پشاور مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
ہمارے خیال میں اسے صدی بلکہ میلنیم کا پہلا واقعہ قرار دینا چاہیے۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمیں پھر ایک ایسی کرنٹ خبر مل گئی ہے جس پر لکھ کر ہم لوگوں کی یہ شکایت دور کر سکتے ہیں کہ ہم ''کرنٹ افیئر'' پر نہیں بولتے۔ تازہ ترین اور بالکل ہی نئی نویلی بھاپ اڑاتی ہوئی خبر۔ پہلے خبر کا خلاصہ پڑھ لیجیے جسے ہم اس صدی کا واحد ''سکُوپ'' بھی کہہ سکتے ہیں۔''پشاور میں انتظامیہ کی نااہلی سے ایک مرتبہ پھر بدترین ٹریفک جام، جی ٹی روڈ گھنٹوں بلاک، عوام کو شدید مشکلات کا سامنا''
اس سے زیادہ بڑا ''اسکوپ'' کوئی ہو سکتا ہے بلکہ اگر ہم اس خبر یا اسکوپ کا تجزیہ کریں تو اس ایک خبر میں بہت ساری انہونیاں تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوئی ہیں، مثلاً انتظامیہ کی نااہلی اور وہ بھی پشاور میں۔۔۔ نہیں نہیں نہیں یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔
پشاور کی انتظامیہ تو اتنی اہل ہے کہ ہم نے کئی بار بااختیار حکام کو مشورہ دیا ہے کہ پشاور کی ساری ان اور آؤٹ گزر گاہوں پر کوئی ''کالی چیز'' رکھی جائے تا کہ آنے والوں کی چشم بد سے انتظامیہ کی بے پناہ اہلیت کو نظر نہ لگے اور اچھا ہوا کہ اپنی بے پناہ اہلیت کی وجہ سے انتظامیہ نے ہمارا یہ مشورہ مان لیا ہے اور ان آؤٹ تو کیا، ہر سڑک پر پولیس والوں کو کھڑا کر دیا ہے اور یہ دوسری والی بات تو سراسر نئی ہے بلکہ ہمارے خیال میں اسے صدی بلکہ میلنیم کا پہلا واقعہ قرار دینا چاہیے۔
یعنی جی ٹی روڈ پر گھنٹوں بدترین ٹریفک جام، پشاور کے بوڑھے اور نوجوانوں کو تو چھوڑیئے اگر ایک دن کے بچے سے بھی پوچھا جائے تو وہ یہی بتائے گا کہ پشاور میں جی ٹی روڈ پر ''بدترین ٹریفک جام کبھی نہیں ہوا ہے'' ہاں اگر ''بد بد بدترین ترین'' کے بارے میں پوچھنا ہو تو خود جی ٹی روڈ ہی سے پوچھو بشرطیکہ کہ کہیں مل جائے، اس خبر کے اس ''گھنٹوں'' والی بات پر بھی ہمیں سخت اعتراض ہے، دنوں کو ''گھنٹے'' کہنا تو حساب اور گرامر کے لحاظ سے بھی غلط ہے بلکہ یہ بھی سراسر ایک نئی بات ہے کہ ''ٹریفک جام کی وجہ سے جی ٹی روڈ بلاک'' جی ٹی روڈ تو پہلے ہی سے سیمنٹ کے بلاک ڈال کر بلاک ہے تو بھلا ٹریفک جام کی کیا اوقات کہ بلاک کو بلاک کرے، حالانکہ یہ سیمنٹ کے بلاک ٹریفک جام یا روڈ بلاک کے لیے نہیں ڈالے گئے ہیں بلکہ اس سے ناآشنا اور نو واردوں کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ کونسا مقام عالیہ ہے، اس لیے ذرا آرام سے خاموشی سے سر جھکا کر گزریئے۔
