تذبذب کی دھول
حقیقت خرافات میں کھو گئی ہے۔ قبلہ رو ہو کر سجدہ کرنے والے آج فرقوں میں بٹے ہیں، مسلکی مباحث توانائی چاٹ گئے۔
چاند کو تذبذب کا گہن لگا۔ جذباتیت کے جھکڑ نے فصل روند ڈالی۔ اور بے علمی نے دریائوں کا پانی پی لیا۔ تاریخ انسانی کتنے ہی سانحات کی گواہ بنی، پر بدنصیبی کے جس گھیرے میں ہم ہیں، اس نے دلوں میں وسوسے بھردیے۔
ہمارا حال تانگے میں جتے گھوڑے سا۔ لگام کسی اور کے ہاتھ۔ آنکھیں ڈھکی ہوئیں۔ مکمل منظر دیکھنے سے قاصر۔ حقیقت فقط وہ، جو سامنے۔ دائیں بائیں کیا ہورہا ہے، اس سے لاعلم۔ اور پروا بھی کیوں ہو، چارا برابر جو مل رہا ہے۔ یادداشت سنہری مچھلی سی پائی ہے۔ چند ساعتوں پر مشتمل۔ شب گذشتہ کا سانحہ بھی بھلا دیں۔ جب ہی تو دوست روٹھ گئے۔ مصلح تھک کر خاموش ہوئے۔ شیخ سعدی نے فرمایا تھا: نصیحت عقل مندوں کے لیے ہے، نادانوں کو اس سے کیا حاصل!
حقیقت خرافات میں کھو گئی ہے۔ قبلہ رو ہو کر سجدہ کرنے والے آج فرقوں میں بٹے ہیں، مسلکی مباحث توانائی چاٹ گئے، اور ادھر زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ پر گریہ کیسا۔ کیا یہ پہلی بار ہوا ہے۔ خطہ عرب ہو، ایشیا یا افریقا؛ امت یہ سازشوں کے جال میں الجھتی چلی گئی۔ اقبال کا خواب: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے؛ تعبیر سے محروم رہا، تو قصوروار کوئی اور نہیں، ہم خود۔ صوفی کہتا ہے: غافل وہ نہیں، جو خطا کرے، بلکہ وہ، جو اپنی خطائوں سے سبق نہ سیکھے۔
اللہ رب العزت نے کائنات کی تسخیر کا حکم دیا، پر ہم نے عقل کو تابوت میں ڈال کر سمندر برد کر دیا۔ اس نے اپنی نشانیوں پر غور کرنے کی ہدایت کی، ہم نے بے عملی کو اپنا لباس بنایا۔ اس نے علم کی فضیلت بیان کی، ہم نے جذباتیت کا راستہ چنا۔ہم پر اور قوموں کا مسلط ہونا اتنا ہی متوقع تھا، جتنا سورج کا مغرب میں غروب ہونا۔
ہم اپنی بدبختی کو دشمنوں کی ریشہ دوانی کا نتیجہ ٹھہرانے پر بضد۔ بے شک سازشیں ہوئیں، بے تحاشا ہوئیں، مگر انھیںکامیابی کا خرقہ ہماری غفلت نے عطا کیا۔ سائنس، عمرانیات، ذرایع ابلاغ، تعمیرات؛ علم کے ہر شعبے میں آج ہم بے نشان ہیں۔ علم ہی تو شیطان سے جنگ کرنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ ہماری بدبختی کو طول دینے کے لیے دشمن کو طویل المدتی منصوبوں کی ضرورت نہیں۔ وہ ہم میں ابہام کا بیج عشروں قبل بو چکا۔ ہماری غفلت نے پانی اور ہوا کا کام کیا۔ اب وہ زہریلے درخت کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
