عدالت کو جس محاذ آرائی کا سامنا ہے دنیا کے کسی ملک میں نہیں چیف جسٹس
بلوچستان کے لوگ محب وطن ہیں ،گورننس کے باعث بدگمانیاں پیدا ہوئیں، کسی کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے
چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کرنے کیخلاف اصغرخان کیس میں ریمارکس دیے ہیں۔
ججوں کے بارے جو بھی کہا جائے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ججوں نے اس ملک میں عدالتی نظام کو منہدم ہونے نہیں دیا اگر جج تدبر نہ دکھاتے تو نظام عدل منہدم ہو جاتا اور عدالتوں میں باوردی جرنیل بیٹھے ہوتے،چیف جسٹس نے کہا آمرانہ اقدامات کی توثیق ہمیشہ پارلیمنٹ نے کی لیکن تمام کریڈٹ موجودہ پارلیمنٹ کو جاتا ہے جس نے ایک آمرکے اقدامات کی توثیق نہیںکی۔
عدالت میں وزارت دفاع کی طرف سے تحریری بیان پیش کیا گیا جس میںکہا گیا تھا کہ آئی ایس آئی میںکو ئی سیاسی سیل موجود نہیں، بیان غیرمصدقہ تھاجس پر عدالت نے ہدایت کی بیان پرسیکریٹری دفاع کے دستخط لیے جائیں۔ثناء نیوزکے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری دفاع کی عدم حاضری سے لگتا ہے کہ ابھی تک آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کام کررہا ہے۔ وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز نے جواب داخل کرایاکہ آئی ایس آئی کا کوئی سیاسی کام نہیںکر رہا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 26 جون 1997 ء کوعدالت کو خط میں وزارت دفاع نے سیاسی سیل کی موجودگی کا اعتراف کیاتھا، خط میںکہا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مئی1975 ء میں آئی ایس آئی میں سیاسی سیل قائم کیا تھا۔جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے کہ اب سیاسی سیل کام نہیںکر رہا توکب کام کر رہا تھا یہ بہت مبہم بیان ہے اس کی وضاحت ضروری ہے ۔ خصوصی خبر نگارکے مطابق چیف جسٹس نے کہا آمروں نے اپنے حق میں عدالتوں سے فیصلے لیے لیکن عدالتوں نے آمریت کیخلاف بھی فیصلے دیے،جب تک پارلیمنٹ کی توثیق نہ ہو مارشل لاء کو جواز فراہم نہیں ہوتا ۔
چیف جسٹس نے کہا آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم مارشل لاء کو جواز فراہم کرنے کیلیے کی گئیں،3 نومبر 2007کے غیر آئینی اقدامات کے حق میں پارلیمنٹ نے قراردادمنظورکی کہ عدلیہ کیخلاف ایمرجنسی درست اقدام تھا یہ سب کچھ ریکارڈکا حصہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا موجودہ پارلیمنٹ قابل ستائش ہے جس نے مارشل لا کی توثیق نہیںکی۔چیف جسٹس نے کہا ججوں کے پاس بندوق نہیں وہ قلم سے آئین کا تحفظ کرتے ہیں اور ججوں نے قلم سے نظام عدل کو محفوظ رکھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا یہاں عدالت کو جس محازآرائی کا سامنا ہے دنیا کے کسی ملک میں نہیں لیکن اس تنائو میں بھی عدالت فیصلے دیتی رہی جس سے ایک امنگ پیدا ہوئی۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا سپریم کورٹ اگر فعال کردار ادا نہ کرتی تو صورتحال جوںکی توں رہتی ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا تمام کریڈٹ موجودہ پارلیمنٹ کا ہے، عدلیہ کو کریڈٹ لینے کی ضرورت نہیں ۔ اصغرخان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے آرمی چیف کے بیانات ریکارڈ پر ہیںکہ مختلف امیدواروںکی مدد کی گئی۔ انھوں نے مختلف ممالک کے عدالتی فیصلوںکا حوالہ دیا اورکہا اگر آرمی چیف کسی کمانڈرکو غیر قانونی حکم دیں تو وہ حکم عدولی کا پابند ہے۔انھوں نے کہا اگر صدر،وزیر اعظم اور چیف جسٹس کے گھر پر قبضے کا کہا جائے تو یہ نا قابل عمل احکامات ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا سی جے ہائوس کو توگھیر لیا گیا تھا۔
