گہری چھاؤں
پاکستانی قوم وہ واحدقوم ہے جومحض دس سال میں اپنے ملک کوسُپرپاورکے معیار پر لے جاسکتی ہے۔
اگر کوئی مغربی مفکر یہ کہتاہے کہ دنیاکے تمام مسلمانوں کوملنے والے نوبل پرائزٹرینٹی کالج،کیمرج (Trinity College, Cambridge)کوملنے والے نوبل پرائزسے بھی کم ہیں یعنی ایک طرف تمام مسلمان اور دوسری جانب محض ایک کالج کے طلباء اوراساتذہ تو یہ سوچنے کامقام ہے۔
اس حقیقت یاطنزکے دوردعمل ہوسکتے ہیں۔ایک توبڑا سادہ یاعام ساہے۔ ہم یہ کہیں کہ ایک مغربی سائنسدان نے مسلمان امت کے خلاف سازش کے تحت بات کی ہے۔ہم جذباتی ہوکر جلوس نکالیں، جلسے کریں، اپنی املاک کو آگ لگائیں اورمغرب کی عیاری اور چالاکی پر نوحہ گری کریں اور خاموش ہوکربیٹھ جائیں۔ دوسرا ردِعمل یہ ہوسکتاہے کہ ہمارے سائنسدان اورادارے فکر اور تدبر کریں،اپنے ذہین طلباء کو ریسرچ کے لیے تمام مالی اورفنی سہولیات مہیا کریں۔ پانچ یا دس سال کے مختصرسے دورانیہ میں متعدد نئی ایجادات دنیا میں روشناس کرائیں اور سائنسی میدان میں یا تو مغرب کے برابر آجائیں یاان سے آگے نکل جائیں۔
لازم ہے کہ ہمیں بین الاقوامی سطح پران کامیابیوں کی بدولت سراہاجائے گا۔نوبل پرائزاس اَمرکی معمولی سی ستائش ہے۔ترقی کے بعدہم مغرب کے سائنسدانوں سے برابری کی سطح پرمکالمہ کریں اورثابت کریں کہ ہمارے پاس متعدد نوبل پرائز ہیں۔بلکہ ہمارانکتہ یہ ہوکہ نوبل پرائز کا حصول بالکل معمولی سی بات ہے۔سنجیدگی سے بتائیے کہ گزارش کیے گئے امکانات میں سے کون سابہتر ہے۔
خود فیصلہ کیجیے، مگر خدارا! جذباتیت اورہیجان کے بغیر۔ تلخ بات یہ ہے کہ ہم لوگ جذباتیت کے صحرامیں بھٹک رہے ہیں۔علم ودانش کے خزانہ کاحصول ہمارے لیے ناممکن ہوچکاہے۔کیایہ یہودیوں کی مکاری ہے،جن کے پاس دو سوکے لگ بھگ نوبل پرائزہیں؟کیاہماری جہالت ایک بین الاقوامی سازش کا نتیجہ ہے؟میں انتہائی خلوص سے عرض کرناچاہوںگاکہ ہماری صدیوں کی جہالت کی ذمے داری صرف اورصرف ہمارے اپنے اوپرہے۔
اسلامی دنیاکے امیرممالک پرنظرڈالیے۔ ان کے نظام پرغورکیجیے۔آپ اردن،ابوظہبی،دوبئی، سعودی عرب اوردیگر متمول اسلامی ممالک کی خوبصورت شاہراہیںدیکھ کرحیران رہ جاتے ہیں۔بلندوبالاعمارات، شاپنگ مالزاوربے مثال کاریں، دولت کی فقیدالمثال جھلک نظرآئے گی اورآپ وقتی طورپراس سے متاثر بھی ہوں گے۔ذراسی گہرائی سے معاملات کودیکھنے سے اصل صورت بالکل مختلف نظرآتی ہے۔جب ان سے دریافت کرتے ہیں کہ دبئی کی بلندترین عمارت کا ڈیزائن کس کاہے؟ اس کاجواب آپ کواس ترقی کی اصلیت بتادیتا ہے۔
کسی غیرملکی خصوصاً مغربی ملک کے باشندے نے یہ اہم ترین کام سرانجام دیاہوگا۔ ان سے پوچھیں کہ آپ کے پاس جوقیمتی ترین اسلحہ کے انبارہیں،وہ کہاں سے خریدے۔ آپکو دوبارہ یہ جان کرحیرت ہوگی کہ یہ تمام اشیاء مغربی مارکیٹ سے حاصل شدہ ہیں۔وہ اپنے طورپرکوئی جدیدچیزسوچنے کی اہلیت سے محروم نظرآتے ہیں۔ مجھے یہ سب کچھ جان کر قطعاً حیرت نہیں ہوتی، بلکہ دکھ ہوتاہے۔ آپ کبھی ان کی افرادی قوت کے معیاراورنظام تعلیم پر غور کیجیے۔ تکلیف ہوگی کہ ان کے پاس ہارورڈ، کورنیل، سٹینفرڈ،ایم آئی ٹی اورلندن اسکول آج اکنامکس کے معیارکا ایک بھی تعلیمی ادارہ نظرنہیں آئے گا۔
