توانائی بحران پاکستان کی معاشی ترقی میں رکاوٹ ہے ایشیائی بینک
رواں مالی سال شرح نمو3.7 فیصدرہے گی، بلندا فراط زر کی وجہ حکومتی قرضے ہیں، اقتصادی بہتری کیلیے...، رپورٹ
ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہاہے کہ پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کی قیمت جی ڈی پی گروتھ میں 2فیصد سالانہ کمی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہی ہے۔
گزشتہ روز جاری اپ ڈیٹڈ ایشین ڈیولپمنٹ آئوٹ لک 2012 رپورٹ میں اے ڈی بی نے کہا کہ مالی سال 2011-12 کی دوسری ششماہی میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرگیا جس سے بڑی صنعتوں کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی، بحران کے باعث ایل ایس ایم گروتھ محض 1.2 فیصد رہی، بجلی کی شدید اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث ملک کی جی ڈی پی گروتھ میں سالانہ 2 فیصد کمی آ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی معیشت گزشتہ برسوں کے سیلابوں سے معمولی ریکور ہوئی اور شرح نمو 3.7 فیصد تک پہنچ گئی۔
جبکہ اس سے قبل 3.6فیصد کی گروتھ اندازہ لگایا گیا تھا، اس دوران زرعی ترقی کی شرح بڑھ کر 3.1 فیصد پر جاپہنچی جس سے افراط زر کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی تاہم خدمات کے شعبے کی نمو معمولی کم رہی، سرمایہ کاری مسلسل پانچویں سال کم ہو کر جی ڈی پی کے 12.5 فیصد پر آگئی جو 2007 میں 22.5فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، افراط زر کی شرح 11 فیصد رہی، ملک میں افراط زر کی شرح کا دہرے ہندسوں میں ہونے کی وجہ حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے بجٹ اخراجات پورے کرنے اور خسارے میں کمی کیلیے لیے گئے بھاری قرضے ہیں، مالی سال 2012 کے دوران بجٹ خسارے کا اندازہ جی ڈی پی کے 8.5 فیصد کے برابر لگایا گیا ہے جس میں بجلی کے شعبے کے بقایاجات بھی شامل ہیں۔
کرنٹ اکائونٹ خسارہ 4.5 ارب ڈالر رہا جو جی ڈی پی کے 2 فیصد کے برابر ہے، کرنٹ اکائونٹ خسارے کی بڑی وجہ کیپٹل اور فنانشل انفلوز میں کمی اور قرضوں کی بھاری ادائیگیاں ہے جس سے آفیشل زرمبادلہ ذخائرجون 2012 کے اختتام تک 4.7 ارب ڈالر کی کمی سے 11.9ارب ڈالر رہ گئے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ میکرواکنامک عدم توازن اور ڈھانچہ جاتی مسائل کے باعث رواں مالی سال کے دوران شرح نمو 3.7 فیصد ہی رہے گی کیونکہ خدشہ ہے کہ رواں سال بھی توانائی کی قلت معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ رہے گی۔
بجٹ خسارے کے باعث افراط زر کی شرح 10 فیصد کے برابر رہنے کا امکان ہے تاہم ترسیلات زر میں ٹھوس اضافے کے باعث کرنٹ اکائونٹ خسارے کی مالیت کم ہو کر جی ڈی پی کے 1.3 فیصد کے برابر آنے کا امکان ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی کارکردگی میں بہتری کا انحصار ڈھانچہ جاتی مسائل سے نمٹنے کیلیے مشکل اقدامات کرنے پر ہے اور موجودہ صورتحال میں بہتری اس صورت میں آسکتی ہے کہ پاور سیکٹر بجلی کی فراہمی کا قابل بھروسہ سپلائر بن جائے تاکہ نجی شعبے کو سرمایہ کاری میں اضافے کیلیے ترغیب ملے۔
