عالمی طاقتوں کے گم شدہ ’ایٹمی ہتھیار‘

پاکستان ایٹم بم اپنی جائز ضرورت کے لیے بھی بنالے تو دنیا بھر میں دھماکے شروع ہو جاتے ہیں

پاکستان ایٹم بم اپنی جائز ضرورت کے لیے بھی بنالے تو دنیا بھر میں دھماکے شروع ہو جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
نام نہاد تیسری دنیا کا پاکستان جیسا ملک ایٹم بم اپنی جائز ضرورت کے لیے بھی بنالے تو دنیا بھر میں دھماکے شروع ہو جاتے ہیں اور یہ اندیشۂ ہائے دور دراز ظاہر کیے جاتے ہیں کہ ایسے ممالک اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لائق نہیں ہیں اور یہ کہ خاص طور پر پاکستان کا ایٹم بم ضرور کسی دہشت گرد کے ہتھے چڑھ جائے گا اور وہ اسے کم از کم ہم سائے پر تو ضرور دے مارے گا۔

ان کے ایسے اندیشوں سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ایٹم بم کوئی فٹ بال ہے، جس سے بچے کھیل رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹم بم کے خلاف واویلا کرنے والے اپنے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں اتنے غیر محتاط ہیں کہ کوئی بچہ اپنے کھلونوں کو ان سے بڑھ کر محفوظ رکھتا ہو گا۔ نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سرد جنگ کے دوران میں دنیا بھر کے ماموں امریکا (USA) درجنوں بار اپنے جوہری ہتھیار گم کر بیٹھے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 1950 سے اِس دم تک تین درجن ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن میں یہ جوہری بم بردار ممالک امریکا، یوکے، فرانس، روس، چین، اسرائیل اپنے جوہری ہتھیار گم کر بیٹھے ہیں لیکن انہیں ایسے واقعات کو انتہائی خفیہ رکھاجاتا ہے، بس وہی واقعات سامنے لائے جاتے ہیں جنہیں چھپانا غیرممکن ہو جاتا ہے، مثال کے طور پر، سوویت یونین کے دور کا چرنوبیل حادثہ۔

امریکا ایک لحاظ سے باقی ممالک سے اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اس کے ہاں بعض حساس معاملات کو ایک خاص مدت کے بعد افشاء کرنے کا رواج ہے تاہم وہ سچ میں جھوٹ کا کھوٹ ضرور شامل کرتا ہے، مثال کے طور پر جاپان کے ایک ساحلی شہر سے محض سو کلومیٹر کے فاصلے پر اس کا ایک ہائیڈروجن بم ایک حادثے کے نتیجے میں سمندر میں ڈوب گیا، واشنگٹن نے اس کا اعتراف کیا تو مگر یہ جھوٹ ملایا کہ حادثہ جاپان کے مذکورہ ساحل سے پانچ سو میل دور کھلے سمندر میں پیش آیا ہے۔ یاد رہے کہ وہ ہائیڈروجن بم آج بھی بحرالکاہل کی گہرائیوں میں کسی مقام پر زندہ و سلامت پڑا ہے تاہم بہت تلاش کے باوجود آج تک نہیں مل سکا۔

بیسویں صدی کی صرف پانچویں دہائی میں امریکا 20 بار ایسے حادثات سے دوچار ہوا، چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔

23 فروری 1950 کو امریکا کا ایک B-36 پیس میکر طیارہ الاسکا کے ایلسن ائیر فورس بیس سے MK4 قسم کا ایک ایٹم بم لے کر ٹیکساس جا رہا تھا۔ یاد رہے کہ الاسکا امریکا کی یخ ترین ریاست ہے۔ دوران پرواز جہاز کے کاربوریٹر پر برف جمنے لگی تو پائلٹ نے جہاز کے 6 انجمنوں میں سے تین بند کر دیے اور باقی تین کی طاقت بھی کم کر دی لیکن موسم جہنمی حد تک سرد پڑتا گیا اور جہاز نے جواب دینا شروع کر دیا۔ عملے نے فیصلہ کیا کہ جہاز کو چھوڑ دیا جائے۔ سو ایک جزیرے پر سے گزرتے ہوئے انہوں نے جہاز کو چھوڑ دیا۔ جو بحرالکاہل کی گہرائیوں میں غرق ہو گیا۔ عملے کے بارہ افراد کو بہ مشکل برف ہونے سے بچایا گیا تاہم 6 افراد رزقِ آب ہو گئے اور وہ ایٹم بم بھی، جو اس جہاز میں موجود تھا، آج تک نہیں مل پایا۔