کیا یہ ایک تکلیف دہ سچ نہیں کہ پورے مشرق وسطیٰ میں ایک بھی ایسامیڈیکل کالج نہیں جو عالمی معیارکے مطابق ہو،جسکی ڈگری امریکا یا برطانیہ میں بغیرکسی امتحان کے قبول کرلی جائے۔ صاحبان، ایک بھی نہیں ہے۔ابوظہبی کی سب سے بڑی لائبریری دیکھیے۔دنیاکی ہرکتاب جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ شاندارعمارت،بے مثال اندرونی ماحول،جب اس کے عملہ سے معلوم کیاکہ یہاں روزانہ کتنے طالبعلم آتے ہیں توجواب حیران کن تھا۔تقریباًنہ ہونے کے برابر۔امیرمسلمان اقوام اعلیٰ درجہ کی افرادی قوت پیدا کرنے میں ناکام رہیں۔
اس المیہ کاایک اوررخ بھی ہے۔مسلمان ممالک میں ہرطرح کی اقوام موجودہیں۔ بربر قبائل سے لے کرملایاتک اور امراتی سے لے کرافغانی تک، ان تمام انسانوں میں پاکستان کے لوگ بہت حد تک مختلف بلکہ منفرد ہیں۔ یہ دنیاکے فعال اور ذہین ترین لوگوں پرمشتمل ملک ہے۔یہ بات مکمل سنجیدگی سے عرض کررہا ہوں۔ اب تک اَن گنت ممالک میں جاچکا ہوں۔ ان کے نظام حکومت کاطالبعلم کی حیثیت سے مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ایک طالبعلم کی حیثیت سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں سے زیادہ محنتی اورقابل لوگ پوری دنیامیں کہیں نہیں ہیں۔
اس کے باوجودہماراملک پیچھے کیوں رہ گیا،اس کی وجوہات بالکل مختلف ہیں۔یہ مضمون کسی اور وقت کے لیے اٹھارکھتاہوں۔فرانس کے سب سے قابل احترام تربیتی ادارے کے چیف سے ایک ملاقات دلیل کے طور پر پیش کرناچاہتاہوں۔پیرس میں ایک تعلیمی اورتربیتی ادارے میں جانے کاموقعہ ملا۔وہاں ان کے سرکاری ملازمین کی ٹرینگ کابہت موثرنظام موجودہے۔یہ تربیت اعلیٰ ترین افسروں کوبھی بِلاامتیازدی جاتی ہے۔ انچارج نے جب پاکستانی وفدسے گفتگو کی تواس کے خیالات سنکرحیران رہ گیا۔
وہ شخص فرانس کی بلند ترین نوکری کررہاتھا۔دنیاکی بہترین یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا۔ اسکا سرکاری ادارہ پوری دنیا کے سرکاری ملازمین کو بلاامتیاز تربیت دیتاتھا۔ دنیاکے ستر سے زیادہ ملک دیکھ چکاتھااور پاکستان کئی مرتبہ آچکا تھا۔ اس نے وفد کو بتایا کہ آج تک اپنی پوری سرکاری نوکری میں پاکستان قوم کے ہم پلہ ذہین لوگ نہیں دیکھے۔اس نکتہ پرکسی تعصب کے بغیر وہ سال ہاسال تحقیق کرچکا تھا۔وہ عجیب پریشانی کااظہار کررہاتھا کہ افرادی قوت کی اس ذہانت اورفطانت کے باوجودپاکستان اتنا پیچھے کیسے رہ گیاہے؟
