جان کیری کی حالیہ یاترا

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوںکی ڈوریاں ہلانے والے افغانستان کی کمین گاہوں میں چھپے ہوئے ہیں۔

S_afarooqi@yahoo.com

MANCHESTER:
نئے سال 2015 کا آغاز ہمارے خطے جنوبی ایشیا کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما 26 جنوری کو منعقد ہونے والی یوم جمہور کی خصوصی تقریب میں شرکت کے لیے نئی دہلی کا دورہ کرنے والے ہیں جس کی تیاریاں بڑے زور و شور کے ساتھ جاری ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا حالیہ دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ اپنے اس دورے میں جان کیری نے بھارت کے لیے اربوں روپے کی امداد اور اربوں روپے کے لین دین سے متعلق معاملات طے کیے۔

اس کے بعد اپنے وطن واپس جاتے ہوئے وہ دو دن کے لیے اسلام آباد بھی رکے جہاں انھوں نے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم کے مشیر خارجہ سر تاج عزیز کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں اور باہمی دلچسپی اور مفادات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ جان کیری پیر 12 جنوری کو احمد آباد سے سیدھے اسلام آباد پہنچے اور وفاقی دارالحکومت میں انتہائی مصروف وقت گزارا۔ سیکیورٹی سے متعلق خدشات کی وجہ سے امریکی وزیر خارجہ کے اس دورے کے موقعے پر انتہائی خصوصی انتظامات کیے گئے تھے جس کی وجہ سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں میں آمدورفت کے حوالے سے عام شہریوں کو بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے قبل بھی امریکی اہلکار اسلام آباد آتے جاتے رہے ہیں مگر ان کا یہ آنا جانا اتنا غیر معمولی نہیں ہوتا تھا اور اس کے بارے میں عام تاثر یہی ہوا کرتا تھا کہ:

آئے بھی وہ گئے بھی وہ ختم فسانہ ہوگیا

مگر موجودہ حالات کے پس منظر میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا حالیہ دورہ پاکستان انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ دہشت گردی کے خلاف کبھی جو جنگ امریکا کی جنگ ہوا کرتی وہ مدت دراز قبل پاکستان اور امریکا کی مشترکہ جنگ بن چکی ہے۔ چنانچہ امریکی وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ دہشت گرد پاکستان اور امریکا کے مشترکہ دشمن ہیں بجا اور درست ہے۔ لہٰذا پاکستان دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس طویل اور خوفناک جنگ کے جس مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اس میں امریکا کا رول انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب فوج اور سیاست داں دونوں ہی دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک ہی صفحے پرنظر آرہے ہیں۔ واقعی یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے ۔ امریکی انتظامیہ نے بھی اس غیر معمولی تبدیلی کا بغور اور بھرپور نوٹس لیا ہے۔ادھر افغانستان کی نئی قیادت نے پہلی مرتبہ اس تبدیلی کو محسوس کیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ فغان صدر اشرف غنی نے اسلام آباد کا اہم دورہ کیا اور جی ایچ کیو جاکر چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوںکی ڈوریاں ہلانے والے افغانستان کی کمین گاہوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی بہادر فوج نے آپریشن ضرب عضب کو کامیابی سے ہم کنار کرکے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ ادھر پاکستان میں گرفتار دہشت گردوں کو دی جانے والی سزاؤں بالخصوص پھانسی کی سزاؤں سے بھی دہشت گردوں کے سرپرست اور حمایتی بری طرح گھبرا اور بوکھلا گئے ہیں۔

دہشت گردی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کے ارباب اختیار دہشت گردوں کو تحفظ اور Safe Haven فراہم کرنے کے بجائے پاکستان کے مطلوبہ مجرموں کو پاکستان کے حوالے کرے۔ امریکا پر بھی لازم ہے کہ وہ افغانستان کی نئی حکومت کو اس ضمن میں اس کی بنیادی ذمے داریوں کا احساس دلائے اور اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے اسے یہ بات باور کرائے کہ جب تک وہ اس معاملے میں حکومت پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون نہیں کرے گی اس وقت تک دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس گھمسان کی جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا ممکن نہیں ہوگا۔


