پہ رکھا ہوا مٹی کا دیا۔ دیا جلے ساری رات۔ بتی کے لیے تھوڑا سا تیل ہونا چاہیے۔ یہ بہر حال بہر رنگ ٹمٹماتا رہے گا۔ مگر غریب غربا کو ایسا ویسا مت سمجھو۔ اب وہ بجلی کے عادی ہو گئے ہیں۔ اس سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔ سو احتجاجی جلوس۔ ہنگامہ آرائیاں۔
ارے ایک بجلی پر کیا موقوف ہے۔ یہ جو ٹیکنالوجی کے طفیل جدید سامان راحت فراہم ہوتے ہیں ان سب کا یہی حال ہے۔ ہر پھر کے وہ اونچے طبقہ والوں ہی کو راحت مہیا کرتے ہیں۔ یہ سارا مشینی کاروبار ہے۔ وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں گے جہاں مشینیں درست کام کرتی ہیں اور چھوٹے بڑے ان سے فیض پاتے ہوں گے۔ پاکستان ایسے ملکوں میں یہ جدید سامان راحت کھاتے پیتے لوگوں کے لیے ہیں۔ ایرا غیرا کے لیے وہ راحت کم مہیا کرتے ہیں زحمت زیادہ دیتے ہیں۔ ایک بجلی پر موقوف نہیں پانی کا معاملہ ہو' گیس کے چولہوں کا معاملہ ہو' مشینی سواریوں کا معاملہ ہو سب کا معاملہ یکساں ہے اور لوگوں کو اس سارے کھڑاک سے یہی سبتی ملا ہے کہ ؎
اس اندھیر نگری میں بتی نہ ڈھونڈو
جو کچھ ہے سو اپنی سمجھ کا اجالا
وہ بھی تھی ایک سیمیا کی سی نمود
تو اب ہمیں اپنی پرانی روشنیاں' اپنے نئے پرانے چراغ یاد آنے ہی تھے۔ ارے ان میں سے ہماری کسی روشنی نے ہمارے ساتھ اس طرح دغا نہیں کی تھی' جیسے بجلی نے اپنی چکاچوند دکھا کر ہمیں اندھیرے میں دھکیل دیا ہے۔ وہ جو ہم نے شمع کا ذکر چھیڑا تھا جو دیکھئے کتنے زمانے تک اس نے اپنی دھیمی روشنی کے ساتھ ہماری محفلوں کو منور رکھا اور ہمارے رتجگوں پر تاریکی کا سایہ پڑنے نہیں دیا۔ اور وہ چراغ جس کے متعلق انیسؔ نے ہمیں خبردار کیا تھا کہ ؎
انیسؔ دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
اس کے باوصف چراغ نے مومی شمعوں سے بڑھ کر حق رفاقت ادا کیا۔ بقول اقبال ع
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
زمانے کی ہوا کے اثر سے جب شمع خاموش ہو گئی تو لالٹین آئی۔ لالٹین کی ترقی یافتہ شکل لیمپ۔ محفلوں مجلسوں کی رونق لیمپوں سے تھی۔ اور ہاں ایک روشنی آئی۔ گیس کے ہنڈوں کی روشنی۔ محرم اور بارہ وفات کی مجلسوں میلادوں کو گیس کے ہنڈوں نے رونق بخشی۔ ان شبوں میں گیس کے ہنڈوں کو تصور میں لائیے اور ان کے گرد منڈلاتے پروانوں کو۔ سبحان اللہ وہ کیا روشنی تھی۔ اک نور کا ہالہ۔ پروانے اس پر کس طرح کھینچ کر آتے تھے۔ اس کے گرد طواف کر رہے ہیں اور قربان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
قندیلوں کی روشنی کی اپنی کشش تھی۔ درگاہوں میں' امام بار گاہوں میں' مساجد میں وہ کس طرح اپنا جلوہ دکھاتی تھیں۔ پروانے ان پر بھی ٹوٹ کر گرتے تھے۔ ارے پروانوں کی مت پوچھو۔ شمع کے ساتھ پروانوں کا ذکر آئے ہی آئے۔
مگر جب بجلی نے اپنا جلوہ دکھایا تو اگلی پچھلی نئی پرانی سب روشنیاں ماند پڑ گئیں ماسوا دیے کے۔ وہ آتے جاتے زمانوں سے اور جلتی بجھتی نئی پرانی روشنیوں سے بے تعلق جھونپڑوں میں کچے پکے گھروں میں اپنی تیل میں ڈوبی بتی کے ساتھ اپنی دھیمی روشنی کے ساتھ ٹمٹماتا رہا۔ باقی اب ہم بجلی کے دور میں داخل ہو گئے تھے۔ نئی روشنی کا زمانہ۔ نئی روشنی کے لوگ۔ وہ اس نئی روشنی کی چکاچوند نے انھیں ایسا اندھا کیا کہ اپنی اگلی پچھلی ساری روشنیاں گل کر دیں۔ استدلال یہ تھا کہ اب نیا زمانہ ہے۔ پرانے چراغ گل کر دو۔ بجلی کی روشنی کے آگے اب کیا مشعل' کیا قندیل' کیا شمع' کیا لالٹین کسی کا چراغ نہیں جلے گا۔ برقی روشنی نے سب اگلی پچھلی روشنیوں کے چراغ گل کر دیے۔ اب دیار و امصار میں' چھوٹے بڑے گھروں میں' حویلیوں میں' بازاروں میں' گلی کوچوں میں' میلوں میں' محفلوں میں بجلی کا اجالا ہو گا۔ ایسا تیز اجالا کہ سوئی گرے تو اسے ترت کے ترت ڈھونڈ لو۔ تیوہاروں پر' شادی بیاہ کے موقعوں پر جگمگ کرتے برقی قمقموں کو جھلمل کرتے دیکھو۔
اس نئی روشنی کی چکاچوند میں ہماری آنکھوں پر پردے پڑ گئے۔ سمجھنے لگے کہ بس یہ روشنی اٹل ہے۔ ازل سے ابد تک برقیات کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ اندھیرا کافور ہوا۔ نئی روشنی کا زمانہ ابدیت کا پروانہ لکھوا کر لایا ہے۔ اس وقت کسے گمان تھا کہ اس روشنی کے پیچھے ایک سایہ منڈلا رہا ہے۔ نئی روشنی برحق۔ مگر اسی کے ساتھ ایک نئی ظلمت نے بھی جنم لیا ہے۔ اس کا نام ہے لوڈشیڈنگ۔
لوڈشیڈنگ کی آمد کے ساتھ ہی بڑے گھروں اور چھوٹے گھروں کے درمیان خط امتیاز کھنچ گیا۔ بڑے لوگوں نے تو لوڈشیڈنگ کا توڑ دریافت کر لیا۔ بجلی بیشک چلی جائے' رات کو جائے دن کو جائے' ایک پہر کے لیے جائے' صبح سے شام تک کے لیے جائے ان کے یہاں متبادل انتظام موجود ہے۔ بجلی سے گھر اسی طرح منور رہیں گے۔ باقی لوگ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں۔ گرمی کا موسم ہو تو پسینے میں شرابور بولائے بولائے پھریں۔ لوڈشیڈنگ کے اوقات بیشک مقرر ہوں مگر بجلی کے آنے جانے کا کوئی وقت طے نہیں ہے۔ لوڈشیڈنگ کے سوا بھی اس کے جانے کے سو بہانے ہیں۔ غریب غربا بیشک سڑکوں پر آ کر شور مچائیں۔ موٹر ٹائر جلائیں۔ بجلی والوں کے دفتر پر پتھراؤ کریں۔ بجلی اب آتی ہے نہ تب آتی ہے۔
یعنی بجلی نے پہلے مساوات کا سندیسہ دیا۔ تصور یہ تھا کہ اب کیا امیر کیا غریب' کیا فلک بوس عمارات۔ کیا غریب کی کٹیا' بجلی کی روشنی سب جگہ پہنچے گی۔ مگر یہ مساوات چند روزہ تھی۔ اس نے اپنی ایک جھلک دکھائی اور رفوچکر ہوئی ع
اب اسے ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
تو غریب غربا کا سہارا پھر وہی ننھا دیا۔ ڈیوٹ پہ رکھا ہوا مٹی کا دیا۔ دیا جلے ساری رات۔ بتی کے لیے تھوڑا سا تیل ہونا چاہیے۔ یہ بہر حال بہر رنگ ٹمٹماتا رہے گا۔ مگر غریب غربا کو ایسا ویسا مت سمجھو۔ اب وہ بجلی کے عادی ہو گئے ہیں۔ اس سے کم پر راضی نہیں ہوتے۔ سو احتجاجی جلوس۔ ہنگامہ آرائیاں۔
ارے ایک بجلی پر کیا موقوف ہے۔ یہ جو ٹیکنالوجی کے طفیل جدید سامان راحت فراہم ہوتے ہیں ان سب کا یہی حال ہے۔ ہر پھر کے وہ اونچے طبقہ والوں ہی کو راحت مہیا کرتے ہیں۔ یہ سارا مشینی کاروبار ہے۔ وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں گے جہاں مشینیں درست کام کرتی ہیں اور چھوٹے بڑے ان سے فیض پاتے ہوں گے۔ پاکستان ایسے ملکوں میں یہ جدید سامان راحت کھاتے پیتے لوگوں کے لیے ہیں۔ ایرا غیرا کے لیے وہ راحت کم مہیا کرتے ہیں زحمت زیادہ دیتے ہیں۔ ایک بجلی پر موقوف نہیں پانی کا معاملہ ہو' گیس کے چولہوں کا معاملہ ہو' مشینی سواریوں کا معاملہ ہو سب کا معاملہ یکساں ہے اور لوگوں کو اس سارے کھڑاک سے یہی سبتی ملا ہے کہ ؎
اس اندھیر نگری میں بتی نہ ڈھونڈو
جو کچھ ہے سو اپنی سمجھ کا اجالا