یہ چنگاری اور اپنی خاکستر
آغازِ اسلام میں قرآن وحدیث ، فقہ وہیت ،علم الانساب ،خوشنویسی وغیرہ شامل نصاب تھے۔
WASHINGTON:
اسلام نے جو آئیڈیالوجی پیش کی وہ زندگی کے تمام شعبوں ، سیاست ، اخلاقیات، معاشرت ، معاشیات اور تعلیم پر محیط ہے۔آج اسلامی نظریہ حیات دورِ جدید کے دو بڑے نظریات اشتراکت اور سرمایہ دارانہ کے سامنے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ مسلم ممالک جدید تعلیم کے حصول کے بجائے دفاع کے لیے زائد سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ دہرے نظام تعلیم کی وجہ سے مسلمان دورِ جدید کے علمی تقاضوں سے خود دورنہیں ہوا بلکہ سوچی سمجھی سازش کے تحت دور کرا دیا گیا۔
آغازِ اسلام میں قرآن وحدیث ، فقہ وہیت ،علم الانساب ،خوشنویسی وغیرہ شامل نصاب تھے۔نبی اکرم ﷺ کے دور میں عربی زبان اور قرآن مجید نصاب کا حصہ تھے ۔ خلفائے راشدین کے دور میںتفسیر، حدیث، علم الانساب ، اسماء الرجال ،عربی محاوارت اور جغرافیہ شامل تھے ۔ عباسی دور تک پہنچتے پہنچتے نصا ب ِ تعلیم قرآن، قرات وتفسیر، فقہ،خطاطی،جغرافیہ، تاریخ، ریاضی، ، علم نجوم ، نظم ، گرامر، کیمیا، فن تعمیر،سنگ تراشی ، عسکری فنون،صنعتی فنون اور فن خطابت شامل ہوگئے۔
جب اسلامی سلطنت وسیع ہوئیں تو مساجد کے ساتھ مکاتب نے لے لی۔امام غزالی پہلے مفکر تھے جنھوں نے لازمی اور اختیاری ،مضامین کے تصور سے آشنا کیا اور علوم شرعیہ کے ساتھ علوم دنیویہ کو شامل نصاب کرکے فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو باقاعدہ رواج دیا۔بابائے عمرانیات ابن خلدون نے علوم کی دوقسمیںدیں۔پہلے طبعی علوم یا علوم عقلیہ ،طبعی علم میں منطق،حساب، ہیت، موسیقی،طبیعات، الہیات دوسرے تقلیدی علم یا علوم نقلیہ میں تفسیر ، قرات ،حدیث ، فقہ، اصول فقہ ، علم الکلام ، لغت ، صرف ونحو اور ادب کے ساتھ پیشہ ورانہ علوم مثلا موسیقی ،مصری، نقاشی ،فن حرب وغیرہ بھی نصاب میں تجویز کیے۔غزنوی عہد کے دوسو برس (976 ء تا 1186 ء)میں ماورا النہر (توران) اصفہان وشیراز اور دوسرے علمی مراکز سے عالموں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی۔
جن میں ابو ریحان البیرونی، فردوسی، عنصری، فرخی،مسعود ، سعد سلیمان اور عسجدی قابل ذکر ہیں۔ مساجد کے ساتھ مدارس کی تعمیر مسلم حکمرانوں کی روایت رہی ہے ۔ محمود غزنوی نے عظیم الشان کتب خانہ تعمیر کرایا اگر یہ مدرسہ علاؤ الدین جہاں سوزکی آگ سے جل کر تباہ نہ ہوتا تو یقینا اس کی اہمیت آج کے جامعہ ازہر سے بڑھ کر ہوتی۔سلاطین دہلی کے عہد میں بھی کثرت سے مساجد و مدارس تعمیر ہوئے۔ ''محمد تغلق نے شہر دہلی آباد کیا تو اس نے مدرسے اور مساجد بھی تعمیر کیں۔تغلق دور کا سب اہم مدرسہ ''مدرسہ فیروز شاہی'' تھا۔یہ ایک عظیم الشان ہندوستان کی پہلی تکنیکی تعلیم کا کامیاب تجربہ تھا۔ جہاں تفسیر ، حدیث ، فقہ ،فلسفہ، ہئیت اور ریاضی کے علیحدہ شعبہ جات تھے۔فیروز شاہ نے ہندوستان، توران، خراسان اور بلاد اسلامیہ سے طبیبوں کی ایک ایسی جماعت کو یکجا کیا جنھوں نے فن طب پر مستند کتاب مرتب کی جو طب سکندری کہلائی۔
جون پور فیروز تغلق کے نام پر آباد علم و فن کا اہم مرکز بنا۔ مغلیہ اکبر دور میں ابوالفضل نے نصاب کی جو تفصیل لکھی ہے۔ اس کے مطابق علم الحساب ، علم الہندسہ،فن زراعت، علم المساحت،علم ہیت،رمل، معاشیات،انتظام ملکی، طبیعات، منطق، ریاضیات، الہیات اور تاریخ کے شعبوں میں ہندو مسلم ملکر تعلیم حاصل کرتے تھے۔سر سید احمد خان کے علی گڑھ دارالعلوم کو قائد اعظم نے اسلامی ہند کا اسلحہ خانہ اور اس کے طلبہ کو بہترین سپاہی قرار دیا تھا۔