11 اپریل 1950 کو نیو میکسیکو کے قریب ایک B-29 سوپر فورٹریس طیارہ اڑان بھرتے ہی تباہی کا شکار ہو گیا۔ عملے کے 13 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس طیارے میں ایک ایٹم بم لے جایا جا رہا تھا۔ خوش بختی یہ رہی کہ بم کا نیوکلیئر کور (Core)اور اس کے چار ڈیٹونیٹر اس سے منسلک نہیں تھے۔ اسی لیے آگ لگ جانے کے باوجود اس بم نے تباہی نہیں مچائی۔

اسی طرح کے دو واقعات 13 جولائی اور 5 اگست 1950 کو بھی پیش آئے۔ 5 اگست کے واقعہ میں ایک ایسا بامبر طیارہ ایک ایٹم بم لے کر جا رہا تھا، جس کے انجنوں میں خاصی خرابیاں تھیں۔ حادثہ کیلی فورنیا کے فیئر فیلڈ سوئی گیس ایئر بیس پر گر کر تباہ ہو گیا اور اس میں لگنے والی آگ سے بم چل گیا، 19 افراد ہلاک ہو گئے جن میں ایک بریگیڈیئر جنرل رابرٹ ٹراوس بھی تھا۔ بعد میں اس جنرل کے اعزاز میں اس ایئر بیس کو اسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔

یہ بم بھی خوش قسمتی سے نیوکلیئر کور سے منسلک نہیں تھا۔ 10 نومبر 1950 میں ایک B-29 طیارہ ایک ایٹم بم لے کر کینیڈا سے امریکا روانہ ہوا ہی تھا کہ اس کے انجن میں خرابی پیدا ہو گئی۔ عملے کو جب محسوس ہوا کہ وہ ہنگامی لینڈنگ نہیں کر پائیں گے تو انہوں نے بھاری بھر کم بم کینیڈا کے صوبے کیوبک کے قریب دریائے لارنس میں گرا دیا۔ یہ بم فضا ہی میں پھٹ گیا اس میں بھی پلوٹونیم کور نصب نہیں تھا تاہم لگ بھگ 45 کلو گرام استعمال شدہ یورانیم دریا کے نیچے پھیل گیا۔

10 مارچ 1956 کو امریکی ایئر فورس کے ایک B-47 سٹریٹو جیٹ طیارے میں دو ایٹم بموں کا مال دو کیسوں میں بند کرکے کسی ایئر بیس پر بھیجا جا رہا تھا۔ یہ ایک مسلسل (نان اسٹاپ) پرواز تھی اور اس کے لیے ایندھن فضا میں ہی حاصل کیا جانا تھا۔ ایک بار تو اس نے کام یابی سے فضا ہی میں ایک ایندھن بردار طیارے سے ایندھن حاصل کر لیا لیکن اس کے بعد یہ طیارہ غائب ہو گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طیارہ بحیرۂ عرب میں کسی مقام پر غرق ہوا تھا جو تلاش بسیار کے باوجود نہیں مل سکا۔

7 جون 1956 کو انگلینڈ کے لیک ہیتھ ناٹو ایئر بیس پر ایک امریکی B-47 بامبر طیارہ تین MK6 ایٹم بم لے کر اترا ہی تھا کہ رن وے پر توازن کھو بیٹھا اور ایک سٹوریج سے ٹکرا گیا جس سے اس میں آگ بھڑک اٹھی۔ ان بموں سے ہونے والی تباہی کو روکنے کا کریڈٹ فائر فائیٹرز اور بم ڈسپوزل کے ماہرین کو جاتا ہے۔ اس واقعے کے رونما نہ ہونے کو معجزہ قرار دیا جاتا ہے۔