باربار کہتاتھاکہ پاکستانی قوم وہ واحدقوم ہے جومحض دس سال میں اپنے ملک کوسُپرپاورکے معیار پر لے جاسکتی ہے۔مگرایساکیوں نہیں ہورہا،حقیقی بات تو یہ تھی کہ ہمارے وفدکے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھااوراس کے پاس بھی اپنے سوال کاکوئی جواب نہیں تھا۔مگریہ سوال اپنی جگہ پربہت اہم بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی۔ اس سوال کاجواب بھی بالکل غیرجذباتی طریقے سے تلاش کرناچاہیے۔
میں پاکستان سے نکل کردوبارہ تمام اسلامی دنیاکی طرف آتاہوں۔ایسے لگتاہے کہ مجموعی طورپرہم تمام ممالک ایک مقام پرآکرساکت ہوچکے ہیں۔ان ممالک میں انسانی سوچ کومقیدکرنے کی بھرپورکوشش کی گئی ہے۔سوچ کوایک خطرے کی علامت سمجھاجاتاہے۔آزادانہ فکرکوپنپنے کی اجازت بہرحال نہیں دی گئی۔ معاشی،سیاسی اورسماجی رجحانات نے ایک خاص طرح کی فکرکواتنامضبوط اورفعال بنادیاہے کہ جس سے اختلاف کرناناممکن ہوچکا ہے۔ یہیں سے وہ مسئلہ شروع ہوتاہے جوتحقیق کی دنیا کا دروازہ آپ پر کھولتا ہے یا بند کر دیتا ہے۔
اسلامی ممالک آپ کواجازت نہیں دیتے کہ آپ کسی طرزکے تعصب کے بغیرکچھ بھی سوچ سکیں۔اس روش کا نقصان اس درجہ زیادہ ہے کہ شمارنہیں کیا جاسکتا۔ جب تک آزادانہ سوچ شعوری استدلال سے نکل کرسماجی رویوں کی بنیاد نہیں بنتی،ہم ہمیشہ ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہونے سے قاصر رہینگے۔ مغرب ہماری یہ کمزوری سمجھ چکاہے۔ لہذاوہ ہمارے بہترین دماغ اورمضبوط ترین ہاتھ خرید لیتا ہے۔ ہماری ذہانت،تجربہ اورمحنت کواپنی ترقی کے لیے استعمال کرتاہے۔ہم محض جذباتیت میں آکر اپنا نقصان بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اگرہم جہالت کی کھائی میں چھلانگ لگاکرخودکشی کررہے ہیں تو قصداًاپنی رفتار کو مزید بڑھالیتے ہیں تاکہ اجتماعی ذہنی موت کاوقت اورقریب آجائے۔
مگرہمیں کبھی کبھی ایسے مرداورخواتین بہرحال ضرورملتے ہیں جواپنی اقوام میں فکری انقلاب برپاکردیتے ہیں۔آپ یمن کی مثال لیجیے۔یہ ایک پسماندہ ملک ہے۔ وہاں"توکل کرمان" (Tawakkol Karman)جیسی خاتون موجود ہے۔پنتیس برس کی خاتون نے اپنے ملک کوفکری طورپرایک نئے دھارے میں شامل کردیاہے۔ وہ سرپررنگ دارحجاب لیتی ہے۔شعائر اسلام کی مکمل پابندہے۔پیشے کے لحاظ سے وہ ابتدائی طورپرجرنلسٹ تھی۔2007ء میں اس نے حکومت کو درخواست کی کہ اسے ایک"موبائل فون ـخبررساں ادارے" کی اجازت دی جائے۔
اس کے جمہوری خیالات سے ڈرکر یمن کے صدرنے فوراًانکارکردیا۔اس نے اس نکتہ اورخواتین کے حقوق کے لیے ایک سیاسی تحریک شروع کردی۔یمن میں یہ تحریک بالکل نئی تھی۔صدرصالح نے اس تحریک کودبانے کے ہرحربہ استعمال کیا۔کرمان کوگرفتارکرلیاگیا۔قتل کی دھمکی دی گئی۔ایک باراس بہادر عورت پرایک قاتلانہ حملہ بھی کرایا گیا۔مگراس کمزور نظرآنے والی جرات مندخاتون نے وہ کام کردکھایاجویمن جیسے ملک میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اس نے خواتین نامہ نگاروں کاایک موثرگروپ بنایا جسکا نامWomen Journalist Without Chainsرکھا گیا۔
