کیا یہی حقیقت ہے
کسی بھی ملک کی ’آئی پی ‘ کو کسی اور ملک سے استعمال کرنا ممکن ہے۔
ISLAMABAD:
2009ء کے بعد سوشل میڈیا انقلاب نے صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ فیس بک، ٹوئیٹر، گوگل پلس، لکنڈان اور اس جیسی درجنوں سوشل میڈیا ویب سائٹس ہیں جہاں پر کروڑوں لوگ روزانہ کی بنیادوں پر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے آن لائن میڈیا کا ایک تصور اجاگر ہوا اور اب آن لائن میڈیا دیگر میڈیا سے زیادہ اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورکس، جیسا کہ فیس بک اور ٹوئیٹر وغیرہ پر اب 'مصدقہ پروفائل یا فین پیچ ' بھی میسر ہے۔
گزشتہ دنوں بھارتی اداکارعامر خان کا ایک انٹرویو سوشل میڈیا پر شائع ہوا اور اس کو پڑھتے ہی اُس کی صحت پر شک ہوا۔ اس کی صحت پر شک کرنے کی بنیادی وجہ انٹرویو میں موجود سوالات اوران کے جوابات تھے۔ اس انٹرویو میں پانچ حساس سوالات کے جیسے کھل کر جواب دیے گئے تھےاُس نے بھی اہل علم میں شک کا بیج بویا۔ بھارت جتنا مرضی بھی سیکولر ہوجائے لیکن وہ اپنی مسلم دشمنی سے انکار نہیں کرسکتا ہے اور اُس مبینہ انٹرویو میں جیسے اسلام کا دفاع کیا گیا تھا، وہی شک کی بنیاد بنا کہ بھارت جیسے ''بنیاد پرست'' ملک میں اس طرح سے اسلام کا دفاع کرنا ممکن نہیں ہے ۔
قصہ مختصر کہ یہ یہ انٹرویو انٹرنیٹ پر عام ہوا اور ہر ویب سائٹ نے بھیڑ چال کا حصہ بننے پر فخر محسوس کیا۔ یوں یہ انٹرویو جنگل میں آگ کی طرح سے پھیل گیا۔ اِس انٹرویو کا عامر خان نے نوٹس لیا اور ان کی لیگل ٹیم نے ''تحقیقات'' کے بعد اس با ت کا انکشاف کیا کہ یہ جھوٹا انٹرویو پاکستانی ویب سائٹس نے پھیلایا ہے اور مذکورہ اداکار نے ایسا کوئی بھی انٹرویو نہیں دیا ہے۔ عامر خان اس وقت امریکہ کے دور ے پر ہیں اور وہ ممبئی واپس آ کر مذکورہ ویب سائٹس کو لیگل نوٹس بھجوا ئیں گے ۔ اگر واقعی پاکستان کی کسی ویب سائٹ نے ایسا کیا ہے تو یہ اقدام قابل مذمت ہے اور اس کی قانون کے مطابق گرفت بھی ہونی چاہئے۔
فوٹو؛ پاکستان کی باتیں
میں نے جب صحافت میں قدم رکھا تو مجھے میرے سینئرز نے ایک بات سمجھائی کہ انٹرنیٹ پر موجود خبر کی باوثوق ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد اُس پر ردعمل کا اظہار کرنا، اگر ایسا کروگے تو شرمندگی سے بچ جاؤ گے ورنہ صفائیاں ہی دیتے رہ جاؤ گے۔ انٹر نیٹ کے عام استعمال نے بہت سے لوگوں کی اس ذریعہ تک رسائی ہوچکی ہے اور پاکستان سے بڑی تعداد میں ویب سائٹ چلائی جاتی ہیں جبکہ پاکستان کے ہمسائیہ افغانستان سے بھی ویب سائٹ چلائی جاتی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ویب سائٹ ہونے کے بعد کون سی خبر کس حد تک سچ ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہوتاہے۔
موجودہ دور میں اداروں کی اپنی ویب سائٹس ہوتی ہیں جس کی وجہ سے آسانی ہوگئی ہے کہ متعلقہ ادارے کے بارے میں درست خبر تک رسائی حاصل کی جائے۔ اس ضمن میں حکومت بھی روایتی نااہلی یا سُستی کا شکار ہے۔ حکومت سائبر کرائم کو روکنے کیلئے کافی اقدامات کرسکتی تھی لیکن ایسا تاحال نہیں ہوا ہے بلکہ اس ضمن میں کاغذی کارروائی بھی مکمل نہیں اور صرف ایک لولا لنگڑا ادارہ موجود ہے جس کے پاس اسٹاف تو موجود ہے لیکن مکمل ٹیکنالوجی موجود نہیں ۔
