سندھ کا انسائیکلوپیڈیا انور پیرزادو

تھر میں ترقی کیوں نہیں ہوتی اور سندھ کے لوگوں کو تعلیم اور ادب سے کیوں دور رکھا جا رہا ہے۔

لاہور:
لاڑکانہ جسے باغات اور خوشبو کا شہر کہا جاتا تھا، پھر خوشحالی کی وجہ سے اس پر ایک کہاوت بنائی گئی کہ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو لاڑکانہ گھومنے جاؤ، اس میں ایک اور اضافہ ہوا کہ لاڑکانہ شاعروں کا گھونسلہ ہے اور اب اسے شہیدوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔

اس کی زرخیز زمین نے بے تحاشا شخصیتوں کو جنم دیا ہے مگر ان کی فہرست لکھتے لکھتے تھک جاؤں گا، اس لیے میں اب صرف ایک نام کو آگے لاتا ہوں جس کا ادبی نام ہے انور پیرزادو جب کہ اس کا اصلی نام محمد ہریل ہے، جس نے لاڑکانہ کے چھوٹے گاؤں بلھڑیجی جسے چھوٹا ماسکو بھی کہا جاتا ہے، وہاں 25 جنوری کو 1945 میں شفیع محمد کے گھر میں جنم لیا۔ بلھڑیجی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ گاؤں موئن جو دڑو کے پہلو میں ہے اور اس گاؤں سے تھوڑا آگے مشرق کی طرف دریائے سندھ بہتا ہے۔ یہ گاؤں نئی نسل کے لیے Awareness پیدا کرنے کی نرسری ہے، جہاں پر نہ صرف مرد بلکہ عورتوں کی 80 فیصد پڑھی لکھی آبادی ہے۔

انور سے میری پہلی ملاقات 1980 میں ہوئی تھی جب وہ ایک انگریزی اخبار کے نمایندے بن کر آئے تھے اور میں اپنے انفارمیشن آفس لاڑکانہ میں ڈکشنری سے مشکل لفظوں کے معنی دیکھ رہا تھا۔ انور نہ صرف اچھے رپورٹر تھے بلکہ اچھے انسان بھی تھے۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک خوبصورت مسکراہٹ رہتی تھی جو کبھی قہقہوں میں تبدیل ہوجاتی تھی۔ وہ مزاح کو بیحد پسند کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کو مزید نکھارنے میں اس کی انگریزی بولنے میں روانی اور اس کے چہرے پر گھنی مونچھیں جو اس کے سفید و سرخ رنگ پر بہت جچتی تھیں۔

انور نے 1969 میں سندھ یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی لٹریچر میں پاس کا اور اچھے نمبروں کی وجہ سے اور پڑھائی میں دیکھتے ہوئے اس وقت کے وائس چانسلر سید غلام مصطفیٰ شاہ نے انور کو سندھ یونیورسٹی جامشورو میں انگریزی ڈپارٹمنٹ میں بطور لیکچرر بھرتی کیا۔ انور کی نیچر میں تھا کہ وہ آگے بڑھتا رہے اور ترقیوں کی سیڑھیاں چڑھتا جائے، جب اس نے ایک اخبار میں ایئرفورس میں پائلٹ کے لیے اشتہار دیکھا تو اس میں apply کردیا اور وہ 1970 میں پوزیشن کے لیے select ہوگئے۔

جب وہ 6 مہینے کا تربیتی کورس پورا کرکے appoint ہونے لگے تھے کہ ان کو کورٹ مارشل کرکے 7 سال کی سزا سنا کر پشاور کی جیل بھیج دیا گیا کیونکہ انھوں نے ایک خط کے ذریعے ایسٹ پاکستان میں ہونے والے آپریشن کی مخالفت کی تھی اور شیخ مجیب الرحمن کو بیسویں صدی کا بڑا لیڈر قرار دیا تھا۔ اس کیس کو ملک کے خلاف غداری قرار دیا گیا۔ مگر بعد میں انھیں سات مہینے کی سزا کاٹنے کے بعد رہا کیا گیا مگر اس آزادی آرڈر کے ساتھ یہ آرڈر بھی کیا گیا کہ وہ ساری عمر کسی بھی سرکاری نوکری کے اہل نہیں ہوں گے۔