اس نے جمہوری نظام حکومت کے لیے آوازاٹھانی شروع کردی۔عورتوں کو باورکرایاکہ عورت کا وجود باعث شرم یاکوئی مسئلہ نہیں ہے۔ان کواپنے حقوق، آزادی فکراورقوت اظہارکے لیے کھڑاہونا چاہیے۔اس کام کے لیے انھیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔اس نے یمن میں انسانی حقوق کے لیے بھی ایسی جدوجہد کی کہ تمام یمنی قوم اس کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوگئی۔یمن میں ایک انقلاب کی بنیادرکھ دی گئی۔دراصل یمن کےArab Springکی بانی کرمان کی بھرپور آواز ہی تھی۔اس قوت کی بدولت پہلی باریمن میں جمہوریت کے سفرکا آغاز ہوا۔
2011ء میں کارمن کی جدوجہدکوتسلیم کرتے ہوئے امن کانوبل پرائز دیا گیا۔ یہ اعزاز پانے والی پہلی عرب خاتون تھی۔2011ء میں وہ دنیاکی سب سے کم عمر خاتون تھی جواس انعام کی حقدارٹھہری۔اس نے یمن کو"قوت گویائی"دی اورپورے معاشرے کوتبدیل کرڈالا!میری دانست میں ہرمسلمان ملک میں اس طرح کی مضبوط آواز بلند ہونی چاہیے!
ہم اُن بدقسمت ممالک کاحصہ ہیں جواہلیت ہوتے ہوئے بھی کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔ ان ممالک میں تخت نشین طبقہ یکسوئی اوربے رحمی کے ساتھ ملکی وسائل لوٹنے اوربربادکرنے میں مصروف ہے۔ یہ ممالک اکیسویں صدی کا وہ جنگل ہے جہاںجھوٹ، حرص،لالچ،تعصب اور ناانصافی کے قدآور پیڑ بھرپور قوت کے ساتھ موجود ہیں۔ درختوں نے ایک فکری اندھیرا قائم کررکھاہے۔خیالات کی نئی روشنی کواس جنگل میں زمین پرپہنچے ہی نہیں دیاگیا۔ ہمیں اس تاریک چھاؤں میں آزادی فکرکی روشنی کسی بھی طرح بہم بلکہ پیہم پہنچانی ہے۔المیہ یہ ہے کہ جہالت کی یہ چھاؤں بہت گہری ہے،بہت گہری۔
اس حقیقت یاطنزکے دوردعمل ہوسکتے ہیں۔ایک توبڑا سادہ یاعام ساہے۔ ہم یہ کہیں کہ ایک مغربی سائنسدان نے مسلمان امت کے خلاف سازش کے تحت بات کی ہے۔ہم جذباتی ہوکر جلوس نکالیں، جلسے کریں، اپنی املاک کو آگ لگائیں اورمغرب کی عیاری اور چالاکی پر نوحہ گری کریں اور خاموش ہوکربیٹھ جائیں۔ دوسرا ردِعمل یہ ہوسکتاہے کہ ہمارے سائنسدان اورادارے فکر اور تدبر کریں،اپنے ذہین طلباء کو ریسرچ کے لیے تمام مالی اورفنی سہولیات مہیا کریں۔ پانچ یا دس سال کے مختصرسے دورانیہ میں متعدد نئی ایجادات دنیا میں روشناس کرائیں اور سائنسی میدان میں یا تو مغرب کے برابر آجائیں یاان سے آگے نکل جائیں۔
لازم ہے کہ ہمیں بین الاقوامی سطح پران کامیابیوں کی بدولت سراہاجائے گا۔نوبل پرائزاس اَمرکی معمولی سی ستائش ہے۔ترقی کے بعدہم مغرب کے سائنسدانوں سے برابری کی سطح پرمکالمہ کریں اورثابت کریں کہ ہمارے پاس متعدد نوبل پرائز ہیں۔بلکہ ہمارانکتہ یہ ہوکہ نوبل پرائز کا حصول بالکل معمولی سی بات ہے۔سنجیدگی سے بتائیے کہ گزارش کیے گئے امکانات میں سے کون سابہتر ہے۔