انگریزوں نے دہرا نظام تعلیم متعارف کرایا جس کی وجہ سے مسلمان دور جدید کے تقاضوں کے مطابق خود کو جلد نہیں ڈھال سکے ۔
موجودہ دور میں اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بعض مذہبی جماعتیں اپنے تحٖفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ وہاں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ قوم کی یکجہتی کو سانحہ پشاور میں معصوم بچوں کی شہادتوں کے نتیجے میں جو ایک صفحے پر متفق ہوئے تھے ۔
اس کا رخ مدارس کی جانب موڑا جا رہا ہے حکومت کی سست روی کی عادات ثانیہ کی وجہ سے تحفظات دور کرنے کے لیے ایک بار پھر حساس معاملے پر وفاق المدارس ، مذہبی جماعتوں اور وکلا بار کونسلوں کو مطمئن کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
چیدہ چیدہ نامور چھوٹے بڑے مدارس کے مقابل ایک ادارہ مجلس صوت اسلام پاکستان،ماضی و مستقبل کی طرز تعلیم کا حسین امتزاج ہے۔براعظم ایشیا میں طلبہ سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے اور طلبا کے حقوق کی جنگ لڑنے والے ادارے نے مجلس صوت اسلام پاکستان کی طلبہ سرگرمیوں اور بالخصوص تقریری مقابلوں کی تقاریب کو ''ایشیا کی تیسری بڑی '' طلبہ کی سرگرمی قرار دیا۔ایشین ڈیبٹنگ ویب سائٹ ( Asian debatingweb site) کے نمائندے نے لکھا کہ تین سالوں میں طلبا نے بہت ہی قابل اعتماد تقاریر کیں اور اس مقابلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں پورے ملک سے جید علما ء کو بھی مدعو اور کامیاب طلبا کے لیے خطیر رقم انعام میں دی جاتی ہے۔
جس سے طلبا میں حوصلہ افزائی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔مجلس صوت اسلام پاکستان کے تذکرے کی ایک اہم وجہ یہاں کا نظام تعلیم ہے، تربیت علما کے کورس میں تخصیص فی الدعوۃ و الارشاد ، صحافت کورس و جغرافیہ کمپوئٹر سائنس و عمرانیات ، اسلامک بینکنگ کورس انگلش اور عربک لینگویج کورس اور فن خطابت اور اسلوب بیان قابل ذکر ہیں اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں مجلس صوت اسلام پاکستان کے زیر اہتمام پاکستان کے تمام رجسٹرڈ مدارس میں زیر تعلیم طلبا کے درمیان کنویشن سینٹر اسلام آباد کی ایک پر وقار تقریب میں ایک تقریری مقابلہ کا اہتمام کیا گیا، تقریب میں راقم نے بھی شرکت کی ،قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس قسم کی اجتہادی تقاریب کا اہتمام بڑے منظم انداز میں پہلی بار کیا گیا۔
جس میں کسی مسلک ، سنی ، شیعہ کی تفریق کے بغیر وفاقی بین المدارس کے منظور شدہ مملکت کے مدارس میں زیر تعلیم مستقبل کے تمام ممکنہ خطیبوں کے مقررہ موضوعات پر مدلل خطابات نے تحیر و متاثر کر دیا۔ جب مستقبل کے ذہین نوجوان طلبا خطیبوں نے تقاریر کیں تو میرے دل میں ایک بے ساختہ آرزو اٹھی کہ کاش ہمارا الیکڑونک میڈیا اس پروگرام کی مناسب اور تقاریر کی مکمل کوریج دیتا تو عالم دنیا میں مدارس کے حوالے سے جو غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے وہ کسی حد تک دور ہوسکتی تھی۔ مجلس صوت اسلام پاکستان کے امیرمفتی ابوہریر ہ محی الدین، نائب رئیس جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی ہیںاور دلچسپ بات یہ ہے کہ تنظیم میں امیر کے علاوہ مزید کوئی عہدے نہیں ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیم مکمل غیر سیاسی ایک ایسی تبلیغی جماعت ہے۔