اس کے علاوہ ملکی مالیاتی پوزیشن میں بنیادی طور پر بہتری لانے کیلیے ضروری ہے کہ سبسڈیز کا خاتمہ کیا جائے اور خسارے کے شکار سرکاری ادارے و کمپنیوں کے باعث سرکاری خزانے پر پڑنے والے دبائو سے نجات حاصل کی جائے، ساتھ ہی ٹیکس بیس کو توسیع دینے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح میں اضافہ ممکن ہو، ایکویٹی کو فروغ ملے اور حکومتی اخراجات کیلیے سرمایہ فراہم کیا جا سکے۔
گزشتہ روز جاری اپ ڈیٹڈ ایشین ڈیولپمنٹ آئوٹ لک 2012 رپورٹ میں اے ڈی بی نے کہا کہ مالی سال 2011-12 کی دوسری ششماہی میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرگیا جس سے بڑی صنعتوں کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی، بحران کے باعث ایل ایس ایم گروتھ محض 1.2 فیصد رہی، بجلی کی شدید اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث ملک کی جی ڈی پی گروتھ میں سالانہ 2 فیصد کمی آ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی معیشت گزشتہ برسوں کے سیلابوں سے معمولی ریکور ہوئی اور شرح نمو 3.7 فیصد تک پہنچ گئی۔
جبکہ اس سے قبل 3.6فیصد کی گروتھ اندازہ لگایا گیا تھا، اس دوران زرعی ترقی کی شرح بڑھ کر 3.1 فیصد پر جاپہنچی جس سے افراط زر کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی تاہم خدمات کے شعبے کی نمو معمولی کم رہی، سرمایہ کاری مسلسل پانچویں سال کم ہو کر جی ڈی پی کے 12.5 فیصد پر آگئی جو 2007 میں 22.5فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، افراط زر کی شرح 11 فیصد رہی، ملک میں افراط زر کی شرح کا دہرے ہندسوں میں ہونے کی وجہ حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے بجٹ اخراجات پورے کرنے اور خسارے میں کمی کیلیے لیے گئے بھاری قرضے ہیں، مالی سال 2012 کے دوران بجٹ خسارے کا اندازہ جی ڈی پی کے 8.5 فیصد کے برابر لگایا گیا ہے جس میں بجلی کے شعبے کے بقایاجات بھی شامل ہیں۔
کرنٹ اکائونٹ خسارہ 4.5 ارب ڈالر رہا جو جی ڈی پی کے 2 فیصد کے برابر ہے، کرنٹ اکائونٹ خسارے کی بڑی وجہ کیپٹل اور فنانشل انفلوز میں کمی اور قرضوں کی بھاری ادائیگیاں ہے جس سے آفیشل زرمبادلہ ذخائرجون 2012 کے اختتام تک 4.7 ارب ڈالر کی کمی سے 11.9ارب ڈالر رہ گئے۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ میکرواکنامک عدم توازن اور ڈھانچہ جاتی مسائل کے باعث رواں مالی سال کے دوران شرح نمو 3.7 فیصد ہی رہے گی کیونکہ خدشہ ہے کہ رواں سال بھی توانائی کی قلت معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ رہے گی۔
بجٹ خسارے کے باعث افراط زر کی شرح 10 فیصد کے برابر رہنے کا امکان ہے تاہم ترسیلات زر میں ٹھوس اضافے کے باعث کرنٹ اکائونٹ خسارے کی مالیت کم ہو کر جی ڈی پی کے 1.3 فیصد کے برابر آنے کا امکان ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی کارکردگی میں بہتری کا انحصار ڈھانچہ جاتی مسائل سے نمٹنے کیلیے مشکل اقدامات کرنے پر ہے اور موجودہ صورتحال میں بہتری اس صورت میں آسکتی ہے کہ پاور سیکٹر بجلی کی فراہمی کا قابل بھروسہ سپلائر بن جائے تاکہ نجی شعبے کو سرمایہ کاری میں اضافے کیلیے ترغیب ملے۔
اس کے علاوہ ملکی مالیاتی پوزیشن میں بنیادی طور پر بہتری لانے کیلیے ضروری ہے کہ سبسڈیز کا خاتمہ کیا جائے اور خسارے کے شکار سرکاری ادارے و کمپنیوں کے باعث سرکاری خزانے پر پڑنے والے دبائو سے نجات حاصل کی جائے، ساتھ ہی ٹیکس بیس کو توسیع دینے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح میں اضافہ ممکن ہو، ایکویٹی کو فروغ ملے اور حکومتی اخراجات کیلیے سرمایہ فراہم کیا جا سکے۔