خود فیصلہ کیجیے، مگر خدارا! جذباتیت اورہیجان کے بغیر۔ تلخ بات یہ ہے کہ ہم لوگ جذباتیت کے صحرامیں بھٹک رہے ہیں۔علم ودانش کے خزانہ کاحصول ہمارے لیے ناممکن ہوچکاہے۔کیایہ یہودیوں کی مکاری ہے،جن کے پاس دو سوکے لگ بھگ نوبل پرائزہیں؟کیاہماری جہالت ایک بین الاقوامی سازش کا نتیجہ ہے؟میں انتہائی خلوص سے عرض کرناچاہوںگاکہ ہماری صدیوں کی جہالت کی ذمے داری صرف اورصرف ہمارے اپنے اوپرہے۔
اسلامی دنیاکے امیرممالک پرنظرڈالیے۔ ان کے نظام پرغورکیجیے۔آپ اردن،ابوظہبی،دوبئی، سعودی عرب اوردیگر متمول اسلامی ممالک کی خوبصورت شاہراہیںدیکھ کرحیران رہ جاتے ہیں۔بلندوبالاعمارات، شاپنگ مالزاوربے مثال کاریں، دولت کی فقیدالمثال جھلک نظرآئے گی اورآپ وقتی طورپراس سے متاثر بھی ہوں گے۔ذراسی گہرائی سے معاملات کودیکھنے سے اصل صورت بالکل مختلف نظرآتی ہے۔جب ان سے دریافت کرتے ہیں کہ دبئی کی بلندترین عمارت کا ڈیزائن کس کاہے؟ اس کاجواب آپ کواس ترقی کی اصلیت بتادیتا ہے۔
کسی غیرملکی خصوصاً مغربی ملک کے باشندے نے یہ اہم ترین کام سرانجام دیاہوگا۔ ان سے پوچھیں کہ آپ کے پاس جوقیمتی ترین اسلحہ کے انبارہیں،وہ کہاں سے خریدے۔ آپکو دوبارہ یہ جان کرحیرت ہوگی کہ یہ تمام اشیاء مغربی مارکیٹ سے حاصل شدہ ہیں۔وہ اپنے طورپرکوئی جدیدچیزسوچنے کی اہلیت سے محروم نظرآتے ہیں۔ مجھے یہ سب کچھ جان کر قطعاً حیرت نہیں ہوتی، بلکہ دکھ ہوتاہے۔ آپ کبھی ان کی افرادی قوت کے معیاراورنظام تعلیم پر غور کیجیے۔ تکلیف ہوگی کہ ان کے پاس ہارورڈ، کورنیل، سٹینفرڈ،ایم آئی ٹی اورلندن اسکول آج اکنامکس کے معیارکا ایک بھی تعلیمی ادارہ نظرنہیں آئے گا۔
کیا یہ ایک تکلیف دہ سچ نہیں کہ پورے مشرق وسطیٰ میں ایک بھی ایسامیڈیکل کالج نہیں جو عالمی معیارکے مطابق ہو،جسکی ڈگری امریکا یا برطانیہ میں بغیرکسی امتحان کے قبول کرلی جائے۔ صاحبان، ایک بھی نہیں ہے۔ابوظہبی کی سب سے بڑی لائبریری دیکھیے۔دنیاکی ہرکتاب جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ شاندارعمارت،بے مثال اندرونی ماحول،جب اس کے عملہ سے معلوم کیاکہ یہاں روزانہ کتنے طالبعلم آتے ہیں توجواب حیران کن تھا۔تقریباًنہ ہونے کے برابر۔امیرمسلمان اقوام اعلیٰ درجہ کی افرادی قوت پیدا کرنے میں ناکام رہیں۔
اس المیہ کاایک اوررخ بھی ہے۔مسلمان ممالک میں ہرطرح کی اقوام موجودہیں۔ بربر قبائل سے لے کرملایاتک اور امراتی سے لے کرافغانی تک، ان تمام انسانوں میں پاکستان کے لوگ بہت حد تک مختلف بلکہ منفرد ہیں۔ یہ دنیاکے فعال اور ذہین ترین لوگوں پرمشتمل ملک ہے۔یہ بات مکمل سنجیدگی سے عرض کررہا ہوں۔ اب تک اَن گنت ممالک میں جاچکا ہوں۔ ان کے نظام حکومت کاطالبعلم کی حیثیت سے مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ایک طالبعلم کی حیثیت سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں سے زیادہ محنتی اورقابل لوگ پوری دنیامیں کہیں نہیں ہیں۔