سلمان اکرم نے کہاترکی میںابھی تک لاقانونیت کرنیوالے جرنیلوںکا پیچھاکیاجارہاہے،پاکستان میںابھی تک سوچ تبدیل نہیںہوئی ۔ جسٹس جوادایس خواجہ نے کہا یہ سوچ تواب اورجگہوںتک وسیع ہوگئی ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل کے پیش ہونے کابھی نوٹس لیا ،چیف جسٹس نے کہا اگراٹارنی جنرل عدالت کے نوٹس پرہیںتو ان کی جگہ کوئی اور پیش نہیںہو سکتا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علیزئی نے کہا اس کیس میں حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل آفس پیش نہیں ہو رہا۔سلمان اکرم راجہ نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا بیان حلفی اور اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹوکے نام ان کا خط پڑھ کر سنایا اورکہا حفیظ پیرزادہ کو30 لاکھ،غلام مصطفی کھرکو 30 لاکھ،غلام سرورچیمہ کو 25 اورمعراج خالد کو 2 لاکھ دینے کاذکر خط میںہے بیان حلفی میںنہیں۔
چیف جسٹس نے استفسارکیاان بیانات کی قانون شہادت کی روشنی میںکیاحیثیت ہوگی اورعدالت سے کیااستدعا ہے ؟کیانیب سے تحقیقات کرانا چاہتے ہیں؟ نیب توسب کے سامنے ہے سٹیل مل،اوگرا اور آرپی پی کے علاوہ متعدکیس دیے گئے لیکن ہوا کچھ نہیں ۔چیف جسٹس نے کہا نیب کی توکچھ کرنے کی نیت ہی نہیںہے ہمارے فیصلوں کے ساتھ جو ہواوہ سب کے سامنے ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کیادرخواست گزار اسد درانی یا ان لوگوں کیخلاف کارروائی چاہتے ہیں جنہوں نے پیسے لیے؟سلمان اکرام راجہ نے کہا سرکاری فنڈزکا غلط استعمال ہوا اور انتخابات میں مداخلت کی گئی اس لیے اس پر فیصلہ آنا چاہیے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے یہ سارے ملک کامسئلہ ہے عدالت اس پر فیصلہ دے گی،سوال یہ ہے عملدرآمدکیسے ہوگا؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا پورے ملک کے مقدرکے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا تھا،فیصلے پر عملدرآمدکیسے ہو اسے بھی دیکھ لیاجائیگا۔
ثناء نیوزکے مطابق سلمان اکرم راجانے کہا سیاستدانوں میں 14 کروڑ تقسیم ہوئے جو آج کے حساب سے دو ارب بنتے ہیں۔جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ کرپشن10کروڑ کی ہو یاایک روپے کی اصولی طور پرغلط ہے ۔ان کاکہنا تھا کہ اخبار پڑھیں تو لگتا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کے دشمن ہیں ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں بھی احتساب کا نظام موجود ہے،این ایل سی اسکینڈل میں ملوث تین سابق جرنیلوں کو سزا کیلیے واپس سروس میں بلایا گیا ہے ۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ140ملین میں سے60 ملین سیاستدانوں میں تقسیم ہوئے، باقی رقم کا سراغ لگایا جانا چاہیے ۔اے پی پی کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ وزارت دفاع اورکابینہ ڈویژن کے نمائندے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کا نوٹیفکیشن ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں اور آئی ایس آئی میں ایسا کوئی سیل کام نہیںکر رہا۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ پہلے بتایاگیا تھا کہ سیاسی سیل سے متعلقہ دستاویز اٹارنی جنرل آفس کو ملی تھی اب اس دستاویزکو اٹارنی جنرل آفس میں ہونا چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ اس دستاویزکو تلاش کرکے آگاہ کریںگے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آٓئی ایس آئی وزیراعظم کوجوابدہ ہے، ہم چاہتے ہیںکہ تمام چیزیں شفاف ہوکر سامنے آئیں، اٹارنی جنرل سیاسی سیل کے بارے میں اسد درانی سے ملنے والی سمری کا جائزہ لیں، دوسری صورت میں اس سمری کو سربمہرکرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔عدالتی آرڈر میں یہ بھی کہا گیا کہ آئین کے تحت جمہوری عمل بغیرکسی مداخلت کے جاری رہے گا، وزیراعظم سمیت سب کے نوٹس میں لایاجائے کہ آئی ایس آئی میں سیاسی سیل تھا تو اب یہ سیل کام نہیںکرسکتا، اس بارے میں عدالت 31جولائی کے فیصلے میں لکھ چکی ہے، کسی کو ملکی دولت سے کوئی حکومت بنانے یا گرانے کا حق حاصل نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں بنگلہ دیش طرزکا سسٹم نہیں آ سکتا ، اگرہم میںکمزوریاں نہ ہوں توکوئی ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔عدالت نے (آج) سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو طلب کر لیا۔بعدازاں سماعت(آج) جمعرات کی صبح تک ملتوی کردی گئی ۔
