آخر کب تک

جاپانی قوم نے دنیا میں ثابت کر دِکھایا کہ وہ گر کر پھر سے اٹھنا جانتے ہیں

shehla_ajaz@yahoo.com

جاپانی فطری طور پر بہت ٹھنڈے مزاج کے ہوتے ہیں۔ شائستگی، نفاست اور سلیقہ جاپانی قوم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

ان کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہ اپنی روایات سے محبت کرتے ہیں۔ ماڈرن دنیا کی طرح قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنا جانتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان کے بہت سے شہر اسکریپ کا ڈھیر بن گئے تھے لیکن جاپانیوں نے نہایت ہمت اور استقلال کے ساتھ شہری پلاننگ کے مطابق اپنے شہروں کو مرمت کر کے قابلِ استعمال بنا دیا۔ 1990ء کے اوائل میں معاشی ابال آنے کے بعد تک ان کا یہ عمل جاری رہا۔ ان کے تعمیر کاروں نے اس دور میں یہی انداز اختیار کیے رکھا اور اپنی پرانی عمارتوں کو جو ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں، کچھ نئے انداز کے ساتھ ملا کر محفوظ کیا۔

اس کی مثال اوکایاما میں تانبے کی ایک پرانی ریفائنری ہے جسے میوزیم کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ جاپانی اپنے ماضی کو نہیں بھولتے وہ اسے ہر مشکل میں یاد رکھنا چاہتے ہیں اور اس کی حفاظت بھی کرنا جانتے ہیں۔ قدرت کی بخشی نعمتوں کو نہایت نفاست، ہنر مندی سے اپنے شاہکاروں کی شکل میں محفوظ کر لیتے ہیں، انھیں اپنے اس عمل پر فخر ہے۔ یہ سچ ہے کہ جو قومیں اپنا ماضی، اپنی روایات، اپنا تشخص بھول جاتی ہیں، دنیا انھیں فراموش کر دیتی ہے اور جو قومیں اپنے ہنرمندوں، اپنے محسنوں، اپنی روایات کو یاد رکھتی ہیں، وہی کامیاب رہتی ہیں۔

جاپان ایشیاء میں شمار کیا جاتا ہے، اس کی ترقی کا گراف اتنا بلند ہے کہ جی ایٹ میں جاپان بھی شامل ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے گھائو اِتنے گہرے تھے کہ شاید جاپان کا پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا تصور بھی مشکل تھا لیکن جاپانی قوم نے دنیا میں ثابت کر دِکھایا کہ وہ گر کر پھر سے اٹھنا جانتے ہیں۔ وہ اپنے بڑوں کا ادب کرتے ہیں۔ یہ ان کی روایات کا حصّہ ہے۔ میری اپنی رشتے کی ایک بھاوج کا تعلق جاپان سے ہے۔

جب وہ بیاہ کر پہلی بار خاندان کی تقریبات میں آئی تو سب کا خیال تھا کہ وہ فرنگیوں کے سے لباس میں نظر آئے گی لیکن وہ پاکستانی خواتین کی طرح نہ صرف شلوار قمیض میں ملبوس تھی بلکہ اس نے اپنا سر بھی اچھی طرح دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا، غیر زبان ہونے کے باوجود وہ اپنی ساس کی بہت عزت کرتی ہے۔ وہ اپنے شوہر کے ہمراہ کئی برسوں سے جاپان میں مقیم ہے، لیکن اسے اپنی سسرال والوں کا اسی طرح خیال رہتا ہے، جس طرح شاید ہماری کسی پاکستانی بہو کو بھی نہیں ہوتا۔


ہم پاکستانی تو ہیں لیکن اس کے برعکس قومیتوں میں بٹے ہوئے ہیں، دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے تشخص اپنی روایات سے پیار ہے لیکن ہم اس پر عمل نہیں کرتے، روایتوں اور تشخص کو ہم نے تہہ کر کے طاق نسیاں پر رکھ دیا ہے۔ اپنے بڑوں، اپنے محسنوں کا ادب کرنا ہمارے مزاج میں اب شامل نہیں رہا۔ پہلے زمانے میں محلے کے بچوں میں لڑائیاں ہوتی تھیں تو راستے سے گزرتے بڑے بوڑھے ہی ڈانٹ ڈپٹ کر بچوں کی صلح کرا دیا کرتے تھے اور اب بچّے بڑوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتے الٹا انھیں آنکھیں دِکھاتے ہیں۔

