ہمارے بچے کس کے ہیں
یہ جو بچے ہم نے پیدا کیے ہیں آخر ہم ان سے پیار کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ کسی اور کے ہیں؟
برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں؟
یہ جو بچے ہم نے پیدا کیے ہیں واقعی ہمارے ہیں؟ عجیب سا سوال ہے نا؟ غصہ بھی آنا چاہیے ایسے سوالوں پر۔ چلیے میں آپ سے یہ بات کسی اور طرح سے پوچھتا ہوں۔
یہ جو بچے ہم نے پیدا کیے ہیں آخر ہم ان سے پیار کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ کسی اور کے ہیں؟ اب یہ مت کہئے گا کہ ہم انھیں گھر کی چھت دیتے ہیں، کھانا دیتے ہیں بیمار ہو جائیں تو ڈاکٹر کی طرف بھاگتے ہیں۔ ضدیں پوری کرتے ہیں، گھماتے پھراتے ہیں۔ ان کی الٹی سیدھی باتیں اور شرارتیں برداشت کرتے ہیں۔ ان کا منہ چومتے ہیں۔ یہ پریشان ہوں تو ہم بھی پریشان ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
مگر یہ تو سب ہی والدین کرتے ہیں۔ ہمارے والدین نے اپنے وسائل، سوچ اور حالات کے مطابق ہمارے ساتھ ایسا ہی حسن ِ سلوک کیا ہو گا اور ان کے والدین نے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہو گا۔ تو پھر ہم اپنے بچوں کے ساتھ الگ سے کیا اچھا کر رہے ہیں؟ ایسا کہ جس کے بارے میں ہم کل سب کے سامنے سینہ ٹھونک کے کہہ سکیں کہ یہ دیکھو یہ کیا۔۔۔
کیا اچھا کھانا پینا اور پہناوا دینے سے اور اچھے اسکول میں بھیج دینے کے بعد آپ کی ذمے داری نبھ گئی؟ اچھا یہ بتائیے۔ مجھے نہیں خود کو بتائیے کہ آپ اپنے بچوں کے ساتھ چوبیس گھنٹے میں کتنا کوالٹی ٹائم گزارتے ہیں۔ کوالٹی ٹائم یہ نہیں کہ آپ محض گھر میں پڑے رہیں اور جتلاتے رہیں کہ دیکھو میں تمہارے درمیان تمہارے ساتھ موجود ہوں۔ کوالٹی ٹائم سے مراد وہ وقت ہے جس میں بچہ آپ کو اور آپ بچے کو سمجھ سکیں۔ وہ تمام ادب و آداب ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے بلا جھجک آپ کے پاس آ سکے۔ آپ سے کوئی بھی بچگانہ و غیر بچگانہ بات شئیر کر سکے۔
اسے ایسا لگے کہ آپ ہوں ہاں کرتے ہوئے شیو کرنے یا اخبار کا صفحہ پلٹنے کے بجائے اس کی ہر بات توجہ سے سن رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسے بچگانہ پن کا احساس دلائے بغیر اور حوصلہ شکنی کیے بغیر کچھ نیا بھی بتا رہے ہیں، سکھا رہے ہیں۔ اسے ایسا لگے کہ آپ اس کے والدین تو ہیں ہی مگر پکے دوست بھی ہیں۔ اسے انتظار رہے کہ آپ اس سے پوچھیں گے کہ آج اسکول میں کیا ہوا؟ تمہاری انگلی میں چوٹ کیسے لگی؟ تم دبلے کیوں لگ رہے ہو؟ تمہارا بلا کیوں ٹوٹ گیا؟ کیا تمہیں نیا بلا چاہیے؟ کوئی نئی کہانی سناؤ جو تم نے اسکول میں سنی۔ پھر میں بھی تمہیں اپنے بچپن کی کہانی سناؤں گا۔ چلو کوئی اسکیچ بنا کے دکھاؤ۔ اگر اچھا بنایا تو انعام ملے گا؟ چلو گھر کی نوکرانی پر ایک صفحے کا مضمون لکھو؟ چلو کوئی کارٹون بناؤ اور پھر ہمیں سمجھاؤ کہ کیا بنایا ہے۔
