تعلیم کا اصل مقصد

تعلیم اس انداز سے بھی مفید ہونی چاہیے کہ اسے حاصل کرنے کے بعد تمام لوگ ایک دوسرے کی سلامتی کے ضامن بن جائیں۔

لفظ Education لاطینی لفظ Educatio سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے وہ علم جو کسی ذات سے وجود میں آئے۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے زبان و بیاں سے بھی ظاہر ہوسکتا ہے اور طرز عمل سے بھی کسی بھی طرح کی خود نمائی کی شکل میں ظاہر ہوسکتا ہے اس اعتبار سے تعلیم کا مطلب یہ نہیں ہے، جیسا کہ عام طورپر خیال کیا جاتا ہے، عام خیال یہ ہے کہ یہ وہ علم، تجربہ یا مشاہدہ ہے جو ایک شخص محض اپنی ذات تک محدود رکھتا ہے بلکہ علم تو وہ ہے جو کوئی شخص حاصل کرنے کے بعد اپنے معاشرے یا اپنی دنیا کے لوگوں کو بانٹے۔ اگر ایک تعلیم یافتہ آدمی اپنے علم کو فروغ نہیں دیتا یا اسے استعمال نہیں کرتا تو ہم اسے کسی بھی اعتبار سے تعلیم یافتہ نہیں کہہ سکتے۔

اس کے برعکس اگر وہ اپنے علم کو کام میں لائے اور دوسروں تک پہنچائے تو وہ اپنے گرد وپیش کے ماحول یعنی اپنے معاشرے اور اپنی دنیا کو سلامتی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اسے خوشیاں بھی دے سکتا۔جہاں تک تعلیم کی صحیح تعریف کا سوال ہے تو میری نظر میں تعلیم ایک ڈبل ایکشن پروگرام ہے، یعنی ایک ایسا طریقہ جس سے ہم کچھ حاصل کرتے ہیں اور دوسرا وہ جو ہم اوروں تک پہنچاتے ہیں۔ تعلیم لوگوں کے ماحول، حالات اور خود لوگوں کی ذات پر اثر انداز ہوتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم کی وجہ سے اعلیٰ اور ایماندار شہری پیدا ہوتے ہیں، جن سے معاشرہ فیضیاب ہوتا ہے۔

تعلیم اس انداز سے بھی مفید ہونی چاہیے کہ اسے حاصل کرنے کے بعد تمام لوگ ایک دوسرے کی سلامتی کے ضامن بن جائیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے دور میں تعلیم کی کیا اہمیت اور حقیقت ہے؟ آج کے دور میں تعلیم کا مطلب محض پیسہ کمانا ہے۔ اب اسے بنی نوع انسان کی بھلائی کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا۔ تعلیمی نظام میں بڑی خرابیوں اور پیچیدگیوں کے پیدا ہونے کے باوجود اب بھی موقع ہے کہ ہم تعلیم کو بامقصد اور مفید بنائیں۔اسکول کی زندگی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بچوں کو تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ ایک بچے کو پڑھانے کے لیے استاد کو خود بھی بچہ بننا پڑتا ہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ استاد اپنے ذاتی معاملات میں اتنا الجھا ہوا ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیشے سے انصاف نہیں کرپاتا، وہ بچوں کو اصل تعلیم نہیں دے پاتا بلکہ اپنا فائدہ پیش نظر رکھتا ہے۔

اس طرح کی تدریس پڑھائی بچوں کے سر سے گزر جاتی ہے وہ کچھ حاصل نہیں کرپاتے اور تعلیم کا حقیقی مقصد پورا نہیں ہوپاتا۔ ایک حقیقی استاد بچوں کے لیے شفقت، پیار اور محبت کا نمونہ ہوتا ہے، وہ بچوں کے دل و دماغ میں اتر جاتا ہے۔ اس کا مخصوص طریقہ ہی بچوں کو تعلیم کی طرف رغبت دلاتا ہے اور بچے خوشی خوشی لکھنے پڑھنے کے لیے راضی ہوجاتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ صحیح استاد اس بات پر بھرپور یقین رکھتا ہے کہ صحیح نتائج اسی وقت حاصل کیے جاسکتے ہیں، جب بچوں کو پیار اور شفقت سے سکھایا جائے۔ استاد کی کامیابی کا راز شفقت اور پیار میں ہی پوشیدہ ہے، نہ کہ بچوں کو ڈرا دھمکا کر پڑھانے میں!طلبہ کی زندگی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہوتی ہے۔