جس کی ترجیحات میں عصری تعلیم کی بڑی اہمیت ہے جہاں دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے اور دیگر سیاسی یا مذہبی جمہوری جماعتوں یا تنظیموں کے بالکل برعکس پالیسی کے تحت کسی قسم کے احتجاجی مظاہروں کا حصہ نہیں بنتی بلکہ ان کے مدارس سے فارغ التحصیل عالم جہاںمذہبی تعلیم کے ماہر ہوتے ہیں تو دوسری جانب عصری جدید تعلیم سے آگاہی کے سبب مسلم امہ کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈوں کا جواب تشدد کے بجائے علم ، دلیل اور برداشت کے ساتھ مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں اور اپنی رائے کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
یہی اس جامعہ کی دیگر خدمات کے علاوہ دوسروں سے منفرد بلاخوف خصوصیت ہے اور ملکی مدارس کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں سمیت خود کو سب سے پہلے احتساب کے لیے پیش کرنے کی پیشکش اور مملکت کے آئین کو تسلیم کرنے کے ساتھ ملک میں جاری دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف عسکری قوت اور پارلیمنٹ کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔تقریب میں شریک میجر(ر) عامر کے بقول کہ میرے جسد مایوسی میں آج ایک قابل اعتماد احساس ویقین پیدا اور مردہ جسم میں روح پھونک دی گئی ہے ۔ خواجہ خان محمد ، مفتی نظام الدین شہید ، مولانا حسن جان جیسے اکابرین کے مشورے سے مجلس صوت اسلام نے علمی کام کا آغاز کیا اور اب جید علما اس کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عالمی گلیپ سروے میں مجلس صوت اسلام کو طلبا سرگرمیوں کے حوالے سے ایشیا میں تیسرا نمبر دیا گیا جو تقلید و تعریف اور حوصلہ افزائی کے قابل ہے۔
اسلام نے جو آئیڈیالوجی پیش کی وہ زندگی کے تمام شعبوں ، سیاست ، اخلاقیات، معاشرت ، معاشیات اور تعلیم پر محیط ہے۔آج اسلامی نظریہ حیات دورِ جدید کے دو بڑے نظریات اشتراکت اور سرمایہ دارانہ کے سامنے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ مسلم ممالک جدید تعلیم کے حصول کے بجائے دفاع کے لیے زائد سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ دہرے نظام تعلیم کی وجہ سے مسلمان دورِ جدید کے علمی تقاضوں سے خود دورنہیں ہوا بلکہ سوچی سمجھی سازش کے تحت دور کرا دیا گیا۔
آغازِ اسلام میں قرآن وحدیث ، فقہ وہیت ،علم الانساب ،خوشنویسی وغیرہ شامل نصاب تھے۔نبی اکرم ﷺ کے دور میں عربی زبان اور قرآن مجید نصاب کا حصہ تھے ۔ خلفائے راشدین کے دور میںتفسیر، حدیث، علم الانساب ، اسماء الرجال ،عربی محاوارت اور جغرافیہ شامل تھے ۔ عباسی دور تک پہنچتے پہنچتے نصا ب ِ تعلیم قرآن، قرات وتفسیر، فقہ،خطاطی،جغرافیہ، تاریخ، ریاضی، ، علم نجوم ، نظم ، گرامر، کیمیا، فن تعمیر،سنگ تراشی ، عسکری فنون،صنعتی فنون اور فن خطابت شامل ہوگئے۔
جب اسلامی سلطنت وسیع ہوئیں تو مساجد کے ساتھ مکاتب نے لے لی۔امام غزالی پہلے مفکر تھے جنھوں نے لازمی اور اختیاری ،مضامین کے تصور سے آشنا کیا اور علوم شرعیہ کے ساتھ علوم دنیویہ کو شامل نصاب کرکے فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم کو باقاعدہ رواج دیا۔بابائے عمرانیات ابن خلدون نے علوم کی دوقسمیںدیں۔پہلے طبعی علوم یا علوم عقلیہ ،طبعی علم میں منطق،حساب، ہیت، موسیقی،طبیعات، الہیات دوسرے تقلیدی علم یا علوم نقلیہ میں تفسیر ، قرات ،حدیث ، فقہ، اصول فقہ ، علم الکلام ، لغت ، صرف ونحو اور ادب کے ساتھ پیشہ ورانہ علوم مثلا موسیقی ،مصری، نقاشی ،فن حرب وغیرہ بھی نصاب میں تجویز کیے۔غزنوی عہد کے دوسو برس (976 ء تا 1186 ء)میں ماورا النہر (توران) اصفہان وشیراز اور دوسرے علمی مراکز سے عالموں کی بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی۔