ذرا ہماری حالت ملاحظہ فرمائیں۔ صفائی کو نصف ایمان ٹھہراتے ہیں، اور شاہراہوں پر گندگی پھیلاتے ہیں۔ تحقیق کے حق میں احادیث بیان کرتے ہیں، مگر درس گاہوں کی تعمیر میں غفلت برتتے ہیں۔ علم مومن کی میراث، مگر اس کی جستجو سے اجتناب۔ دنیا آخرت کی کھیتی، اور اسی دنیا کو فتح کرنے کا جنون۔ جس مغرب کو مطعون ٹھہرایا، اس کی ایجادات کے بنا جینا دشوار۔ ہاں امریکا فسادی، مگر امداد بھی اسی سے مانگیں گے۔ دیگر اقوام کی اخلاقی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں، اور اپنے ہاں ہونے والے زیادتی کے واقعات سے نظریں چراتے ہیں۔ ان کی جرائم کی شرح ہمیں بھاتی ہے، مگر اپنی بدعنوانی نظر نہیں آتی۔
ہم دہشت گردی کے پے درپے واقعات کو یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دیتے ہیں، مگر ان کی ذمے داری قبول کرنے والوں کو اپنا ہیرو ٹھہراتے ہیں۔ سانحہ پشاور کی مثال لیجیے۔ پہلے ہم نے اسے غیرمسلموں کی سازش قرار دیا۔ زور زور سے نفی میں گردن ہلائی۔ جب ''اپنوں'' نے ذمے داری قبول کرلی، تو اچھے اور برے کی منطق۔ چوں کہ، چناں چہ کی گردان۔
تاریخ گواہ ہے، ہمارے اسی تذبذب اور لاعلمی کو دشمن نے اپنا ہتھیار بنایا۔ افغان جنگ میں اپنے مقاصد کے لیے ہمیں بارودی دوزخ میں جھونک دیا۔ ہماری مذہبی جماعتیں، قلم کار اور دانش ور ڈالر کی زبان بولتے رہے۔ رجعت پسندی کا فروغ، اعتدال پسند دیوار سے لگائے گئے۔ اس کا تحفہ ہمیں اسلحے، انتہاپسندی اور منشیات کی صورت ملا۔ عربوں کو لڑوانے کے لیے یہی آزمودہ نسخہ۔ جنگی اڈوں کے لیے 9/11 کے بہانے اسی افغانستان پر چڑھائی کردی، جسے کچھ برس قبل ''لادین سوویت یونین'' سے بچایا تھا۔ جو مہرے کل برتے، پھر استعمال کیے۔ ہم پر الجھن کے بادل بھیجے۔ کنفیوژن بڑھانے کے لیے ذرایع ابلاغ کو برتا۔ ضرورت پڑی، تو ڈورن داغے۔ ضیاء دور میں بوئے انتہاپسندی کے پودے میں پھر جان پڑگئی۔
افغانستان سے نمٹ کر سامراجی قوتیں خطہ عرب کی جانب متوجہ ہوئیں۔ فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔ عراق کے حصے بخرے کیے۔ عربوں کے اکٹھ کا امکان تمام ہوا۔ دشمن خوب جانتا ہے کون سے الفاظ ہم پر غنودگی طاری کردیتے ہیں، کون سے نعرے ہماری سوچنے کی طاقت سلب کر لیتے ہیں۔ جو تجزیہ کار آج افغانستان اور عراق میں امریکی شکست کی کہانی بیان کر رہے ہیں، لاعلم ہیں کہ ان کی زبان کس کی گرفت میں ہے۔ اتحادیوں کی شکست کا فسانہ تانگے میں جتے گھوڑا کے لیے فقط چارا ہے۔
تازہ واقعے پر نظر ڈالیں۔ فرانس میں لاکھوں افراد کا اکٹھ۔ کئی ممالک کے سربراہان کی اس میں شرکت۔ ادھر تو صف بندی ہوگئی، ادھر ہم متذبذب کہ کیا کریں، کیا نہ کریں۔ عشق رسولﷺ ہمارے ایمان کا جزو، اور چارلی ایبڈو کی شر پسندی قابل نفرت۔ آزادی رائے پر اختلاف نہیں جناب، مگر ایسی بھی کیا آزادی کہ انسان انسانیت سے گر جائے۔ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی مذمت تو غیرمسلم بھی کررہے ہیں۔