اس کے باوجودہماراملک پیچھے کیوں رہ گیا،اس کی وجوہات بالکل مختلف ہیں۔یہ مضمون کسی اور وقت کے لیے اٹھارکھتاہوں۔فرانس کے سب سے قابل احترام تربیتی ادارے کے چیف سے ایک ملاقات دلیل کے طور پر پیش کرناچاہتاہوں۔پیرس میں ایک تعلیمی اورتربیتی ادارے میں جانے کاموقعہ ملا۔وہاں ان کے سرکاری ملازمین کی ٹرینگ کابہت موثرنظام موجودہے۔یہ تربیت اعلیٰ ترین افسروں کوبھی بِلاامتیازدی جاتی ہے۔ انچارج نے جب پاکستانی وفدسے گفتگو کی تواس کے خیالات سنکرحیران رہ گیا۔
وہ شخص فرانس کی بلند ترین نوکری کررہاتھا۔دنیاکی بہترین یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا۔ اسکا سرکاری ادارہ پوری دنیا کے سرکاری ملازمین کو بلاامتیاز تربیت دیتاتھا۔ دنیاکے ستر سے زیادہ ملک دیکھ چکاتھااور پاکستان کئی مرتبہ آچکا تھا۔ اس نے وفد کو بتایا کہ آج تک اپنی پوری سرکاری نوکری میں پاکستان قوم کے ہم پلہ ذہین لوگ نہیں دیکھے۔اس نکتہ پرکسی تعصب کے بغیر وہ سال ہاسال تحقیق کرچکا تھا۔وہ عجیب پریشانی کااظہار کررہاتھا کہ افرادی قوت کی اس ذہانت اورفطانت کے باوجودپاکستان اتنا پیچھے کیسے رہ گیاہے؟
باربار کہتاتھاکہ پاکستانی قوم وہ واحدقوم ہے جومحض دس سال میں اپنے ملک کوسُپرپاورکے معیار پر لے جاسکتی ہے۔مگرایساکیوں نہیں ہورہا،حقیقی بات تو یہ تھی کہ ہمارے وفدکے پاس بھی کوئی جواب نہیں تھااوراس کے پاس بھی اپنے سوال کاکوئی جواب نہیں تھا۔مگریہ سوال اپنی جگہ پربہت اہم بھی ہے اور لمحہ فکریہ بھی۔ اس سوال کاجواب بھی بالکل غیرجذباتی طریقے سے تلاش کرناچاہیے۔
میں پاکستان سے نکل کردوبارہ تمام اسلامی دنیاکی طرف آتاہوں۔ایسے لگتاہے کہ مجموعی طورپرہم تمام ممالک ایک مقام پرآکرساکت ہوچکے ہیں۔ان ممالک میں انسانی سوچ کومقیدکرنے کی بھرپورکوشش کی گئی ہے۔سوچ کوایک خطرے کی علامت سمجھاجاتاہے۔آزادانہ فکرکوپنپنے کی اجازت بہرحال نہیں دی گئی۔ معاشی،سیاسی اورسماجی رجحانات نے ایک خاص طرح کی فکرکواتنامضبوط اورفعال بنادیاہے کہ جس سے اختلاف کرناناممکن ہوچکا ہے۔ یہیں سے وہ مسئلہ شروع ہوتاہے جوتحقیق کی دنیا کا دروازہ آپ پر کھولتا ہے یا بند کر دیتا ہے۔
اسلامی ممالک آپ کواجازت نہیں دیتے کہ آپ کسی طرزکے تعصب کے بغیرکچھ بھی سوچ سکیں۔اس روش کا نقصان اس درجہ زیادہ ہے کہ شمارنہیں کیا جاسکتا۔ جب تک آزادانہ سوچ شعوری استدلال سے نکل کرسماجی رویوں کی بنیاد نہیں بنتی،ہم ہمیشہ ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہونے سے قاصر رہینگے۔ مغرب ہماری یہ کمزوری سمجھ چکاہے۔ لہذاوہ ہمارے بہترین دماغ اورمضبوط ترین ہاتھ خرید لیتا ہے۔ ہماری ذہانت،تجربہ اورمحنت کواپنی ترقی کے لیے استعمال کرتاہے۔ہم محض جذباتیت میں آکر اپنا نقصان بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اگرہم جہالت کی کھائی میں چھلانگ لگاکرخودکشی کررہے ہیں تو قصداًاپنی رفتار کو مزید بڑھالیتے ہیں تاکہ اجتماعی ذہنی موت کاوقت اورقریب آجائے۔
