عالمی علاقائی سیاسی تنہائی اور دہشت گردی

بنیادی طورپردہشت گردی علاقائی ملکوں میں کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ بھارت،افغانستان اورپاکستان کویہ مسئلہ درکارہے۔

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان میں سیاسی اشرافیہ کا ایک بڑا طبقہ دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ کو عالمی، علاقائی تناظر میں دیکھنے کی بجائے محض اسے مقامی مسئلہ سمجھ کر آگے بڑھنے کا خواہش مند ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسائل کے حل میں داخلی مسئلہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن مسائل کو سمجھنے اور درست پالیسی بنانے میں ہمیں علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کو نظر انداز کرنے کی پالیسی سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ جو خارجہ پالیسی ریاست یا حکومت نے اختیار کی ہوئی ہے، یہ پالیسی کیسے بنی اور اس کے محرکات کیا ہیں ان کو بھی ہمیں وسیع دائرہ کار میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یقینا یہ پالیسی چند سالوں میں نہیں بنی ، اس کی ایک لمبی کہانی ہے ۔ مگر یہ بات کافی حد تک بجا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ایک بیرونی دباؤ سے جڑی ہوئی ہے۔'' نظریہ ضرورت '' کے قانون کے تحت اختیار کی جانے والی بیشتر پالیسیوں کو عالمی دباؤ اور حمایت کے حصول کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

یہ بات اپنے اندر وزن رکھتی ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لیے محض بین الاقوامی دنیا یا ان کی پالیسیوںکا سہارا لے کر اپنا دامن نہیں بچانا چاہیے۔ جو غلطیاں بطور ریاست ماضی میں اختیار کیں یا اب بھی جاری ہے ، اس کا اعتراف کرکے ہی ہم بہتری کی جانب آگے بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس دہشتگردی کی جنگ سے نمٹنے کے لیے دو حکمت عملیوں پر کام کرنا ہوگا۔

اول داخلی محاذ اور دوئم خارجی محاذ۔ داخلی محاذ پر تو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ہم اب دہشتگردی کے حوالے سے کسی بھی سمجھوتے کی سیاست کا شکار نہیں ہونگے، لیکن خارجی محاذ پر جس فکر و دانش کی ضرورت ہے، اس کا ایک فقدان ضرور غالب ہے ۔عالمی دنیا میں کچھ عرصہ قبل تک ہماری ریاست کے بارے میں ایک مجموعی تاثر یہ تھا کہ وہ خود دہشتگردوں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ لیکن اب عالمی دنیا میں ایک نئی رائے سامنے آئی ہے کہ اب وہ دہشتگردی کے خاتمہ میں کمٹڈ ہے۔ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی امریکا اور برطانیہ میں سیاسی پزیرائی نے بھی یہ ہی تاثر دیا ہے کہ عالمی رائے عامہ تبدیل ہو رہی ہے۔

افغانستان میں ماضی کے صدر حامد کرزئی کے مقابلے میں موجودہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور دہشت گردی سے نمٹنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں ۔فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے دورہ امریکا میں بھی امریکی حکام کو بھارت اور افغانستان کے حوالے سے اپنے شدید تحفظات کے ساتھ یہ واضح پیغام دیا تھاکہ بھارت اور افغانستان کی مدد کے بغیر دہشتگردی کا علاج ممکن نہیں ہوگا۔ امریکا کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ وہ بھارت پر دباو ڈالے کہ وہ ہمیں مشکل میں ڈالنے یا ہمارے خلاف جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے دو طرفہ تعاون کے امکانات کو آگے بڑھائے۔

بنیادی طور پر دہشت گردی علاقائی ملکوں میں کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ بھارت ، افغانستان اور پاکستان کو یہ مسئلہ درکار ہے ۔ اس لیے جو ملک دہشت گردی کے مسئلہ کو محض ایک ملک کا مسئلہ سمجھ کر آگے بڑھے گا، وہ غلطی کرے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علاقائی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے امکانات اور مسائل کو سمجھ کر آگے بڑھ کر نہ صرف مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں بلکہ مشترکہ اینٹی وار میکنزم اور ادارہ جاتی میکنزم کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں ۔ ایک دوسرے پر الزامات سے بداعتمادی کی فضا غالب ہوجاتی ہے، جو کسی کے مفاد میں نہیں اس سے بچنا ہوگا۔


پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والے میاں خورشید محمود قصوری جن کے دور میں بھارت اور افغانستان کے حوالے سے کافی پیش رفت بھی ہوئی تھی ، اپنی نئی کتاب " " Neither a Hawk Nor a Dove میں انھوں نے بھارت کے حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں۔ خورشید قصوری کے بقول جنوبی ایشیا کی دونوں ایٹمی ریاستوں پاکستان اور بھارت کو ایک ذمے دارانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے تنازعات کے حل کے لیے منصفانہ اور آبرومندانہ حل کی طرف پیش رفت کرنا ہو گی۔ کیونکہ دونوں ملکوں یا ریاستوں کے پاس امن کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