یعنی اسکول (مدرسہ) کی زندگی اور گھریلو زندگی یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور ساتھ ساتھ چلنے کے علاوہ ایک دوسرے پر انحصار بھی کرتے ہیں۔ گھر کی تعلیم کے لیے بے حد مفید ہوتی ہے یہی وہ تعلیم ہے جس کی بنیاد پر بچہ اسکول میں کامیاب یا ناکام ہوسکتا ہے اب تو یہ معمول بن چکا ہے کہ بچوں کے ذہنوں میں ان کے بساط سے زیادہ ٹھونس دیا جاتا ہے۔اسکولوں میں کنڈر گارٹن سے آگے تک باقاعدہ نصاب کا کوئی موثر اور عمدہ نظام نہیں ہے۔ جس طرح ایک ہی بار میں بہت سارے کھانے کھا لینا ممکن نہیں، اس طرح ایک ساتھ بہت سا علم دینا بھی ممکن نہیں۔پھر بات آتی ہے نصابی کتب کی! ان کتابوں میں تعلیمی مواد میں مطابقت ہونی چاہیے، یعنی اگلی جماعت میں جانے کے بعد بھی پچھلی جماعت میں پڑھائے گئے نصاب سے موافقت پیدا کرنی چاہیے۔ اس طرح طالب علم جب اگلی جماعت میں پہنچے گا تو اجنبیت محسوس نہیں کرے گا۔ اس چیز کا اطلاق دیگر مضامین پر بھی ہوا ہے۔

خاص طور سے ریاضی پر۔ سادہ سا حساب جس پر بچہ کے جی میں ہی عبور حاصل کرلیتا ہے۔ اس کو آسان سے مشکل کی طرف مرحلے وار لے جانا چاہیے۔ بچوں کو ریاضی یعنی حساب کا مضمون سب سے مشکل لگتا ہے باقی مضمون آسان محسوس ہوتے ہیں۔اکثر یہ ہوتا ہے کہ طلبہ پچھلے پڑھائے گئے سبق کے صرف ایک پہلو سے بھی مکمل طور پر فائدہ حاصل نہیں کرپاتے کہ استاد اگلا سبق شروع کرادیتا ہے، جو پچھلے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس طریقے سے جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ یہ ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو استاد سبق سے انصاف نہیں کرپاتا اور دوسرے طالب علم اسے سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ مثال کے طورپر کسی نظام کو صحیح طرح پڑھے اور سمجھے بغیر یہ ناممکن ہے کہ طالب علم اعشاری نظام کو سمجھ سکے! لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ طالب علم کی سمجھنے کی صلاحیت کے مطابق اسے پڑھایا جائے۔

استاد کا اہم ترین مقصد یہی ہونا چاہیے کہ طلبہ کے ذہن کو سمجھ کر احتیاط و مکمل طور سے پڑھائے، بجائے اس کے کہ ٹالے یہ مقاصد طریقہ تعلیم سے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔اسکول کے بعد کالج کی سطح کی تعلیم کا نمبر آتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب طالبعلم اپنی پسند کے کسی خاص شعبے یا پیشے کا علم حاصل کرتا ہے۔ اس مرحلے پر وقت کی اہمیت کا احساس ہر لمحے ذہن میں رہنا چاہیے اور کوئی بھی غیر اہم چیز پڑھانے سے بچنا چاہیے۔ حصول تعلیم کے دوران طالب علم کو یہ سہولت بھی ملنی چاہیے کہ وہ ہر طرح کے ذہنی دباؤ سے آزاد ہو۔ اس کی فکری، علمی اور فنی صلاحیتوں کو قید کرنا نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے طور پر اپنے ارد گرد کے لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح سے دوسروں پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے ہم جو کہتے ہیں یا کرتے ہیں وہ صرف ہمارے لیے ہی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کے لیے بھی اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور ضروری چیز تعلیمی ماحول ہے۔

اگر ماحول اخلاقی اور باوقار ہو تو مقاصد بہت جلد اور آسانی سے پورے ہوجاتے ہیں۔ زندگی میں علم اور اخلاق دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم کا مطلب ایسی تعلیم ہے جو طالبعلم کو ایک صحیح اور مکمل انسان بنادے۔ اس طرح کی تعلیم سے طلبہ کردار کے بھی اچھے بنتے ہیں اور ان کے اخلاق بھی سنور جاتے ہیں۔اگر ہم پوچھیں کہ کیا شہریوں کو لوٹنے کا عمل صحیح ہے؟ اس کا علم الاخلاق یہ جواب دیتا ہے کہ ایک آدمی لوٹتا ہے اور بھاگ جاتا ہے اور دوسری بار دوسرا آدمی بھی اس کی تقلید کرتا ہے تو پھر معاشرے کا ہر فرد یہی کرنے لگے گا اور یہ برا کام زندگی کا ایک معمول بن جائے گا۔ اس صورت میں معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہوجائے گا۔ لہٰذا ضابطہ زندگی یا طرز عمل جو مجوعی طور پر قابل اطلاق نہیں ہوتا، انفرادی طور پر بھی نہیں ہوسکتا۔ تعلیم کو معزز مقام دیاجانا چاہیے۔ استاد کی عزت کرنی چاہیے۔ اس معزز پیشے کا احترام کرنا چاہیے، کیوں کہ ازل سے یہ ہستی اور پیشہ معزز اور مقدس ہے۔
Load Next Story