کتاب ہدایت سے اسکرپٹ
من حیث القوم ہم تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں ہمیں احساس ہی نہیں ہماری اخلاقی قدریں کہاں گئیں۔
ISLAMABAD:
پہلے منظر میں ایک خاتون خانہ ٹوکری اٹھائے گھر سے نکلتی ہے وہ سوچتی ہے، اپنی فیملی کو صاف ستھرا صحت بخش کھانا کھلائے گی اس کے مینو میں ایک مرغی کا سالن اور اگر تھوڑی کھیر بھی بنا سکے تو کیا مضائقہ ہے وہ چکن خریدتی ہے۔ اسے معلوم ہے یہ برائیلر چکن ہے ان مرغیوں کو دی جانے والی خوراک انتہائی مضر صحت ہے پھر ان کی قدرتی انداز سے گروتھ بھی نہیں ہوئی لیکن وہ خرید لیتی ہے۔
پکانے کے لیے کون سا کوکنگ آئل لے، اعلیٰ قسم کے آئل کی استطاعت نہیں، عام آئل کے بارے میں اس نے ٹی وی پر دیکھ رکھا ہے کس طرح حلال، حرام جانوروں کی آلائشوں سے تیارکیا جاتا ہے مگر طوہا و کرہا وہ خریدتی ہے پھر مصالہ جات کی باری آتی ہے ایک چھوٹی سی کریانہ کی دکان سے ایک بڑے ڈیپارٹ مینٹل اسٹور کے مالک بنے بابو بھائی کاؤنٹر پر شان سے بیٹھے ہیں، وہ اس معاشرے کے کامیاب کاروباری ہیں۔ خاتون لال مرچ ودھنیہ میں پسی اینٹیں، ہلدی میں شامل رنگ جانتے بھی خرید لیتی ہے۔ اب وہ سبزی کے ٹھیلے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
جہاں ایک عورت اور سبزی والے میں زیادہ قیمت پر بحث جاری ہے بالاخر دکان دار کی دھمکی کام آتی ہے کہ لینا ہے تو لو ورنہ رہنے دو۔ ہری بھری سبزیوں کی بہار دیکھ کر اس کا دل بھی باغ و بہار ہو جاتا ہے وہ اللہ کی قدرت پر دل ہی دل میں سبحان اللہ کہتی ہے لیکن اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب سبزیاں بے ذائقہ ہیں، دھنیہ پودینہ میں کوئی خوشبو نہیں سب گٹر باغیچہ کی پیداوار ہیں اب وہ لہسن ادرک جو خطرناک کیمیکل میں ڈال کر وزن بڑھائے گئے ہیں انھیں بھی چھانٹ رہی ہے۔ اس کی کوشش ہے صاف ستھرا ٹکڑا ترازو کے پلڑے میں رکھے اب وہ حکومتی ریٹ سے زیادہ رقم خاموشی سے ادا کرتی ہے اور خاموشی سے گھر لوٹ جاتی ہے، کھیرکے لیے پیسے بچے نہیں۔
گورنمنٹ ہاسپٹل میں مریضوں کا تانتا بندھا ہوا ہے ان میں وہ مجبور مریض بھی شامل ہیں جو دور دراز علاقوں سے رات کو ہی آگئے تھے آس پاس بنے سرکاری بنچوں اور پارک میں رات بھر سردی سے ٹھٹھرتے رہے تھے اس امید پر کہ صبح بڑے ڈاکٹر صاحب آئیں گے۔ اسپتال کا عملہ ان سے حقارت آمیز رویہ رکھے ہوئے ہے لیکن مریض سب برداشت کرنے پر مجبور ہیں اب سب قطار میں بیٹھے ہیں اس بات سے بے خبر ہیں یہاں لائن وائن کا کوئی چکر نہیں تھوڑی تھوڑی دیر میں چند خوش نصیب مریضوں کے واقف کار آتے ہیں اپنے مریضوں کو لائن سے نکال کر اندر لے جاتے ہیں۔