22 مئی 1957 میں بھی ایک ہول ناک حادثہ رونما ہونے سے بال بال بچا۔ ایئر فورس کا B-36 بامبر طیارہ ٹیکساس کے بگز بیس سے ایک MK17 ایٹم بم لے کر نیو میکسیکو کے کرٹ لینڈ بیس کی طرف محو پرواز تھا۔ اس بم کا وزن 19 ہزار 50 کلوگرام (42 ہزار پائونڈ) تھا۔ دوران پرواز زیادہ وزن کی وجہ سے یہ بم اپنے بندھن توڑ کر گر پڑا۔ اس کے ساتھ ایک پیراشوٹ منسلک تھا لیکن طیارہ اس وقت نیچی پرواز کر رہا تھا لہٰذا اس پیراشوٹ کے کھل جانے کے باوجود بم ایک اونچی گھاس والی چراگاہ میں گرا۔ بم سے زمین میں 12 فٹ گہرا اور 25 فٹ چوڑا شگاف بن گیا۔ بم کا ملبہ بہت بڑے رقبے پر پھیلا لیکن اس کا جوہری کیپسول جہاز ہی میں رہ گیا تھا۔ اس بم کے اثرات بھی فوری طور پر زائل کر دیے گئے تاہم اس کے باوجود علاقے میں چھوٹے پیمانے پر اس کی تاب کاری پھیلی۔

فروری 1958 میں امریکی ریاست جارجیا میں ایک B-47 اور F-86 سیبر طیارے میں ٹکرا ہو گئی۔ B-47 میں ایک MK15 ہائیڈروجن بم موجود تھا۔ طیارے کے پائلٹ نے جب صورت حال کو ہاتھ سے نکلتا دیکھا تو اس وزنی بم کو سمندر میں گرانے کا فیصلہ کر لیا تاکہ نقصان کم از کم ہو لہٰذا اسے دریائے سوانا کے دہانے سے میلوں دور ٹائے بی نامی جزیرے کے قریب گہرے سمندر میں گرا دیا گیا۔ یوں ایک بڑے سانحے سے بچت ہو گئی۔ بعد ازاں اس بم کو تلاش کرنے کی کوششیں 2001 تک کی جاتی رہیں تاہم یہ بم بھی آج تک نہیں مل سکا گو اس کے تاب کاری اثرات کے واضح آثار ملتے ہیں۔

24 جنوری 1961 کو بھی ایک بہت بڑا سانحہ رونما ہوتے ہوتے رہ گیا۔ امریکی ایئر فورس کا ایک B-52 دو MK39 ایٹم بم لے کر کیرولینا جا رہا تھا۔ ان بموں کا وزن 20 میگا ٹن تھا۔ جہاز جب 10 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا تو اس کا ایندھن لیک کرنے لگا جس سے اس کے دائیں بازو میں ایک ہلکا سا دھماکا ہوا۔ اس کے نتیجے میں جہاز ایک بڑی خرابی سے دوچار ہو گیا اور وہ زمین پر آن گرا۔ 8 افراد کے عملے میں سے تین مارے گئے اور جہاز کا ملبہ وسیع رقبے پر بکھر گیا۔ یہ دونوں بم بھی پیراشوٹوں سے منسلک تھے۔ ان میں سے ایک کا پیراشوٹ تو کھل گیا اور وہ سہولت کے ساتھ زمین پر آ رہا لیکن دوسرا زمین سے ٹکرا گیا۔

یہ بم قریب تھا کہ پھٹ جاتا اور علاقے کو تہس نہس کر دیتا لیکن خوش قسمتی یہ ہوئی کہ اس کی 6 میں سے ایک سیفٹی ڈیوائس کام کر گئی اور شہر خاک ہونے سے بال بال بچ گیا۔ ائیر فورس نے فوری طور پر علاقہ خالی کروایا اور تاب کاری پر قابو پانے کی ہنگامی کوششیں کیں۔ بعد ازاں ادارے نے یہ علاقہ، جہاں بم گرا تھا، خرید ہی لیا۔ بم کا پلوٹونیم تو مل گیا لیکن اعلیٰ درجے کی افزودہ یورانیم کبھی واپس نہ مل سکی۔ اس واقعے کے بعد امریکا اور روس ایٹم بموں کی نقل و حمل کے معاملے میں زیادہ محتاط ہو گئے۔

عالمی طاقتوں کے محتاط ہو جانے کے باوجود شاید ہی کوئی سال ایسا گزرا ہو جب اس طرح کے ایک سے زیادہ ایسے واقعات رونما نہ ہوئے ہوں۔