ہاں آپ بہت مصروف ہیں؟ دفتر سے جب گھر آتے ہیں تو بدن ٹوٹا ہوا ہوتا ہے۔ صبح پھر جلدی گھر سے نکلنا ہے۔ یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے یوں کرنا ہے یوں نہیں کرنا ہے... لیکن مصروف تو آپ ان دنوں بھی تھے جب پہلا بچہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ حالات بدل گئے مگر آپ کی مصروفیت نہیں بدلی۔ اور یہ جو ہم کہتے ہیں نا کہ زندگی اتنی سفاک ہے کہ چاہیں بھی تو وقت نہیں نکلتا۔ اچھا تو آپ کے ابا اور ان کے ابا کو کوئی کام دھام نہیں تھا؟ آپ کی والدہ اور پھر ان کی والدہ بالکل فارغ تھیں؟ اگر یہی تھا تو پھر آپ کو اچھائی برائی میں تمیز کرنا کس نے سکھایا؟ ہمسایوں نے؟ آپ کے اندر انسانی ہمدردی کس نے کوٹ کوٹ کے بھری؟ گھر کے گھڑے بھرنے والے ماشکی نے؟ آپ کو قانون کا احترام یا اس سے ڈرنا کس نے سکھایا؟ محلے کے نانبائی نے؟ آپ کو کھانا کھانے کے آداب کس نے بتائے؟محلے کے پرچون فروش نے؟ آپ میں مطالعے کا ذوق کس نے پیدا کیا؟ سجو قصائی نے؟
کیا یہ آپ کے والدین نہیں تھے جنھوں نے یہ سب ایسے کیا کہ آپ کو محسوس تک نہ ہونے دیا؟ کیا انھیں آپ کی بچگانہ باتیں سن کے بوریت نہیں ہوتی ہو گی لیکن پھر بھی مسکراتے رہتے ہوں گے؟ کیا وہ ہزار بار آپ کے اس سوال پر جھنجلاتے نہ ہوں گے بابا یہ کیا ہے؟ اور بابا یہ تارہ آسمان پر ہی کیوں ہے؟ بابا بتائیں نا؟ بابا آپ بتاتے کیوں نہیں ہر وقت اخبار کیوں پڑھتے رہتے ہیں؟ ماما وہ کیا ہے؟ آپ بتاتی کیوں نہیں فون پر ہی کیوں باتیں کرتی رہتی ہیں۔ ہیں ماما۔ ہاں وہ سب بتاتے تھے۔ جتنا بھی انھیں معلوم تھا بتاتے تھے۔ کام کرتے ہوئے، کھانا پکاتے ہوئے، سر میں درد کے باوجود سب بتاتے تھے اور بار بار بتاتے تھے۔
لیکن ہم نے کیا کیا۔ ہم نے بس پیسے خرچ کیے کیونکہ ہمارے پاس ہمارے والدین سے زیادہ پیسے ہیں۔ اور اس پیسے سے ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ہر وہ کام آوٹ سورس کر دیا جو ہماری توجہ کا مستحق ہے۔ دس ہزار روپے مہینہ فیس دے کے سمجھ لیا کہ اب ہمارا بچہ بہترین تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ مولوی صاحب کو ڈھائی ہزار روپے مہینے پر رکھ کے فرض کر لیا کہ بچے کا دین تو سنور ہی جائے گا۔ اب اور کیا کریں بوریت سے بچنے کے لیے موبائیل فون تو لے دیا۔ بیٹھ کے تاریخ، جغرافیہ اور حالاتِ حاضرہ پر بات کرنیکی ضرورت کیا ہے، کتابوں میں دلچسپی نہیں لے رہا تو کیا ٹینشن ہے انٹر نیٹ ہے نا اس کے پاس۔