دوسرے حسرت بھری نظروں سے انھیں دیکھ رہے ہیں جانے والا مریض تھوڑی رعونت تھوڑی نقاہت سے ان کے درمیان سے گزرکر ڈاکٹر صا حب کے کمرے میں چلا جاتا ہے، ڈاکٹر صاحب بڑے قابل ہیں حکومتی خرچے پر باہر سے پڑھ کرآئے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں اللہ نے بڑی شفا دی ہے مرض فورا پہچان لیتے ہے یہ ان کی انسانی ہمدردی نہیں تو کیا ہے وہ پندرہ دن میں ایک بار گورنمٹ اسپتال میں بھی بیٹھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جلدی جلدی مریضوں کا معائنہ کرنے کے ساتھ گھڑی پر بھی نظر ڈال رہے ہیں، انھیں اپنے وقت سے پندرہ منٹ اوپر ہو چکے ہیں ان کے سیکریٹری کا فون آچکا ہے۔ مریض پرائیوٹ کلینک میں منتظر ہیں مگر یہاں بھی مریضوں کا تانتا لگا ہے پر یہ ان کا مسئلہ تو نہیں۔ شیکسپئر کا رٹا رٹایا جملہ ہے دنیا ایک اسٹیج ہے ہم سب اپنا کردار ادا کر کے چلے جائیں گے تو چلیے ہم اپنے وطن عزیز کے دوسرے کرداروں سے ملتے ہیں۔
پیلے اسکول کا منظر ہے بچے دریوں پر بیٹھے لہک لہک کر اپنے سبق کا رٹا لگا رہے ہیں۔ کلاس کے سب سے ذہین طالب علم اپنے لیے کم استاد کے لیے زیادہ کارآمد ہے اس کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے وہ کلاس میں چاروں جانب چکر لگا رہا ہے کوئی بچہ شرارت نہ کرے۔ ماسٹر صاحب گھر میں نیند پوری نہ ہونے کے سبب کلاس میں کرسی پر بیٹھے سو رہے ہیں۔ اسٹاف روم میں تمام ٹیچرز خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ بچوں کے مسائل، نئے فیشن اور گھریلوجھگڑوں سمیت تمام مضوعات پر سیر حاصل گفتگو جاری ہے۔
مانیٹر کی کتاب میں سوالوں کے جوابات پر نشان لگا کر دے دیے گئے ہیں۔ بچے خود کر کے لے آئیں گے سب پرنسپل سے خفا ہیں۔ دو مہینوں کی چھٹیوں میں ملنے والا سارا فنڈ پرنسپل کے گھر میں سالانہ بنیادوں پر ہونے والے کام میں خرچ ہو جاتا ہے جیسے گھر کی مرمت، بچوں کی شادی یا پھر سیرو تفریح اور پھر جعلی رسیدیں دکھا کر فنڈ برابر کر دیا جاتا ہے۔ قریب بیٹھی ٹیچر اخراجات کی فائل کھولے طنزیہ انداز میں مسکرا رہی ہے تمام کی تجسس بھری نظریں فائل کی جانب ہو جاتی ہیں۔
سرکاری آفس کے شاندار سجے کمرے میں گورنمٹ کے چار افسران تبادلہ خیال میں مصروف ہیں ملک کی نازک صورتحال، دہشت گردی، لاقانونیت کی بات پر حکومت کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں پھر بات خبروں سے صحافی پر آئی۔ ایک افسر حقارت و نخوت سے گویا ہے کس طرح یہ معمولی طبقہ ہماری کوتاہیوں پر نظر رکھتا ہے ان میں خود کالی بھیڑیں ہیں ان کی آپس میں نہیں بنتی ایک دوسرے سے دست وگربیاں ہیں۔ دوسرے دل جلے افسر گویا ہوتے ہیں ہم ان سے لاکھ درجے بہتر ہیں کس قدر مل بانٹ کر ایمانداری سے کھاتے ہیں ہم لوگ، صحافی تو اپنے ہی بھائی بندوں کو کاٹنے میں لگے رہتے ہیں چاروں استہزایہ قہقہہ لگاتے ہیں۔
من حیث القوم ہم تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں ہمیں احساس ہی نہیں ہماری اخلاقی قدریں کہاں گئیں اگر ہم اپنی غلطیاں گنوانے پر آئیں تو پورے اخبارات کے صفحے کم پچائیں گے۔ یہ سب مناظر ہماری زندگیوں کے اسٹیج پر روز کھیلے جاتے ہیں، ہم اس کا کردار ہیں اور یہ کردار نبھاتے ہم مر جائیں گے ہماری جگہ نئی نسل لے گی وہ بھی ہمارے لگائے کانٹوں کی آبیاری کرے گی ۔کیا تھوڑی دیر کو رک کر ہم کوشش نہیںکر سکتے کہ اس ڈرامے کے اسکرپٹ کو تبدیل کر دیں کیونکہ کردار تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کر نے پر بہت زور دیتے ہیں تو کیا ہم اپنا اسکرپٹ کتاب ہدایت سے نہیں لے سکتے۔