انور کو مشہور رائٹر اور کہانی نویس امرجلیل روزنامہ ہلال پاکستان کے ایڈیٹر سراج الحق کے پاس لے گئے جہاں پر انھیں سب ایڈیٹر کے طور پر نوکری پر رکھا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد 1975 میں وہ ہلال پاکستان چھوڑ کر روس کی ایمبیسی میں سے نکلنے والے انگریزی بلیٹن میں ایڈیٹر کے طور پر کام کرنے لگے مگر 1980 میں کراچی سے ایمبیسی بند ہونے کی وجہ سے وہ بے روزگار ہوگئے۔ وہ اچھی انگریزی کی وجہ سے لاڑکانہ کے رپورٹر کے طور پر بھرتی ہوگئے اور اس کے علاوہ انھیں انگریزی ایونجر (Avengers) دی اسٹار کا بیورو چیف سکھر کے لیے بھی ذمے داریاں دی گئیں۔


اس وقت ایم آرڈی کی تحریک چل رہی تھی اور انور نے مارشل لا کے خلاف ایک رپورٹ چھاپ دی جس کی وجہ سے انھیں 6 ماہ قید سنائی گئی۔ سزا پوری ہونے کے بعد انور جب رہا کیے گئے تو اس وقت انھیں ڈان اخبار والوں نے اپنے پاس کراچی بلوالیا اور کراچی میں دی اسٹار کا اسٹاف رپورٹر بنایا گیا۔ وہ اپنے کام سے بیحد پیار کرتے تھے ایک committed صحافی تھے۔ ان کے کالم اور رپورٹیں ہمیشہ مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ہوتی تھیں اور انھوں نے ساری عمر اپنے اصولوں پر کوئی Compromise نہیں کیا اور کرپشن اور Reportism کو اپنے پاس نہیں آنے دیا۔ وہ سچے، کھرے اور بے باک صحافی تھے۔

ان کے کچھ کالم سندھی اخبار برسات میں وڈیرے کی اوطاق کے عنوان سے چھپے تھے جو بڑے مشہور ہوئے، جس کی وجہ یہ تھی کہ جب انور نے 1962 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا تو انھیں ایک گاؤں میں پرائمری ٹیچر کی جاب مل گئی اور پھر ان کے تبادلے ہوتے رہتے تھے، کبھی کسی گاؤں میں اور کبھی کسی اور گاؤں میں اور یہ سلسلہ 1963 سے 1968 تک جاری رہا۔ اب اسکول ان کے گاؤں سے کافی دور ہوتے تھے اس لیے انور کو وڈیرے کی اوطاق میں ٹھہرنا پڑتا تھا۔ اوطاق میں رہنے سے انھوں نے وہاں جو کچھ بھی ہوتا دیکھا اور مشاہدہ کیا جس کی بنا پر وہ کالم لکھنے لگے۔

اپنی شروعاتی زندگی میں وہ مارکس اور لینن سے بڑے متاثر تھے اس لیے وہ اکثر کامریڈ سوبھو گیان چندانی جو اس کے گاؤں کے قریب ہی رہتے تھے ملاقات کرنے جاتے تھے اس لیے انھوں نے ہاری تحریک کی حمایت کی اور ایم آر ڈی تحریک کی سپورٹ میں بہت سارے کالم لکھے۔ ان کی تحریروں کا محور اکثر سماج میں ناانصافی، قبائلی جھگڑے، ڈاکوؤں کے مظالم، بھوک، بیروزگاری، عورت کے ساتھ زیادتیاں، بچوں اور عورتوں کے حقوق تھے مگر ان کی پسند میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شخصیت اور شاعری، سندھ اور اس کے لوگ، کلچر، ادب، ٹریولنگ، آرکیالوجی، لوک ادب، سندھ کے گاؤں اور وہاں پر رہنے والے سادہ لوگ تھے۔