ارے بھئی کیا کریں آج کل تو سب ہی بچے دیر سے سوتے اور دیر سے جاگتے ہیں۔ ارے بھئی کیا کریں آج کل تو سب ہی بچے گروپ کی شکل میں مووی دیکھتے ہیں۔ اپنے کسی دوست کے ہاں ویک اینڈ پر جمع ہو جاتے ہیں۔ ایک ویک اینڈ ہی تو ہوتا ہے ان کے پاس اور ایک ویک اینڈ ہی تو ہوتا ہے ہمارے پاس بھی ہفتے بھر کے کام کی تھکن اتارنے اور آرام کے لیے۔ اچھا ہی ہے کہ بچے باہر رہتے ہیں۔ کم از کم انھیں زمانے کی اونچ نیچ تو پتہ چلتی رہتی ہے۔ ہم تو اس عمر میں بالکل بدھو تھے لیکن آج کے بچے کو یہ تو پتہ ہے کہ اسے آگے چل کے کیا کرنا ہے کیا بننا ہے۔ ٹھیک ہے یہ بچے ہم سے بے رخی برتتے ہیں، منہ پھٹ ہیں لیکن بھئی اب زمانہ بھی تو ایسا ہی ہے برداشت تو کرنا پڑتا ہے۔ کم از کم گھر میں آ کے سو تو جاتا ہے۔ اپنے کمرے میں ہی بند سہی گھر میں تو رہتا ہے۔
ذرا سوچئے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ آپ کا بچہ آپ کے لیے اور آپ اپنے بچے کے لیے ان حالات میں ایک گیجٹ سے زیادہ اور کیا ہیں؟
تو پھر سر پکڑ کے کیوں بیٹھ جاتے ہیں؟ جب ایک دن یہی بچہ غائب ہو جاتا ہے اور پھر اس کا فون آتا ہے کہ ماں میں آپ کو بتاتے بتاتے رہ گیا۔ ایک مجاہد سے ملاقات ہو گئی تھی۔ اب میں کشمیر میں ہوں میرے لیے دعا کرنا۔ اور ایک دن بیٹی کہتی ہے بابا میں آپ کو بہت کوشش کر کے بتا رہی ہوں۔ پلیز خفا نہ ہوئیے گا۔ میں جاوید سے شادی کر رہی ہوں۔ آپ اس سے ملیں گے تو خوش ہوں گے۔ اور ایک دن چھوٹے بیٹے کا خط آتا ہے ابا میں میانوالی جیل میں ہوں میرے دوستوں نے مجھے دھوکہ دے کر پھنسوا دیا۔ میں نے آپ سے بات کرنے کی بہت کوشش کی کاش آپ میری بات سن لیتے۔ کاش آپ کو تھوڑی سی فرصت ہوتی۔ میں تو ڈرتا ہی رہا بتانے سے کہیں آپ کو اور اماں کو شاک نہ پہنچے۔ اور پھر کسی روز چھوٹی بیٹی اچانک پھٹ پڑتی ہے۔ اماں، ابا! آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا جو اب اداس سی شکل بنائی ہوئی ہے۔
اور پھر آپ دونوں بوڑھا بوڑھی آپس میں ہی کہتے رہ جاتے ہیں۔ ہم سے کیا کمی رہ گئی تھی تربیت میں۔ ہم نے تو شہزادے شہزادیوں کی طرح پالا تھا۔ دنیاوی اور دینی تعلیم میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ کیا قصور کیا جس کی ایسی سزا مل رہی ہے۔ سامنے والے وکیل فاروقی کے بچے اتنے سعادت مند کیسے نکل آئے۔ وہ تو اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے۔ ساری زندگی کلرک ہی رہے اور ان کی بیوی کپڑے سیتی رہی۔ مگر ہم نے تو۔۔۔۔۔۔