پہلے منظر میں ایک خاتون خانہ ٹوکری اٹھائے گھر سے نکلتی ہے وہ سوچتی ہے، اپنی فیملی کو صاف ستھرا صحت بخش کھانا کھلائے گی اس کے مینو میں ایک مرغی کا سالن اور اگر تھوڑی کھیر بھی بنا سکے تو کیا مضائقہ ہے وہ چکن خریدتی ہے۔ اسے معلوم ہے یہ برائیلر چکن ہے ان مرغیوں کو دی جانے والی خوراک انتہائی مضر صحت ہے پھر ان کی قدرتی انداز سے گروتھ بھی نہیں ہوئی لیکن وہ خرید لیتی ہے۔
پکانے کے لیے کون سا کوکنگ آئل لے، اعلیٰ قسم کے آئل کی استطاعت نہیں، عام آئل کے بارے میں اس نے ٹی وی پر دیکھ رکھا ہے کس طرح حلال، حرام جانوروں کی آلائشوں سے تیارکیا جاتا ہے مگر طوہا و کرہا وہ خریدتی ہے پھر مصالہ جات کی باری آتی ہے ایک چھوٹی سی کریانہ کی دکان سے ایک بڑے ڈیپارٹ مینٹل اسٹور کے مالک بنے بابو بھائی کاؤنٹر پر شان سے بیٹھے ہیں، وہ اس معاشرے کے کامیاب کاروباری ہیں۔ خاتون لال مرچ ودھنیہ میں پسی اینٹیں، ہلدی میں شامل رنگ جانتے بھی خرید لیتی ہے۔ اب وہ سبزی کے ٹھیلے کی جانب بڑھ رہی ہے۔
جہاں ایک عورت اور سبزی والے میں زیادہ قیمت پر بحث جاری ہے بالاخر دکان دار کی دھمکی کام آتی ہے کہ لینا ہے تو لو ورنہ رہنے دو۔ ہری بھری سبزیوں کی بہار دیکھ کر اس کا دل بھی باغ و بہار ہو جاتا ہے وہ اللہ کی قدرت پر دل ہی دل میں سبحان اللہ کہتی ہے لیکن اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب سبزیاں بے ذائقہ ہیں، دھنیہ پودینہ میں کوئی خوشبو نہیں سب گٹر باغیچہ کی پیداوار ہیں اب وہ لہسن ادرک جو خطرناک کیمیکل میں ڈال کر وزن بڑھائے گئے ہیں انھیں بھی چھانٹ رہی ہے۔ اس کی کوشش ہے صاف ستھرا ٹکڑا ترازو کے پلڑے میں رکھے اب وہ حکومتی ریٹ سے زیادہ رقم خاموشی سے ادا کرتی ہے اور خاموشی سے گھر لوٹ جاتی ہے، کھیرکے لیے پیسے بچے نہیں۔
گورنمنٹ ہاسپٹل میں مریضوں کا تانتا بندھا ہوا ہے ان میں وہ مجبور مریض بھی شامل ہیں جو دور دراز علاقوں سے رات کو ہی آگئے تھے آس پاس بنے سرکاری بنچوں اور پارک میں رات بھر سردی سے ٹھٹھرتے رہے تھے اس امید پر کہ صبح بڑے ڈاکٹر صاحب آئیں گے۔ اسپتال کا عملہ ان سے حقارت آمیز رویہ رکھے ہوئے ہے لیکن مریض سب برداشت کرنے پر مجبور ہیں اب سب قطار میں بیٹھے ہیں اس بات سے بے خبر ہیں یہاں لائن وائن کا کوئی چکر نہیں تھوڑی تھوڑی دیر میں چند خوش نصیب مریضوں کے واقف کار آتے ہیں اپنے مریضوں کو لائن سے نکال کر اندر لے جاتے ہیں۔
دوسرے حسرت بھری نظروں سے انھیں دیکھ رہے ہیں جانے والا مریض تھوڑی رعونت تھوڑی نقاہت سے ان کے درمیان سے گزرکر ڈاکٹر صا حب کے کمرے میں چلا جاتا ہے، ڈاکٹر صاحب بڑے قابل ہیں حکومتی خرچے پر باہر سے پڑھ کرآئے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں اللہ نے بڑی شفا دی ہے مرض فورا پہچان لیتے ہے یہ ان کی انسانی ہمدردی نہیں تو کیا ہے وہ پندرہ دن میں ایک بار گورنمٹ اسپتال میں بھی بیٹھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب جلدی جلدی مریضوں کا معائنہ کرنے کے ساتھ گھڑی پر بھی نظر ڈال رہے ہیں، انھیں اپنے وقت سے پندرہ منٹ اوپر ہو چکے ہیں ان کے سیکریٹری کا فون آچکا ہے۔ مریض پرائیوٹ کلینک میں منتظر ہیں مگر یہاں بھی مریضوں کا تانتا لگا ہے پر یہ ان کا مسئلہ تو نہیں۔ شیکسپئر کا رٹا رٹایا جملہ ہے دنیا ایک اسٹیج ہے ہم سب اپنا کردار ادا کر کے چلے جائیں گے تو چلیے ہم اپنے وطن عزیز کے دوسرے کرداروں سے ملتے ہیں۔
پیلے اسکول کا منظر ہے بچے دریوں پر بیٹھے لہک لہک کر اپنے سبق کا رٹا لگا رہے ہیں۔ کلاس کے سب سے ذہین طالب علم اپنے لیے کم استاد کے لیے زیادہ کارآمد ہے اس کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے وہ کلاس میں چاروں جانب چکر لگا رہا ہے کوئی بچہ شرارت نہ کرے۔ ماسٹر صاحب گھر میں نیند پوری نہ ہونے کے سبب کلاس میں کرسی پر بیٹھے سو رہے ہیں۔ اسٹاف روم میں تمام ٹیچرز خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ بچوں کے مسائل، نئے فیشن اور گھریلوجھگڑوں سمیت تمام مضوعات پر سیر حاصل گفتگو جاری ہے۔
مانیٹر کی کتاب میں سوالوں کے جوابات پر نشان لگا کر دے دیے گئے ہیں۔ بچے خود کر کے لے آئیں گے سب پرنسپل سے خفا ہیں۔ دو مہینوں کی چھٹیوں میں ملنے والا سارا فنڈ پرنسپل کے گھر میں سالانہ بنیادوں پر ہونے والے کام میں خرچ ہو جاتا ہے جیسے گھر کی مرمت، بچوں کی شادی یا پھر سیرو تفریح اور پھر جعلی رسیدیں دکھا کر فنڈ برابر کر دیا جاتا ہے۔ قریب بیٹھی ٹیچر اخراجات کی فائل کھولے طنزیہ انداز میں مسکرا رہی ہے تمام کی تجسس بھری نظریں فائل کی جانب ہو جاتی ہیں۔
سرکاری آفس کے شاندار سجے کمرے میں گورنمٹ کے چار افسران تبادلہ خیال میں مصروف ہیں ملک کی نازک صورتحال، دہشت گردی، لاقانونیت کی بات پر حکومت کے بخیے ادھیڑے جا رہے ہیں پھر بات خبروں سے صحافی پر آئی۔ ایک افسر حقارت و نخوت سے گویا ہے کس طرح یہ معمولی طبقہ ہماری کوتاہیوں پر نظر رکھتا ہے ان میں خود کالی بھیڑیں ہیں ان کی آپس میں نہیں بنتی ایک دوسرے سے دست وگربیاں ہیں۔ دوسرے دل جلے افسر گویا ہوتے ہیں ہم ان سے لاکھ درجے بہتر ہیں کس قدر مل بانٹ کر ایمانداری سے کھاتے ہیں ہم لوگ، صحافی تو اپنے ہی بھائی بندوں کو کاٹنے میں لگے رہتے ہیں چاروں استہزایہ قہقہہ لگاتے ہیں۔
من حیث القوم ہم تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں ہمیں احساس ہی نہیں ہماری اخلاقی قدریں کہاں گئیں اگر ہم اپنی غلطیاں گنوانے پر آئیں تو پورے اخبارات کے صفحے کم پچائیں گے۔ یہ سب مناظر ہماری زندگیوں کے اسٹیج پر روز کھیلے جاتے ہیں، ہم اس کا کردار ہیں اور یہ کردار نبھاتے ہم مر جائیں گے ہماری جگہ نئی نسل لے گی وہ بھی ہمارے لگائے کانٹوں کی آبیاری کرے گی ۔کیا تھوڑی دیر کو رک کر ہم کوشش نہیںکر سکتے کہ اس ڈرامے کے اسکرپٹ کو تبدیل کر دیں کیونکہ کردار تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کر نے پر بہت زور دیتے ہیں تو کیا ہم اپنا اسکرپٹ کتاب ہدایت سے نہیں لے سکتے۔