اشرف غنی بظاہر افغانستان کے صدر ضرور ہیں لیکن ان کے بام اختیار ہونے کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وہ محض De jure صدر ہیں جب کہ De facto بااختیار شخصیات عبداللہ عبداللہ اور رشید دوستم صاحبان ہیں جو افغانستان کے اصل کرتا دھرتا ہیں۔ یقیناً یہ حقیقت امریکی انتظامیہ کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہوگی۔ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ دونوں ہی حضرات پاکستان کے خلاف اپنے دل میں سخت گوشہ اور بھارت کے خلاف نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

اس حوالے سے یہ امر خوش آئند ہے کہ اسلام آباد میں اپنے مختصر قیام کے دوران امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر سے بہتر تعلقات کے فروغ کے لیے دونوں ہی جانب کی اعلیٰ سول اور عسکری قیادتوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ انھوں نے یہ احساس بھی دلایا کہ جب تک افغانستان اپنے معاملات کو درست نہیں کرتا اور وہاں پر پناہ لیے ہوئے دہشت گردوں کے سرپرستوں کا خاتمہ نہیں کرتا تب تک اس خطے میں قیام امن و استحکام کے امکانات روشن نہیں ہوں گے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی حالیہ بھارت اور پاکستان یاترا پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں بھی خاص اہمیت کی حامل تھی۔ پچھلے کافی دنوں سے جاری پاک بھارت سرحد پر بھارت کی اشتعال انگیز فوجی کارروائیوں پر پوری بین الاقوامی برادری کو بڑی شدید تشویش لاحق ہونا ایک فطری امر ہے۔ خدانخواستہ اگر یہ اشتعال انگیزی حد سے تجاوز کرگئی تو اس کے نتیجے میں ایٹمی جنگ کا چھڑ جانا بعید ازامکان نہ ہوگا۔

چناں چہ توقع کے عین مطابق امریکی وزیر خارجہ نے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر حال ہی میں رونما ہونے والے واقعات پر برملا تشویش کا اظہار کیا۔ ان کی جانب سے بالکل واضح انداز میں کہا گیا کہ امریکا پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے تعاون کرنے پر تیار ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ امریکا کے اس رویے کے نتیجے میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی اشتعال انگیز کارروائیوں میں کمی ضرور واقع ہوگی۔

یہ بات باعث اطمینان ہے کہ جان کیری کے حالیہ دورے میں امریکا کی جانب سے Do More کی روایتی رٹ پر اصرار نہیں کیا گیا اور نہ ہی پاکستان سے کوئی نیا مطالبہ کیا گیا۔ اس دورے کی ایک اور مثبت خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پاکستان اور افغانستان کی موجودہ قیادت کے زیادہ سے زیادہ قریب آنے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ وزارتی سطح پر اسٹرٹیجک مذاکرات کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان اور امریکا نے طویل المدت شراکت داری اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان پائیدار دوستی کے فروغ کے عزم کا اظہار کرکے اس شراکت داری کو مزید توسیع دینے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا۔ مذاکرات میں ورکنگ گروپوں کی پیش رفت کا جائزہ بھی لیا گیا۔

ورکنگ گروپوں میں توانائی، سیکیورٹی، اسٹرٹیجک استحکام، ایٹمی عدم پھیلاؤ، دفاعی مشاورتی گروپ، نفاذ قانون، انسداد دہشت گردی، معیشت اور فنانس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق چھٹے ورکنگ گروپ کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا۔ مزید برآں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو مضبوط تر بنانے کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا۔ پاکستان کی جانب سے ایڈ سے زیادہ ٹریڈ بڑھانے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ امریکی مارکیٹوں میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

دونوں ممالک نے پن بجلی اور قابل تجدید وسائل کے ذریعے مزید بجلی گرڈ میں لانے کے سلسلے میں تعاون بڑھانے پر بھی مکمل اتفاق کیا۔ وزرائے خارجہ کی سطح پر اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا اگلا دور 2016 میں ہوگا۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے آئی ڈی پیز کی بحالی کے لیے پاکستان کو 25 کروڑ ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا جو اونٹ کے منہ میں زیرہ دینے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے ہمیں یہ شعر یاد آرہا ہے:

سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
Load Next Story