یہ دونوں ریاستیں ایک دوسرے کو عدم استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ، اس لیے دونوں کے مدبرانہ کردار ہی سے خطہ کے ڈیڑھ ارب سے زائد عوام کی قسمت بدلے گی ۔کتاب میں پاک افغان اور پاک امریکا پالیسیوں کے بعض مخفی حقائق، کشمیر کے حوالے سے پاک بھارت خفیہ مذاکرات کی کہانی بھی شامل ہے۔یہ کتاب ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب پاکستان اور بھارت کو دہشت گردی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔اس جنگ سے نمٹنے میں دونوں کا مسائل اور اس کی حکمت عملی پر اتفاق ہی اہم کامیابی ہوگا۔ لیکن کیا یہ سب کچھ ممکن ہوسکے گا ، بڑا سوالیہ نشان ہوگا ۔

اگر پاکستان نے واقعی دہشت گردی کا علاج تلاش کرکے اپنے آپ کو بھی اور علاقائی ملکوں کو محفوظ بنانا ہے ، تو یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا ۔ اس میں امریکا ، برطانیہ، بھارت اور افغانستان کا سب سے زیادہ اہم کردار ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دورہ پاکستان میں واضح طور پر کہا ہے کہ اس دہشتگردی کی جنگ سے پاکستان جس انداز سے نمٹ رہا ہے وہ اہم ہے ، لیکن ہم اسے اپنی کسوٹی پر پرکھیں گے۔ یعنی جو شرائط امریکا کی اس جنگ میں ہیں اسے پاکستان کو پورا کرنا ہوگا۔

امریکا ایک طرف پاکستان کی عسکری قیادت کی جنگ سے نمٹنے کی حمایت کرتاہے تو دوسری طرف اس کی دباؤ کی پالیسی اچھے اوربرے طالبان کی تمیز کا خاتمہ اور حقانی گروپ کے خلاف کارروائی شامل ہے ، لیکن جو تحفظات پاکستان نے بھارت اور افغانستان کے حوالے سے پیش کیے ہیں ، اس پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی خاموشی تضاد کی پالیسی کا حصہ ہے۔

پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے جو اہم اور بڑے اقدامات اٹھانے ہیں ، وہ ضرور کرنے چاہیے اورعالمی برادری سمیت ملک کے اندر بھی لوگوں کو حکومت پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنا قبلہ درست کریں ۔ لیکن اس کے ساتھ ہماری حکومت اور سیاسی اشرافیہ کو عالمی دنیا سمیت علاقائی ملکوں کو بھی جھنجوڑنا ہوگا کہ وہ حقیقی معنوں میں اس دہشت گردی کے خلاف نہ صرف ہماری مدد کریں، بلکہ خود بھی تضادات کی سیاست سے باہر نکلیں۔

ہمیں بھی رائے عامہ کی تشکیل کرتے ہوئے داخلی مسائل کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست اور ریاستوں کے مسائل پر بھی آواز اٹھانی ہوگی جو دہشتگردی کے خاتمہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں ۔اگرپاکستان حالت جنگ میں ہے تو اس کا ایک تعلق گلوبل سیاست سے ہے ،ایسی صورت میں پاکستان کے ساتھ بڑے ملکوں اور علاقائی ممالک کا کردار اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ عالمی دنیا کو بھی سمجھنا ہوگا کہ دہشتگردی کا ایک بڑا سبب بڑے ملکوں کی سیاست اور اس پر ردعمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جہاں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

یہ بات بھی پاکستان کے لیے غور طلب ہے کہ جس طرح سے عالمی دنیا اور امریکا ہمارے دہشتگردی کے اقدامات کو اپنی کسوٹی پر کھنا چاہتے ہیں ، تو ہمیں بھی اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھ کر اس جنگ کا مقابلہ کرنا ہے۔ یقینا ہمیں عالمی دنیا کے تحفظات کو دور کرکے ہی آگے بڑھنا ہے، لیکن ایسا نہ ہو کہ ہم عالمی دنیا کے مفادات کی جنگ میں خود اپنے لیے اور زیادہ مسائل پیدا کرلیں۔ ہمیں اپنے لیے بھی ایک محفوظ راستہ تلاش کرنا ہے، جو بڑے نقصان کے بغیر ہماری قومی ضرورتوں اور قومی سلامتی و خود مختاری کے تقاضوں کو بھی پورا کرسکے۔ یہ ہی حکمت عملی بین الاقوامی اور علاقائی سیاست کے مفادات سے وابستہ ہے۔
Load Next Story