البتہ ہمارے معاملے میں ایک الجھن۔ چارلی ایبڈو کی پرزور مذمت کے ساتھ کہیں بین السطور، کہیں کھلے الفاظ میں حملے کی حمایت بھی۔ اگرچہ نہیں جانتے کہ اس کا ذمے دار کون، مقاصد کیا تھے؟ پہلے ایک عسکری تنظیم ذمے داری قبول کرتی ہے، پھر دوسری۔ اور دونوں ہی دعوے متنازع۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار۔ اسکرپٹ تو دیکھیں، چارلی ایبڈو پر حملہ کرنے والے ایک مقابلے میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ یعنی 9/11 کے مانند بڑی سہولت سے تمام شواہد مٹا دیے گئے۔
اب ہوگا کیا؟ فرانس سمیت پورے یورپ میں تارکین وطن، بالخصوص مسلمانوں کے لیے مشکل دور کا آغاز ہونے کو ہے۔ یورپ کی روشن خیال سیاسی جماعتیں کم زور ہوں گی، رجعت پسند مزید قوت حاصل کریں گے۔ نئے قوانین بنیں گے۔ انسانی اور جمہوری اقدار کی بنیاد پر مسلمانوں کو جو آزادی میسر تھی، وہ سلب کی جائے گی۔ مزید مقاصد کی تکمیل کے لیے دہشت گردی کے مزید واقعات رونما کروائے جاسکتے ہیں۔ یورپ کے مختلف ممالک جداگانہ پالیسیوں پر عمل پیرا تھے، مگر اس واقعے نے انھیں مسلمانوں کے خلاف اکٹھا کردیا اور انھیں یہ جواز فراہم کیا، مذہب کے نام پر جاری عسکریت پسندی نے۔ نہ جانے اس جدوجہد سے ہمیں کتنا فائدہ پہنچا۔ البتہ یہ ظاہر ہے کہ دشمن اپنے مقصد کے مزید قریب آگیا۔
تو صاحبو، تذبذب کی دھول ہے، اور جذباتیت کے جھکڑ۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ گلوبل ولیج کے پردے پر جو فلم پیش کی جا رہی ہے، اس میں ہماری حیثیت فقط ایک کردار کی ہے، جو کسی اور کے لکھے مکالمہ ادا کر رہا ہے۔
ایک سادہ سا سوال آپ کے کئی مسائل حل کر سکتا ہے: مسلم معاشروں میں شدت پسندی کے فروغ کا فائدہ کسے ہوا؟ دھڑکن باقی ہے، تو جواب کی تلاش میں وقت نہ گنوائیں۔ بقول شورش کاشمیری:
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے
ہمارا حال تانگے میں جتے گھوڑے سا۔ لگام کسی اور کے ہاتھ۔ آنکھیں ڈھکی ہوئیں۔ مکمل منظر دیکھنے سے قاصر۔ حقیقت فقط وہ، جو سامنے۔ دائیں بائیں کیا ہورہا ہے، اس سے لاعلم۔ اور پروا بھی کیوں ہو، چارا برابر جو مل رہا ہے۔ یادداشت سنہری مچھلی سی پائی ہے۔ چند ساعتوں پر مشتمل۔ شب گذشتہ کا سانحہ بھی بھلا دیں۔ جب ہی تو دوست روٹھ گئے۔ مصلح تھک کر خاموش ہوئے۔ شیخ سعدی نے فرمایا تھا: نصیحت عقل مندوں کے لیے ہے، نادانوں کو اس سے کیا حاصل!