دراصل یہ خبر یا سکُوپ کسی ایسے شخص نے لگائی ہے جسے معلوم ہی نہیں ہے کہ پشاور کیا ہے، کہاں ہے اور کس طرف کو ہے، کدھر ہے، اتنا بڑا اور نئے انکشافات سے بھرپور ''اسکوپ'' بنانے سے پہلے کم از کم کسی ایک پشاور والے سے تو پوچھ لیتا جو کہیں نہ کہیں، کسی گرد و غبار کے ڈھیر میں، کسی پل کے ملبے تلے، گاڑیوں کے دھوئیں میں یا کسی بھی چیک پوسٹ سیمنٹ کے کسی سلیب کے نیچے یا کسی پل کے بکھرے ہوئے ملبے تلے مل جاتا۔پھر وہ یاد آیا، یاد آیا کی دو چار دفعہ تکرار کرنے کے بعد اسے بتاتا کہ ہاں کچھ دھندلا دھندلا سا یاد ہے کہ اس نام کا ایک شہر کبھی یہاں ہوا تو کرتا تھا جسے لوگ ۔۔۔ یا بعض ''تخیل پرست لوگ'' عالم میں انتخاب اور پھولوں کا شہر بھی کہتے تھے۔
اگر ذرا محنتی قسم کے سو پچاس لوگ جدید مشینری سے لیس کر کے لگا دیے جائیں تو ممکن ہے آٹھ دس سال میں وہ شہر مرحوم ۔ طرح طرح کے احمقانہ منصوبوں دو سو دس فیصد جھوٹے بیانوں، بے مقصد اور شہر کے دشمنوں کے بنائے ہوئے پلوں کے ملبے، گندگی کے ڈھیروں ایک دوسرے کے اوپر چڑھی اور چپکی ہوئی گاڑیوں یا سڑکوں کے گڑھوں یا دکان داروں کی مقبوضہ فٹ پاتھوں کے نیچے اس کے کچھ ٹوٹے پھوٹے آثار مل جائیں۔ہمیں تو ایسا لگتا کہ یہ خبر یا اسکوپ یا بریکنگ نیوز جس کسی نے بھی چلائی ہے وہ سکھوں یا انگریزی دور کی کسی سو سالہ قبر سے نکلا تھا یا نکال دیا گیا ہو گا کیوں کہ اپنے پشاور کا تاریخی قبرستان بھی شہر کی سڑکوں کی طرح بڑی تیز رفتاری سے سکڑ رہا ہے ۔ ہمیں تو اس خبر یا اسکوپ یا بریکنگ نیوز سے ایسا لگا کہ پشاور شہر تو اب
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
خبر میں یہ جن جن ''صفات'' کا ذکر ہوا ہے جیسے انتظامیہ کی نااہلی بدترین ٹریفک جام، جی ٹی روڈ بلاک اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا، ان کے بارے میں بے خبر لوگوں (جیسا کہ اس خبر کا بنانے والا) کو بڑی غلط فہمیاں ہیں ان کا خیال ہے کہ پشاور نے یہ صفات اچانک اور ایک دم حاصل کی ہیں حالانکہ ان صفات کو حاصل کرنے میں ''حاصل کرنے والوں'' نے بہت زیادہ محنت کی ہے اور کافی عرصہ لگایا ہوا ہے، غالب کو بھی اس بات کا پتہ تھا اس لیے فرما چکے ہیں کہ
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے
نہ پوچھ نسخہ مرہم جراحت دل کا
کہ اس میں ریزہ الماس جزو اعظم ہے
مطلب یہ کہ بہت ساری حکومتوں کے بہت سارے دماغوں نے انتہائی محنت سے پشاور کی جھولی میں یہ صفات ڈالی ہیں خصوصاً مشرف دور کے گورنر افتخار حسین شاہ کے بعد جو عوامی جمہوری اسلامی قومی انصافی حکومتیں نازل ہوئیں تو انھوں نے اپنے نمائندے جو منتخب ماہرین بھی تھے لگائے سرکاری اداروں مثلاً ٹریفک پولیس، پی ڈی اے اور بلدیہ کو بھی ساتھ کر دیا اور ان سب نے مل کر دن رات محنت کی تب کہیں جا کر موجودہ صورتحال پیدا ہوئی یعنی بقول قابلؔ اجمیری
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
مطلب یہ کہ انتظامیہ کی نااہلی، بدترین ٹریفک جام، جی ٹی روڈ بلاک کے لیے کافی محنت کرنی پڑی۔
اس سے زیادہ بڑا ''اسکوپ'' کوئی ہو سکتا ہے بلکہ اگر ہم اس خبر یا اسکوپ کا تجزیہ کریں تو اس ایک خبر میں بہت ساری انہونیاں تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوئی ہیں، مثلاً انتظامیہ کی نااہلی اور وہ بھی پشاور میں۔۔۔ نہیں نہیں نہیں یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی۔
پشاور کی انتظامیہ تو اتنی اہل ہے کہ ہم نے کئی بار بااختیار حکام کو مشورہ دیا ہے کہ پشاور کی ساری ان اور آؤٹ گزر گاہوں پر کوئی ''کالی چیز'' رکھی جائے تا کہ آنے والوں کی چشم بد سے انتظامیہ کی بے پناہ اہلیت کو نظر نہ لگے اور اچھا ہوا کہ اپنی بے پناہ اہلیت کی وجہ سے انتظامیہ نے ہمارا یہ مشورہ مان لیا ہے اور ان آؤٹ تو کیا، ہر سڑک پر پولیس والوں کو کھڑا کر دیا ہے اور یہ دوسری والی بات تو سراسر نئی ہے بلکہ ہمارے خیال میں اسے صدی بلکہ میلنیم کا پہلا واقعہ قرار دینا چاہیے۔
یعنی جی ٹی روڈ پر گھنٹوں بدترین ٹریفک جام، پشاور کے بوڑھے اور نوجوانوں کو تو چھوڑیئے اگر ایک دن کے بچے سے بھی پوچھا جائے تو وہ یہی بتائے گا کہ پشاور میں جی ٹی روڈ پر ''بدترین ٹریفک جام کبھی نہیں ہوا ہے'' ہاں اگر ''بد بد بدترین ترین'' کے بارے میں پوچھنا ہو تو خود جی ٹی روڈ ہی سے پوچھو بشرطیکہ کہ کہیں مل جائے، اس خبر کے اس ''گھنٹوں'' والی بات پر بھی ہمیں سخت اعتراض ہے، دنوں کو ''گھنٹے'' کہنا تو حساب اور گرامر کے لحاظ سے بھی غلط ہے بلکہ یہ بھی سراسر ایک نئی بات ہے کہ ''ٹریفک جام کی وجہ سے جی ٹی روڈ بلاک'' جی ٹی روڈ تو پہلے ہی سے سیمنٹ کے بلاک ڈال کر بلاک ہے تو بھلا ٹریفک جام کی کیا اوقات کہ بلاک کو بلاک کرے، حالانکہ یہ سیمنٹ کے بلاک ٹریفک جام یا روڈ بلاک کے لیے نہیں ڈالے گئے ہیں بلکہ اس سے ناآشنا اور نو واردوں کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ کونسا مقام عالیہ ہے، اس لیے ذرا آرام سے خاموشی سے سر جھکا کر گزریئے۔
دراصل یہ خبر یا سکُوپ کسی ایسے شخص نے لگائی ہے جسے معلوم ہی نہیں ہے کہ پشاور کیا ہے، کہاں ہے اور کس طرف کو ہے، کدھر ہے، اتنا بڑا اور نئے انکشافات سے بھرپور ''اسکوپ'' بنانے سے پہلے کم از کم کسی ایک پشاور والے سے تو پوچھ لیتا جو کہیں نہ کہیں، کسی گرد و غبار کے ڈھیر میں، کسی پل کے ملبے تلے، گاڑیوں کے دھوئیں میں یا کسی بھی چیک پوسٹ سیمنٹ کے کسی سلیب کے نیچے یا کسی پل کے بکھرے ہوئے ملبے تلے مل جاتا۔پھر وہ یاد آیا، یاد آیا کی دو چار دفعہ تکرار کرنے کے بعد اسے بتاتا کہ ہاں کچھ دھندلا دھندلا سا یاد ہے کہ اس نام کا ایک شہر کبھی یہاں ہوا تو کرتا تھا جسے لوگ ۔۔۔ یا بعض ''تخیل پرست لوگ'' عالم میں انتخاب اور پھولوں کا شہر بھی کہتے تھے۔
