تم زندہ ہو

دنیا کا دستور ہے کہ والدین اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں، میرے بچے نے اپنی جان دے کر میرا نام رکھ دیا ہے۔

Amjadislam@gmail.com

وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی مجاہد کامران کا فون آیا کہ بہت سی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اس وقت ایک میٹنگ میں جمع ہیں اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ 16 جنوری صبح دس بجے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے نئے آڈیٹوریم میں سانحہ پشاور کے شہداء کی یاد میں ایک خصوصی پروگرام ہو گا ۔

جس میں تین چار ہزار طلبہ و طالبات، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے کچھ نمائندہ افراد مل کر اس عظیم قربانی کو ہدیۂ عقیدت پیش کریں گے۔ حکومت پنجاب نے کچھ شہید بچوں کے لواحقین کو خاص طور پر اس تقریب میں لانے کا اہتمام کیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی نظم کی صورت میں اس حوالے سے کچھ پڑھیں۔

انجینئرنگ یونیورسٹی کے وسیع و عریض آڈیٹوریم اور اس کی گیلریوں میں بلا شبہ تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی ۔ اسٹیج پر بھی خاصا ہجوم تھا۔ جو وائس چانسلر حضرات پہچانے جا سکے ان میں برادرم مجاہد کامران کے علاوہ ڈاکٹر نظام الدین (سابق وائس چانسلر گجرات یونیورسٹی اور حالیہ افسر HEC پنجاب) گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ڈاکٹر خلیل اور انجینئرنگ یونیورسٹی کے جنرل اکرم شامل تھے۔ پنجاب کے وزیر تعلیم رانا مشہود کے علاوہ ڈاکٹر خورشید رضوی، اداکار سہیل احمد، کرکٹرز اظہر علی اور ناصر جمشید، میڈیا پرسن عرفان اصغر اور گلوکارہ شازیہ منظور بھی نمایاں نظر آئے۔ ہمارے ساتھ والی نشستوں پر مختلف شہداء کے ارکان خاندان تشریف فرما تھے جن کا غم ان کے وجود کو اس طرح سے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا کہ ان سے نظر ملانا مشکل ہو رہا تھا۔

ان سب لوگوں نے اس واقعے اور اپنے جذبات کا اظہار جن لفظوں میں کیا ان کا ایک ایک حرف آنسوؤں میں ڈوبا ہوا تھا۔ خاص طور پر ان بچوں کے ایک استاد نواب دین کی بیوہ کی ہچکیاں تو کانوں میں تیروں کی طرح اتر رہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ شہید استاد نے بچوں کو بچانے کے لیے اپنا پورا جسم گولیوں سے چھلنی کروا لیا مگر آخر دم تک وہ قاتلوں کے سامنے دیوار کی صورت ڈٹا رہا۔ اس موقع پر گزشتہ برس کوہاٹ میں اپنی جان کا نذرانہ دے کر سیکڑوں ساتھی بچوں کی جان بچانے والے اعتزاز حسن شہید کے والد نے بھی خطاب کیا۔ یوں تو اس کا مختصر خطاب سارے کا سارا ہی انتہائی پر اثر اور دل کو چھونے والا تھا مگر اس کا ایک جملہ تو جیسے دل پر نقش ہو کر رہ گیا۔

اس نے کہا ''دنیا کا دستور ہے کہ والدین اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں، میرے بچے نے اپنی جان دے کر میرا نام رکھ دیا ہے''۔ایک ایسے بچے نے بھی خطاب کیا جو اپنے ساتھیوں کی لاشوں کے نیچے دب جانے کی وجہ سے قاتلوں کی نگاہوں سے اوجھل ہونے کے باعث بچ گیا تھا۔ اس کے بیان سے اتائید ہوئی کہ ان سنگدل اور بے درد قاتلوں نے کتنے اطمینان سے اور نشانے باندھ باندھ کے ان معصوم بچوں کو نہ صرف شہید کیا بلکہ اس کی تسلی بھی کرتے رہے کہ کوئی زندہ تو نہیں بچا۔ حکومت اور حزب اختلاف کی تمام جماعتوں اور پوری قوم نے اس سانحے کے ردعمل میں جس اتحاد، اتفاق اور عزم و ہمت کا ثبوت دیا ہے۔