جن میں ابو ریحان البیرونی، فردوسی، عنصری، فرخی،مسعود ، سعد سلیمان اور عسجدی قابل ذکر ہیں۔ مساجد کے ساتھ مدارس کی تعمیر مسلم حکمرانوں کی روایت رہی ہے ۔ محمود غزنوی نے عظیم الشان کتب خانہ تعمیر کرایا اگر یہ مدرسہ علاؤ الدین جہاں سوزکی آگ سے جل کر تباہ نہ ہوتا تو یقینا اس کی اہمیت آج کے جامعہ ازہر سے بڑھ کر ہوتی۔سلاطین دہلی کے عہد میں بھی کثرت سے مساجد و مدارس تعمیر ہوئے۔ ''محمد تغلق نے شہر دہلی آباد کیا تو اس نے مدرسے اور مساجد بھی تعمیر کیں۔تغلق دور کا سب اہم مدرسہ ''مدرسہ فیروز شاہی'' تھا۔یہ ایک عظیم الشان ہندوستان کی پہلی تکنیکی تعلیم کا کامیاب تجربہ تھا۔ جہاں تفسیر ، حدیث ، فقہ ،فلسفہ، ہئیت اور ریاضی کے علیحدہ شعبہ جات تھے۔فیروز شاہ نے ہندوستان، توران، خراسان اور بلاد اسلامیہ سے طبیبوں کی ایک ایسی جماعت کو یکجا کیا جنھوں نے فن طب پر مستند کتاب مرتب کی جو طب سکندری کہلائی۔
جون پور فیروز تغلق کے نام پر آباد علم و فن کا اہم مرکز بنا۔ مغلیہ اکبر دور میں ابوالفضل نے نصاب کی جو تفصیل لکھی ہے۔ اس کے مطابق علم الحساب ، علم الہندسہ،فن زراعت، علم المساحت،علم ہیت،رمل، معاشیات،انتظام ملکی، طبیعات، منطق، ریاضیات، الہیات اور تاریخ کے شعبوں میں ہندو مسلم ملکر تعلیم حاصل کرتے تھے۔سر سید احمد خان کے علی گڑھ دارالعلوم کو قائد اعظم نے اسلامی ہند کا اسلحہ خانہ اور اس کے طلبہ کو بہترین سپاہی قرار دیا تھا۔
انگریزوں نے دہرا نظام تعلیم متعارف کرایا جس کی وجہ سے مسلمان دور جدید کے تقاضوں کے مطابق خود کو جلد نہیں ڈھال سکے ۔
موجودہ دور میں اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بعض مذہبی جماعتیں اپنے تحٖفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ وہاں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ قوم کی یکجہتی کو سانحہ پشاور میں معصوم بچوں کی شہادتوں کے نتیجے میں جو ایک صفحے پر متفق ہوئے تھے ۔
اس کا رخ مدارس کی جانب موڑا جا رہا ہے حکومت کی سست روی کی عادات ثانیہ کی وجہ سے تحفظات دور کرنے کے لیے ایک بار پھر حساس معاملے پر وفاق المدارس ، مذہبی جماعتوں اور وکلا بار کونسلوں کو مطمئن کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
چیدہ چیدہ نامور چھوٹے بڑے مدارس کے مقابل ایک ادارہ مجلس صوت اسلام پاکستان،ماضی و مستقبل کی طرز تعلیم کا حسین امتزاج ہے۔براعظم ایشیا میں طلبہ سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے اور طلبا کے حقوق کی جنگ لڑنے والے ادارے نے مجلس صوت اسلام پاکستان کی طلبہ سرگرمیوں اور بالخصوص تقریری مقابلوں کی تقاریب کو ''ایشیا کی تیسری بڑی '' طلبہ کی سرگرمی قرار دیا۔ایشین ڈیبٹنگ ویب سائٹ ( Asian debatingweb site) کے نمائندے نے لکھا کہ تین سالوں میں طلبا نے بہت ہی قابل اعتماد تقاریر کیں اور اس مقابلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں پورے ملک سے جید علما ء کو بھی مدعو اور کامیاب طلبا کے لیے خطیر رقم انعام میں دی جاتی ہے۔