ججوں کے بارے جو بھی کہا جائے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ججوں نے اس ملک میں عدالتی نظام کو منہدم ہونے نہیں دیا اگر جج تدبر نہ دکھاتے تو نظام عدل منہدم ہو جاتا اور عدالتوں میں باوردی جرنیل بیٹھے ہوتے،چیف جسٹس نے کہا آمرانہ اقدامات کی توثیق ہمیشہ پارلیمنٹ نے کی لیکن تمام کریڈٹ موجودہ پارلیمنٹ کو جاتا ہے جس نے ایک آمرکے اقدامات کی توثیق نہیںکی۔
عدالت میں وزارت دفاع کی طرف سے تحریری بیان پیش کیا گیا جس میںکہا گیا تھا کہ آئی ایس آئی میںکو ئی سیاسی سیل موجود نہیں، بیان غیرمصدقہ تھاجس پر عدالت نے ہدایت کی بیان پرسیکریٹری دفاع کے دستخط لیے جائیں۔ثناء نیوزکے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری دفاع کی عدم حاضری سے لگتا ہے کہ ابھی تک آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کام کررہا ہے۔ وزارت دفاع کے نمائندے کمانڈر شہباز نے جواب داخل کرایاکہ آئی ایس آئی کا کوئی سیاسی کام نہیںکر رہا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 26 جون 1997 ء کوعدالت کو خط میں وزارت دفاع نے سیاسی سیل کی موجودگی کا اعتراف کیاتھا، خط میںکہا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مئی1975 ء میں آئی ایس آئی میں سیاسی سیل قائم کیا تھا۔جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیے کہ اب سیاسی سیل کام نہیںکر رہا توکب کام کر رہا تھا یہ بہت مبہم بیان ہے اس کی وضاحت ضروری ہے ۔ خصوصی خبر نگارکے مطابق چیف جسٹس نے کہا آمروں نے اپنے حق میں عدالتوں سے فیصلے لیے لیکن عدالتوں نے آمریت کیخلاف بھی فیصلے دیے،جب تک پارلیمنٹ کی توثیق نہ ہو مارشل لاء کو جواز فراہم نہیں ہوتا ۔
چیف جسٹس نے کہا آٹھویں اور سترہویں آئینی ترامیم مارشل لاء کو جواز فراہم کرنے کیلیے کی گئیں،3 نومبر 2007کے غیر آئینی اقدامات کے حق میں پارلیمنٹ نے قراردادمنظورکی کہ عدلیہ کیخلاف ایمرجنسی درست اقدام تھا یہ سب کچھ ریکارڈکا حصہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا موجودہ پارلیمنٹ قابل ستائش ہے جس نے مارشل لا کی توثیق نہیںکی۔چیف جسٹس نے کہا ججوں کے پاس بندوق نہیں وہ قلم سے آئین کا تحفظ کرتے ہیں اور ججوں نے قلم سے نظام عدل کو محفوظ رکھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا یہاں عدالت کو جس محازآرائی کا سامنا ہے دنیا کے کسی ملک میں نہیں لیکن اس تنائو میں بھی عدالت فیصلے دیتی رہی جس سے ایک امنگ پیدا ہوئی۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا سپریم کورٹ اگر فعال کردار ادا نہ کرتی تو صورتحال جوںکی توں رہتی ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا تمام کریڈٹ موجودہ پارلیمنٹ کا ہے، عدلیہ کو کریڈٹ لینے کی ضرورت نہیں ۔ اصغرخان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے آرمی چیف کے بیانات ریکارڈ پر ہیںکہ مختلف امیدواروںکی مدد کی گئی۔ انھوں نے مختلف ممالک کے عدالتی فیصلوںکا حوالہ دیا اورکہا اگر آرمی چیف کسی کمانڈرکو غیر قانونی حکم دیں تو وہ حکم عدولی کا پابند ہے۔انھوں نے کہا اگر صدر،وزیر اعظم اور چیف جسٹس کے گھر پر قبضے کا کہا جائے تو یہ نا قابل عمل احکامات ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا سی جے ہائوس کو توگھیر لیا گیا تھا۔