زندگی میں جب سے انھوں نے بھٹائی کی شاعری کو پڑھا اور سمجھا تو انھوں نے مارکس اور لینن کو چھوڑ کر اپنا دھیان اس طرف مرکوز کردیا۔ جب بھی ان کا دل چاہتا تھا وہ بھٹائی کے مزار پر چلے جاتے تھے اور وہاں کے فقیروں سے کچہری کرتے، شاہ کی شاعری پڑھنا شروع کردیتے۔ بھٹ شاہ میں بھٹائی کے مزار پر جانا بہت زیادہ پسند کرتے تھے اور انھیں اس شاعر کے ساتھ عقیدت تھی۔ انور نے لکھنے کی شروعات 1970 سے کی تھی اور جب وہ ادب کی دنیا میں اپنے پیر جما چکے تو انھوں نے سندھی ادبی سنگت کی میٹنگز میں شرکت کرنا شروع کردی۔

ان کا سندھی لٹریچر سے عشق اور دلچسپی دیکھ کر انھیں سنگت میں پہلے جوائنٹ سیکریٹری پھر جنرل سیکریٹری بنایا گیا اور پھر انھوں نے سنگت کو بے حد متحرک کردیا اور اب ادبی کانفرنسیں اور دوسرے پروگرامز زور وشور سے ہونے لگے۔ انور ایک ہی وقت میں صحافت بھی کرتے تھے اور ادبی دنیا میں بھی سرگرمی کے ساتھ کام کرتے تھے اور تھوڑے ہی وقت میں انھوں نے بڑا نام کمایا۔ انھوں نے اب خود بھی شاعری کرنا شروع کردی جس کا شاعری کا مجموعہ (اے چاند بھٹائی سے کہنا) لکھا، جو اس کی زندگی میں ہی شایع ہوگیا تھا۔ انور پیرزادو اتنا کچھ لکھ گئے ہیں کہ ساری عمر ان کی تحریریں پڑھنے والوں کے لیے راہ متعین کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔

سندھی ادب کی دنیا میں انور نے ایک نام کمایا پھر انگریزی صحافت اور ترجمے میں بھی، ایک چمکتے ستارے کی طرح لٹریچر اور صحافت کے افق پر ابھرے۔ وہ سندھ کا انسائیکلوپیڈیا تھے، انھیں یہ بھی پتا ہوتا تھا کہ کس علاقے کی مٹی کیسی ہے، وہاں بارش کتنی پڑتی ہے، وہاں کے لوگوں کی عادتیں کیا ہیں، کہاں پر کون سی فصل ہوتی ہے، تعلیم کا Ratio کیا ہے، صحت کی سہولتیں کتنی ہیں۔ کون سے اسباب ہیں جن کی وجہ سے قبائلی جھگڑے ہو رہے ہیں اور ان میں سرداروں، پیروں، وڈیروں اور جاگیرداروں کا کیا رول ہے۔

سندھ میں سے جنگلات کو کیوں اور کیسے ختم کیا جا رہا ہے، ڈاکوؤں کو کون پناہ دے رہے ہیں، کارونجھر پہاڑ کے اندر کیا خزانہ چھپا ہوا ہے، تھر میں ترقی کیوں نہیں ہوتی اور سندھ کے لوگوں کو تعلیم اور ادب سے کیوں دور رکھا جا رہا ہے۔ اس کے سینے میں یہ سارے راز دفن تھے مگر اس نے اپنی تحریروں اور کالموں سے لوگوں کو آگاہ کیا اور ان کا حل بتایا۔شاید اس درد کی وجہ سے وہ اندر ہی اندر میں ٹوٹتے پھوٹتے رہے اور کینسر جیسی لاعلاج بیماری نے اس میں جگہ بنالی جو ان کی موت کا سبب بنی اور وہ 7 جنوری 2007 کو اس دنیا کو الوداع کہہ گئے مگر جاتے جاتے لوگوں کے لیے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے پیغام کو گاؤں گاؤں، شہر شہر پہنچا گئے ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
Load Next Story