جس سے طلبا میں حوصلہ افزائی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔مجلس صوت اسلام پاکستان کے تذکرے کی ایک اہم وجہ یہاں کا نظام تعلیم ہے، تربیت علما کے کورس میں تخصیص فی الدعوۃ و الارشاد ، صحافت کورس و جغرافیہ کمپوئٹر سائنس و عمرانیات ، اسلامک بینکنگ کورس انگلش اور عربک لینگویج کورس اور فن خطابت اور اسلوب بیان قابل ذکر ہیں اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں مجلس صوت اسلام پاکستان کے زیر اہتمام پاکستان کے تمام رجسٹرڈ مدارس میں زیر تعلیم طلبا کے درمیان کنویشن سینٹر اسلام آباد کی ایک پر وقار تقریب میں ایک تقریری مقابلہ کا اہتمام کیا گیا، تقریب میں راقم نے بھی شرکت کی ،قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس قسم کی اجتہادی تقاریب کا اہتمام بڑے منظم انداز میں پہلی بار کیا گیا۔
جس میں کسی مسلک ، سنی ، شیعہ کی تفریق کے بغیر وفاقی بین المدارس کے منظور شدہ مملکت کے مدارس میں زیر تعلیم مستقبل کے تمام ممکنہ خطیبوں کے مقررہ موضوعات پر مدلل خطابات نے تحیر و متاثر کر دیا۔ جب مستقبل کے ذہین نوجوان طلبا خطیبوں نے تقاریر کیں تو میرے دل میں ایک بے ساختہ آرزو اٹھی کہ کاش ہمارا الیکڑونک میڈیا اس پروگرام کی مناسب اور تقاریر کی مکمل کوریج دیتا تو عالم دنیا میں مدارس کے حوالے سے جو غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے وہ کسی حد تک دور ہوسکتی تھی۔ مجلس صوت اسلام پاکستان کے امیرمفتی ابوہریر ہ محی الدین، نائب رئیس جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی ہیںاور دلچسپ بات یہ ہے کہ تنظیم میں امیر کے علاوہ مزید کوئی عہدے نہیں ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیم مکمل غیر سیاسی ایک ایسی تبلیغی جماعت ہے۔
جس کی ترجیحات میں عصری تعلیم کی بڑی اہمیت ہے جہاں دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے اور دیگر سیاسی یا مذہبی جمہوری جماعتوں یا تنظیموں کے بالکل برعکس پالیسی کے تحت کسی قسم کے احتجاجی مظاہروں کا حصہ نہیں بنتی بلکہ ان کے مدارس سے فارغ التحصیل عالم جہاںمذہبی تعلیم کے ماہر ہوتے ہیں تو دوسری جانب عصری جدید تعلیم سے آگاہی کے سبب مسلم امہ کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈوں کا جواب تشدد کے بجائے علم ، دلیل اور برداشت کے ساتھ مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں اور اپنی رائے کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
یہی اس جامعہ کی دیگر خدمات کے علاوہ دوسروں سے منفرد بلاخوف خصوصیت ہے اور ملکی مدارس کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں سمیت خود کو سب سے پہلے احتساب کے لیے پیش کرنے کی پیشکش اور مملکت کے آئین کو تسلیم کرنے کے ساتھ ملک میں جاری دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف عسکری قوت اور پارلیمنٹ کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔تقریب میں شریک میجر(ر) عامر کے بقول کہ میرے جسد مایوسی میں آج ایک قابل اعتماد احساس ویقین پیدا اور مردہ جسم میں روح پھونک دی گئی ہے ۔ خواجہ خان محمد ، مفتی نظام الدین شہید ، مولانا حسن جان جیسے اکابرین کے مشورے سے مجلس صوت اسلام نے علمی کام کا آغاز کیا اور اب جید علما اس کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عالمی گلیپ سروے میں مجلس صوت اسلام کو طلبا سرگرمیوں کے حوالے سے ایشیا میں تیسرا نمبر دیا گیا جو تقلید و تعریف اور حوصلہ افزائی کے قابل ہے۔