مگرہمیں کبھی کبھی ایسے مرداورخواتین بہرحال ضرورملتے ہیں جواپنی اقوام میں فکری انقلاب برپاکردیتے ہیں۔آپ یمن کی مثال لیجیے۔یہ ایک پسماندہ ملک ہے۔ وہاں"توکل کرمان" (Tawakkol Karman)جیسی خاتون موجود ہے۔پنتیس برس کی خاتون نے اپنے ملک کوفکری طورپرایک نئے دھارے میں شامل کردیاہے۔ وہ سرپررنگ دارحجاب لیتی ہے۔شعائر اسلام کی مکمل پابندہے۔پیشے کے لحاظ سے وہ ابتدائی طورپرجرنلسٹ تھی۔2007ء میں اس نے حکومت کو درخواست کی کہ اسے ایک"موبائل فون ـخبررساں ادارے" کی اجازت دی جائے۔
اس کے جمہوری خیالات سے ڈرکر یمن کے صدرنے فوراًانکارکردیا۔اس نے اس نکتہ اورخواتین کے حقوق کے لیے ایک سیاسی تحریک شروع کردی۔یمن میں یہ تحریک بالکل نئی تھی۔صدرصالح نے اس تحریک کودبانے کے ہرحربہ استعمال کیا۔کرمان کوگرفتارکرلیاگیا۔قتل کی دھمکی دی گئی۔ایک باراس بہادر عورت پرایک قاتلانہ حملہ بھی کرایا گیا۔مگراس کمزور نظرآنے والی جرات مندخاتون نے وہ کام کردکھایاجویمن جیسے ملک میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اس نے خواتین نامہ نگاروں کاایک موثرگروپ بنایا جسکا نامWomen Journalist Without Chainsرکھا گیا۔
اس نے جمہوری نظام حکومت کے لیے آوازاٹھانی شروع کردی۔عورتوں کو باورکرایاکہ عورت کا وجود باعث شرم یاکوئی مسئلہ نہیں ہے۔ان کواپنے حقوق، آزادی فکراورقوت اظہارکے لیے کھڑاہونا چاہیے۔اس کام کے لیے انھیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔اس نے یمن میں انسانی حقوق کے لیے بھی ایسی جدوجہد کی کہ تمام یمنی قوم اس کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوگئی۔یمن میں ایک انقلاب کی بنیادرکھ دی گئی۔دراصل یمن کےArab Springکی بانی کرمان کی بھرپور آواز ہی تھی۔اس قوت کی بدولت پہلی باریمن میں جمہوریت کے سفرکا آغاز ہوا۔
2011ء میں کارمن کی جدوجہدکوتسلیم کرتے ہوئے امن کانوبل پرائز دیا گیا۔ یہ اعزاز پانے والی پہلی عرب خاتون تھی۔2011ء میں وہ دنیاکی سب سے کم عمر خاتون تھی جواس انعام کی حقدارٹھہری۔اس نے یمن کو"قوت گویائی"دی اورپورے معاشرے کوتبدیل کرڈالا!میری دانست میں ہرمسلمان ملک میں اس طرح کی مضبوط آواز بلند ہونی چاہیے!
ہم اُن بدقسمت ممالک کاحصہ ہیں جواہلیت ہوتے ہوئے بھی کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔ ان ممالک میں تخت نشین طبقہ یکسوئی اوربے رحمی کے ساتھ ملکی وسائل لوٹنے اوربربادکرنے میں مصروف ہے۔ یہ ممالک اکیسویں صدی کا وہ جنگل ہے جہاںجھوٹ، حرص،لالچ،تعصب اور ناانصافی کے قدآور پیڑ بھرپور قوت کے ساتھ موجود ہیں۔ درختوں نے ایک فکری اندھیرا قائم کررکھاہے۔خیالات کی نئی روشنی کواس جنگل میں زمین پرپہنچے ہی نہیں دیاگیا۔ ہمیں اس تاریک چھاؤں میں آزادی فکرکی روشنی کسی بھی طرح بہم بلکہ پیہم پہنچانی ہے۔المیہ یہ ہے کہ جہالت کی یہ چھاؤں بہت گہری ہے،بہت گہری۔