اس کا تقاضا یہی ہے کہ ان دہشت گردوں کا مستقل علاج کرنے کے لیے مل جل کر لائحہ عمل تیار کیا جائے ۔ اگر کچھ لوگ، مذہب اور مدارس کے الفاظ کو ان کی موجودہ شکل میں تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں تو ان کو تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اصل بات مسئلے کا حل نکالنا ہے۔

کسی طرح کی ضد، ہٹ دھرمی یا پوائنٹ اسکورنگ نہیں۔ اس ضمن میں حکومت وقت کو زیادہ لچک دکھانے کی ضرورت ہے کہ اس کے اسی روایتی، ڈنگ ٹپاؤ اور اداروں کی غفلت اور غلط کاریوں کے چشم پوشی کے رویے کی وجہ سے ملک اور عوام پہلے ہی طرح طرح کے مسائل میں مبتلا ہیں جس کا تازہ ترین ثبوت پٹرول کے بحران کا شاخسانہ ہے۔ تادم تحریر سوائے چند مضحکہ خیز بے معنی اور زخموں پر نمک چھڑکنے والے بیانات کے حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ میری ذاتی رائے میں اس کی ایک اہم وجہ حکومت کا ریاستی ملازمین کو ریاست سے زیادہ اور اس سے پہلے حکومت کا وفادار ہونے پر مجبور کرنا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ من پسند اور تابعدار افسران کے بجائے ذمے دار اور باصلاحیت افسران کو کلیدی عہدوں پر فائز کیا جائے۔

میں نے اس موقع پر شہید بچوں اور ان کے لواحقین کے لیے ایک نظم پڑھی ہے۔ راحت فتح علی خان اور حنا نصراللہ کی آوازوں، عامر علی بگا کی موسیقی اور میاں یوسف صلاح الدین کی نگرانی میں ایک قویم نغمے کی شکل میں کمپوز اور ریکارڈ بھی کیا گیا ہے اور جو عنقریب ویڈیو ریکارڈنگ کے بعد پی ٹی وی پر پیش بھی کیا جائے گا جس کے ایم ڈی محمد مالک نے اس کی تیاری می غیر معمولی دلچسپی لی ہے۔ سو آخر میں وہ نظم درج کر رہا ہوں کہ بقول اقبال۔ یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر

(اس نظم کا بنیادی خیال اور استعادہ اس قرآنی آیت سے مستعار ہے کہ شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں)
جب تک دنیا باقی ہے تم زندہ ہو
اے میرے وطن کے شہزادو تم زندہ ہو

خوشبو کی طرح اے پھولو، تم زندہ ہو
ہر ماں کی پر نم آنکھوں میں
ہر باپ کے ٹوٹے خوابوں میں
ہر بہن کی الجھی سانوں میں
ہر بھائی کی بکھری یادوں میں
تم زندہ ہو۔ تم زندہ ہو
ہم تم کو بھول نہیں سکتے
یہ یاد ہی اب تو جیون ہے
ہر دل میں تمہاری خوشبو ہے
ہر آنکھ تمہارا مسکن ہے
جن کو بھی شہادت مل جائے
وہ لوگ امر ہو جاتے ہیں
یادوں کے چمن میں کھیلتے ہیں
خوشبو کا سفر ہو جاتے ہیں
تم بجھے نہیں ہو، روشن ہو
ہر دل کی تم ہی دھڑکن ہو
کل تک تو بس ایک ہی گھر کے باسی تھے
اب ہر اک گھر میں بستے ہو
تم زندہ ہو
اے میرے وطن کے شہزادو، تم زندہ ہو
Load Next Story