اگر ذرا محنتی قسم کے سو پچاس لوگ جدید مشینری سے لیس کر کے لگا دیے جائیں تو ممکن ہے آٹھ دس سال میں وہ شہر مرحوم ۔ طرح طرح کے احمقانہ منصوبوں دو سو دس فیصد جھوٹے بیانوں، بے مقصد اور شہر کے دشمنوں کے بنائے ہوئے پلوں کے ملبے، گندگی کے ڈھیروں ایک دوسرے کے اوپر چڑھی اور چپکی ہوئی گاڑیوں یا سڑکوں کے گڑھوں یا دکان داروں کی مقبوضہ فٹ پاتھوں کے نیچے اس کے کچھ ٹوٹے پھوٹے آثار مل جائیں۔ہمیں تو ایسا لگتا کہ یہ خبر یا اسکوپ یا بریکنگ نیوز جس کسی نے بھی چلائی ہے وہ سکھوں یا انگریزی دور کی کسی سو سالہ قبر سے نکلا تھا یا نکال دیا گیا ہو گا کیوں کہ اپنے پشاور کا تاریخی قبرستان بھی شہر کی سڑکوں کی طرح بڑی تیز رفتاری سے سکڑ رہا ہے ۔ ہمیں تو اس خبر یا اسکوپ یا بریکنگ نیوز سے ایسا لگا کہ پشاور شہر تو اب
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
خبر میں یہ جن جن ''صفات'' کا ذکر ہوا ہے جیسے انتظامیہ کی نااہلی بدترین ٹریفک جام، جی ٹی روڈ بلاک اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا، ان کے بارے میں بے خبر لوگوں (جیسا کہ اس خبر کا بنانے والا) کو بڑی غلط فہمیاں ہیں ان کا خیال ہے کہ پشاور نے یہ صفات اچانک اور ایک دم حاصل کی ہیں حالانکہ ان صفات کو حاصل کرنے میں ''حاصل کرنے والوں'' نے بہت زیادہ محنت کی ہے اور کافی عرصہ لگایا ہوا ہے، غالب کو بھی اس بات کا پتہ تھا اس لیے فرما چکے ہیں کہ
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اک نگہہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے
نہ پوچھ نسخہ مرہم جراحت دل کا
کہ اس میں ریزہ الماس جزو اعظم ہے
مطلب یہ کہ بہت ساری حکومتوں کے بہت سارے دماغوں نے انتہائی محنت سے پشاور کی جھولی میں یہ صفات ڈالی ہیں خصوصاً مشرف دور کے گورنر افتخار حسین شاہ کے بعد جو عوامی جمہوری اسلامی قومی انصافی حکومتیں نازل ہوئیں تو انھوں نے اپنے نمائندے جو منتخب ماہرین بھی تھے لگائے سرکاری اداروں مثلاً ٹریفک پولیس، پی ڈی اے اور بلدیہ کو بھی ساتھ کر دیا اور ان سب نے مل کر دن رات محنت کی تب کہیں جا کر موجودہ صورتحال پیدا ہوئی یعنی بقول قابلؔ اجمیری
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
مطلب یہ کہ انتظامیہ کی نااہلی، بدترین ٹریفک جام، جی ٹی روڈ بلاک کے لیے کافی محنت کرنی پڑی۔