پاکستان میں انٹر نیٹ کے عام استعمال کے بعد اب حکومت کو بھی اس ضمن میں سنجیدہ ہونا چاہئے۔ اس وزارت میں اس میدان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی اچھی تنخواہوں اور پُرکشش مراعات پرخدمات حاصل کرنی چاہئے۔ چیک اینڈ بیلنس کا مربوط انتظام بنانا چاہئے کیونکہ یورپ ٹیکنالوجی اور پروفیشنل ہونے کے باوجود بھی سائبر کرائم سے محفوظ نہیں ہے، جب کہ پاکستان میں بھی سائبر کرائم کا آغاز ہو چکا ہے۔ سائبر کرائم کی بہت سی چیزیں ایف آئی اے اور پی ٹی اے کی عمل داری میں نہیں آتی ہیں اور قانون یہاں پر آ کر خاموش ہوجاتا ہے۔ لہذا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مربوط قانون سازی وقت کی ضرورت ہے ۔
دوسری طرف ایک اور پہلو بہت غور طلب ہے۔ کیا عامر خان کا متنازع انٹرویو واقعی کسی پاکستانی ویب سائٹ نے چلایا ہے؟ کہیں یہ پاکستان کو بد نام کرنے کی سازش تو نہیں ہے؟ میری اس تھیوری کی چند وجوہات ہیں۔ بھارت میں بی جے پی کی حکومت ہے جو پاکستان اور اسلام مخالفت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ہے اور یہ حکومت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ راج کمار ہیرانی ایک انٹرویو میں یہ کہ چکے ہیں کہ میں نے 'پی کے' کو پاکستا ن کیلئے بنایا ہے اور میں جلد پاکستان کا دورہ کروں گا۔ واضح رہے کہ ہیرانی کے اس بیان کے چند روز بعد متنازع انٹرویو انٹرنیٹ پر جاری ہوا تھا۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں ہیکنگ کرکے کچھ بھی کرنا ممکن ہے اور سافٹ وئیر کے ماہرین ہیکنگ کے ماہرین بھی سمجھے جاتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی 'آئی پی ' کو کسی اور ملک سے استعمال کرنا ممکن ہے۔ ماضی میں یہ خبریں منظرعام پر آچکی ہیں کہ اسرائیل نے عرب دنیا کی 'آئی پی ایڈریس' کو اسرائیل سے استعمال کرتے ہوئے عرب دنیا ہی کے خلاف پراپیگنڈہ کیا تھا۔ اسی طرح امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے آئی پی ایڈریس کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد کیلئے پراپیگنڈہ کیا ہے۔
کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو بد نام کرنے کیلئے کسی فرد یا ادارے نے یہ مذکورہ انٹرویو کو پاکستان کی آئی پی استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر پھیلایا ہو۔ جس ویب سائٹ پر الزام عائد ہوا ہے انہوں نے اس کو کسی اور ویب سائٹ سے کاپی کیا اور صرف ایک ویب سائٹ نے ایسا نہیں کیا بلکہ بہت سی دیگر ویب سائٹس نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ لہذا جس بھی ویب سائٹ نے ایسا کیا ہے قابل مذمت ہے اور ہم میں سے کوئی بھی ایسے جھوٹے پراپیگنڈے کا دفاع نہیں کر سکتاہے۔
اصل صورتحال تو کچھ دنوں میں واضح ہو ہی جائے گی۔ جس کسی نے بھی یہ خود ساختہ انٹرویو کرکے پھیلایا ہے اُس نے دین کی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔ پی کے ایک شاندار فلم ہے جو بھارت میں تمام تر مشکلات کے باوجود عوامی پذیرائی حاصل کررہی ہے۔ میں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھتا ہوں کہ حکومتی سطح پر سوشل میڈیا کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے مکمل قانون سازی ہونی چاہئے تاکہ مستقبل میں پاکستان ایسے مسائل سے بچ سکے اور اس کے گلے میں مزید بدنامی کا طو ق نہ آئے اور اگر کوئی سازشی تھیوری ہے بھی تو پاکستان اس کا مدلل جواب دے سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
2009ء کے بعد سوشل میڈیا انقلاب نے صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ فیس بک، ٹوئیٹر، گوگل پلس، لکنڈان اور اس جیسی درجنوں سوشل میڈیا ویب سائٹس ہیں جہاں پر کروڑوں لوگ روزانہ کی بنیادوں پر آتے ہیں۔ اسی وجہ سے آن لائن میڈیا کا ایک تصور اجاگر ہوا اور اب آن لائن میڈیا دیگر میڈیا سے زیادہ اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورکس، جیسا کہ فیس بک اور ٹوئیٹر وغیرہ پر اب 'مصدقہ پروفائل یا فین پیچ ' بھی میسر ہے۔
گزشتہ دنوں بھارتی اداکارعامر خان کا ایک انٹرویو سوشل میڈیا پر شائع ہوا اور اس کو پڑھتے ہی اُس کی صحت پر شک ہوا۔ اس کی صحت پر شک کرنے کی بنیادی وجہ انٹرویو میں موجود سوالات اوران کے جوابات تھے۔ اس انٹرویو میں پانچ حساس سوالات کے جیسے کھل کر جواب دیے گئے تھےاُس نے بھی اہل علم میں شک کا بیج بویا۔ بھارت جتنا مرضی بھی سیکولر ہوجائے لیکن وہ اپنی مسلم دشمنی سے انکار نہیں کرسکتا ہے اور اُس مبینہ انٹرویو میں جیسے اسلام کا دفاع کیا گیا تھا، وہی شک کی بنیاد بنا کہ بھارت جیسے ''بنیاد پرست'' ملک میں اس طرح سے اسلام کا دفاع کرنا ممکن نہیں ہے ۔
قصہ مختصر کہ یہ یہ انٹرویو انٹرنیٹ پر عام ہوا اور ہر ویب سائٹ نے بھیڑ چال کا حصہ بننے پر فخر محسوس کیا۔ یوں یہ انٹرویو جنگل میں آگ کی طرح سے پھیل گیا۔ اِس انٹرویو کا عامر خان نے نوٹس لیا اور ان کی لیگل ٹیم نے ''تحقیقات'' کے بعد اس با ت کا انکشاف کیا کہ یہ جھوٹا انٹرویو پاکستانی ویب سائٹس نے پھیلایا ہے اور مذکورہ اداکار نے ایسا کوئی بھی انٹرویو نہیں دیا ہے۔ عامر خان اس وقت امریکہ کے دور ے پر ہیں اور وہ ممبئی واپس آ کر مذکورہ ویب سائٹس کو لیگل نوٹس بھجوا ئیں گے ۔ اگر واقعی پاکستان کی کسی ویب سائٹ نے ایسا کیا ہے تو یہ اقدام قابل مذمت ہے اور اس کی قانون کے مطابق گرفت بھی ہونی چاہئے۔
فوٹو؛ پاکستان کی باتیں
میں نے جب صحافت میں قدم رکھا تو مجھے میرے سینئرز نے ایک بات سمجھائی کہ انٹرنیٹ پر موجود خبر کی باوثوق ذرائع سے تصدیق کرنے کے بعد اُس پر ردعمل کا اظہار کرنا، اگر ایسا کروگے تو شرمندگی سے بچ جاؤ گے ورنہ صفائیاں ہی دیتے رہ جاؤ گے۔ انٹر نیٹ کے عام استعمال نے بہت سے لوگوں کی اس ذریعہ تک رسائی ہوچکی ہے اور پاکستان سے بڑی تعداد میں ویب سائٹ چلائی جاتی ہیں جبکہ پاکستان کے ہمسائیہ افغانستان سے بھی ویب سائٹ چلائی جاتی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ویب سائٹ ہونے کے بعد کون سی خبر کس حد تک سچ ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہوتاہے۔
موجودہ دور میں اداروں کی اپنی ویب سائٹس ہوتی ہیں جس کی وجہ سے آسانی ہوگئی ہے کہ متعلقہ ادارے کے بارے میں درست خبر تک رسائی حاصل کی جائے۔ اس ضمن میں حکومت بھی روایتی نااہلی یا سُستی کا شکار ہے۔ حکومت سائبر کرائم کو روکنے کیلئے کافی اقدامات کرسکتی تھی لیکن ایسا تاحال نہیں ہوا ہے بلکہ اس ضمن میں کاغذی کارروائی بھی مکمل نہیں اور صرف ایک لولا لنگڑا ادارہ موجود ہے جس کے پاس اسٹاف تو موجود ہے لیکن مکمل ٹیکنالوجی موجود نہیں ۔