اب بتائیے کہ یہ جو بچے ہم نے پیدا کیے ہیں واقعی ہمارے ہیں؟ اب تو ہمارے پاس وقت ہی وقت ہے اس لیے سوچ کے جواب دیجیے گا۔ مجھے نہیں۔ خود کو۔۔۔۔۔
یہ جو بچے ہم نے پیدا کیے ہیں واقعی ہمارے ہیں؟ عجیب سا سوال ہے نا؟ غصہ بھی آنا چاہیے ایسے سوالوں پر۔ چلیے میں آپ سے یہ بات کسی اور طرح سے پوچھتا ہوں۔
یہ جو بچے ہم نے پیدا کیے ہیں آخر ہم ان سے پیار کیوں نہیں کرتے؟ کیا یہ کسی اور کے ہیں؟ اب یہ مت کہئے گا کہ ہم انھیں گھر کی چھت دیتے ہیں، کھانا دیتے ہیں بیمار ہو جائیں تو ڈاکٹر کی طرف بھاگتے ہیں۔ ضدیں پوری کرتے ہیں، گھماتے پھراتے ہیں۔ ان کی الٹی سیدھی باتیں اور شرارتیں برداشت کرتے ہیں۔ ان کا منہ چومتے ہیں۔ یہ پریشان ہوں تو ہم بھی پریشان ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
مگر یہ تو سب ہی والدین کرتے ہیں۔ ہمارے والدین نے اپنے وسائل، سوچ اور حالات کے مطابق ہمارے ساتھ ایسا ہی حسن ِ سلوک کیا ہو گا اور ان کے والدین نے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہو گا۔ تو پھر ہم اپنے بچوں کے ساتھ الگ سے کیا اچھا کر رہے ہیں؟ ایسا کہ جس کے بارے میں ہم کل سب کے سامنے سینہ ٹھونک کے کہہ سکیں کہ یہ دیکھو یہ کیا۔۔۔
کیا اچھا کھانا پینا اور پہناوا دینے سے اور اچھے اسکول میں بھیج دینے کے بعد آپ کی ذمے داری نبھ گئی؟ اچھا یہ بتائیے۔ مجھے نہیں خود کو بتائیے کہ آپ اپنے بچوں کے ساتھ چوبیس گھنٹے میں کتنا کوالٹی ٹائم گزارتے ہیں۔ کوالٹی ٹائم یہ نہیں کہ آپ محض گھر میں پڑے رہیں اور جتلاتے رہیں کہ دیکھو میں تمہارے درمیان تمہارے ساتھ موجود ہوں۔ کوالٹی ٹائم سے مراد وہ وقت ہے جس میں بچہ آپ کو اور آپ بچے کو سمجھ سکیں۔ وہ تمام ادب و آداب ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے بلا جھجک آپ کے پاس آ سکے۔ آپ سے کوئی بھی بچگانہ و غیر بچگانہ بات شئیر کر سکے۔
اسے ایسا لگے کہ آپ ہوں ہاں کرتے ہوئے شیو کرنے یا اخبار کا صفحہ پلٹنے کے بجائے اس کی ہر بات توجہ سے سن رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسے بچگانہ پن کا احساس دلائے بغیر اور حوصلہ شکنی کیے بغیر کچھ نیا بھی بتا رہے ہیں، سکھا رہے ہیں۔ اسے ایسا لگے کہ آپ اس کے والدین تو ہیں ہی مگر پکے دوست بھی ہیں۔ اسے انتظار رہے کہ آپ اس سے پوچھیں گے کہ آج اسکول میں کیا ہوا؟ تمہاری انگلی میں چوٹ کیسے لگی؟ تم دبلے کیوں لگ رہے ہو؟ تمہارا بلا کیوں ٹوٹ گیا؟ کیا تمہیں نیا بلا چاہیے؟ کوئی نئی کہانی سناؤ جو تم نے اسکول میں سنی۔ پھر میں بھی تمہیں اپنے بچپن کی کہانی سناؤں گا۔ چلو کوئی اسکیچ بنا کے دکھاؤ۔ اگر اچھا بنایا تو انعام ملے گا؟ چلو گھر کی نوکرانی پر ایک صفحے کا مضمون لکھو؟ چلو کوئی کارٹون بناؤ اور پھر ہمیں سمجھاؤ کہ کیا بنایا ہے۔