حقیقت خرافات میں کھو گئی ہے۔ قبلہ رو ہو کر سجدہ کرنے والے آج فرقوں میں بٹے ہیں، مسلکی مباحث توانائی چاٹ گئے، اور ادھر زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ پر گریہ کیسا۔ کیا یہ پہلی بار ہوا ہے۔ خطہ عرب ہو، ایشیا یا افریقا؛ امت یہ سازشوں کے جال میں الجھتی چلی گئی۔ اقبال کا خواب: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے؛ تعبیر سے محروم رہا، تو قصوروار کوئی اور نہیں، ہم خود۔ صوفی کہتا ہے: غافل وہ نہیں، جو خطا کرے، بلکہ وہ، جو اپنی خطائوں سے سبق نہ سیکھے۔
اللہ رب العزت نے کائنات کی تسخیر کا حکم دیا، پر ہم نے عقل کو تابوت میں ڈال کر سمندر برد کر دیا۔ اس نے اپنی نشانیوں پر غور کرنے کی ہدایت کی، ہم نے بے عملی کو اپنا لباس بنایا۔ اس نے علم کی فضیلت بیان کی، ہم نے جذباتیت کا راستہ چنا۔ہم پر اور قوموں کا مسلط ہونا اتنا ہی متوقع تھا، جتنا سورج کا مغرب میں غروب ہونا۔
ہم اپنی بدبختی کو دشمنوں کی ریشہ دوانی کا نتیجہ ٹھہرانے پر بضد۔ بے شک سازشیں ہوئیں، بے تحاشا ہوئیں، مگر انھیںکامیابی کا خرقہ ہماری غفلت نے عطا کیا۔ سائنس، عمرانیات، ذرایع ابلاغ، تعمیرات؛ علم کے ہر شعبے میں آج ہم بے نشان ہیں۔ علم ہی تو شیطان سے جنگ کرنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ ہماری بدبختی کو طول دینے کے لیے دشمن کو طویل المدتی منصوبوں کی ضرورت نہیں۔ وہ ہم میں ابہام کا بیج عشروں قبل بو چکا۔ ہماری غفلت نے پانی اور ہوا کا کام کیا۔ اب وہ زہریلے درخت کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
ذرا ہماری حالت ملاحظہ فرمائیں۔ صفائی کو نصف ایمان ٹھہراتے ہیں، اور شاہراہوں پر گندگی پھیلاتے ہیں۔ تحقیق کے حق میں احادیث بیان کرتے ہیں، مگر درس گاہوں کی تعمیر میں غفلت برتتے ہیں۔ علم مومن کی میراث، مگر اس کی جستجو سے اجتناب۔ دنیا آخرت کی کھیتی، اور اسی دنیا کو فتح کرنے کا جنون۔ جس مغرب کو مطعون ٹھہرایا، اس کی ایجادات کے بنا جینا دشوار۔ ہاں امریکا فسادی، مگر امداد بھی اسی سے مانگیں گے۔ دیگر اقوام کی اخلاقی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں، اور اپنے ہاں ہونے والے زیادتی کے واقعات سے نظریں چراتے ہیں۔ ان کی جرائم کی شرح ہمیں بھاتی ہے، مگر اپنی بدعنوانی نظر نہیں آتی۔
ہم دہشت گردی کے پے درپے واقعات کو یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دیتے ہیں، مگر ان کی ذمے داری قبول کرنے والوں کو اپنا ہیرو ٹھہراتے ہیں۔ سانحہ پشاور کی مثال لیجیے۔ پہلے ہم نے اسے غیرمسلموں کی سازش قرار دیا۔ زور زور سے نفی میں گردن ہلائی۔ جب ''اپنوں'' نے ذمے داری قبول کرلی، تو اچھے اور برے کی منطق۔ چوں کہ، چناں چہ کی گردان۔
تاریخ گواہ ہے، ہمارے اسی تذبذب اور لاعلمی کو دشمن نے اپنا ہتھیار بنایا۔ افغان جنگ میں اپنے مقاصد کے لیے ہمیں بارودی دوزخ میں جھونک دیا۔ ہماری مذہبی جماعتیں، قلم کار اور دانش ور ڈالر کی زبان بولتے رہے۔ رجعت پسندی کا فروغ، اعتدال پسند دیوار سے لگائے گئے۔ اس کا تحفہ ہمیں اسلحے، انتہاپسندی اور منشیات کی صورت ملا۔ عربوں کو لڑوانے کے لیے یہی آزمودہ نسخہ۔ جنگی اڈوں کے لیے 9/11 کے بہانے اسی افغانستان پر چڑھائی کردی، جسے کچھ برس قبل ''لادین سوویت یونین'' سے بچایا تھا۔ جو مہرے کل برتے، پھر استعمال کیے۔ ہم پر الجھن کے بادل بھیجے۔ کنفیوژن بڑھانے کے لیے ذرایع ابلاغ کو برتا۔ ضرورت پڑی، تو ڈورن داغے۔ ضیاء دور میں بوئے انتہاپسندی کے پودے میں پھر جان پڑگئی۔