پاکستان میں انٹر نیٹ کے عام استعمال کے بعد اب حکومت کو بھی اس ضمن میں سنجیدہ ہونا چاہئے۔ اس وزارت میں اس میدان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی اچھی تنخواہوں اور پُرکشش مراعات پرخدمات حاصل کرنی چاہئے۔ چیک اینڈ بیلنس کا مربوط انتظام بنانا چاہئے کیونکہ یورپ ٹیکنالوجی اور پروفیشنل ہونے کے باوجود بھی سائبر کرائم سے محفوظ نہیں ہے، جب کہ پاکستان میں بھی سائبر کرائم کا آغاز ہو چکا ہے۔ سائبر کرائم کی بہت سی چیزیں ایف آئی اے اور پی ٹی اے کی عمل داری میں نہیں آتی ہیں اور قانون یہاں پر آ کر خاموش ہوجاتا ہے۔ لہذا ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مربوط قانون سازی وقت کی ضرورت ہے ۔
دوسری طرف ایک اور پہلو بہت غور طلب ہے۔ کیا عامر خان کا متنازع انٹرویو واقعی کسی پاکستانی ویب سائٹ نے چلایا ہے؟ کہیں یہ پاکستان کو بد نام کرنے کی سازش تو نہیں ہے؟ میری اس تھیوری کی چند وجوہات ہیں۔ بھارت میں بی جے پی کی حکومت ہے جو پاکستان اور اسلام مخالفت میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ہے اور یہ حکومت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ راج کمار ہیرانی ایک انٹرویو میں یہ کہ چکے ہیں کہ میں نے 'پی کے' کو پاکستا ن کیلئے بنایا ہے اور میں جلد پاکستان کا دورہ کروں گا۔ واضح رہے کہ ہیرانی کے اس بیان کے چند روز بعد متنازع انٹرویو انٹرنیٹ پر جاری ہوا تھا۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں ہیکنگ کرکے کچھ بھی کرنا ممکن ہے اور سافٹ وئیر کے ماہرین ہیکنگ کے ماہرین بھی سمجھے جاتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی 'آئی پی ' کو کسی اور ملک سے استعمال کرنا ممکن ہے۔ ماضی میں یہ خبریں منظرعام پر آچکی ہیں کہ اسرائیل نے عرب دنیا کی 'آئی پی ایڈریس' کو اسرائیل سے استعمال کرتے ہوئے عرب دنیا ہی کے خلاف پراپیگنڈہ کیا تھا۔ اسی طرح امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے آئی پی ایڈریس کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد کیلئے پراپیگنڈہ کیا ہے۔
کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو بد نام کرنے کیلئے کسی فرد یا ادارے نے یہ مذکورہ انٹرویو کو پاکستان کی آئی پی استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر پھیلایا ہو۔ جس ویب سائٹ پر الزام عائد ہوا ہے انہوں نے اس کو کسی اور ویب سائٹ سے کاپی کیا اور صرف ایک ویب سائٹ نے ایسا نہیں کیا بلکہ بہت سی دیگر ویب سائٹس نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ لہذا جس بھی ویب سائٹ نے ایسا کیا ہے قابل مذمت ہے اور ہم میں سے کوئی بھی ایسے جھوٹے پراپیگنڈے کا دفاع نہیں کر سکتاہے۔
اصل صورتحال تو کچھ دنوں میں واضح ہو ہی جائے گی۔ جس کسی نے بھی یہ خود ساختہ انٹرویو کرکے پھیلایا ہے اُس نے دین کی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔ پی کے ایک شاندار فلم ہے جو بھارت میں تمام تر مشکلات کے باوجود عوامی پذیرائی حاصل کررہی ہے۔ میں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھتا ہوں کہ حکومتی سطح پر سوشل میڈیا کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے مکمل قانون سازی ہونی چاہئے تاکہ مستقبل میں پاکستان ایسے مسائل سے بچ سکے اور اس کے گلے میں مزید بدنامی کا طو ق نہ آئے اور اگر کوئی سازشی تھیوری ہے بھی تو پاکستان اس کا مدلل جواب دے سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