ہاں آپ بہت مصروف ہیں؟ دفتر سے جب گھر آتے ہیں تو بدن ٹوٹا ہوا ہوتا ہے۔ صبح پھر جلدی گھر سے نکلنا ہے۔ یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے یوں کرنا ہے یوں نہیں کرنا ہے... لیکن مصروف تو آپ ان دنوں بھی تھے جب پہلا بچہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ حالات بدل گئے مگر آپ کی مصروفیت نہیں بدلی۔ اور یہ جو ہم کہتے ہیں نا کہ زندگی اتنی سفاک ہے کہ چاہیں بھی تو وقت نہیں نکلتا۔ اچھا تو آپ کے ابا اور ان کے ابا کو کوئی کام دھام نہیں تھا؟ آپ کی والدہ اور پھر ان کی والدہ بالکل فارغ تھیں؟ اگر یہی تھا تو پھر آپ کو اچھائی برائی میں تمیز کرنا کس نے سکھایا؟ ہمسایوں نے؟ آپ کے اندر انسانی ہمدردی کس نے کوٹ کوٹ کے بھری؟ گھر کے گھڑے بھرنے والے ماشکی نے؟ آپ کو قانون کا احترام یا اس سے ڈرنا کس نے سکھایا؟ محلے کے نانبائی نے؟ آپ کو کھانا کھانے کے آداب کس نے بتائے؟محلے کے پرچون فروش نے؟ آپ میں مطالعے کا ذوق کس نے پیدا کیا؟ سجو قصائی نے؟
کیا یہ آپ کے والدین نہیں تھے جنھوں نے یہ سب ایسے کیا کہ آپ کو محسوس تک نہ ہونے دیا؟ کیا انھیں آپ کی بچگانہ باتیں سن کے بوریت نہیں ہوتی ہو گی لیکن پھر بھی مسکراتے رہتے ہوں گے؟ کیا وہ ہزار بار آپ کے اس سوال پر جھنجلاتے نہ ہوں گے بابا یہ کیا ہے؟ اور بابا یہ تارہ آسمان پر ہی کیوں ہے؟ بابا بتائیں نا؟ بابا آپ بتاتے کیوں نہیں ہر وقت اخبار کیوں پڑھتے رہتے ہیں؟ ماما وہ کیا ہے؟ آپ بتاتی کیوں نہیں فون پر ہی کیوں باتیں کرتی رہتی ہیں۔ ہیں ماما۔ ہاں وہ سب بتاتے تھے۔ جتنا بھی انھیں معلوم تھا بتاتے تھے۔ کام کرتے ہوئے، کھانا پکاتے ہوئے، سر میں درد کے باوجود سب بتاتے تھے اور بار بار بتاتے تھے۔
لیکن ہم نے کیا کیا۔ ہم نے بس پیسے خرچ کیے کیونکہ ہمارے پاس ہمارے والدین سے زیادہ پیسے ہیں۔ اور اس پیسے سے ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ہر وہ کام آوٹ سورس کر دیا جو ہماری توجہ کا مستحق ہے۔ دس ہزار روپے مہینہ فیس دے کے سمجھ لیا کہ اب ہمارا بچہ بہترین تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ مولوی صاحب کو ڈھائی ہزار روپے مہینے پر رکھ کے فرض کر لیا کہ بچے کا دین تو سنور ہی جائے گا۔ اب اور کیا کریں بوریت سے بچنے کے لیے موبائیل فون تو لے دیا۔ بیٹھ کے تاریخ، جغرافیہ اور حالاتِ حاضرہ پر بات کرنیکی ضرورت کیا ہے، کتابوں میں دلچسپی نہیں لے رہا تو کیا ٹینشن ہے انٹر نیٹ ہے نا اس کے پاس۔
ارے بھئی کیا کریں آج کل تو سب ہی بچے دیر سے سوتے اور دیر سے جاگتے ہیں۔ ارے بھئی کیا کریں آج کل تو سب ہی بچے گروپ کی شکل میں مووی دیکھتے ہیں۔ اپنے کسی دوست کے ہاں ویک اینڈ پر جمع ہو جاتے ہیں۔ ایک ویک اینڈ ہی تو ہوتا ہے ان کے پاس اور ایک ویک اینڈ ہی تو ہوتا ہے ہمارے پاس بھی ہفتے بھر کے کام کی تھکن اتارنے اور آرام کے لیے۔ اچھا ہی ہے کہ بچے باہر رہتے ہیں۔ کم از کم انھیں زمانے کی اونچ نیچ تو پتہ چلتی رہتی ہے۔ ہم تو اس عمر میں بالکل بدھو تھے لیکن آج کے بچے کو یہ تو پتہ ہے کہ اسے آگے چل کے کیا کرنا ہے کیا بننا ہے۔ ٹھیک ہے یہ بچے ہم سے بے رخی برتتے ہیں، منہ پھٹ ہیں لیکن بھئی اب زمانہ بھی تو ایسا ہی ہے برداشت تو کرنا پڑتا ہے۔ کم از کم گھر میں آ کے سو تو جاتا ہے۔ اپنے کمرے میں ہی بند سہی گھر میں تو رہتا ہے۔
ذرا سوچئے کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ آپ کا بچہ آپ کے لیے اور آپ اپنے بچے کے لیے ان حالات میں ایک گیجٹ سے زیادہ اور کیا ہیں؟
تو پھر سر پکڑ کے کیوں بیٹھ جاتے ہیں؟ جب ایک دن یہی بچہ غائب ہو جاتا ہے اور پھر اس کا فون آتا ہے کہ ماں میں آپ کو بتاتے بتاتے رہ گیا۔ ایک مجاہد سے ملاقات ہو گئی تھی۔ اب میں کشمیر میں ہوں میرے لیے دعا کرنا۔ اور ایک دن بیٹی کہتی ہے بابا میں آپ کو بہت کوشش کر کے بتا رہی ہوں۔ پلیز خفا نہ ہوئیے گا۔ میں جاوید سے شادی کر رہی ہوں۔ آپ اس سے ملیں گے تو خوش ہوں گے۔ اور ایک دن چھوٹے بیٹے کا خط آتا ہے ابا میں میانوالی جیل میں ہوں میرے دوستوں نے مجھے دھوکہ دے کر پھنسوا دیا۔ میں نے آپ سے بات کرنے کی بہت کوشش کی کاش آپ میری بات سن لیتے۔ کاش آپ کو تھوڑی سی فرصت ہوتی۔ میں تو ڈرتا ہی رہا بتانے سے کہیں آپ کو اور اماں کو شاک نہ پہنچے۔ اور پھر کسی روز چھوٹی بیٹی اچانک پھٹ پڑتی ہے۔ اماں، ابا! آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا جو اب اداس سی شکل بنائی ہوئی ہے۔
اور پھر آپ دونوں بوڑھا بوڑھی آپس میں ہی کہتے رہ جاتے ہیں۔ ہم سے کیا کمی رہ گئی تھی تربیت میں۔ ہم نے تو شہزادے شہزادیوں کی طرح پالا تھا۔ دنیاوی اور دینی تعلیم میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ کیا قصور کیا جس کی ایسی سزا مل رہی ہے۔ سامنے والے وکیل فاروقی کے بچے اتنے سعادت مند کیسے نکل آئے۔ وہ تو اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی نہ کر سکے۔ ساری زندگی کلرک ہی رہے اور ان کی بیوی کپڑے سیتی رہی۔ مگر ہم نے تو۔۔۔۔۔۔
اب بتائیے کہ یہ جو بچے ہم نے پیدا کیے ہیں واقعی ہمارے ہیں؟ اب تو ہمارے پاس وقت ہی وقت ہے اس لیے سوچ کے جواب دیجیے گا۔ مجھے نہیں۔ خود کو۔۔۔۔۔