پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریاں

جنگ میں مرنے والے فوجیوں کی تعداد گذشتہ سو سال کی مجموعی لڑائیوں میں مرنے والے فوجیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے

جنگ میں مرنے والے فوجیوں کی تعداد گذشتہ سو سال کی مجموعی لڑائیوں میں مرنے والے فوجیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ فوٹو: فائل

جنگ عظیم اول (28 جولائی 1914ء تا 11 نومبر 1918ء) کو جدید تاریخ کی ایک تباہ کن لڑائی مانا جاتا ہے۔ اس دوران ایک کروڑ فوجی لقمہ اَجل بنے، اور اس سے دگنی تعداد میں زخمی ہوئے، جو گذشتہ سو سال کی مجموعی لڑائیوں میں مرنے والے فوجیوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔

جدید ہتھیاروں کی شمولیت نے اس جنگ کو زیادہ خونیں بنایا۔ مشین گن جیسے ہتھیار اور گیس کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بڑی وجہ بنا۔ جنگ کی صف بندی کچھ یوں تھی کہ ایک سمت جرمنی، آسٹریا، ہنگری سلطنت، ترکی اور بلغاریہ، جب کہ دوسری جانب برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، پرتگال، جاپان اور امریکا تھے۔

جنگ کے دوران یکم جولائی 1916ء کو ایک دن کے اندر سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں، جب 57 ہزار برطانوی فوجی مارے گئے۔ مجموعی طور پر سب سے زیادہ جانی نقصان جرمنی اور روس کو اْٹھانا پڑا۔ جرمنی کے 17 لاکھ 73 ہزار 700 اور روس کے 17 لاکھ فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ فرانس کو اپنی متحرک فوج کے 16 فی صد سے محروم ہونا پڑا۔

اس جنگ میں خلافت عثمانیہ کے مرکز ترکی کو جرمنی سے اتحاد کی بھاری قیمت چُکانا پڑی۔ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے انگریزوں نے ''لارنس آف عربیہ'' کو میدان میں اتارا، جس نے اس وقت کے ''شریف مکہ'' شریف حسین کے ذریعے عربوں کو ترکوں کے خلاف صف آرا کردیا۔ شریف حسین کو اس کے صلے میں اردن، شام اور عراق کے علاقے ملے، جہاں ان کے بیٹے فرماں روا ہوئے۔

قابل ذکر امر یہ یہ کہ اردن میں آج بھی شریف حسین کے پڑ پوتے شاہ عبداﷲ برسر اقتدار ہیں، جب کہ شام اور عراق میں ان کے بیٹوں کی عمل داری جاری نہ رہ سکی۔ شریف مکہ کی بغاوت کے نتیجے میں بہت سے عرب علاقے خلافت عثمانیہ سے جاتے رہے اور پھر ترکی پر بھی انگریزوں کا قبضہ ہوگیا، یوں چھے صدیوں سے جاری خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔ 11 نومبر 1918ء کو جرمنی نے جنگ بند کردی اور صلح کی درخواست کی۔ 28 جون 1919ء کو فریقین کے مابین معاہدہ ورسائی ہوا اور یوں یہ جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔

اس ہفتے ہم نے اپنے قارئین کے لیے اسی جنگ کے کچھ مناظر کا انتخاب کیا ہے۔

پہلی عالم گیر جنگ چھڑی تو ہندو پاک مکمل طور پر سلطنت برطانیہ میں شامل تھا۔۔۔ اسی موقع پر برطانوی ایما پر ہندوستانی سپاہیوں نے بھی بڑے پیمانے پر اس جنگ میں حصہ لیا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد 23 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ زیرنظر تصویر اسی جنگ میں فرانس میں ایک محاذ پر موجود ہندوستانی فوجیوں کی ہے۔ اس خطے میں مکمل برطانوی راج اور 1857ء کی جنگ آزادی کی تلخیوں کو ابھی محض 58 برس بیتے تھے، لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی تھا کہ اب مقامی فوجی برطانیہ کے شانہ بہ شانہ عسکری مہمات میں شامل ہونے لگے تھے۔



پہلی عالمی جنگ دنیا کی پہلی باقاعدہ جنگ تھی، جس میں نہ صرف فضائیہ نے حصہ لیا، بلکہ سمندروں کا محاذ بھی گرم ہوا۔ مختلف ممالک کے بحری بیڑوں نے ایک دوسرے کے مفادات کو زک پہنچائی اور حریف کو زیر کرنے کے لیے اپنی طاقت کو آزمایا۔ یہ منظر بھی پہلی عالمی جنگ میں اس وقت تصویر ہوا، جب ایک کاری وار نے بحری جہازکو اپنا ہدف بناتے ہوئے اس کے پرخچے اڑا دیے۔ فضا میں کئی میٹر تک بلند کثیف دھواں اس حملے کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔



پہلی جنگ عظیم میں اگرچہ جدید مہلک ہتھیاروں کا استعمال بھی ہوا، لیکن اس میں قدیم آلات حرب کا استعمال بھی موجود رہا۔ یہ تصویر گھُڑ سوار جرمن سپاہیوں کی ہے، جو وربیلن (Wirballen) نامی علاقے میں موجود ہیں۔ یہ علاقہ جرمنی اور اس وقت کی سوویت ریاست کے سنگم پر موجود تھا۔




اس تصویر میں کینیڈین فوجی دستہ محاذ پر روانگی سے قبل اپنی تلواروں کا معائنہ کر رہا ہے۔



تنہا سائیکل سوار فوجی تباہ شدہ جرمن فوجی قافلے کی باقیات کے قریب سے گزر رہا ہے۔ 1914ء میں یہ فوجی قافلہ فرانسیسی فوجیوں کے شدید حملوں کی زد میں آکر اس انجام سے دوچار ہوا، گاڑیوں کے قطار بند ڈھانچے اپنی داستاں آپ کہہ رہے ہیں۔



جیسے آتش زدگی سے نقصان کا اندازہ آگ بجھنے کے بعد ہوتا ہے، اسی طرح جنگ کی تباہی کا درست اندازہ بھی جنگ کے اختتام پر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہوا پہلی عالمی جنگ میں بھی، جب اتنے لوگ مارے گئے کہ ان کی ڈھنگ سے آخری رسومات کی نوبت بھی نہ آسکی۔۔۔ زیر نظر تصویر امریکا کے ایک گاؤں کی ہے، جہاں بکھری ہوئی انسانی کھوپڑیاں، یہاں بیتنے والے اَلم ناک واقعات کی خبر دے رہی ہیں۔ محققین کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر ہلاک ہونے والے غیر فوجی افراد کی تعداد ایک کروڑ 30لاکھ ہے۔



بھلا جنگ کے محاذ پر بھی کبھی انصاف کا درست اندازہ ہوا ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔۔ بس، جو جیتا وہی سکندر۔ یہ مناظر بھی کچھ یہی داستان سنا رہے ہیں۔ بندھے ہاتھوں موت کی وادی میں پہنچائے جانے والے وہ ''باغی'' ہیں جو 1915ء میں سنگاپور میں دھر لیے گئے، نتیجتاً موت کے حق دار ٹھہرے۔ سزائے موت کے ہرکارے بندوق سیدھی کیے انہیں نشانہ بنانے کو ہیں۔



موت دینے کے لیے بارود کی گولی کے بہ جائے صلیب کو چُنا گیا ہے اور یہ سربیا کے وہ جنگ جُو ہیں، جو حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کرنے کی پاداش میں لٹکا دیے گئے۔

Load Next Story