اس نوع کاایک بڑا واقعہ 24 جون 1984 کو رونما ہوا جب سوویت یونین کی ایک جوہری میزائل بردار آب دوز بحر منجمد شمالی کے آب نائے سونائے میں ڈوب گئی۔ اس حادثے میں اس کے عملے کے 120 افراد میں سے 16 ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ یوں رونما ہوا کہ آب دوز کے کیپٹن کو حکم موصول ہوا کہ وہ زیر آب تارپیڈو کا تجربہ کرے۔ اس وقت آب دوز میں مرمت کا کچھ کام ہو رہا تھا۔

کیپٹن نے حکم موصول ہوتے ہی جلدی میں آب دوز کو زیر آب اتارنا چاہا لیکن عجلت میں آب دوز کا وینٹی لیشن سسٹم درست طور پر سیل نہ کر پایا، اسی طرح بیلسٹ ٹینک بھی برابر نہ کر سکا۔ اب جو آب دوز اتھلے پانیوں میں اتری تو وینٹی لیشن کی راہ سے پانی کا سیلاب پوری شدت سے آب دوز کے اندر داخل ہو گیا۔ آب دوز K 429، پانیوں کی سطح کے 130 فٹ نیچے تہ میں جا بیٹھی تاہم عملے کی اکثریت زندہ تھی اور آب دوز میں سطح پر پہنچنے کے لیے کیپسول موجود تھے۔

عملے کے دو افراد رضاکارانہ طور پر یخ پانیوں میں سے تیر کر ساحل پر پہنچے تاکہ مدد حاصل کی جا سکے۔ ان کو گرفتار تو کرلیا گیا تاہم وہ اپنی بحری کمان کو حادثے سے مطلع کر چکے تھے، جس پر امدادی جہاز فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچ گئے اور باقی عملے کو بچا لیا گیا۔ اس جوہری میزائل بردار آپ دوز کو ایک بار پھر قابل استعمال بنا کر اگست میں لانچ کر دیا گیا تاہم یہ آب دوز ستمبر میں ایک بار پھر ڈوب گئی، جس کے بعد اسے ریٹائر کر دیا گیا۔

اسی طرح 5 اکتوبر 1986 کوبھی روس کی یانکی کلاس ون ایٹمی آب دوز K-219 امریکی ساحل کے قریب پٹرولنگ کے دوران حادثے کا شکار ہوگئی۔ ہوا یہ کہ پٹرولنگ کرتے ہوئے اس کی ایک میزائل ٹیوب لیک ہو گئی۔ اب جو پانی اس میں داخل ہوا تو اس کے اندر موجود مواد سے مل کر مہلک گیس میں بننے لگی۔ گیس کی مقدار جو بڑھی تو دھماکا ہوگیا، جس کے نتیجے میں عملے کے چار ارکان ہلاک اور باقی باہرنکلنے پر مجبور ہوگئے کہ نہ نکلتے تو گیس انہیں ہلاک کر دیتی۔

اس حادثہ زدہ آب دوز کو ساحل کی لایا جا رہا تھا کہ یہ برمودا سے کوئی 7 سو میل کے فاصلے پر ڈوب گئی۔ اس میں دو ایٹمی ری ایکٹر اور 17 ایٹمی میزائل نصب تھے۔ ہر میزائل میں دو، دو وار ہیڈز تھے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس میں دو ایٹمی تارپیڈو بھی موجود تھے۔ اس طرح 34 ایٹمی ہتھار پانیوں میں موجود ہیں۔

12 اگست 2000 کو روس کی ایٹمی کروز میزائل آب دوز K-141 کرسک شمالی روس میں سمندر میں ہونے والی فوجی مشق کے دوران حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس کے 118 افراد کے عملے میں سے صرف 23 افراد کو بچایا جا سکا۔ دوران مشق اس آب دوز میں اچانک دھماکا ہو گیا اور یہ سطح سمندر سے 350 فٹ نیچے تہ میں جا بیٹھی۔

دھماکا ہوا تو آب دوز میں پانی انتہائی تیزی سے داخل ہوگیا اور پانی کے اندر ہونے کی وجہ سے اس میں آکسیجن بالکل ہی نہ رہی۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ دھماکا آب دوز کے تارپیڈو روم میں اچانک آگ لگ جانے سے ہوا تھا۔ آب دوز میں یہ تارپیڈو 1968 میں نصب کیے گئے تھے۔ یہ تارپیڈو چلا تو آب دوز کا اگلا حصہ پلک جھپکتے میں تباہ ہو گیا اور پانی بے روک ٹوک اندر داخل ہو گیا۔
Load Next Story