مسلم دشمنی میں بھارت کے آگے بڑھتے قدم

بھارت کا سیکولرازم سوائے ڈھونگ کے کچھ نہیں، یہاں جمہورت کے لبادے میں فسطائت پروان چڑھائی جارہی ہے۔

بھارت کا سیکولرازم سوائے ڈھونگ کے کچھ نہیں، یہاں جمہورت کے لبادے میں فسطائت پروان چڑھائی جارہی ہے۔

انتہا پسندی کسی بھی قسم کی ہو وہ انسانیت کے لئے زہر قاتل ہوتی ہے، لیکن مذہب کے نام پر انتہا پسندی اور بھی خطرناک ہوتی ہے۔ مذہبی انتہا پسند ذہن کی دلیل نہیں گولی کی زبان سے بات کرتا ہے۔

تحمل، رواداری، مساوات جیسے سنہری اصول وہ اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ بھارت جو اپنے آپ کو سیکولر اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ اس کے سیکولرازم کا یہ حال ہے کہ بھارت میں ہندووں کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کی جان و مال محفوظ ہی نہیں اور جمہورت کا پردہ اس وقت چاک ہو جاتا ہے جب دوسروں کے مذہبی آزادی اور رائے کا احترام نظر نہیں آتا۔ ہندوستان کی تقسیم نے نفرتوں کے جو بیج بوئے تھے اس کی فصل اتنی تن آوار اور توانا ہو چکی ہے کہ بھارت ایک سیکولر جمہوری ملک کے بجائے نفرت، تشدد اور قتل وغارت کے ملک کے طور پر دنیا بھر میں جانا جا رہا ہے۔

بھارت کے اندر بسنے والے مسلمان تو انتہا پسند مذہبی جنونیوں کا خاص نشانہ ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جس دن بھارت میں مذہب کے نام پر قتل وغارت نہ ہوتی ہو، مسلمانوں کی مسجدیں، عیسائیوں کے گرجا گھر اور دیگر کمیونٹی کے افراد کا تو جینا محال کردیا گیا ہے۔ انتہا پسند براہمن ہندوں کے ہاتھوں خود ہندوکمیونٹی کم ذات جسے شودر کہا جاتا ہے بھی محفوظ نہیں۔ جب سے نریندر مودی وزیر اعظم کے منصب پر فائر ہوئے ہیں مذہب کے نام پر غارت گری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، یہی موصوف جب 2002 میں گجرات کے وزیراعلی تھے تو اس وقت سانحہ گجرات ہوا، جس میں تقریبا 2500 مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے نے بھارت کے جمہوری ا ور سیکولر چہرے کو داغ دار کر دیا تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آنے کے بعد بھارت میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی جاتی ہے اور تازہ ترین واقعے میں انتہا پسند ہندوؤں نے 4 مسلمانوں کو زندہ جلاتے ہوئے درجنوں گھروں کو آگ لگا دی۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم کش فسادات کا یہ واقعہ بھارتی ریاست بہار میں پیش آیا جہاں پٹنہ شہر کے قریب ایک گاؤں میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی بستی پر حملہ کر دیا اور ان کے 25 سے زائد گھروں کو نذر آتش کر دیا جس کے نتیجے میں 4 مسلمان جل کر شہید ہوگئے۔ ہندو بلوائیوں نے الزام لگایا کہ مسلمانوں نے ایک ہندو نوجوان کو قتل کیا تھا تاہم اس حوالے سے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ آیا لڑکے کا قتل مسلمانوں نے کیا بھی تھا یا نہیں جب کہ پولیس نے 13 افراد کوگرفتار کرکے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔



فوٹو؛ اے پی


کچھ عرصہ پہلے اسی طرح بھارتی ریاست آسام میں مقامی قبائل کی مسلح تنظیم نے حامی جماعت کو ووٹ نہ دینے پر 32 مسلمانوں کو قتل کردیا تھا، جبکہ دو برس قبل بھی آسام میں مقامی قبائل اور وہاں مقیم مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے جن میں درجنوں مسلمان جاں بحق ہوگئے تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف مسلسل کارروائیوں کے بعد بھارت کے مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ حالیہ واقعے جس میں چار مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا ہے نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے کہ کیا بھارت میں بنا تحقیق کے قتل و غارت جائز قرار دیدی گئی ہے؟ کیا بھارتی حکومت مذہبی انتہا پسند جنونیوں کے ہاتھوں اتنی بے بس ہو چکی ہے کہ مذہب کے نام پر کوئی بھی ہجوم کی شکل میں مسلمانوں کے گھروں کو جلا دے اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہے؟

مسلمانوں کے خلاف پے در پے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ بھارت کا سیکولرازم سوائے ڈھونگ کے کچھ نہیں، یہاں جمہورت کے لبادے میں فسطائت پروان چڑھائی جارہی ہے۔



فوٹو؛ رائٹرز

معروف صحافی کلدیپ نیر نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ
''ہندوستان کی موجودہ نسل تقسیم ہند کی صلیب اپنے کاندھوں پر اٹھائے جی رہی ہے۔ دیش بھگتی کے نام پر بھارت میں اقلتیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کیخلاف جارحانہ روش اپنائی گئی ہے۔ مسلم دشمنی میں بھارت کے آگے بڑھتے قدم ایک دن اسے دنیا میں تنہا کردیں گے۔ بھارت میں مذہبی انتہا پسندوں کی کاروائیاں نفرت کو جنم دے رہی ہیں اور نفرت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ ایک ایسی آگ ہے جو جب پھیلتی تو اپنے پرائے سب کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے، بھارتی حکمرانوں کو اکھنڈ بھارت اور مہا بھارت کے فنامنے سے اب باہر آکر حقیقی دنیا کا سامنا کرنا چاہیے جہاں دنیا باہمی سیر و شکر ہوتی جارہی وہاں اپنے ہی ملک کی اکثریتی آبادی پر ظلم و ستم اور تشدد کہیں بھارت کو دنیا کی نظر میں نہ گرا دے اور شائننگ ہندوستان ڈارک ہندوستان نہ بن جائے جبکہ دنیا کو بھی بھارت کے اندر بڑھتی ہوئی مذبی انتہا پسندی پر نوٹس لینا چاہے''۔

بھارتی دانشوروں اور پُراثرمیڈیا کو انڈین کاسٹمیک ترقی دکھانے کے ساتھ بھارت کے اندر حقیقی سرجری بھی دکھانی چاہیے جس میں انسانیت لہولہان اور پریشان ہے، غربت کے بھنگڑے جاری و ساری ہیں۔ بھارت کی اکثر آبادی کو نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی مناسب غذا، صحت عامہ کی صورت حال یہ ہے بھارتی شہریوں کی ایک کثیر تعداد آج بھی باتھ روم کی سہولت سے محروم ہے جس کے نہ ہونے کی بنا پر خواتین بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ کیا بیتتی ہے؟ یہ المیے دکھانا بھی میڈیا کا فرض اور ذمہ داری ہے۔ صرف مسلم کش فسادات دیکھانے سے سیکولر بھارت کی جگ ہنسائی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story