اب اپنی عزت اپنے ہاتھ والی بات رہ گئی ہے، ابھی اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا، جب اڑتی اڑتی یہ بات ہمارے کانوں تک بھی پہنچی جسے سن کر ذہن مفلوج ہو گیا۔ اس ملک میں اب محسنوں کے ساتھ یہ سلوک ہونے لگا ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج والی بات سنی تو تھی اب دیکھ بھی لی۔ دوسروں کے دکھ درد کو لکھ کر ارباب اختیار تک پہنچانے والے اور اپنے ہم وطنوں کے لیے اچھا سوچنے والے اہل قلم کیا اب اس ہی مقام کے حق دار ہیں کہ انھیں ٹھوکر مار کر پرے کر دیا جائے۔ کیا ایک قلم کار صحافی کی اتنی ہی عزت ہے، ایک شخص جو ترقی کے زینے باآسانی چھلانگیں لگاتا عبور کر سکتا تھا، بڑا سا گھر بڑی سی گاڑی رکھنا اس کے لیے محال نہ تھا، لیکن اس نے وہ راستہ اختیار نہ کیا، وہ شرفاء کا وارث ایک قلم کار جسے اپنے علاقے کے لوگوں سے محبت ہے۔

وہ ہر حال میں اپنے لوگوں سے جڑ کر رہنا چاہتا تھا۔ وہ علم دوست، شائستگی اور شرافت کا پیکر اس دشت میں تنہا نہ تھا۔ ان کی والدہ اور نانا سید ملنگ شاہ بلوچی زبان کے خوبصورت شعراء میں شامل ہوتے ہیں۔ لیاری میں ہی جنم لینے والے یہ صحافی اس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنی روایات اور ثقافت سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جس طرح بلوچستان کے کسی دور دراز علاقے میں کوئی بلوچ کرتا ہے، لیکن ان کے اسی علاقے کے چند سدھائے ہوئے لوگوں نے، جو گینگ کے نام پر غیروں کو تو کیا اپنے پڑوسیوں کو بھی نہیں بخشتے۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جس سے ان کا وجود تڑپ اٹھا، لیاری میں تعلیم کے حوالے سے نوجوانوں نے ان کے ساتھ مل کر 1970ء میں اسٹریٹ اسکول قائم کیے۔

پروفیسر کرار حسیں صاحب جب لیاری کے ان اسکولوں کو دیکھنے کے لیے علاقے میں پہنچے تو گلی میں روشن مرکری بلب کی کرنوں سے تعلیمی انقلاب کی جھلک دیکھ کر انھوں نے لاگ بک منگائی اور اسکول کے قیام پر اپنے تاثرات درج کیے۔ لیکن اسی گلی میں 8 اور9 اگست کی شب اسی سماجی کارکن اور سینئر صحافی کے تین صاحبزادوں کو اس بے دردی سے مارا پیٹا گیا، جس سے ان کے ایک بیٹے کی آنکھ ضایع ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ان کو ہنٹروں اور ٹی ٹی پستول کے دستوں سے مار مار کر لہو لہان کر دیا گیا۔ اپنے ہی لختِ جگر کو خون میں لت پت دیکھ کر ایک باپ کے دل پر کیا بیتی ہوگی، نہ صرف یہ بلکہ ان سدھائے ہوئے لوگوں نے ان لڑکوں کو اپنے ٹارچر سیل میں لے جا کر جلانے کی بھی کوشش کی۔

اپنے بیٹوں کو چھڑوانے کے لیے خود شاہ صاحب گئے تو انھیں بغدادی کی ایک گلی میں ایک گھنٹے تک یرغمال بنا کر رکھا گیا۔ بڑی مشکلوں سے ان کے بیٹوں کو لندن سے پیپلز امن کمیٹی کے چیف ایڈوائزر حبیب جان کی ہدایت پر عذیر بلوچ کے فوری حکم پر رہائی ملی، دوسروں پر ہونے والے ظلم کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے شخص کو دھمکی بھی دی گئی کہ اگر یہ خبر اخبار یا نیوز چینل پر چلی تو نتائج اس سے بھی برے ہو سکتے ہیں۔ کیا لیاری جیسے پر امن اور انسان دوست علاقے میں بربریت اور لاقانونیت کا گراف اس قدر اونچا ہو گیا کہ وہاں کسی کی جان سلامت نہیں۔ افسوس صد افسوس!

ویسے بھی اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق کو اتنا واضح کیا گیا ہے کہ گنجایش باقی ہی نہیں رہتی لیکن یہ کیسے روایتوں کے امین ہیں جو نہ اچھے پڑوسی بن سکتے ہیں اور نہ ہی اچھے شہری۔ لیاری کے نام پر بٹہ لگانے والے ایسے لوگوں سے لیاری کب نجات پائے گا۔ کب شہر قائد کو امن نصیب ہو گا۔ کب محنت کش اس شہر کی گلی محلوں میں آزادی، بے خوفی اور وقار کے ساتھ جیو اور جینے دو کی پالیسی کے تحت زندگی بسر کرنے کا نیا اسلوب اختیار کریں گے۔ ظلم کا یہ باب آخر کب بند ہو گا۔ مظلوموں کی آڑ لے کر چھپ کر مظلوموں پر وار کرنے والے یہ دو رخی لوگ آخر کب تک اس دھرتی کا بوجھ بنے رہیں گے، ہے کوئی جواب ارباب اختیار کے پاس؟
Load Next Story