سلمان اکرم نے کہاترکی میںابھی تک لاقانونیت کرنیوالے جرنیلوںکا پیچھاکیاجارہاہے،پاکستان میںابھی تک سوچ تبدیل نہیںہوئی ۔ جسٹس جوادایس خواجہ نے کہا یہ سوچ تواب اورجگہوںتک وسیع ہوگئی ہے۔عدالت نے اٹارنی جنرل کی طرف سے ڈپٹی اٹارنی جنرل کے پیش ہونے کابھی نوٹس لیا ،چیف جسٹس نے کہا اگراٹارنی جنرل عدالت کے نوٹس پرہیںتو ان کی جگہ کوئی اور پیش نہیںہو سکتا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علیزئی نے کہا اس کیس میں حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل آفس پیش نہیں ہو رہا۔سلمان اکرم راجہ نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا بیان حلفی اور اس وقت کی وزیر اعظم بینظیر بھٹوکے نام ان کا خط پڑھ کر سنایا اورکہا حفیظ پیرزادہ کو30 لاکھ،غلام مصطفی کھرکو 30 لاکھ،غلام سرورچیمہ کو 25 اورمعراج خالد کو 2 لاکھ دینے کاذکر خط میںہے بیان حلفی میںنہیں۔
چیف جسٹس نے استفسارکیاان بیانات کی قانون شہادت کی روشنی میںکیاحیثیت ہوگی اورعدالت سے کیااستدعا ہے ؟کیانیب سے تحقیقات کرانا چاہتے ہیں؟ نیب توسب کے سامنے ہے سٹیل مل،اوگرا اور آرپی پی کے علاوہ متعدکیس دیے گئے لیکن ہوا کچھ نہیں ۔چیف جسٹس نے کہا نیب کی توکچھ کرنے کی نیت ہی نہیںہے ہمارے فیصلوں کے ساتھ جو ہواوہ سب کے سامنے ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کیادرخواست گزار اسد درانی یا ان لوگوں کیخلاف کارروائی چاہتے ہیں جنہوں نے پیسے لیے؟سلمان اکرام راجہ نے کہا سرکاری فنڈزکا غلط استعمال ہوا اور انتخابات میں مداخلت کی گئی اس لیے اس پر فیصلہ آنا چاہیے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے یہ سارے ملک کامسئلہ ہے عدالت اس پر فیصلہ دے گی،سوال یہ ہے عملدرآمدکیسے ہوگا؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا پورے ملک کے مقدرکے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا تھا،فیصلے پر عملدرآمدکیسے ہو اسے بھی دیکھ لیاجائیگا۔
ثناء نیوزکے مطابق سلمان اکرم راجانے کہا سیاستدانوں میں 14 کروڑ تقسیم ہوئے جو آج کے حساب سے دو ارب بنتے ہیں۔جسٹس خلجی عارف حسین کا کہنا تھا کہ کرپشن10کروڑ کی ہو یاایک روپے کی اصولی طور پرغلط ہے ۔ان کاکہنا تھا کہ اخبار پڑھیں تو لگتا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کے دشمن ہیں ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں بھی احتساب کا نظام موجود ہے،این ایل سی اسکینڈل میں ملوث تین سابق جرنیلوں کو سزا کیلیے واپس سروس میں بلایا گیا ہے ۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ140ملین میں سے60 ملین سیاستدانوں میں تقسیم ہوئے، باقی رقم کا سراغ لگایا جانا چاہیے ۔اے پی پی کے مطابق عدالت کو بتایا گیا کہ وزارت دفاع اورکابینہ ڈویژن کے نمائندے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل کا نوٹیفکیشن ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں اور آئی ایس آئی میں ایسا کوئی سیل کام نہیںکر رہا۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے کہاکہ پہلے بتایاگیا تھا کہ سیاسی سیل سے متعلقہ دستاویز اٹارنی جنرل آفس کو ملی تھی اب اس دستاویزکو اٹارنی جنرل آفس میں ہونا چاہیے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہ اس دستاویزکو تلاش کرکے آگاہ کریںگے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آٓئی ایس آئی وزیراعظم کوجوابدہ ہے، ہم چاہتے ہیںکہ تمام چیزیں شفاف ہوکر سامنے آئیں، اٹارنی جنرل سیاسی سیل کے بارے میں اسد درانی سے ملنے والی سمری کا جائزہ لیں، دوسری صورت میں اس سمری کو سربمہرکرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔عدالتی آرڈر میں یہ بھی کہا گیا کہ آئین کے تحت جمہوری عمل بغیرکسی مداخلت کے جاری رہے گا، وزیراعظم سمیت سب کے نوٹس میں لایاجائے کہ آئی ایس آئی میں سیاسی سیل تھا تو اب یہ سیل کام نہیںکرسکتا، اس بارے میں عدالت 31جولائی کے فیصلے میں لکھ چکی ہے، کسی کو ملکی دولت سے کوئی حکومت بنانے یا گرانے کا حق حاصل نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک میں بنگلہ دیش طرزکا سسٹم نہیں آ سکتا ، اگرہم میںکمزوریاں نہ ہوں توکوئی ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔عدالت نے (آج) سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو طلب کر لیا۔بعدازاں سماعت(آج) جمعرات کی صبح تک ملتوی کردی گئی ۔