سندھ ہائیکورٹ کراچی میں آباد سیلاب متاثرین کی تفصیلی رپورٹ طلب
3ہفتے میں جواب جمع نہ کرانے پرمتعلقہ افسران پربھاری جرمانہ کیاجائے گا، رپورٹس
سندھ ہائیکورٹ نے کراچی میں آباد سیلاب متاثرین کے بارے میں چیف سیکریٹری سندھ سے تفصیلی اور جامع رپورٹ طلب کرلی۔
عدالت نے تاحال رپورٹس جمع نہ کرانے پربرہمی کااظہار کرتے ہوئے تنبیہ کی ہے کہ3ہفتے میں تفصیلی جواب جمع نہ کرانے پرمتعلقہ افسران پربھاری جرمانہ کیاجائے گا،چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے جمعرات کوفلڈ ریلیف کیمپ کمیٹی اور دیگر کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی،درخواست میں سیکریٹری محنت و افرادی قوت اور سندھ ورکرزویلفیئربورڈ کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2010کے تباہ کن سیلاب کے بعد سندھ کے مختلف علاقوں سے آنے والے سیلاب متاثرین کو مختلف مقامات پر ٹھہرایا گیا تھا۔
گلشن معمار میں سندھ ویلفیئرورکرز بورڈ کے سرکاری فلیٹس اور ماڑی پور میں بھی ہزاروں متاثرین کو ٹھہرایا گیا جہاں متاثرین نے غیرسرکاری تنظیموں کے تعاون سے بچوں کے کیلیے اسکولز بھی قائم کیے اور نئی زندگی کا آغاز کیا، اخبار میں شائع ہونے والے اشتہار کے مطابق حکومت یہ فلیٹس متاثرین سے خالی کرانا چاہتی ہے، سماعت کے موقع پر عدالت نے آبزرو کیا کہ یہ درخواستیں کئی سالوں سے زیرالتوا ہیں اور ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہوا کہ درخواست گزاروں کی قانونی حیثیت کیا ہے اور ان کے کیا حقوق بنتے ہیں۔
عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ اب تک متاثرین سے کیا وعدے کیے گئے اور کیا ان کو مبینہ طور پر اعلان کردہ معاوضہ فراہم کیا گیا ہے یا نہیں اور ان کی رہائش کیلیے کیا متبادل انتظامات کیے گئے ہیں،اب تک درخواست گزاروں اورسرکار کی جانب سے بنیادی سوالات کے جواب بھی نہیں دیے گئے، علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ نے چیف سیکریٹری سندھ سے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کیلیے اقدامات اورفراہم کردہ پولیس کی نفری سے متعلق جامع رپورٹ طلب کرلی ہے۔
چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے غیرسرکاری تنظیم ''پائلر''کی درخواست کی سماعت کی،درخواست میں چیف سیکریٹری، سیکریٹری ہوم، سیکریٹری تعلیم اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پردہشت گردوں کے حملے کے بعد ملک بھر میں تعلیمی اداروں پر حملوں کے خطرات بڑھ گئے ہیں، درخواست میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی حفاظت کیلیے قابل ذکر اقدامات کیے گئے اور نہ ہی خصوصی توجہ دی گئی ہے، سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے تحفظ پر 20 کروڑ روپے ماہانہ خرچ کیے جارہے ہیں۔
عدالت نے تاحال رپورٹس جمع نہ کرانے پربرہمی کااظہار کرتے ہوئے تنبیہ کی ہے کہ3ہفتے میں تفصیلی جواب جمع نہ کرانے پرمتعلقہ افسران پربھاری جرمانہ کیاجائے گا،چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے جمعرات کوفلڈ ریلیف کیمپ کمیٹی اور دیگر کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی،درخواست میں سیکریٹری محنت و افرادی قوت اور سندھ ورکرزویلفیئربورڈ کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2010کے تباہ کن سیلاب کے بعد سندھ کے مختلف علاقوں سے آنے والے سیلاب متاثرین کو مختلف مقامات پر ٹھہرایا گیا تھا۔
گلشن معمار میں سندھ ویلفیئرورکرز بورڈ کے سرکاری فلیٹس اور ماڑی پور میں بھی ہزاروں متاثرین کو ٹھہرایا گیا جہاں متاثرین نے غیرسرکاری تنظیموں کے تعاون سے بچوں کے کیلیے اسکولز بھی قائم کیے اور نئی زندگی کا آغاز کیا، اخبار میں شائع ہونے والے اشتہار کے مطابق حکومت یہ فلیٹس متاثرین سے خالی کرانا چاہتی ہے، سماعت کے موقع پر عدالت نے آبزرو کیا کہ یہ درخواستیں کئی سالوں سے زیرالتوا ہیں اور ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہوا کہ درخواست گزاروں کی قانونی حیثیت کیا ہے اور ان کے کیا حقوق بنتے ہیں۔
عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ اب تک متاثرین سے کیا وعدے کیے گئے اور کیا ان کو مبینہ طور پر اعلان کردہ معاوضہ فراہم کیا گیا ہے یا نہیں اور ان کی رہائش کیلیے کیا متبادل انتظامات کیے گئے ہیں،اب تک درخواست گزاروں اورسرکار کی جانب سے بنیادی سوالات کے جواب بھی نہیں دیے گئے، علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ نے چیف سیکریٹری سندھ سے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کیلیے اقدامات اورفراہم کردہ پولیس کی نفری سے متعلق جامع رپورٹ طلب کرلی ہے۔
چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے غیرسرکاری تنظیم ''پائلر''کی درخواست کی سماعت کی،درخواست میں چیف سیکریٹری، سیکریٹری ہوم، سیکریٹری تعلیم اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پردہشت گردوں کے حملے کے بعد ملک بھر میں تعلیمی اداروں پر حملوں کے خطرات بڑھ گئے ہیں، درخواست میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی حفاظت کیلیے قابل ذکر اقدامات کیے گئے اور نہ ہی خصوصی توجہ دی گئی ہے، سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے تحفظ پر 20 کروڑ روپے ماہانہ خرچ کیے جارہے ہیں۔