افغانستان سے نمٹ کر سامراجی قوتیں خطہ عرب کی جانب متوجہ ہوئیں۔ فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔ عراق کے حصے بخرے کیے۔ عربوں کے اکٹھ کا امکان تمام ہوا۔ دشمن خوب جانتا ہے کون سے الفاظ ہم پر غنودگی طاری کردیتے ہیں، کون سے نعرے ہماری سوچنے کی طاقت سلب کر لیتے ہیں۔ جو تجزیہ کار آج افغانستان اور عراق میں امریکی شکست کی کہانی بیان کر رہے ہیں، لاعلم ہیں کہ ان کی زبان کس کی گرفت میں ہے۔ اتحادیوں کی شکست کا فسانہ تانگے میں جتے گھوڑا کے لیے فقط چارا ہے۔
تازہ واقعے پر نظر ڈالیں۔ فرانس میں لاکھوں افراد کا اکٹھ۔ کئی ممالک کے سربراہان کی اس میں شرکت۔ ادھر تو صف بندی ہوگئی، ادھر ہم متذبذب کہ کیا کریں، کیا نہ کریں۔ عشق رسولﷺ ہمارے ایمان کا جزو، اور چارلی ایبڈو کی شر پسندی قابل نفرت۔ آزادی رائے پر اختلاف نہیں جناب، مگر ایسی بھی کیا آزادی کہ انسان انسانیت سے گر جائے۔ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی مذمت تو غیرمسلم بھی کررہے ہیں۔
البتہ ہمارے معاملے میں ایک الجھن۔ چارلی ایبڈو کی پرزور مذمت کے ساتھ کہیں بین السطور، کہیں کھلے الفاظ میں حملے کی حمایت بھی۔ اگرچہ نہیں جانتے کہ اس کا ذمے دار کون، مقاصد کیا تھے؟ پہلے ایک عسکری تنظیم ذمے داری قبول کرتی ہے، پھر دوسری۔ اور دونوں ہی دعوے متنازع۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار۔ اسکرپٹ تو دیکھیں، چارلی ایبڈو پر حملہ کرنے والے ایک مقابلے میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ یعنی 9/11 کے مانند بڑی سہولت سے تمام شواہد مٹا دیے گئے۔
اب ہوگا کیا؟ فرانس سمیت پورے یورپ میں تارکین وطن، بالخصوص مسلمانوں کے لیے مشکل دور کا آغاز ہونے کو ہے۔ یورپ کی روشن خیال سیاسی جماعتیں کم زور ہوں گی، رجعت پسند مزید قوت حاصل کریں گے۔ نئے قوانین بنیں گے۔ انسانی اور جمہوری اقدار کی بنیاد پر مسلمانوں کو جو آزادی میسر تھی، وہ سلب کی جائے گی۔ مزید مقاصد کی تکمیل کے لیے دہشت گردی کے مزید واقعات رونما کروائے جاسکتے ہیں۔ یورپ کے مختلف ممالک جداگانہ پالیسیوں پر عمل پیرا تھے، مگر اس واقعے نے انھیں مسلمانوں کے خلاف اکٹھا کردیا اور انھیں یہ جواز فراہم کیا، مذہب کے نام پر جاری عسکریت پسندی نے۔ نہ جانے اس جدوجہد سے ہمیں کتنا فائدہ پہنچا۔ البتہ یہ ظاہر ہے کہ دشمن اپنے مقصد کے مزید قریب آگیا۔
تو صاحبو، تذبذب کی دھول ہے، اور جذباتیت کے جھکڑ۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ گلوبل ولیج کے پردے پر جو فلم پیش کی جا رہی ہے، اس میں ہماری حیثیت فقط ایک کردار کی ہے، جو کسی اور کے لکھے مکالمہ ادا کر رہا ہے۔
ایک سادہ سا سوال آپ کے کئی مسائل حل کر سکتا ہے: مسلم معاشروں میں شدت پسندی کے فروغ کا فائدہ کسے ہوا؟ دھڑکن باقی ہے، تو جواب کی تلاش میں وقت نہ گنوائیں۔ بقول شورش کاشمیری:
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے